”گھر بن جائے گا۔اور پھر مریم کا بھی تو ہے۔”مریم کا ذکر شروع ہوا بھی تو کیسے۔
”بہت خوب۔” زینت معنی خیز انداز میں مسکرانے لگی۔
”میں تو سمجھتی تھی کہ لاڈلا مریم کو پسند کرتا ہے۔ یہ تو اب عقدہ کھلاہے کہ جناب کی نظر مریم کے گھر پر ہے۔” زینت نے پینترا بدلا۔ اس نے پینترے ہی بدلنے تھے بس بیٹے کے ارادے اور فیصلے کی دیوار میں دراڑیں ڈالنی تھیں۔ چاہے جیسے بھی ۔
”امی ایسی بات نہیں ہے آپ کیا کہہ رہی ہیں۔”
”ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں ۔ بلال میں ماں ہوں۔ تمہارا بھلا چاہتی ہوں اور اگر تم مجھے خیر خواہ سمجھتے ہو تو مریم کو اپنی بیوی کے روپ میں دیکھنے کے خیالوں سے دور رہو۔ چاہے تمہیں مریم پسند ہے یا اس کی وراثت!”
”امی لیکن میں…”
”بات درمیان میں مت کاٹو اور دھیان سے سنو۔ شادی کرنے کے لیے عمر پڑی ہے، پہلے کچھ کما لو۔ ابھی شادی کرلی تو ساری زندگی سائیکل کے پیڈل مارنے پڑیں گے۔ گاڑی تو دور کی بات موٹر سائیکل تک نہ خرید پاؤ گے۔ اس سال شادی اگلے سال بچہ ۔ دوسرے سال دوسرابچہ اور پھر بچوں کے نہ ختم ہونے والے اخراجات…”
”امی اللہ مسبب الاسباب ہے، وہ وسیلہ بنائے گا۔ آپ ایسا کیوں سوچتی ہیں۔”
”جو سوچتی ہوں ٹھیک سوچتی ہوں۔ جوانی میں بس اللہ کا مسبب الاسباب ہونا ہی یاد رہتا ہے۔ ظاہری اسباب کے متعلق کوئی نہیں سوچتا اور جب وقت گزرتا ہے تو صرف پچھتاوے ہی دامن گیر رہتے ہیں۔”
”مریم بھی پڑھی لکھی ہے۔ سکول میں تو ویسے بھی پڑھاتی ہے، مل جل کر کما لیں گے۔”
”بہت خوب تو میرا بیٹا عورت کی کمائی سے گھر چلائے گا۔ ارے میں نے ایسے مرد کو جنم دیا ہے جو عورت کی کمائی پر بھروسا رکھتا ہے۔”
”امی…” بلال ہکا بکا ماں کو تکنے لگا۔ کہنے کو جیسے الفاظ ختم ہوگئے تھے۔
”دیکھو بلال میں پھر سے کہتی ہوں۔ مجھے خیر خواہ جانو اور اپنی زندگی کے فیصلے مجھے کرنے دو۔ ایک ماں اپنے بیٹے کے لیے ہمیشہ اچھا ہی سوچتی ہے۔ ابھی شادی کا خیال چھوڑدو۔ نسیم کو مریم لے جانے دو۔ ارے خرانٹ سی لڑکی ہے۔ ساری زندگی تمہیں نان خطائی اور گول گپوں کی فرمائشوں میں پھنسائے رکھے گی۔خود کمائے گی بھی تو اپنی مٹھی میں رکھے گی۔ میں یہ بھی جانتی ہوںمیرا بیٹا اسے دل سے پسند کرتا ہے، مگربیٹا جوانی کی پسندیدگیاں اتنی معتبر نہیں ہوتیں۔ چند سال گزریں گے تو یہ سب بچپنا لگے گا۔” زینت ماں تھی اور بلال بیٹا۔ ماں نے بیٹے کو سمت دکھائی۔ بیٹا ہچکچایا، لڑکھڑایا۔ ماں کو منع بھی کرنا چاہا، مگر ماں دلیلوں سے سمجھاتی رہی، ہمت بندھاتی رہی اور بیٹا چل پڑا۔ اس راہ پر مریم نہ تھی کہ زمانے کے دستور بھی نرالے تھے، نرالے ہیں اور نرالے رہیں گے۔
یوں اگر دیکھا جائے اور ظاہری اسباب پر ہی بات کرلی جائے تو مریم بلال کے لیے برابَر ہرگز نہ تھی۔ چار مرلے کا مکان اور دکان ان دونوں بہنوں کے ورثے میں تھی اور حمیرا جتنے امیر لوگوں میں بیاہ کر گئی تھی ممکن تھا کہ وہ اپنے حق سے دستبردار ہوجاتی۔ چند سال میں بلال نے کون سے تیر مارنے تھے جو اب تک نہیں مارے جاسکے، مگر وہ کیا ہے نا بلقیس اور زینت کا ہمیشہ روایتی نند اور بھاوج کا رشتہ رہا تھا۔ (گو کہ اس کے روایتی ہونے میں بھی زینت کا ہاتھ تھا) اب وہ بلقیس کی بیٹی کو ہمیشہ کے لیے اپنے سر پر مسلط نہیں کرسکتی تھی۔ خواہش تو تھی کہ یہ شان والا عالمگیر ان کی رابعہ کا حقدار بنے۔ اشاروں میں نسیم سے کہا بھی (نسیم سے اگر قدرے اچھے تعلقات رہے تھے تو اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ دور کی نند چند دن کے لیے آتی تو وہ برداشت کرلیتیں) مگر نسیم نے میرے عالمگیر کو مریم پسند ہے ‘ کہہ کر بات ہی ختم کردی۔
مریم پسند ہے تو لے جائیں اس مریم کو ہونہہ…
٭…٭…٭
”تم نے شادی کا وعدہ کیا تھا۔”
”میں نے وعدہ کبھی نہیں کیا تھا۔”
”تو پھر اس دن جب ہم باغ میں پھولوں کے درمیان کھڑے تھے اور تم نے میرے بالوں میں اٹکے گلاب کو چھوکر مجھے سراہا تھا۔”
”ایسا کب ہوا تھا؟ مجھے یاد نہیں ۔” بلال نے کندھے اچکائے۔ تکلیف کے مارے مریم کے آنسو نکل پڑے۔ بلال کو یاد بھی کیسے ہوسکتا تھا یہ تو اس نے خواب میں دیکھا تھا۔
”تم نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے سمندر دکھاؤ گے۔”
”میں نے وعدہ کبھی نہیں کیا تھا۔” بلال نے سب سے پہلے تصحیح ضروری سمجھی۔
”زبان سے کہا وعدہ ہی ہوتا ہے۔”
”تم عالمگیر کے ساتھ سمندر دیکھنے جاسکتی ہو۔ کراچی میں رہتے ہوئے بھلے سے روز سمندر جانا۔”
عالمگیر کہاں سے آگیا تھا۔ مریم کے رونے میں اور تیزی آگئی اور وہ بلال جو کبھی مریم کے بے وجہ رونے پہ تڑپا کرتا تھا۔ آج جیسے بے حس کھڑا تھا۔
”گول گپے اور نان خطائی۔” مریم نے یاد دلانا چاہا۔
(امی ٹھیک ہیں کہتی ہیں۔ بیکار کی فرمائشوں میں الجھائے رکھے گی۔) بلال نے سوچنے پر اکتفا کیا ، کہا نہیں۔
”تم نے کہا تھا جب ہم بوڑھے ہوجائیں گے تو سائیکل پر بٹھا کر مجھے سیر کراؤ گے۔”
”یہ میں نے نہیںتم نے کہا تھا۔”
”بلال!” مریم نے کرب سے پکارا تھا، مگر بلال سن کر بھی بہرہ رہا۔
”بڑھاپے میں بھی اپنی بیوی کو سائیکل پر گھماؤں تو جیسے زندگی ہی ضائع کی۔ یہی بات تو سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں۔ عالمگیر جاب ہولڈر ہے ، اچھا کما رہا ہے۔ میرے پاس تو ابھی کچھ بھی نہیں۔ میں ابھی شادی افورڈ نہیں کرسکتا۔” بلال نے ٹھنڈے لہجے میں سمجھانے کی کوشش کی۔
”رات کو جب ہم چھت پر ملے تھے تم نے کہا تھا کہ شادی کے بعد…” مریم جیسے سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
”رات کو چھت پر آنے والی لڑکی سے میں کیسے شادی کرسکتا ہوں۔” باتوں اور دلیلوں سے نہیں سمجھتی تو یوں ہی سہی۔
اور مریم جو زمیں اور آسمان کے درمیان کہیں معلق تھی اسے لگا جیسے اسے زمین پر دے مارا گیا ہو اور زمین پر دے مارنے والا کوئی اور نہیں بلال ہی تھا۔
”کیا بلال یہ بھی کہہ سکتا ہے۔” اپنا وجود گھسیٹتی وہ نیچے سیڑھیاں اترتی گئی۔ نیچے صحن میں کھڑی زینت جس نے ان دونوں کی اس ملاقات کے لیے حالات کو سازگار کیا تھا۔ مریم کو آنسو بہاتے سیڑھیاں اترتے دیکھا تو سکھ کا سانس لیا۔
”میرابیٹا۔” زینت مسکرا دی۔
گھر سے باہر بوہڑ پر اسی سمے لینڈ کروز رکی۔ ملک زاہد پہلی بار اپنی بیوی کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کو ملنے آئے تھے۔
”چوبیس پیٹیاں ہیں اور سامنے بارہ گھر۔” ملک صاحب نے ملازم کو سمجھایا۔ گلی میں حمیرا کے رشتہ داروں کے بارہ گھر تھے۔”ہر گھر میں دو دو پیٹیاں دے دو۔” ملک زاہد اپنی بیوی کے رشتہ داروں کے ہاں خالی ہاتھ تو نہیں آسکتے تھے اسی لیے آموں کی پیٹیاں بطور سوغات لے آئے۔
اور ان کے ساتھ آئی حمیرا جو کبھی صرف حمیرا ہواکرتی تھی اور سوئی دھاگے میں الجھ کر سارا دن گزار دیا کرتی تھی۔ اب ملکانی حمیرا بیگم تھی،نے شان سے قدم گاڑی سے اتارے ۔ گوکہ مامون ماموں کا گھر گلی کے آخری طرف سے دوسرا تھا۔ مگر اس نے سب سے پہلے اُدھر کا ہی رخ کیا۔
٭…٭…٭
ملک زاہد کو ساڑھیاں بڑی پسند تھیں۔ ٹی وی اور اخباروں پر سیاسی معززین کی بیگمات کو ساڑھی زیب تن کیے دیکھتے تو دل میں خواہش ابھرتی کہ ان کی زوجہ بھی ساڑھی کو ملبوس بنائے مگر عقیلہ سیدھی سادھی دیہات کے ماحول میں رہنے والی عورت تھی۔ وہ ایسا کوئی کام نہ کرتی جو اس کے آس پاس کی خواتین نہ کریں ۔ چنانچہ ملک صاحب کی فرمائش کے باوجود اس نے کبھی ساڑھی نہ پہنی ہاں البتہ حمیرا کی بری کے لیے کئی ساڑھیاںبنوائیں۔
اور جب حمیرا ست رنگی ساڑھی میں ملبوس ان کے سامنے آئی تو وہ بے اختیار سراہ اٹھے۔ اور اب ملکانی حمیرا بیگم اسی ساڑھی میںملبوس ساتھ بیٹھی بہن کو آنسو بہاتے دیکھ رہی تھی اور وہ مریم جو بہن کے لبوں سے ہمدردی کے دو بول سننے کے انتظار میں تھی کا انتظار ختم ہی نہ ہوا اور اسے خود ہی بولنا پڑا۔
”میں کیسے اس شہر کو چھوڑ کے جاؤں ۔ یہاں کی فضا کی اپنائیت مجھے کہیں نہ جانے دے گی۔”
”جہاں جاؤ گی یہ اپنائیت خود بخود فضا میں پھیلتی جائے گی اور یہاں رہنے کی کوئی وجہ بھی تو نہیں ۔ زینت ممانی نے رہنے کو جگہ تو دے دی۔ باقی گیارہ گھروں نے جھوٹے منہ بھی پیش کش ہی نہیں کی۔اب جب کہ بلال نے بھی انکار کردیا ہے، تو اب کوئی جواز نہیں ۔ کراچی میں تم اچھی زندگی گزاروگی۔” آنکھوں میں آنسو لیے مریم نے بہن کو شکایتی نظروں سے دیکھا اور حمیرا اس شکایت کو ملحوظ خاطر نہ لائی۔
”اچھا اٹھو ذرا سلطان چچا کے گھر چلیں۔ شبانہ بھی سسرال سے آئی ہے۔ اس نے پیغام بھیجا ہے۔ ” زاہد خود تھوڑی دیر بعد بیٹھ کرجلال پور میں اپنے دوستو ں سے ملنے چلے گئے۔ دو تین گھنٹوں تک واپس آتے تو حمیرا کو ساتھ لے جاتے۔
سلطان چچا کے گھر وہ جانا تو نہیں چاہتی تھی، پر حمیرا کے اصرار پر ٹک نہ پائی۔
وہاں چچا کے گھر روز کے معمول کا سماں تھا۔ چچی، شبانہ اور فرزانہ تینوں ایک کمرے میںبیٹھی تھیں۔ فرزانہ چائے بنا کر لائی تو ایک کپ اضافی تھا۔
”سجاد بھائی کی طبیعت ناساز تھی اس لیے وہ آج کام پر نہیں گئے۔” وہ کپ لیے ساتھ والے کمرے میں چلی گئی۔
”سجاد۔” ایک خیال بجلی کی کوند سا ذہن میں چمکا اور وہ بیت الخلا کا بہانہ کرتی باہر آئی اور سجاد کے کمرے کا رخ کیا۔ بنیان اور شلوار میں ملبوس سجاد پاؤں جھلاتے ہوئے گنگنا رہا تھا۔ ناسازی طبیعت کے آثار تو کہیں نہیں تھے۔
”آئیے جناب ۔” سجاد مسکراتا اٹھ بیٹھا۔
”تم بھی تو مجھے پسند کرتے ہو۔”
”بھی۔” سجاد کی مسکراہٹ میں معنی خیزی آن ٹھہری۔
”تو مجھ سے شادی کرلو۔” دروازے کی چوکھٹ میں کھڑی مریم کی عقل پر جیسے پتھر پڑے تھے۔ کیسے بے مول ہوا جاتی تھی۔
”شادی!” مسکراتے ہوئے سجاد بنیان سے جھانکتے اپنے سینے کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔
”شادی تو نہیں کرسکتاہاں البتہ رات گزار سکتا ہوں۔ تم لوگوں کا گھر خالی پڑا ہے نا ۔ آج رات کا ہی پروگرام بنا لو…..” وہ سجاد نہیں شیطان تھا جو سجاد کا روپ دھارے کھڑا تھا۔
گالوں پر گرم سیال لڑھکا تو مریم کو احسا س ہوا کہ آنکھیں پھر سے آنسو بہا رہی ہیں۔
شہر نہ چھوڑنے کی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہوکر کیسی کیسی ذلت اٹھالی تھی کہ آج یہ سننا پڑگیا۔
خود کو دھکیلتی وہ دوبارہ ملکانی حمیرا بیگم کے پہلو میں آبیٹھی۔
”مجھے نہیں پتاتھا کہ ساڑھی میں عورت اتنی خوبصورت لگتی ہے۔ مریم کے جہیز کے لیے دو تین ساڑھیاں تو بنواؤ ں گی۔” حمیرا بیگم کہہ رہی تھی۔
”لو حمیرا تمہاری شادی سے ہمارے بھی مزے ہوگئے۔ ملک صاحب کے باغو ں کے آم تو اب ساری زندگی کھانے کو ملتے رہیں گے۔” چچی کہہ رہی تھیں۔
”چچی یہ تو اب آم ختم ہونے کا موسم ہے ورنہ زیادہ پیٹیاں لے آتے۔ ملک صاحب ہر سال رشتہ داروں کے لیے ایک باغ مخصوص رکھتے ہیں۔” حمیرا ملک صاحب کی امارت و سخاوت کے قصے سنا رہی تھی۔
٭…٭…٭
حمیرا کی شادی تو جتنی سادگی سے ہوسکتی تھی ہوئی مگر مریم کی شادی پر بہت زیادہ نہ سہی مگر اہتمام کیا گیا اور اہتمام کرنے والی اور کوئی نہیں حمیرا ہی تھی۔
وہی گھر جہاں ان بہنوں نے آنکھیں کھولی تھیں۔ سارا بچپن ہنستے کھیلتے، روتے جھگڑتے ، روٹھتے مناتے گزارا تھا۔ وہی گھر جہاں لڑکپن کی دوستی (جو دور سے دشمنی ہی لگتی) پروان چڑھی تھی۔ وہی گھر جہاں سے یکے بعد دیگرے ان کے پیاروں کے جنازے اٹھے تھے۔ ماں باپ کے جنازے۔ آج اسی گھر کے ایک کمرے میں مریم دلہن بنی بیٹھی تھی۔
سرخ عروسی لباس نسیم نے کراچی سے منگوایا تھا۔ ستاروں کی بیلوں سے کڑھا لباس…
”کچھ سادہ سانہیں ہے۔” حمیرا نے دیکھا تو کہا ۔ ابھی عرصہ ہی کتنا ہوا تھا کہ ہاتھ سے فریم اور دھاگے الگ ہوئے تھے۔ اس کے اندر کی کشید کار خاتون چپ نہ رہ سکی اور اس کا تجزیہ محض تجزیہ تھا۔ طنز یا کسی بھی اور جذبے کی رمق نہ تھی۔ نسیم نے برا نہ منایا ۔ البتہ اسے بھی وہم لاحق ہوگیا کہ عروسی لباس اتنا سادہ نہ ہو۔ بہت سوچ بچار کے بعد زینت کے ہمراہ وہ بازار گئی اور سنہری گوٹے لے آئی اور یہ گوٹے دوپٹے کے پلو اور قمیص کے گھیرے پر لگادیے۔ لباس کچھ جھلمل کرنے لگا تو تسلی ہوئی۔
کمرے میں مر یم یوں ساکن بیٹھی تھی جیسے مجسمہ ہی ہو۔ دروازے پر کھٹکا ہو ا تو اس نے مڑ کے دیکھا۔ آنے والی حمیرا تھی۔ ساڑھی کا پلو سنبھالے سونے کے خوبصورت اور قیمتی زیوارت میں سجی سنوری۔
”لو آج تم چلی جاؤ گی۔ پھر جانے کب ملاقات ہو۔ یہ خبرمیں پوری تسلی کے بعد ہی بتاتی، مگر تم نے اب کہاں ہونا ہے یہاں۔”
ہا ں اب اس نے کہاں اس شہر کی آب و ہوا میں سانس لینا ہے۔ کتنی اس نے چاہت کی اس شہر میں ٹک پائے مگر شہر بے وفا نے اجازت ہی نہ دی اور آج وہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہورہی تھی۔
”یقین تو نہیں پر لگتا ہے میں امید سے ہوں۔”حمیرا خوش ہوکر بتارہی تھی۔
”وہ میری سوت عقیلہ ہے تو دن میں دوبار پوچھ لیتی ہے، مگر میں نے ابھی اسے بھی نہیں بتایا۔” کیسے وہ ماحول میں ڈھل گئی تھی اور ایک مریم تھی دلہن بن کر بھی ایسے لگ رہی تھی جیسے ماتم منا رہی ہو۔