نبھانا — نعمان اسحاق

غازی پور شہر جلال پور کا ایک موضع تھا۔کئی گاؤں اس موضع سے ملحق تھے اور ملک زاہدوہاں ایک جانے مانے زمیندار تھے۔ ایک زمانے میں بھارت کے آم دنیا بھر میں مشہور تھے، مگر رفتہ رفتہ ملک گیر سطح پر ان کے باغات پرفروٹ ملائی نے حملہ کردیا۔ مناسب لائحہ عمل نہ تیار ہوسکااور نتیجتاً بھارت کے آم کی چاہت عالمی سطح پر کم ہوتی گئی اور اس کی جگہ پاکستان کا آم لیتا گیا۔
مغربی دنیا میں تو اب پاکستان کا آم خاص طور پر منگوایا جاتا ہے اور پاکستان کے آموں میں ملتان کے آم کی الگ ہی شہرت تھی۔ ذرا علاقائی سطح پر آئیں تو ملتان میں جلال پور اور غازی پور کے آم جیسا کسی اور علاقے کا آم نہ سمجھا جاتا اور غازی پور میں کہا جاتا۔
”جو ذائقہ اور مٹھاس ملک زاہد کے باغوں کے آم کی ہے۔ پورے علاقے کے کسی آم کے باغ میں وہ ذائقہ اور مٹھاس نہیں۔”
خود ملک زاہد بھی اپنے باغات کے آموں کی طرح شیریں لہجہ تھے۔ گھر والے ان کی نرم دلی کے معترف تھے۔ خدمت گار، مزارعے اور ماتحت ان کی رحمدلی سے خو ش تھے۔ شومئی قسمت خدا نے آنگن میں پھول نہ کھلایا۔
بہن بھائیوں کے بچے جوان ہوگئے اور ان کے گھر میں کوئی نعمت یار حمت نازل نہ ہوئی۔ کمی عقیلہ میں ہی تھی اور ملک صاحب نے زوجہ کے علاج میں کوئی کسرنہ چھوڑی تھی، مگر وہی خدا کی مرضی کے سامنے انسان کی بے بسی کا قصہ…
ماں تو کتنے سالوں سے دوسری شادی کامشورہ دے رہی تھیں۔ اب تو باقاعدہ ناراض ہی رہتیں کہ ساری دنیا کے مرد اولاد کے لیے دوسری شادی کرتے ہیں تم بھی کرلو، مگر وہ اپنی پیاری بیوی کے دل کو رنج پہنچانے کی ہمت نہ پاتے تھے اور ایک دن عقیلہ نے خود ہی ہمت بندھادی۔
”ایک بات مانو گے۔”
”جی ملکانی صاحبہ آپ حکم کریں۔” دونوں میاں بیوی ایک ہی مسہری پر لیٹے تھے۔ عقیلہ نے دائیں ہاتھ کے پیالے کو گال پر اٹکایا اور رخ شوہر کی طرف موڑا۔
”پندرہ سال شادی کو ہوگئے۔ ایسے کل کی بات لگتی ہے۔” عقیلہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی۔ واقعی کل کی بات لگتی تھی۔
”اور میں آپ کو ایک خوشی نہ دے سکی۔” ملک صاحب کو زوجہ کی آوازبھیگی سی لگی۔ انہوں نے رخ موڑ کر دیکھا۔ عقیلہ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
”یوں کیوں سوچتی ہو۔ میں خوش ہوں۔” انہوں نے ہاتھ بڑھا کرعقیلہ کے آنسو پونچھے۔
”خوشی ہونہہ! سر کے بال تو ایک طرف اب تو ڈاڑھی اور مونچھ میں بھی سفید بال جھلکنے لگے ہیں۔”
”سفید بال؟” وہ ہنسنے لگے۔
”یہ تو میری شان بڑھاتے ہیں۔”
”اصل شان تو بیٹے بڑھاتے ہیں۔ بیٹے تو ایک طرف میں آپ کو اولاد ہی نہ دے سکی۔”





”یوں کیوں سوچتی ہو۔ علاج تو چل رہا ہے۔ اللہ کی مرضی ہوئی تو ہمارے آنگن میں بھی قلقاریاں گونجیں گی۔” عقیلہ کے ساتھ ساتھ وہ خود کو بھی تسلی دے رہے تھے۔
”آنگن میں قلقاریاں گونجیں اس کا ایک اور طریقہ بھی تو ہے۔”
”کیا مطلب؟” ملک صاحب کا دل الگ لے پر ہوا۔
”نئی ملکانی لے آئیں۔” جواباً زاہد چپ چاپ عقیلہ کو دیکھتے رہے، بنا پلک جھپکائے ۔ یہ بات تو پچھلے ڈیڑھ سال سے وہ خود بھی سوچ رہے تھے۔ جو کچھ بھی تھا بے اولادی چھوٹاروگ نہ تھا۔
”نہیں!” انہوں نے کہنا چاہا، مگر منہ سے اور ہی الفاظ نکلے ۔ وہ الفاظ جو دل میں اٹکے تھے۔
”تمہیں برا لگے گا۔” عقیلہ مسکرادی۔
”برا کیوں لگے گا۔ آپ کے لیے چھوٹی عمر کی دلہن لے آؤں گی۔ بہنیں بن کر رہیں گے۔ باجی بن کر رعب جھاڑا کروں گی۔” آنکھ میں پانی تھا اور ہونٹ مسکرارہے تھے۔ جانے ہنستے ہوئے آنکھوں میں پانی اکٹھا ہوا تھا یا پھر اور ہی پانی تھا۔
اور پھر نئی ملکانی ڈھونڈنے کی مہم شروع ہوئی۔
صالحہ، عنبرین، نائلہ ، صفیہ، حمیرا۔
اور حمیرا دل کو بھا گئی۔
سیدھی سادھی حمیرا۔ با پ کا برسوں پہلے انتقال ہوچکا تھا۔ ماں کو فوت ہوئے تین ماہ ہی ہوئے تھے۔ماں زندہ تھی تو اپنے گھر میں رہتے ، ا ب ماموں کے گھر میں اپنی بہن کے ساتھ رہتی تھی۔ جلال پور شہر میں ایک بند گلی میں سارے انہی کے رشتہ دار تھے۔ سارے ہی بھلے لوگ۔
یہی لڑکی ملک صاحب کو اچھا وارث دے سکتی تھی۔ عقیلہ بھی اس کی سادگی سے مطمئن ہوئی کہ یہ نہ ہو کہ نئی آنے والی اسے ہی گھر سے باہر نکال کھڑا کرے۔ ماں باپ تو بے چاری کے حیات نہ تھے۔ماموؤں اور چچاؤں کو شادی کی جلدی تھی اور یہاں کون سی ملک زاہد کی چاہتوں ارمانوں والی شادی تھی۔ لڑکی کے چچا ماموں نے جلدی کہا اور ان لوگوں نے بھی حامی بھرلی۔یوں نکاح کے لیے تاریخ پکی ہوگئی۔
15 اگست…
پندرہ اپریل کو بلقیس کا انتقال ہوا۔ ٹھیک چارماہ بعد پندرہ اگست کو حمیرا کی ماموں مامون کے گھر سے رخصتی۔ بس مامی شوہر کی بھانجی کو اس سے زیادہ گھر میں نہیں بیٹھا سکتی تھی۔ ان کا بلال پہلے ہی مریم پر لٹو تھا۔ خدانخواستہ فرقان بھی اس کے نقش قدم پر چل پڑتا تو…
حمیرا کی رخصتی سادگی سے ہوئی۔ واحد تیاری جو تیاری کہی جاسکتی تھی۔ وہ تھی حمیرا کی تیاری۔ دلہن بنی ، لاکھوں میں ایک لگتی اور دلہن کے پہلو میں بیٹھے دلہا صاحب۔
”لو دلہا تو اچھا خاصا ہے، عمر میں بڑا سہی مگر پچاس کا تو نہیںلگ رہا۔” یہ تبصرہ سرعام تھا۔
اور رخصتی کے بعد جب بڑے سب اکٹھے بیٹھے تھے ۔ تب نسیم گویا ہوئیں۔
”اپنی زندگی میں تو بلقیس نے حامی نہ بھری کہ بیٹی کو اتنا دور نہ بھیجوں گی پر کون جانتا تھا میری بہن عمر کم ہی لکھوا کرآئی تھی۔” نسیم کی عینک کے شیشے آنسوؤں سے دھندلے ہورہے تھے۔ انہو ں نے عینک اتار کر دوپٹے کے پلو سے شیشوں کو صاف کیا۔
”اور جب بلقیس ہی نہ رہی تو دور اور نزدیک کا سوال ہی کیا رہا۔ مریم مجھے دے دیں۔ میرا عالمگیر اسے پسند کرتا ہے۔” سب خاموش بیٹھے رہے اس سے پہلے خاموشی طول پکڑتی زینت بولی۔
”باجی آپ کی امانت ہے۔ جب چاہیں لے جائیں۔ جمعہ سادگی سے نکاح اور مریم آپ کی ہوئی۔ وہیں کراچی میں دھوم دھام سے ولیمہ کیجیے گا۔ سارے رشتہ دار آئیں گے۔” دروازے کے پار کھڑی مریم نے اپنی زندگی کے فیصلے سنے اور ششدر رہ گئی۔ ششدر تو وہ پہلے ہی سے حمیرا کے کیے گئے فیصلے پر بھی تھی پر اب تو کوئی کمی نہ رہی تھی۔
مگر وہ حمیرا کی طرح نہ تھی۔گم صم چپ چاپ بڑوں کے الٹے سیدھے فیصلوں پر سر جھکانے والی۔ یہ اس کی زندگی تھی اور زندگی ایک بار ملتی ہے اور وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرے گی۔دروازہ پار کرکے وہ اندر آئی۔ اور کھنکھار کر سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
”نہیں خالہ! میں اتنی دور نہیں جاؤں گی۔ میں جلال پور ہی رہوں گی۔” اور بلال سے شادی کروں گی یہ تو نہیں کہہ سکتی تھی، بلال ہی بات کرتا۔ وہ ویسے بھی جلال پور چھوڑ کے کیسے جاسکتی تھی۔ یہاں اس نے اپنا سارا بچپن گزارا تھا۔ ماں باپ بہن سے وابستہ یادیں تھیں۔ وہ گھر جہاں اس نے باپ کی گود میں بیٹھ کر فرمائشیں کی تھیں اور چھت پر جانے پر ماں سے بارہا بار ڈانٹ سنی تھی۔ اب تک کی زندگی یہاں گزاری تھی تو آگے کی زندگی بھی یہیں گزارے گی۔ یہاں کے گول گپے، بیکری سے ملنے والی خطائی بسکٹ ، بوھڑ والی مسجد کے امام کی مسحور کن آواز۔
اور…اور…اور بلالچ
سارے میں ایک بار پھر خاموشی چھاگئی۔ خاموشی سی خاموشی تھی۔ بڑے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ کیا کہا جائے۔ اس سے پہلے نسیم سمجھانے کے لیے کچھ بولتیں۔ خاموشی کو زینت کی آواز نے توڑا۔ وہ آواز نہیں تھی گویا پھنکار تھی۔
”بے حیا ، چچا ماموں کے سامنے یوں منہ کھولتے ہوئے شر م نہ آئی۔ بلقیس نے یہی تربیت کی ہے۔” مریم کو کانوں سنے پر یقین نہ آیا۔ کیا واقعی زینت ممانی نے اسے بے حیا کہا تھا اور امی مرحوم کی تربیت پر حرف اٹھایا تھا ۔ وہ سن سی کھڑی رہ گئی۔
٭…٭…٭
بلال ابھی کہاں اس قابل تھا کہ شادی کرتا۔ پرانی سائیکل پر شہر گھومتا۔ باپ اور بھائی کے ساتھ دکان پر بیٹھتا، ا ن کا ہاتھ بٹھاتا۔ گوکہ مامون اب تھکنے سے لگے تھے اور ہڈیاں اب آرام کی خواہش مند ہوتیں، مگر دو بیٹے اور دونوں بیٹے کاروباری اسرار ورموز سے نابلد۔ اپنا جما جمایا کاروبار فرقان اور بلال کے بھروسے چھوڑتے تو لڑکے یقینا دیوالیا نکال چھوڑتے۔ اسی لیے تو ابھی دکان پر خود بیٹھتے اور اپنا تجربہ بیٹوں کو سونپتے رہتے۔ حالانکہ کوئی ایسا بڑا کاروبار بھی نہ تھا۔ بازار میں پرچون کی دکان تھی بس مگر ہر دکاندار کی طرح جو اپنی ساری زندگی دکان کو دیتے ہیں۔ دکان کے ساتھ اپنا تجربہ بھی بیٹوں کو منتقل کرنا چاہتے تھے۔
بلال یہی کوئی سال بھر تو بڑا تھا مریم سے۔ دونوں مختلف سکولوں میں ایک ہی سال کے طالب علم تھے۔ بلال چھوٹاتھا تو مامون نے ہر باپ کی طرح بیٹے کو مستقبل میں ڈاکٹر ‘ انجینئر اور فوجی بنانے کا خواب دیکھاتھا، مگرشومئی قسمت کہ میٹرک اور ایف اے بھی سپلیمنٹری کے ساتھ پاس ہوتے ”بی اے” میں تو اس نے داخلہ نہ لیا اور باپ کے ساتھ دکان پر بیٹھنا شروع کردیا کہ ”اپنے کاروبار کی الگ ہی شان ہوتی ہے۔ بندہ اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے۔”
ہر کاروبار ی دکاندار بندے کا یہی نقطئہ نظر ہوتا ہے۔
مریم اچھی لگتی تھی ‘ اب سے نہیں بچپن سے اور اب تک کی ساری زندگی مریم کو ہی اپنی دلہن بنانے کا خواب اپنی آنکھوں میں بسایا تھا لیکن…
اور اس لیکن کے آگے جیسے دنیا تھم گئی تھی۔
”بہن تمہاری ہونٹ کٹی ہے۔ اس سے پہلے تم دونوں کی شادی نہیں کروں گی۔ شادی کے بعد بیویوں کے ہوجاؤ اور بہن کو گھرکا کاٹھ کباڑ سمجھ کر گھر کے کونے میں پھینک کر بھول جاؤ۔ نا بابا نا۔” یہ بات تو زینت برسوں سے کہتی آئی تھی اور اتنی بار کہہ چکی تھی کہ لڑکے جب کبھی اپنی شادی کا سوچتے تو یہی سوچتے کہ پہلے رابعہ کی شادی پھر ہماری شادی۔
بلقیس پھپھو کی اچانک موت اور حمیراکی جھٹ پٹ شادی۔ مریم کے لیے بھی فکریں۔ بلال تو دل تھام کر رہ گیا۔ یہ نہیں ہوسکتاتھا کہ منہ دیکھتا رہ جائے اور مریم کسی اور کے نام کی ڈولی میں بیٹھ کر ہمیشہ کے لیے پرائی ہوجائے۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ اور اوپر سے کراچی والی نسیم پھو پھو کا اس مولوی عالمگیر کے لیے بڑھتا ہوا اصرار ۔
بالکل بھی نہیں….
اسی لیے تو اس نے موقع ملتے ہی ماں سے بات کی۔
زینت برآمدے میں تخت پر بیٹھی کچھ ایسے بے دردی سے کریلے چھیل رہی تھیں کہ دل زینت کو ٹوکنے کی خواہش کرتا۔
”امی آپ سے خاص بات کرنی ہے۔” بلال ماں کے سامنے تخت پر آبیٹھا۔
زینت کے ہاتھ لمحہ بھر کو رکے اور اس نے ایک تیز نگاہ بلال پر ڈالی۔ لمحے بھر کو بلال گڑبڑاگیا۔
”کیا ساری زندگی سائیکل پرگھومنے کا ارادہ ہے۔” ا س سے قبل کہ بلال کچھ کہتا زینت نے بات شروع کی۔
”جی جی نہیں۔” بلال اٹکتے ہوئے بولا۔
”تو پھر بڑے دو کو چھوڑ کر تجھے کیسے بیاہ دوں۔ چلو ایک دفعہ میں یہ فرض نہیں بھی کرتی کہ تم رابعہ کو نہیں بھولو گے اور بہن کی اچھی جگہ شادی کروگے، مگر کیا خود دونوں بھائی ساری زندگی اس چارمرلے کے گھر میں گزارا کروگے۔ چار مرلے کا گھر آدھا ، آدھا کرو تو فرقان اور تمہارے حصے میں دو دو مرلہ آتا ہے۔ یہ بھی اس صورت میں کہ رابعہ اور میرا حصہ نہ نکالا جائے۔” زینت کا لہجہ تند تھا۔




Loading

Read Previous

میزانِ بریّہ — راؤ سمیرا ایاز

Read Next

نیل گری — افتخار چوہدری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!