نیلی جھیل — شفیق الرحمٰن

اگلے ہفتے ماسٹر صاحب کے ہاں چوری ہو گئی۔ ان کا کنبہ چند دنوں سے کہیں گیا ہوا تھا۔ اس رات وہ خود بھی کہیں مدعو تھے۔ گھر خالی تھا۔ کوئی موقع پر آکر بالکل صفائی کر گیا۔ صبح کو ہم ان کے مکان پر گئے۔ روفی نے بڑے غور سے سب کچھ دیکھا پھر بولے۔ ”گھبرانے کی کوئی بات نہیں، خوش قسمتی سے ہم دونوں سراغرسانی کی کہانیاں پڑھ رہے ہیں۔”
ہم دونوں نے مشورہ کیا۔ ماسٹر صاحب سے بالکل تھانے دارانہ انداز میں سوال پوچھے۔ پاوؑں کے نشان دیکھے، مکان کو اِدھر اُدھر سے سونگھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سیاہ رنگ کی بلی جو برآمدے میں بندھی ہوئی تھی پکڑ لی گئی۔ یہ بلی موقع پر موجود تھی۔ اس نے چور کو دیکھا تھا۔ بلیاں سمجھ دار ہوتی ہیں۔ ان کی آنکھیں رات کو چمکتی بھی ہیں، وہ اندھیرے میں بہ خوبی دیکھ سکتی ہوں گی۔ یہ چور کو پہچان سکتی ہے۔ اگر اس نے چور کو دیکھا تو غرائے گی، پنجہ مارے گی یا کسی اور طرح خفگی کا اظہار کرے گی۔ ہم اسے آس پاس سڑکوں پر لیے پھریں گے۔ چور بھی نزدیک ہی رہتا ہو گا۔ یہ کسی بھیدی کا کام تھا۔
شام کو ہم جھیل کے کنارے بیٹھے مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ دراصل ہم نے کانٹوں میں مچھلیاں پہلے سے لگائی ہوئی تھیں۔ پانی میں ڈور تھی اور ڈور کے سرے پر مچھلی۔ یہ رستم کے لیے کیا تھا۔ آج اسے مچھلیاں پکڑ کر دکھا دیں گے۔ جب وہ ہمیں لینے آیا تو چوری کی باتیں شروع ہو گئیں۔ ہمارا خیال تھا کہ لوگ محض دوسروں کو پریشان کرنے کے لیے چوری کرتے ہیں اور یہ ایک قسم کا مذاق ہے۔ وہ ہمیں بتانے لگا کہ لوگ اس لیے چوری نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی چیزوں پر قبضہ جمانے کے لیے کرتے ہیں اور پھر ان چیزوں کو کبھی واپسی نہیں لوٹاتے اور یہ انسان کی ہوس ہے جو اسے چوری کرنے کے لیے اُکساتی ہے۔ کئی لوگ بڑی بڑی چوریاں بھی کرتے ہیں۔ انسانوں کو چرا لیتے ہیں۔ زمین کے بڑے بڑے خطوں، براعظموں کو چرا لیتے ہیں۔
اتنے میں شڑپ سے آواز آئی۔ ”یہ آواز سنی تم نے؟” ہم دونوں چلائے۔ ”یہ مچھلی تھی۔”
پھر میں نے ایک جھٹکے کے ساتھ ڈور کھینچی اور مچھلی باہر نکال لی۔ روفی نے بھی یہی کیا۔
”تم دیکھتے جاوؑ، کچھ دیر میں یہاں مچھلیوں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ تب تو تمہارا شبہ رفع ہو جائے گا۔” ہم نے کہا۔
پھر ہم دوسرے کنارے کی باتیں کرنے لگے کہ جب کبھی ہم وہاں گئے تو رستم کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔ وہ مسکرا کر بولا۔ ”لڑکو یہ خود فریبی کی نیلی جھیلیں اور دوسرے کنارے عمر بھر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ہم زندگی بھر اپنے آپ کو فریب دینے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ یہ یقین دلانے کی کوشش میں کہ جو چیز یہاں نہیں ہے وہ یہاں ہے۔ آج تم نے وہ مری ہوئی مچھلیاں اپنے کانٹوں میں اس لیے لگائی تھیں کہ تمہیں اب تک یقین ہے کہ دُنیا جھوٹی ہے اور تمہارا تصور سچا ہے۔ دوسرے کنارے کے متعلق تم نے کیسے سہانے خیالات دل میں بسا رکھے ہیں۔ میں وہاں کئی مرتبہ گیا ہوں۔ وہ کنارا بالکل ویران ہے، اس کنارے سے کہیں بڑا ہے۔ میں وہاں کئی مرتبہ گیا ہوں۔ وہ کنارا بالکل ویران ہے، اس کنارے سے کہیں برا ہے۔ میری مانو تو تم کبھی اس طرف مت جانا، ورنہ تمہیں افسوس ہو گا۔ دوسرا کنارا بس دور ہی سے اچھا لگتا ہے۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

باری باری بلی پر ہماری ڈیوٹی لگتی ۔ رات کو میری ڈیوٹی تھی۔ صبح اُٹھ کر دیکھتا ہوں تو بلی غائب ہے۔ بہتیرا ڈھونڈا مگر نہ ملی۔ روفی سو رہے تھے میں باہر بھاگا کہ کہیں ایسی ہی کالی بلی مل جائے توپکڑ لاؤں۔یوں تو بلیاں ہمارے ہاں بھی بہت سی تھیں، لیکن ان میں سیاہ ایک بھی نہیں تھی۔ میں دعا مانگ رہا تھا کہ یا الٰہی کہیں سے ایک سیاہ بلی بھیج۔ لوگ کہتے ہیں کہ بچوں کی دعائیں بہت جلد قبول ہو جاتی ہیں… لوگ سچ کہتے ہیں، میں نے سڑک پر ایک آدمی دیکھا، جس کے ہاتھ میں تھیلا تھا اور تھیلے میں میاوؑں میاؤں ہو رہی تھی۔ اس سے پوچھا وہ بولا کہ اس میں کوئی پندرہ سولہ بلیاں بند ہیں۔ میں ان سے تنگ آچکا ہوں اور انہیں کہیں دُور چھوڑنے جا رہا ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر وہ ایک سیاہ بلی مجھے نکال دے تو میں اس کا احسان عمر بھر نہ بھولوں گا۔ اس نے تھیلے میں ہاتھ ڈالا۔ پہلی بلی سفید تھی۔ اسے واپس بند کیا۔ دوسری چتکبری نکلی، تیسری بھوری، چوتھی بادامی۔ ادھر میرا برا حال تھا۔ کسی کالی بلی کے دیدار کے لیے آنکھیں بے تاب ہو رہی تھیں۔ خدا خدا کر کے سیاہ بلی نکلی اور میں لے کر بھاگا۔ روفی کے جاگنے سے پہلے سیاہ بلی وہیں بندھی ہوئی تھی۔
”یہ بلی دو تین دنوں میں کتنی موٹی ہو گئی۔” وہ بولے۔ واقعی یہ نئی بلی گزشتہ بلی سے بڑی تھی۔ تیسری رات یہ بلی بھی بھاگ گئی۔ بد قسمتی سے اس رات بھی میری ڈیوٹی تھی۔ میں بڑا گھبرایا۔ اگر روفی کو پتا چل گیا تو جان کھا جائیں گے۔ مجھے صبح تک نیند نہ آئی۔ علی الصبح پڑوس میں گیا۔ ان کے ہاں ایک سیاہ بلی رہتی تھی۔ وہ ان سے ادھار مانگی۔ پہلے تو وہ متعجب ہوئے، غالباً پہلی مرتبہ کوئی بلی ادھار مانگنے آیا تھا۔ پھر انہوں نے اس شرط پر بلی دی کہ میں تیسرے دن واپس لوٹا دوں گا۔ ساتھ ہی اس کے ناشتے، لنچ اور ڈنر کے متعلق ہدایات کیں کہ نازو انعم میں پلی ہوئی ہے، کہیں دبلی نہ ہو جائے۔ یہ بلی بہت موٹی تھی۔ اسے دیکھ کر روفی بولے: ”بھئی یہ بلی تو روز بروز موٹی ہوتی جا رہی ہے۔” حالاںکہ پہلی بلیوں کو سارا سارا دن بھوکا رکھا جاتا تھا۔ یہ بلی عجب شان سے رہتی تھی۔ خوشامدیں کرا کے کھانا کھاتی۔ ذرا ذرا سی بات پر برا مان جاتی اور دیر تک روٹھی رہتی۔ آتے ہی اس نے روفی کے ابا پر پنجہ اٹھایا اور روفی سوچنے بیٹھ گئے کہ سراغ رسانی کے قواعد کے مطابق تو ان پر شبہ کرنا چاہیے۔ پھر کہنے لگے کہ محض پنجہ اٹھانے سے شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلی کو کچھ اور بھی کرنا چاہیے۔ شام کو ماسٹر صاحب آئے۔ ان پر بلی نے نہ صرف پنجہ اٹھایا بلکہ آنکھیں بھی دکھائیں اور دانت بھی نکالے، تو گویا ماسٹر صاحب نے خود اپنا سامان چرایا تھا۔ اس کے پوچھنے پر ہم نے تفصیل بتائی۔ وہ بولے۔ ”تم ناحق اپنا وقت ضائع کر رہے ہو، جو کچھ ہونا تھا ہو چکا۔ بھلا بلیوں سے بھی کبھی سراغ نکلے ہیں۔”
”اور اگر سراغ نکل گیا تو؟”
”تو شرط رہی، جو کچھ تم کہو گے کروں گا۔”
تیسرے روز مجھے وہ بلی واپس کرنی پڑی۔ نئی بلی کی تلاش میں پھر مارا مارا پھرا۔ بڑی مصیبتوں سے ایک لڑکے سے ایک روپے میں ایک مریل سی کالی بلی خریدی۔ اسے دن بھر تو میں چھپائے رکھا۔ رات کو روفی نے دیکھا تو بڑا افسوس ظاہر کیا۔ ”آئے ہائے۔ بے چاری بلی۔ یہ اسے کیا ہو گیا۔ یکلخت اتنی دُبلی کیسے ہو گئی؟”
ہمیں جب فرصت ملتی بلی کو لے کر باہر نکل جاتے۔ اسی اُمید پر کہ چور اب ملا۔ اب ملا۔
اور پھر خدا کا کرنا کیا ہوا۔ اسی مریل سی بلی نے جو اس قدر صلح پسند اور خاموش طبیعت تھی، سب کے سامنے رسی تڑا کر چھلانگ لگائی اور چپراسی کے اوپر سوار ہو گئی۔ یہ وہی چپراسی تھا جس نے کچھ عرصہ پہلے اپنے عجیب و غریب مرض سے شفا پائی تھی۔
بلی اسے نوچے ڈالتی تھی۔ پنجے مار رہی تھی، غرا رہی تھی… ہم نے بہ مشکل اسے چھڑایا۔ بلی کی اس حرکت پر سب کو چپڑاسی پر شبہ ہو گیا۔ جب اسے ڈرایا دھمکایا گیا تو وہ مان گیا کہ اس نے چوری کی تھی۔ اگلے روز تک ماسٹر صاحب کی سب چیزیں واپس مل گئیں۔ ہماری بڑی تعریفیں ہوئیں۔ بلی کی بھی تعریفیں ہوئیں۔ ہماری سراغ رسانی کو سراہا گیا۔ ہماری تصویریں بلی کے ساتھ اتاری گئیں۔
اور حقیقت کا صرف مجھے علم تھا۔ بلی کے متعلق بھی اور چور کے متعلق بھی… چور تو محض اپنی بدقسمتی سے پکڑا گیا۔ ہوا یوں کہ بلی دو دن سے بھوکی تھی، اُدھروہ سیدھا باورچی خانے سے نکلا تھا۔ جب وہ بلی کے سامنے سے گزرا تو اس میں سے پلاوؑ اور بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو بُری طرح آرہی تھی۔ بلی نے جو کچھ کیا وہ سراغ رسانی کے سلسلے میں نہیں بلکہ بھوک سے تنگ آکر کیا۔
میں اور روفی باغ میں بیٹھے تھے۔ سامنے پھلوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ہمارے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ ہم چھانٹ کر کچے پھل الگ کر دیں اور پکے الگ، روفی بڑے غور و خوض سے چھانٹ رہے تھے۔ ایک ایک پھل پر بڑی دیر لگاتے تھے۔ میں نے پوچھا تو بولے۔ ”یہ انتخاب ہے جو مجھے مارے ڈالتا ہے۔ جانتے نہیں ہم آج کل کس قسم کی کہانیاں پڑھ رہے ہیں؟”
”میرے خیال میں پھل چکھ کر چھانٹے جائیں۔” میں نے مشورہ دیا۔ ہم نے پکے پھل کھانے شروع کر دیئے۔ ماسٹر صاحب تشریف لے آئے۔ وہ ہمارا شکریہ ادا کرنے آئے تھے۔
”لڑکو! میں شرط ہار گیا۔ بتاوؑ میں کیا کروں؟”
”آپ پچاس مرتبہ خوش خط لکھئے کہ میں ہار گیا۔” روفی بولے اور ماسٹر صاحب نے سچ مچ لکھ دیا۔

مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب رُوفی اور میں جھیل کے کنارے لمبی لمبی گھاس میں بیٹھے تھے۔ رات کو بارش ہوئی تھی۔ صبح بالکل صاف طلوع ہوئی۔ خنک ہوائیں چل رہی تھیں۔ فضا میں بادل تیر رہے تھے۔ جھیل کے نیلے پانی پر ہلکی ہلکی دُھند چھائی ہوئی تھی۔ ہر چیز میں نکھار تھا، تازگی تھی۔ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے دنیا ابھی ابھی تخلیق ہوئی ہے۔
ہم کہانیاں پڑھتے رہے۔ باتیں کرتے رہے۔ کھیلتے رہے۔ زقندیں بھرتے ہوئے پرندوں اور ناچتی ہوئی تتلیوں کو دیکھتے رہے۔ ہماری ڈوریں پانی میں تھیں، دن بھر ہمیں مچھلیوں کا انتظار رہا۔ ہم انہیں بھوننے کا سارا سامان لائے تھے۔ دن ڈھلے ہمیں رستم لینے آیا۔ ایسے خوش نما نظارے کو دیکھ کر وہ بھی ہمارے پاس بیٹھ گیا اور عجیب عجیب سی باتیں سنانے لگا۔ جب رستم ایسی باتیں کرتا تو وہ ہمیں بالکل اچھا نہ لگتا۔ وہ بڑی سنجیدہ قسم کی باتیں کر رہا تھا کہ کیا ہوا جو زندگی اسی خود فراموشی اور خود فریبی میں گزر جایا کرے۔ اسی طرح مسکراتی ہوئی گزر جایا کرے… لیکن یوں نہیں ہوتا۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرے ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ ان خوابوں سے چونکنا پڑتا ہے۔ وہ ہمیں بتانے لگا۔ ”لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہو گا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتا جائے گا تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔ یہ خواب پھیکے پڑتے جائیں گے۔ تب اپنے آپ کو فریب نہ دے سکو گے۔ بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔ جینے کے لیے مرتبے کی ضرورت ہے۔ آسائش کی ضرورت ہے اور ان کے لیے روپے کی ضرورت ہے اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔ مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے، دھوکا دینا پڑتا ہے، غداری کرنی پڑتی ہے۔ یہاں کوئی کسی کی پروا نہیں کرتا۔ دنیا میں دوستی، محبت، انس، سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔ محبت آمیز باتوں، مسکراہٹوں، مہربانیوں، شفقتوں… ان سب کی تہہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں اور جب خدا دُعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں، اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں اور دُنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔ اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دُنیا تم پر ہنسے گی، تمہارا مذاق اُڑائے گی۔ اگر عقل مند ہوئے تو حسد کرے گی۔ اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑا چڑا اور مکار گردانا جائے گا۔ اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔ اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بے و قوف اور فضول خرچ۔ عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا، نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتی ٰ کہ ایک دن آئے گا اور چپکے سے اس دُنیا سے رخصت ہو جاوؑ گے۔ یہاں سے جاتے وقت تم متحیر ہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ سب کچھ کس قدر بے معنی اور بے سود تھا۔”
سورج غروب ہو رہا تھا۔ یکایک دوسرا کنارہ جگمگا اٹھا۔ وہاں بادل کے ٹکڑوں اور دُھند نے ایسا رنگین اور خوش نما محل بنا دیا کہ ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ نازک سی حسین محرابیں، رنگ برنگے برج اور مینارے، بل کھاتے ہوئے زینے، دُور دُور تک پھیلی ہوئی فصلیں۔
ہم نے رستم کو اشارے سے یہ محل دکھایا۔ ”کون کہتا ہے کہ وہ کنارہ بھی ایسا ہی ہو۔ وہ دیکھو۔”
پھر سب کچھ نیلا ہو گیا۔ آسمان، جھیل، بادل اور فضا اور دوسرا کنارا۔ کائنات نیلی ہو گئی۔ بادلوں کا بنا ہوا وہ حسین محل سنگِ مر مر کا بن گیا اور اس پر ہلکی ہلکی چاندنی چھا گئی۔
ان باتوں کو کافی سال گزر چکے ہیں اور اب مجھے دُور اندیش، جہاندیدہ اور عقل مند ہونا چاہیے، لیکن بد قسمتی سے یہ طویل عرصہ مجھ میں ذرا بھی تبدیلی نہ لا سکا۔
جب کبھی زندگی کی تلخیاں سامنے آتی ہیں، کریہہ حقیقتیں حسین ونازک خوابوں کو کچل ڈالتی ہیں، تب میں کسی ایسی ہی نیلی جھیل کے کنارے پناہ لیتا ہوں… اور زندگی میں ان جھیلوں کا تار بندھا ہوا ہے۔ تاحدِ نگاہ یہ جھیلیں اسی طرح چلی گئی ہیں کہ جہاں ایک ختم ہوتی ہے وہاں دوسری شروع ہو جاتی ہے۔
اور جہاں حقیقت کی حدیں تصور کی حدود کو چھوتی ہیں… وہاں ایک پُراسرار خطہ ہے۔ بالکل ویسا ہی حسین اور دل کش… دوسرا کنارہ!
٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

وقت کی ریت پہ — فوزیہ یاسمین

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!