نیلی جھیل — شفیق الرحمٰن

کچھ دیر کے بعد پھر فون آیا۔ رُوفی نے پوچھا۔ ”کون صاحب بول رہے ہیں؟”
آواز آئی۔ ”انعام علی، اکرام علی، الہام علی اینڈ کمپنی۔”
”اوہ… آداب عرض، آداب عرض اور آداب عرض!” اور ریسیور رکھ دیا۔
گھر میں خوب اودھم مچایا گیا۔ صندوقوں اور الماریوں کی تلاشی لی گئی۔ بندوق نکال کر چلائی گئی، دو گھڑے پھوٹ گئے۔ پھر فون کیا گیا۔
”کون سا نمبر چاہیے؟” آپریٹر نے پوچھا۔
”کوئی سا نمبر دے دیجیے۔” روفی بولے۔
”آپ بتایئے۔”
”آپ خود کوئی اچھا سا نمبر دے دیجیے۔”
”نہیں آپ۔”
”واللہ آپ۔”
”آپ بتاتے ہیں یا نہیں؟”
روفی نے ڈائل پر لکھا ہوا نمبر پڑھا۔ ”مجھے یہ نمبر چاہیے۔”
”یہ تو آپ کا نمبر ہے۔”
”تو پھر میں اپنے آپ سے گفت گو کرنا چاہتا ہوں۔”
جب شام کو سب آئے تو ہم بڑی سنجیدگی سے سوال نکال رہے تھے۔ ننھا رونے کے شغل سے تنگ آکر سو چکا تھا۔ ننھے میاں کے متعلق پوچھا گیا کہ وہ کہاں ہیں؟ کچھ دیر میں وہ سب کے سامنے سے گزرے۔ وہ کچھ چیزیں چرائے لیے جا رہے تھے، منہ سفید کریم سے لُپا ہوا تھا۔ انہیں پکڑا گیا۔ معلوم ہوا کہ آپ نے وینشنگ کریم (Vanishing Cream) لگائی ہے اور آپ کا خیال ہے کہ آپ سب کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکے ہیں اور آپ کو چوری کرتے ہوئے کوئی نہیں دیکھ رہا۔
صبح صبح باہر آہٹ ہوئی۔ ہم نے پوچھا کون۔ باورچی تھا۔ ”مجھے چھے بجے جگا دینا۔” روفی بولے۔
”چھے تو بج گئے۔” اس نے بتایا۔
”تو مجھے جگا دو۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ہم باہر نکلے۔ چپکے سے گائے کا موٹا تازہ اور بیل نما بچھڑا کھولا۔ اس پر زین کسی گئی۔ ایک سینگ پر سائیکل کا لیمپ لگایا گیا۔ دوسرے پر ہارن اور گھنٹی فٹ کیے گئے۔ ہم دونوں سوار ہو کر سیر کے لیے نکلے۔ روفی نے دونوں سینگ یوں پکڑے تھے جیسے موٹر چلا رہے ہوں۔ لیمپ روشن تھا۔ ہم ہارن بھی بجاتے تھے اور گھنٹی بھی۔
ماسٹر صاحب بالکل ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ انہوں نے مرغیاں ، بطخیں، خرگوش اور نہ جانے کیا کیا الا بلا پال رکھی تھی۔ راستے میں طے ہوا کہ آج دوپہر کو چھت پر چڑھ کر آئینے کی مدد سے ان کے پرندوں اور جانوروں پر سورج کی شعاعیں پھینکی جائیں۔ دوپہر کو روفی اندر سے ایک بڑا آئینہ اٹھا لائے۔ ہم نے شعاعیں پھینکیں۔ مرغیاں اور بطخیں اڑ کر سڑک پر چلی گئیں۔ کچھ ہمارے ہاں آگئیں۔ خرگوش اندر جا چھپے۔ اور پھر رُوفی کے ہاتھ سے جو آئینہ پھسلا ہے تو چور چور ہو گیا۔ ہم نے رستم کو بتایا۔ وہ بولا۔ غضب ہو گیا۔ وہ آئینہ تو بہت پرانا تھا۔ کئی نسلوں سے آپ کے خاندان میں چلا آتا تھا۔ ہم بہت ڈرے۔ وہ بولا۔ ”اچھا میں موقع پا کر صاحب سے کہہ دوں گا کہ وہ آئینہ جو نسلاً بعد نسلاً آپ کے ہاں چلا آتا تھا۔”
”ہاں ہاں اسے کیا ہو گیا؟” ہم نے بے صبری سے پوچھا۔
”اسے اس نسل نے توڑ دیا ہے۔”
ہم منتیں کرنے لگے کہ کسی کو مت بتانا۔ ہم دوسرا خرید لائیں گے، بالکل ایسا ہی۔ مصیبت یہ تھی کہ ہم ان دنوں مفلس تھے۔ میری سائیکل میں اتنے پنکچر لگے ہوئے تھے کہ سائیکل والا عاجز آچکا تھا۔ آخری مرتبہ جب میں ایک اور پنکچر لگوانے گیا تو اس نے مجھے ٹیوب دکھائی۔ پنکچروں پر پنکچر اور ان پر اور پنکچر لگے ہوئے تھے۔ وہ بولا۔ ”اب میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ اس ٹیوب پر ایک نئی ٹیوب چڑھا دوں، بس۔”
اُدھر روفی کے پاس بھی کچھ نہیں تھا۔ ہم نے رستم سے ادھار کے لیے کہا۔ وہ بولا۔ ”مجھے تو پڑوسیوں نے کنگال کر رکھا ہے۔ سب کچھ اُدھار لے جاتے ہیں۔ بعض اوقات جو چیزیں میں خود ادھار لاتا ہوں وہ انہیں بھی ادھار لے جاتے ہیں۔ میری تنخواہ، میرے برتن، کپڑے، صندوق، سب کچھ ان کے ہاں رہتا ہے۔ ان کے ہاں میری اتنی چیزیں ہیں کہ اپنے گھر کے مقابلے میں ان کے ہاں میرا زیادہ جی لگتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک روز وہ میرے مصنوعی دانت اور عینک بھی ادھار لے گئے تھے۔”
ہم بڑے گھبرائے۔ آخر طے ہوا کہ باورچی سے روپے مانگے جائیں اور مانگتے وقت اسے باورچی نہ کہا جائے بلکہ خانساماں کہا جائے۔ مشکلوں سے اس نے وعدہ کیا کہ وہ کسی سے ادھار لے کر ہمیں کل روپے دے گا اور ہم اسے گیارہ بجے بڑے بازار میں ملیں۔
ہم سکول سے بھاگ کر بازار پہنچے۔ دیر تک انتظار کرنے پر بھی وہ ہمیں نہ ملا۔ ادھر یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں کوئی ہمیں بازار میں دیکھ نہ لے۔ آخر ہم ایک دکان میں جا گھسے اور یوںہی قیمتیں پوچھنے لگے۔
روفی نے ایک مفلر کی قیمت پوچھی۔ دکاندار بولا۔ ”پچاس روپے۔”
”لاحول ولا قوة۔ اور اس قلم کی کیا قیمت ہے؟”
”دو لا حول ولا قوتیں۔”
”یعنی۔”
”یعنی سو روپے۔”
”اچھا کوٹوں کا کپڑا تو دکھا دیجیے۔”
ہم کپڑوں کو بھی دیکھ رہے تھے اور سڑک کی طرف بھی۔ تھوڑی سی دیر میں ہم نے سارے تھان اُلٹ پلٹ کر رکھ دیئے۔ یہ دکاندار بولا۔ ”تو کون سا کپڑا پسند آیا آپ کو؟”
”جناب معاف فرمایئے۔ ہمیں کپڑا نہیں خریدنا تھا۔ دراصل ہم اپنے باورچی کی تلاش میں ہیں۔”
”تو اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ آپ کا باورچی ان دو باقی ماندہ تھانوں میں لپٹا ہوا ہے تو میں وہ بھی دکھائے دیتا ہوں۔”
وہ بقیہ تھان لینے مڑا اور ہم وہاں سے بھاگے۔
آخر ہمیں باورچی مل ہی گیا۔
”اتنی دیر لگا دی؟ پتا بھی ہے اب کیا بجا ہے؟” ہم نے اسے شکایتاً کہا۔
”میں مختلف آدمیوں سے وقت پوچھتا رہا ہوں۔ کوئی کچھ بتاتا ہے کوئی کچھ۔”
”وہ سامنے دیکھو۔” ایک کلاک میں پورے بارہ بجے ہوئے تھے۔
”ارے!” وہ چونک پڑا۔ ”یہ کلاک کی دوسری سوئی کہاں گئی؟”
ہم نے بالکل ویسا ہی آئینہ خریدا۔ واپسی پر اس نے بتایا۔ ”میں ڈاک لانے کا بہانہ کر کے آیا ہوں۔ اس لیے ڈاک خانے ہو کر چلیں۔” اور ہم راستے بھر ڈرتے آئے کہ کہیں کوئی ہمیں اور آئینے کو دیکھ نہ لے۔
”کوئی ڈاک تھی؟” اس سے پوچھا گیا۔
”ڈاک تو نہیں تھی، فقط ایک خط تھا۔” وہ بولا۔
آئینہ رستم کو دکھایا گیا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ اس کے سامنے وہی آئینہ دو مرتبہ پہلے بھی ٹوٹ چکا ہے۔ دونوں مرتبہ نیا خریدا گیا۔ لیکن شکر ہے کہ وہ آئینہ جو نسلاً بعد نسلاً چلا آرہا تھا بالکل صحیح سلامت ہے۔
رات کو ہم نے دیکھا کہ روفی کے ابا دفتر میں کام کر رہے ہیں۔ ان کے ڈیپارٹمنٹل امتحان ہو رہے تھے۔ روفی اندر گئے۔ سلام کیا اور پوچھا۔
”سنایئے ابا جان پرچے کیسے ہو رہے ہیں؟”
”اچھے ہو رہے ہیں۔ شکریہ۔”
”امتحان مشکل تو نہیں لگ رہا ؟”
”نہیں۔ آسان ہے۔” وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
”پھر بھی آپ اتنی محنت نہ کیا کریں۔ اتنی دیر تک جاگا بھی مت کریں، ورنہ صحت پر برا اثر پڑے گا اور اپنی عینک سنبھال کر رکھا کریں۔ نوکر اکثر اسے لگا لیتے ہیں۔”
روفی کے ابا کی عینک کچھ ایسی تھی کہ جو اسے لگاتا چند قدم چل کردھڑام سے گرتا۔ ہم نے کئی مرتبہ تجربہ کیا تھا۔

روفی کے ہاں ان کے کئی رشتہ دار ملنے آئے جن کے ساتھ بے شمار بچے تھے۔ نہایت شوخ اور شریر قسم کے بچے۔
روفی کی امی نے ننھے میاں سے کہا۔ ”ننھے دادی جان کو پیار کرو۔”
”امی۔ میرا قصور؟” انہوں نے ٹھٹک کر پوچھا۔
”اچھاانہیں اپنا سبق پڑھ کر سناؤ۔ یا چلو کوئی ضرب المثل ہی سنا دو۔”
”کل کا کام آج پر مت چھوڑو۔” ننھے میاں سینہ تان کر بولے۔
”غلط ہے۔ سوچ کر پھر بتاوؑ۔” ان کی امی نے ڈانٹا۔
”آج کا کام پرسوں پر مت چھوڑو۔”
”چلو رہنے دو۔” ان کی دادی جان بولیں۔ ”اچھا یہ بتاؤ تم صبح کتنے بجے جاگتے ہو؟”
”جب سب جاگتے ہیں۔”
”بچوں کو تو مرغ کی اذان کے ساتھ اٹھنا چاہیے۔”
”جی ہمارے ہاں مرغ ہیں ہی نہیں۔”
”تو سورج کی پہلی کرن کے ساتھ اُٹھنا چاہیے۔”
”جس کمرے میں ہم سوتے ہیں اس کا رُخ مغرب کی طرف ہے۔”
اُدھر بچوں نے ہمیں پریشان کر دیا۔ ایک پوچھتا تھا۔ بھائی جان، چڑیا گھر کو چڑیا گھر کیوں کہتے ہیں؟ دوسرا یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ یہ چیتے اور شیر وغیرہ سرکس سے پہلے کیا کیا کرتے تھے؟ ایک کا غبارہ اُڑ گیا۔ وہ یہ دریافت فرما رہے تھے کہ کششِ ثقل نے غبارے کو روکا کیوں نہیں۔ کششِ ثقل سے ان کا اعتبار اُٹھ چلا تھا۔
ایک بچے نے بتایا کہ اس نے ایک شخص کو دیکھا تھا جس کا نصف چہرہ بالکل سیاہ تھا۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟” روفی نے پوچھا۔
”اس کا بقیہ نصف چہرہ بھی سیاہ تھا۔”
دوسرا بولا: ”ہمارے ماسٹر صاحب بارش میں چھتری استعمال نہیں کرتے۔”
”تو پھر کیا کرتے ہیں؟”
”بس بھیگ جاتے ہیں۔”
تیسرا بھاگا بھاگا آیا۔ ”امی جان میں نے باغ میں خرگوش دیکھا ہے۔”
”وہم ہو گا۔”
”اچھا تو کیا وہم کی ایک سفید دُم اور دو لمبے لمبے کان ہوتے ہیں؟”
ہم تنگ آگئے۔ عجب گستاخ اور ہونق بچوں سے واسطہ پڑا تھا۔ آخر روفی اور میں اُٹھے۔
”کہاں جا رہے ہو؟” کسی نے پوچھا۔
”باغ میں۔ پھل توڑنے۔”
”لیکن پھل تو ابھی کچے ہیں… کل ہی تو دیکھے تھے۔”
”شاید کچھ پک گئے ہوں۔”
”بیٹھے رہو۔ پھر کبھی دیکھ لینا۔”
اور ہمیں بیٹھنا پڑا۔
ایک بزرگ فرما رہے تھے۔ ”جب میں چھوٹا سا تھا تو اس قدر نحیف تھا، اتنا کمزور تھا کہ میرا کل وزن چار پونڈ تھا۔ مجھے دنیا کی بیماریوں نے گھیرے رکھا۔”
”تو کیا آپ زندہ رہے تھے؟” ایک ننھے نے دریافت کیا۔
ایک خاتون فرما رہی تھیں۔ ”اس وقت اپنے ملک میں ہم جاگ رہے ہیں، لیکن امریکا کے بعض حصوں میں لوگ سو رہے ہوں گے۔”
”سست الوجود کہیں گے۔” اور ننھے نے بات کاٹی۔
”آئس کریم جلدی سے کھا لو، ورنہ ٹھنڈی ہو جائے گی۔” ایک طرف سے آواز آئی۔
”یہ کافی تو جلی ہوئی ہے۔”
دادی جان ننھے میاں سے پوچھ رہی تھیں۔ ”کیوں ننھے یہ سڑک کہاں جاتی ہے؟”
”جی جاتی واتی تو کہیں نہیں، ہر صبح مجھے یہیں ملتی ہے۔ اگر رات کو کہیں چلی جاتی ہے تو پتا نہیں۔”
”مگر یہ وہی سڑک تو ہے جو جرنیلی سڑک سے جا ملتی ہے اور پشاور جاتی ہے۔”
”تو پشاور سے واپس کون سی سڑک آتی ہے؟” ایک ننھے نے پوچھا۔
”ہمارے ماسٹر صاحب کی سالگرہ ہے۔ انہیں کیا تحفہ دیا جائے؟” آواز آئی۔
”ایک کتاب دے دو۔”
”مگر ان کے پاس ایک کتاب ہے۔”
دادی جان نے پھر ننھے سے سوال کیا۔ ”وہ جو سامنے جانور چر رہے ہیں کتنے ہیں؟”
”بائیس۔” کچھ دیر کے بعد جواب ملا۔
”شاباش۔ اتنی جلدی تم نے کیوں کر گن لیے؟”
”بالکل آسان ہے۔ پہلے جانوروں کی ٹانگیں گن لیں۔ پھر چار پر تقسیم کر دیا۔”
ایک صاحب جو غالباً شکاری تھے اپنی آپ بیتی سنا رہے تھے کہ کس طرح وہ جنگل میں چھپتے پھر رہے تھے اور ایک شیر ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ بچے طرح طرح کے سوال پوچھ رہے تھے۔ شیر کا رنگ کیسا تھا؟ آپ کی شیر سے دشمنی تھی کیا؟ شیر موٹا تھا یا دُبلا؟ آپ نے شیر کی کمر پر لٹھ کیوں نہیں مارا؟ کیا آپ ڈرپوک تھے جو شیر سے ڈر رہے تھے؟… وہ تھوڑی سی بات کرتے اور سب بچے چلا کر پوچھتے، پھر کیا ہوا؟ اور ساتھ ہی بے تکے سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی۔ وہ بالکل تنگ آچکے تھے۔ ایک مرتبہ بچوں نے پھر پوچھا کہ پھر کیا ہوا؟
”پھر کیا ہونا تھا۔” وہ اپنے بال نوچ کر بولے۔ ”پھر شیر نے مجھے کھا لیا۔”
اور بچوں نے تالیاں بجائیں۔ ہپ ہپ ہرا کیا۔ ایک ننھا اپنا ڈھول اٹھا لایا اور ساتھ ہی لکڑی کا نصف گھوڑا جسے آری سے کاٹا گیا تھا گھوڑے کا نام لوئی ساڑھے تین تھا۔ انہوں نے وجہ بتائی کہ پہلے انہوں نے اسے کسی دوست کے ساتھ مل کر خریدا تھا۔ تب اس کا نام لوئی ہفتم تھا۔ دونوں دوستوں کی لڑائی ہوئی تو گھوڑے کو آری سے آدھا آدھا تقسیم کیا گیا۔ چنانچہ اس کا نام لوئی ساڑھے تین رکھ دیا گیا۔
ہم پھر اُٹھے۔
”کہاں جا رہے ہو؟”
”جی باغ میں۔ شاید اب پھل کچھ پک گئے ہوں۔”
لیکن ہمیں پھر بٹھا لیا گیا۔ دوسرے کمرے سے ایک بچے نے صدائے احتجاج بلند کی اور نعرہ لگایا۔ ہم بھاگ کر پہنچے تو دیکھا کہ دو بچے لڑ رہے ہیں۔ بڑا چھوٹے کی خوب تواضع کر رہا تھا۔ مشکل سے دونوں کو علیحدہ کیا۔ دادی جان کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔ لڑائی کی تفصیل بیان کی جا رہی تھی۔ چھوٹا بچہ ڈینگیں مار رہا تھا کہ میں یہ کیا، میں نے وہ کیا۔ وہ کہہ رہاتھا۔ ”میں نے اس کو پکڑ کے اپنے اوپر گرا لیا اور اپنی ناک اس کے دانتوں میں دے دی۔ پھر میں نے اس کی کہنی اپنی پسلیوں میں چبھو دی اور دھڑام سے اس کا مکہ اپنی کمر میں رسید کیا۔ پھر زور سے اس کا تھپڑ اپنے منہ پر مارا۔ پھر میں نے جو اس کی ٹھوکر اپنے گھٹنے میں لگائی ہے تو بس۔”
ہم پھل توڑنے کے بہانے سے بہ مشکل وہاں سے نکل سکے۔ باغ میں رُوفی اور میں دیر تک سوچتے رہے کہ دنیا میں کیسے کیسے نامعقول اور بے ہودہ بچے بستے ہیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

وقت کی ریت پہ — فوزیہ یاسمین

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۳)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!