نبھانا — نعمان اسحاق

”میں تو سوچ رہی تھی۔ تم خوب روؤ گی۔ تمہیں چپ کرانا مشکل ہوجائے گا، مگر تمہاری آنکھوں سے تو ایک آنسو بھی نہ ٹپکا۔” مریم کی آنکھوں سے ابھی بھی آنسو نہ ٹپکا، البتہ حمیرا سسک سسک کر رودی۔
تبھی کسی نے دروازہ بھیڑا۔ حمیرا ٹشو سے آنسو صاف کرنے لگی۔ آنے والی زینت تھی۔
”لے آؤ مریم کو ۔ اب رخصتی ہوگی تو وقت پر اسٹیشن پر پہنچیں گے۔” شہر جلال پور میں اسٹیشن نہ تھا۔ انہیں کرائے کی کار سے قریبی شہر کے اسٹیشن جانا تھا اور وہاں سے بذریعہ ٹرین ایک ہزار کلو میٹر دور کراچی۔
”جی ممانی!” زینت پلٹی تو حمیرا بھی اسے باہر لے جانے لگی۔ اپنے دونوں بازو مریم کے کندھے پر جمائے وہ ایک قدم مریم سے پیچھے چلتی۔
باہر ایک ہلچل سی مچی تھی۔ ایک شور سا برپا تھا۔ مریم ظاہر ہوئی تو لمحہ بھر کو سکوت چھایا اور پھر سے ہلچل مچ گئی۔ وہ ہلچل اب پہلے سے زیادہ تھی۔
برآمدے کے ایک طرف اسٹیج بنا کر دلہا دلہن کے بیٹھنے کی جگہ بنائی گئی تھی۔ عالمگیر میاں پہلے سے وہاں بیٹھے تھے۔ مریم کو اس کے پہلو میں بٹھا دیا گیا۔
نسیم صدقے واری ہونے لگی۔ عالمگیر کے بہن بھائی جو خاص شادی میں شرکت کے لیے کراچی سے آئے تھے۔ گلا پھاڑ پھاڑ خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ حمیرا ایک سجے سنورے گلاس میں دودھ لیے اسٹیج پر چلی آئی۔ لو جی دودھ پلائی کی رسم شروع۔
”ملکانی صاحبہ ہم آپ کے شایان شان نیگ تو نہ دے سکیں گے۔” عالمگیر نے چند گھونٹ دودھ پیا اور پھر مریم کی طرف بڑھایا۔ زعفران ملے دودھ میں کون کون سے میوہ جات تھے مریم کو ذائقوں کی پہچان نہ ہوئی۔
”آپ کا دیا سکہ بھی میرے لیے قابل قدر ہے۔” عالمگیر نے ہنس کر جیب سے نوٹ نکالے اور حمیرا کو دیے۔ حمیرا نے خوشی سے رکھ لیے۔ تھوڑا وقت اور سرکا تو نسیم بھائیوں سے رخصتی کی اجازت لینے لگی۔
”مریم کا کوئی بھائی ہوتا تو رخصتی سمے مریم کا ہاتھ دلہے بھائی کے ہاتھ میں دیتا۔” کسی کو بیٹھے بٹھائے یاد آیا اور اپنے خاندان کی روایت یاد کی جانے لگی۔
”ارے میرا سجاد ہے نا۔ مریم کے بھائیوں جیسا ہی ہے۔” سلطان چچا مسکرا کر کہنے لگے۔
”آؤ سجاد۔” سجاد پیچھے بیٹھا تھا۔ سلطان چچا اسے آوازیں دینے لگے۔
”نہیں سلطان بھائی میرے بلال کا حق ہے’ مریم کے بالکل بھائیوں جیسا ہے۔ ساری زندگی دوستی رہی ان میں ۔ ہم یاد آئیں نا آئیں میرا بلال تو مریم کو یاد آئے گا۔آؤ بلال۔” جنہوں نے سیاں بننے سے انکار کردیا تھا بھیا بننے سے انکار نہ کرسکے۔ بلال پیچھے کی نشستوں پر بھی نہ بیٹھا تھا۔ زینت نے آگے بڑھ کر بلال کو اشارہ کیا۔ بلال بوکھلایا۔ اتنے مجمعے میں منع کرنے کی وجہ بھی نظر نہ آئی تھی۔ ناچار وہ اسٹیج پر چلا آیا۔





مریم نے پلکیں اٹھا کر دیکھا۔ سفید کاٹن کی شلوار قمیص، سیاہ واسکٹ، پیروں میں کھسے ۔ جناب بلال مامون صاحب۔ مریم کی پلکیں جھپکیں تو وہ گیلی ہونے لگیں۔ بلال میکانکی انداز میں آگے بڑھا۔ مریم کا حنائی ہاتھ تھام کر عالمگیر کے ہاتھ میں دے دیا۔ تالیاں گونجنے لگی۔ شور سے شور ضرب ہونے لگا۔ اور اس سمے جب بلال نے اس کا ہاتھ تھاما تھا ، سمندروں کا پانی لہریں اڑاتااس کی آنکھوں میں جمع ہونے لگا اور جب اس کا ہاتھ عالمگیر کے ہاتھ میں دے دیا گیا، تو یہ سمندر آنکھوں سے بہنے لگا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
شور بتدریج کم ہوتا ختم ہوگیا اور رشتہ دار سراسیمگی سے مریم کو یوں دہاڑیںمار کر روتے ہوئے دیکھتے رہے۔ ملک زاہد کو اپنے خاندان کی روایت کے بارے میں بتاتی ہوئی حمیرا خاموش ہوئی اور بات ادھوری چھوڑ کر مریم کی طرف آئی۔
”یوں مت رو مریم کہ لوگوں کو لگے کہ یہ آنسو محض رخصتی کے آنسو نہیں ۔”دلہن بنی مریم کے سامنے دوازنو بیٹھی حمیرا اسے تنبیہ کررہی تھی۔
”خالہ آپ کو پتا تو ہے ہماری مریم کتنی لاڈلی تھی۔ امی کو یاد کرکے رورہی ہے۔ بس لے جائیں اپنی امانت کو اسٹیشن پر کہیں دیر نہ ہوجائے۔” نسیم سے کہتے ہوئے اس کی اپنی آنکھیںچھلک پڑیں۔
٭…٭…٭
سارا رستہ ٹرین میں ہلتے جلتے جیسے سارا جسم ہی دکھنے لگا۔ اوپر سے افتاد کہ وہ دلہن بنی بیٹھی تھی اور آس پاس کے ڈبوں والے مسافر وں کے لیے تفریح کا سامان تھی۔ گزرتے مسافر رک رک کر اسے دیکھتے۔
”بیاہ کر لے جارہے ہو۔” نسیم کی ایک ہم عمر خاتون نسیم کے ساتھ آبیٹھی۔ نسیم نے خوش دلی سے اثبات میں جواب دیا اور ساری روداد سنانی شروع کی۔ اپنی شادی سے پہلے کا قصہ شروع کیا۔اپنا کراچی شفٹ ہونا کبھی کبھار’ میکے کے شہر کا چکر ‘بہن بلقیس کی وفات اور اب مریم اور عالمگیر کی شادی ‘ خاتون دلجمعی سے قصہ سنتی رہیں۔ درمیان میں ”ضروری” سوال بھی پوچھے اور ابھی ان خاتون کو رخصت ہوئے بمشکل آدھ گھنٹہ ہوا تھا کہ ایک نوجوان خاتون اپنے پانچ سالہ بیٹے کی انگلی پکڑے چلی آئیں۔
”میرے نومی نے کبھی دلہن نہیں دیکھی ۔ وہ دلہن آنٹی دیکھنے آیا ہے۔” ساتھ بیٹھا عالمگیر ہنسنے لگا اور ہنستے ہنستے مریم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور مریم لاتعلق کھڑکی سے باہر یوں دیکھتی رہی جیسے وہ اس منظر کا حصہ ہی نہیں۔کچھ دیر تک عالمگیر نے ہاتھ چھوڑ دیاتو مریم نے تب بھی کوئی تاثر نہ دیا۔
البتہ نسیم ننھے نومی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ اسے دلہن کی طرف اشارہ کیا۔ وہ شرماتا ہوا دلہن کی طرف آیا اور سلام کیا۔ ہاتھ میں پکڑی کینڈی مریم کی طرف بڑھائی۔
”لے لو۔” جب مریم خالی نظروں سے نومی کا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھتی رہی تو عالمگیر نے اصرار کیا۔ مریم نے تب بھی ہاتھ نہ بڑھایا تو نومی کے ہاتھ سے کینڈی لے کر اس کا گال تھپتھپایااور کینڈی مریم کی حنائی ہتھیلی پر رکھ دی۔ سرخ چمکیلے کاغذ میں لپٹی چاکلیٹ کینڈی۔ مریم کی گرفت ڈھیلی ہوئی۔
اور آنکھ سے دو آنسو لڑھک گئے۔ یہ وہی کینڈی تھی جس کی فرمائش وہ بلال سے کیا کرتی تھی۔ اور کبھی کبھار بلال اسے بن کہے بھی لادیا کرتا تھا۔
”جب تم بڑے ہوجاؤ گے تو ایسی دلہن تمہاری بھی ہوگی۔” عالمگیر کی بہن سدرہ نومی کو گود میں لیے بتارہی تھی اور نومی صاحب مسکرائے جاتے تھے۔
مریم نے بند مٹھی والی ہتھیلی کھڑکی کے ہتھے پر جمائی اور ہاتھ رفتہ رفتہ سرکنے لگا۔ کچھ لمحے بعد اس نے مٹھی کھول دی۔ سرخ کاغذ میں لپٹی کینڈی ہوا کے دوش پر کہیں پیچھے گرگئی۔ اور ٹرین آگے کی جانب محو سفر رہی۔
شام چار بجے کے بیٹھے وہ اگلی دوپہر بارہ بجے کراچی پہنچے۔ خالہ کا گھر شہر کراچی کے ایک گنجان آباد علاقے میں تھا۔ چھوٹے چھوٹے گھر ، گوکہ جلال پور ان کا گھر بھی بہت بڑا نہ تھا، مگر اس گھر کی نسبت کشادہ تھا۔ عالمگیر کی شادی شدہ بہن بچوں کے امتحانات کی وجہ سے شادی میں شرکت کے لیے نہ آئی تھی’ نے ہشاش بشاش انداز میں ان کا استقبال کیا اور جھٹ چائے کے کپ لیے چلی آئی۔
”درخشاں تمہاری بھابھی چائے بڑی اچھی بناتی ہیں۔ ابھی تو آرام کریں شام کی چائے تم سب انہی کے ہاتھ کی پیو گے۔”نسیم بڑی خوش نظر آرہی تھیں۔
”ضرور میں تو اچھی چائے کو ترس گیا ہوں۔ یہ بہنیں تو چائے کے نام پر جوشاندہ پلاتی ہیں۔” یہ فواد تھا عالمگیر کا چھوٹا بھائی۔ سب ہنس دیے سوائے مریم کے۔ کھانے کے بعد درخشاں ہی اسے اس کے کمرے میں چھوڑ آئی اور جب تک اس نے لباس تبدیل کیا عالمگیر بھی کمرے میں چلا آیا۔
پہلی تنہائی۔
وہ مریم کے بالمقابل بیٹھ گیا اور چپ چاپ اسے دیکھنے لگا۔
”خوبصورت لڑکی کب تک یوں روٹھی روٹھی رہو گی۔” عالمگیر کی نظریں مریم کے چہرے پر جمی تھی۔
”میں تھکی ہوئی ہوں۔”
”بالکل اتنا لمبا سفر تھکا ہی دیتا ہے۔ لیٹ جاؤ شام کو بات کرتے ہیں۔” عالمگیر نے مسکراتے ہوئے اشارہ کیا اور خود بھی مسہری کی دوسری طرف کروٹ کرکے لیٹ گیا۔
مریم کچھ دیر بیٹھی رہی یونہی خالی ذہن۔
”کچھ دیر سوجاؤ مریم ۔” عالمگیر نے یونہی لیٹے لیٹے کہا تو مریم بھی مسہری کے ایک کونے پر سمٹ سمٹا کر لیٹ گئی۔
شوہر کے ساتھ یوں… اضطراب سا اضطراب تھا، مگر تھکاوٹ کچھ ایسی حاوی تھی کہ نیند آگئی۔
چند گھنٹے بعد آنکھ خود ہی کھل گئی۔ آنکھ کھلتے ہی نئی جگہ کے احساس نے جکڑا۔ تھوڑا منہ پھیر کر دیکھا۔ عالمگیر نہیں تھا۔ وہ کمرے میں اکیلی تھی۔ بال سمیٹتی وہ اٹھ بیٹھی اور نماز کا خیال آیا۔ منہ ہاتھ دھو کر وضو کیا اور واش روم سے باہر آئی تو عالمگیر سامنے بیٹھا تھا۔ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
مریم نے ڈوپٹا درست کیا ۔ کمرے میں نظر دوڑائی ایک کونے میں جائے نمازپڑی تھی۔جائے نماز بچھاتے ہوئے وہ الجھنے لگی۔
”قبلہ کس رخ ہے؟” عالمگیر مسکراتے ہوئے آیا اور جائے نماز بچھادی۔
جب تک وہ نماز پڑھ کے فارغ ہوئی عالمگیر ایک طرف بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ اس نے سلا م پھیرا دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔
”نئی زندگی میں برکت کی دعائیں ضرور مانگنا۔” عالمگیر کہہ رہا تھا۔
مگر مریم نے ایسی کوئی دعا نہ مانگی بلکہ دعا ہی نہ مانگی یونہی ہاتھ پھیلائے بیٹھی رہی پھر چہرے پر ہاتھ پھیر لیے۔
”سب تمہارا انتظار کررہے ہیں ۔ آؤ باہر چلتے ہیں۔” عالمگیر نے کہا، تو وہ چپ چاپ اس کے ساتھ ہولی۔
باہر کھانے کے برتن سجائے سب اس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ وہ آئی تو ایک بار پھر سے خوشی کا اظہار کیا جانے لگا۔ کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔ کھانے کے بعد فواد نے یاد دلایا کہ اس نے چائے بنانی ہے۔ اپنے اوپر چھائی اکتاہٹ پر قابو پاتے ہوئے وہ درخشاں کی سربراہی میں کچن آئی۔
”دودھ ‘ پتی’ چینی اور یہ چائے کے برتن ۔” درخشاں سامان حوالے کرتی چلی گئی اور وہ چائے بنانے لگی۔
نیا شہر، نئے لوگ، نئی زندگی…
پرانا شہر اور پرانی زندگی جیسے بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ اسے غصہ نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر وہی عقل انسانی۔ جانے کس چیز کا غصہ تھا۔ حالانکہ پیچھے کون تھے جن کا وہ غم منا رہی تھی۔
وہ تمام رشتہ دار جن میں سے کوئی بھی اسے اپنے پاس پناہ نہ دے سکا یا پھر وہ بھگوڑا بلال۔ بہرحال اس نے چینی دان کی بجائے نمک دا ن اٹھایااور چائے میں نمک گھول دیا۔
چائے کپوں میں لیے بغیر کسی کی پروا کیے وہ لے آئی۔ جہاں سب چائے کا انتظار کررہے تھے۔ اس کے سسر محترم بھی تھے اور نہیں تو انہی کا لحاظ کرلیتی ، مگر…
”دیکھئے بھابھی آپ کے ہاتھ کا بنا چائے کا کپ دس میں سے کتنے نمبر لیتا ہے؟ امی تو جب سال پہلے بھی جلال پور گئی تھیں تب بھی آپ کے ہاتھوں کی بنی چائے کی تعریفیں کرتی’ واپس آئی تھیں۔” فواد کہہ رہا تھا۔ باری باری سبھی نے چائے کا کپ منہ سے لگایا۔
”آہم ہم…” عالمگیر نے کھنکھارا بھرا اور وہ شرارت بھری شام یاد آئی جب مریم نے اسے ایسی نمکین چائے پلائی تھی۔ مگر یوںسب کے لیے۔ وہ مریم کو دیکھنے لگا ۔ وہ لاتعلق سی گود میں دھرے ہاتھ دیکھتی رہی۔
سب خاموشی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ اس سے قبل کہ کوئی کچھ کہتا نسیم اپنی جگہ سے اٹھی اور مریم کے پاس آئی۔
”صرف شکل ہی نہیں ، عادتیں بھی میری بلقیس والی ہیں۔ جب ہم بہنیں غیر شادی شدہ تھیں اور بلقیس ناراض ہوا کرتی تھی تب ناراضی کا اظہار یوں ہی بدذائقہ چائے یا سالن بنا کر کرتی ۔” نسیم نے مریم کا ماتھا چوما۔ مریم حیرانی سے نسیم کو دیکھنے لگی۔
آنکھوں میں آئے آنسو نسیم کی عینک کے شیشے دھندلے کرگئے تھے۔ وہ دوپٹے کے پلو سے اسے انہیں صاف کررہی تھی۔
پتھر کو موم بننے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ ایک لمحہ… محبت کا صرف ایک لمحہ اور سامنے کوئی پتھر نہیں مریم تھی اور محبت کا ایک لمحہ مریم کو بھی پگھلا گیا تھا۔
اس کی آنکھوں کے گوشے بھی نم ہونے لگے اور نم آنکھوں سے اس نے نسیم کو دیکھا۔ اب کے بار نسیم اسے نسیم نہیں بلقیس لگی۔
٭…٭…٭
دوسری تنہائی…
”تمہارے قریب آنے کی اجازت چاہتا ہوں۔” عالمگیر سامنے بیٹھا کہہ رہا تھا۔ پلکیں اٹھا کر مریم نے عالمگیر کو دیکھا۔ خالی نظروں سے دیکھتی رہی۔ اور عالمگیر اس کے دیکھنے کو دیکھتا رہا۔
”میرے چہرے میں کسی اور کا چہرہ تو نہیں ڈھونڈ رہی۔” مریم بے ساختہ نظریں چراگئی۔ اس کی نظروں کے سامنے واقعی بلال کا چہرہ تھا۔
عالمگیر ہنس دیا۔
”کوئی بات نہیں، ہوتا ہے۔ کچی عمر میں یہ آنکھیں جانے کیسے کیسے خواب نہیں دیکھتی۔ ” مریم میں دوبارہ سے اتنی ہمت نہ ہوئی کہ عالمگیر کو دیکھ پائے۔
”میں جب اٹھارہ سال کا تھا تو مجھے ایک لڑکی پسند آگئی تھی۔ وہ کالج میں میرے ساتھ پڑھتی تھی۔” عالمگیر سوچ رہا تھا کہ اس بات پرتو اسے نظر اٹھا کر دیکھے گی۔
مگر مریم غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے یونہی بیٹھی رہی۔
”چھے ماہ میں اسے سوچتا رہا۔ کیا دن کیا رات اور میں نے اسے پرپوز بھی کیا تھا، مگر ا س نے انکار کردیا۔ وہ امیر لڑکی تھی۔ بڑی گاڑیوں میں گھومتی ، شاپنگ کے لیے بیرون ملک جاتی۔ وہ مجھ جیسے دوٹکے کے لڑکے سے کیوں بیاہ کرتی۔” بے اختیار مریم کی نگاہیں اٹھیں اور عالمگیر کے چہرے پر رک گئیں۔ یہ نگاہیںکہہ رہی تھیں کہ اپنے آپ کودو ٹکے کا مت کہو۔ عالمگیر نگاہوں کا یہ مفہوم سمجھ گیاتبھی تو مسکرایا۔
”اسے میری ڈاڑھی پر بھی اعتراض تھا۔ مولوی کہہ کر مجھے پکارا اور یوں مولوی کہا جیسے مولوی نہ کہا ہو کوئی گالی دی ہو۔” اب کے بار خاموشی چھا گئی اور یہ خاموشی طول پکڑنے لگی۔
”اور پھر وقت گزر گیا۔ اتنا وقت گزر گیا کہ مجھے یاد ہی نہ رہا ۔ میں اٹھارہ سے اٹھائیس کا ہوگیا ہوں۔ اب وہ قصہ یاد کے سمندر میں اپنی شناخت تک کھو تا جارہا ہے۔ تو اے میری زندگی بھر کی ہمسفر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وقت بہت بڑا مرہم ہوتا ہے۔ ہر زخم مند مل ہوکر رہتا ہے۔ تم بھی بھول جاؤ گی اور اگر میری محبت کو جلد قبول کرلو گی تو زخم مندمل ہونے میں زیادہ وقت نہ لگے گا۔”
مریم کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ عالمگیر آگے بڑھا اور اس کا سر سینے سے لگالیا۔
”بس اب مزید مت رو ؤ۔ اس نکاح کے دو بول نے مجھے تمہارا ایسا اسیر کیا ہے کہ تمہارے آنسو میرے دل پر گرتے ہیں۔” عالمگیر مریم کا سر سہلا رہا تھا۔ مریم کے آنسوؤں میں کمی نہیں شدت آگئی اور ان آنسوؤں کی نمی میں کئی دکھ بھی بہتے جارہے تھے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

میزانِ بریّہ — راؤ سمیرا ایاز

Read Next

نیل گری — افتخار چوہدری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!