نیلی جھیل — شفیق الرحمٰن

روفی نے کمرے کے دروازہ پر اندر کی طرف ”خوش آمدید” لگایا تھا۔ اس طرح کہ جو شخض کمرے میں بیٹھا ہو، اسے یہ ہر طرف نظر آتا رہے۔ یہ ماسٹر صاحب کے لیے تھا۔
رُوفی کے لیے نئی رضائی تیار ہوئی تھی۔ انہیں رضائی کے نقش و نگار بے حد پسند تھے، اس لیے کہ انہیں دیکھ کر روفی کو مغل آرٹ یاد آجاتا تھا۔ ابھی اچھی خاصی گرمیاں تھیں، لیکن رات کو وہ پنکھا چلا کر رضائی اوڑھتے تھے۔
ایک اور امتحان آرہا تھا۔ ہمیں زائد کام کرنے کا کہا گیا۔ رستم پوچھنے لگا۔ ”اتنے پریشان کیوں ہو؟”
روفی بولے۔ ”کیا بتائیں۔ صبح کام ، شام کو کام۔ کام ، کام۔ تنگ آگئے ہیں۔”
”اتنا کام کب سے شروع کیا؟”
”کل سے شروع کریں گے۔”
رستم پڑھا لکھا تھا۔ اس نے وعدہ کیا کہ ہمارا ہاتھ بٹائے گا اور حساب کے سوال نکال دیا کرے گا۔ ا س کے بعد دیر تک بڑوں پر تبصرے ہوتے رہے کہ یہ مزے کرتے ہیں۔ انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ نہ انہیں شام کو ٹیوشن کی مصیبت ہے۔ نہ علی الصبح اٹھنے کی قید۔ ان کی آزمائشیں، ان کے امتحان، ان کے کڑے دن گزر چکے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
پھرہمارا امتحان ہوا۔ ہمیں کچھ اور بتایا گیا تھا، لیکن پرچے کچھ اور ہی آئے۔ چنانچہ ہم کچھ اور ہی لکھ آئے۔ بس فیل ہوتے ہوتے بچے۔ ہر ایک نے ہمیں حسب توفیق ڈانٹا۔ باورچی نے ہمدردی کے طور پر پوچھا۔ ”سنا ہے آپ کا امتحان اتنا اچھانہیں رہا۔ کیا بات ہوئی؟”
رُوفی بولے۔ ”بات یہ ہوئی کہ مجھے پتا نہیں تھا کہ گوہ سیرا نویدا، دریائے مسس سپی اور ٹمبکٹو کہاں ہیں۔”
”میں تو ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ اپنی چیزیں سنبھال کر رکھا کرو۔”
ماسٹر صاحب ہمارے پرچے لے کر آئے۔ پہلے انہوں نے تعلیم کی اہمیت اور محنت کے فوائد پر چھوٹا سا لیکچر دیا پھر غلطیاں گنوانی شروع کر دیں… ”تمہارا جغرافیہ بے حد کمزور ہے۔ یہ دیکھو اس نقشے میں ریلوے لائن اس جنکشن سے آگے چلتے چلتے ایک دم دریا بن جاتی ہے اور خلیج بنگال میں گرتی ہے۔ یہ چھوٹی سی جھیل سمندر کے عین درمیان واقع ہے اور اس دریا سے ایک سڑک نکلتی ہے، جو واپس پہاڑوں کی طرف جاتی ہے… تم نے اب تک اٹلس نہیں خریدی؟”
”جی نہیں۔”
”میں مہینوں سے چلارہا ہوں۔ آخر تم اٹلس کیوں نہیں خریدتے؟”
”جی… دُنیا کی سیاسی حالات ذرا درست ہو لیں پھر خرید لیں گے۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”اور یہ طوفان نوح کے متعلق تم نے اوٹ پٹانگ باتیں لکھی ہیں۔ تم نے لکھا ہے کہ وہ کشتی کسی پہاڑ پر ٹھہری ہی نہیں۔”
”جناب پہاڑوں پر بھی کبھی کشتیاں ٹھہری ہیں؟”
”لیکن اُن دنوں سیلاب آیا ہوا تھا۔ چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ اچھا، بھلا تم اس کشتی میں ہوتے تو اسے کہاں لے جاتے؟”
”جی میں اسے کسی اچھی سی بندرگاہ میں لے جاتا اور۔”
”اور۔پھر؟”
”پھر ان تمام جانوروں کو باہر نکال کر ایک سرکس کھول لیتا ۔”
”افوہ سیلاب تھا چاروں طرف۔” ماسٹر صاحب سر ہلا کر بولے۔ ”اور یہ مضمون اتنا لمبا کیوں ہے؟ اسے صرف تین صفحوں کا ہونا چاہیے تھا۔”
روفی کو لمبے لمبے جواب مضمون لکھنے کا بہت شوق تھا، اگرچہ وہ ہوتے تھے بالکل یونہی سے۔ تین صفحوں کی قید کو انہوں نے یوں نظر انداز کیا کہ پہلے صفحے پر نمبر ایک لکھا، دوسرے پر نمبر دو، اس کے بعد کئی صفحوں کو اکٹھا کر کے پن کر دیا اور اس پر نمبر تین لکھ دیا۔
”اور پھر یہ مضمون اچھا بھی نہیں ۔”
”جناب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اچھا نہیں ہے۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو پسند نہیں آیا۔”
”اچھا چلو یوں سہی کہ مجھے پسند نہیں آیا… اور یہ تاریخ کے پرچے میں تم نے ایجاد کیا، ایجاد کیا، کیوں بار بار لکھا ہے… ، تم نے لکھا ہے کہ شاہ جہاں نے تاج محل ایجاد کیا۔ جہانگیر نے جہانگیر کا مقبرہ ایجاد کیا۔ قطب صاحب نے قطب صاحب کی لاٹھ ایجاد کی۔”
”جی یہ اس لیے کہ پہلے ان چیزوں کا کسی کو علم نہیں تھا۔”
”دریافت کیں۔” میں نے لقمہ دیا۔
”نہیں دریافت بھی نہیں کیں۔ بنائیں، تعمیر کیں۔” ماسٹر صاہب بولے۔
”سچ کہو، تمہارا سکول کا کام کون کیا کرتا ہے۔ ایمان سے بتاوؑ۔”
”جی رستم کیا کرتا ہے۔”
”اکیلا؟”
”جی نہیں، ہم اس کی مدد کیا کرتے ہیں۔”
”تم دونوں کو اپنا خط خوب صورت بنانا چاہیے۔”
”پھر آپ ہماری اِملا میں غلطیاں نکالیں گے۔”
ماسٹر صاحب شاید کوئی خوش خبری سن کر آئے تھے، ہم سے بالکل خفا نہیں ہوئے۔ چلتے وقت کہنے لگے۔ ”اتنی غلطیاں میں نے کسی اور کے پرچے میں نہیں دیکھیں۔”
”جی غلطیاں تو ہم سب کرتے ہیں… اسی لیے تو پنسل کے ساتھ ربڑ لگائی جاتی ہے۔” رُوفی مؤدبانہ بولے۔

چپراسی بیمار پڑ گیا۔ اس کی ڈیوٹی ہمیں دے دی گئی۔ ٹیلی فون اور ملاقاتیوں کا خیال رکھنا اور اس بے وقوف طوطے کی نگرانی کرنا۔ اس کی بیماری بھی عجیب سی تھی۔ صبح کہتا ہے، نمونیہ ہو گیا۔ شام کو کہتا ہے، نہیں سرسام تھا۔ کبھی کہتا کہ باوؑلا کتا کاٹ گیا تھا۔ اسے ثابت کرنے کے لئے اس نے کتے کے بھونکنے کی نقل بھی اتاری۔ پھر رستم نے اسے بتایا کہ اس مرض میں مریض مر جاتا ہے۔ لیکن بھونکتا ہر گز نہیں، چنانچہ اس نے مرض فوراً بدل لیا۔ یہ مرض تپ دق، مالیخولیا، خون کے دباوؑ، زکام وغیرہ سے ہوتا ہوا آسیب پر آکر رکا۔ آخر میں اس نے فیصلہ کر لیا کہ اس پر کسی بھوت کا سایہ ہے۔
شام کو ہم باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ باورچی کھانا پکا رہا تھا۔ رستم پاس بیٹھا تھا۔ بھوتوں کے قصے ہو رہے تھے۔
”رات تم سوتے ہوئے شور مچا رہے تھے۔” میں نے روفی سے کہا۔
”میں بھونکتے ہوئے کتوں کو رات بھر دیکھتا رہا۔ تم نے وہ شور سنا ہو گا۔”
”بھوت تو میں نے دیکھا تھا پچھلے سال۔” باورچی بولا۔
”کیسا تھا؟”
”ایک بہت بڑے گدھے جیسا۔”
”تم اپنے سائے سے ڈر گئے ہو گے۔” رستم نے بتایا۔
”نہیں۔ سچ مچ کا بھوت تھا۔ اس نے میرا پیچھا کیا۔ میں نے بھاگ کر دروازہ بند کر لیا۔ مگر بھوت دیوار میں سے نکل آیا۔”
”پھر تم نے کیا کیا؟”
”میں دوسری دیوار میں سے باہر نکل گیا۔”
”کیا ہانک رہے ہو؟” رستم بولا۔ ”ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟”
”ایسا ہوتا ہے… مگر میں اس وقت خواب دیکھ رہا تھا۔ یہ خواب سنا رہا ہوں۔”
”میں اپنی آپ بیتی سناتا ہوں۔” رستم کہنے لگا۔ ”میں اُن دنوں اپنے کھیت میں کام کیا کرتا تھا۔ کھیت کے راستے میں قبرستان بھی پڑتا تھا اور شمشان بھی۔ ایک دفعہ کیا ہوا کہ میں رات کو کھیت میں پانی لگانے جا رہا تھا کہ شمشان سے میرے پیچھے ایک بھوت ہو لیا۔دیکھنے میں وہ بالکل انسانی روپ میں تھا۔ اس نے مجھے کچھ نہیں کیا… بس میری نقلیں اتارنے لگا… میں ڈر سے کانپنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بھی کانپ رہا ہے۔ میری گھگھی بندھی۔ اس کی بھی گھگھی بندھ گئی۔ ایک پیر وہاں رہتے تھے۔ میں اگلے روز ان کے پاس گیا۔ انہوں نے پہلے تو ایک تعویز لکھا۔ پھر کچھ سوچ کر بولے۔ ”تم اس مردود سے کام کیوں نہیں لیتے۔” چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق میں اگلے روز ایک ہل اور دو بیل فالتو لے گیا۔ رات کو وہ آیا۔ اس نے اپنے ہل اٹھایا۔ بھیل جوتے۔ اس نے فوراً دوسرا ہل لیا ور بیل جوت لیے۔ میں نے ہل چلانا شروع کر دیا۔ اس نے بھی یہی کیا۔ غرض یہ کہ رات بھر ہم دونوں نے خوب ہل چلایا۔ علی الصبح وہ واپس چلا گیا۔ اس کے بعد میں نے اس سے ہل چلوایا۔ فصل کٹوائی۔ اناج نکلوایا۔ بوریوں میں بند کروایا۔ پھر اچانک نہ جانے اسے کیا ہو گیا، شاید کسی اور بھوت نے اسے پٹی پڑھا دی تھی یا کچھ اور وجہ تھی۔ اس کے تیور بدل گئے۔ وہ میری طرف گھور کر دیکھتا۔ میرے قریب آنے کی کوشش کرتا۔ میں پیر صاحب کے پاس گیا۔ انہوں نے پہلے تو تعویز لکھا، پھر کچھ دیر سوچ کر تعویز واپس لے لیا اور مجھے ایک تجویز بتائی۔ اس پر میں نے فوراً عمل کیا۔ـ شام کو میں نے دو گڑھے کھودے۔ ایک میں خوب انگارے دہکائے، دوسرا یونہی رہنے دیا۔ دونوں پر ایک ایک اینٹ جمائی اور اُوپر سے راکھ چھڑک دی۔ رات کو وہ آیا۔ میں نے اس سے خوب کام لیا۔ پھر میں نے انگڑائی لی۔ اس نے بھی انگڑائی لی۔ میں بولا۔ بھئی اب تو آرام کرنا چاہیے۔ وہ اسی طرح بولا۔ بھئی اب تو آرام کرنا چاہیے… میں راکھ ہٹا کر ٹھنڈی اینٹ پر بیٹھ گیا۔ اس نے بھی اسی طرح کیا۔ دہکتی ہوئی اینٹ پر بیٹھ کر اس نے ایک فلک شگاف نعرہ لگایا اور جووہاں سے غائب ہوا ہے تو پھر کبھی نہیں آیا۔”
باورچی نے بتایا۔ ”جہاں میں پہلے ملازم تھا وہاں حویلی میں ایک بھوت رہتا تھا، مگر اس سے کوئی ڈرتا ہی نہ تھا۔ بچے تک اس کا مذاق اُڑاتے۔ جب وہ ڈرانے کی کوشش کرتا، تو اسے جھڑک دیا جاتا کہ کیوں بے کار شور مچا رہے ہو۔ ناحق اپنا وقت بھی ضائع کر رہے ہو اور ہمارا بھی۔ کبھی کبھی اسے چائے کی دعوت دی جاتی۔ بھوت رات گئے میرے پاس آتا اور اس درگت پر آٹھ آنسو رویا کرتا۔ سب سے زیادہ غم اسے اس بات کا تھا کہ قاعدے کی رُو سے اس سے سب کو ڈرنا چاہیے تھا اور یہ کہ بہ حیثیت ایک بھوت کے اسے نہایت ظالم اور سخت دل ہونا چاہیے تھا۔ اس نے کئی مرتبہ خو دکشی کی کوشش بھی کی۔ آخر میں نے ایک روز سنا کہ بے چارہ کہیں شرم سے سمندر میں ڈوب کر مر گیا۔”
”ایک بھوت ہمارے چپڑاسی پر بھی تو سوار ہے۔”
”یہ فرضی بیمار ہے۔” رستم بولا۔ ”اس کا مرض فرضی ہے اس لیے اس کا علاج بھی فرضی ہونا چاہیے۔ جب سب چلے جاتے ہیں تو یہ بالکل تندرست ہو جاتا ہے۔ ساری دوائیاں کہیں اِدھر اُدھر پھینک دیتا ہے اور علی الصبح اٹھ کر ورزش کرتا ہے تاکہ سارا دن لیٹے رہنے سے کہیں صحت خراب نہ ہو جائے۔”
”تو کیا یہ جھوٹ بولتا ہے۔ ” ہم حیران رہ گئے۔
”بالکل ! لڑکو دنیا میں جھوٹ ایک نہایت اہم چیز ہے۔ اس کے بغیر گزارا مشکل ہے۔ اب تم جھوٹ بولتے ہو تو تمہیں تھوڑا سا افسوس ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ افسوس غائب ہو جائے گا اور تم بے دھڑک کھلم کھلا جھوٹ بولا کرو گے۔ صبح سے جو جھوٹ بولنا شروع کرو گے تو شام تک سراسر جھوٹ بولو گے۔ حیوانوں سے جھوٹ بولو گے، انسانوں سے جھوٹ بولو گے۔ یہاں تک کہ خدا سے بھی جھوٹ بولنے کی کوشش کرو گے۔”
کچھ دیر میں ڈاکٹر صاحب کی کار آگئی۔ وہ مریض کو دیکھنے آئے تھے۔ ہم نے تہیہ کر لیا کہ اب اس مریض کو شفا دلا کر ہی چھوڑیں گے۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کو سلام کیا۔ روفی بولے۔ ”جناب مریض کی طبیعت اس قدر خراب ہے کہ وہ آپ سے ملنا نہیں چاہتا۔”
”آج تمہارا ٹمپریچر کتنا تھا؟” ڈاکٹر صاحب نے مریض سے پوچھا۔
”ایک سو آٹھ کے قریب تھا۔”
”اس قدر زیادہ؟”
”کہیں تم نے تھرمامیٹر سے چائے میں شکر تو نہیں ہلائی؟” روفی نے کہا۔
”تم نے ہدایت کے مطابق دوائی پی تھی؟” ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا۔
”جناب اس نے بوتل پر لکھی ہوئی ہدایت پر عمل کیا ہے کہ کارک کو مضبوطی سے بند رکھو۔” روفی بولے۔
جب ڈاکٹر صاحب نسخہ لکھ رہے تھے تو روفی بڑی سنجیدگی سے منہ بنا کر کہنے لگے۔ ”جناب اگر فرصت ہو تو مجھے بھی ملاحظہ فرمائیے۔ میں تندرست رہتا ہوں۔ آج تک بیمار نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ مجھے معمولی سا نزلہ زکام بھی نہیں ہوتا۔ بعض اوقات تو میں بہت ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے نظام میں کوئی خرابی تو نہیں ہے۔”
ہم علی الصبح اُٹھے۔ کھڑکی سے جھانک کر دیکھتے ہیں تو مریض صاحب کمرے میں ورزش کر رہے ہیں۔ چھلانگیں لگائی جا رہی ہیں۔ ڈنٹر پیلے جا رہے ہیں۔ ہم نے اندر جا کر ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ مولانا یا تو آج صبح سے اپنا ٹیلی فون، وہ نالائق طوطا اور ملاقاتیوں کو سنبھالو۔ ورنہ ہم سب سے کہہ دیں گے۔ آدمی سمجھ دار تھا۔ فوراً تندرست ہو گیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

وقت کی ریت پہ — فوزیہ یاسمین

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!