نبھانا — نعمان اسحاق

دروازے کے کواڑ وا ہوئے۔ بہت سے رشتہ داروں کے جھرمٹ میں نسیم اور عالمگیر کھڑے تھے۔
”اچھا تو عزیزو! زندگی باقی رہی توپھر ملیں گے۔ اپنے بچوں کی شادیوں پر مجھے بلانا۔” نسیم نے بہن بھائیوں اور بھابھیوں کے جھرمٹ پر الوداعی نظر ڈالی۔ ساتھ کھڑی بھتیجی جس کی عمر ایسی نہ تھی کہ گال پر چٹکی بھری جاتی، مگر نسیم نے چٹکی بھری، چہرے پر نقاب کی جھلی ڈالی اور چوکھٹ پار کرگئی۔ ماں سے ایک قدم پیچھے چلتا عالمگیر لمحے بھر کو رکا، مڑکر دیکھا۔ رشتہ داروں کا جھرمٹ یونہی چوکھٹ میں کھڑا انہیں الوداع کہہ رہا تھا۔ چہرے پر ایک مسکراہٹ سجاکر اس نے بھی ہاتھ ہلایا۔
مریم اس جھرمٹ میں نہیں تھی۔ نہ تو ہوچکی تھی مگر پھربھی دل کو جیسے ایک امید تھی۔ اداس ہوتے دل کو سنبھالتے ہوئے وہ ماں کے ساتھ قدم ملاتا گلی پار کرنے لگا اور اوپر اپنے گھر کی منڈیر سے لگی حمیرا مریم سے کہہ رہی تھی۔
”انہیں رخصت ہوتے دیکھنا تھا تو ماموں کے گھر ہی چلے جاتے۔ یوں منڈیر سے چھپ چھپ کر جاتے ہوئے دیکھنا…” اور مریم جو ایک سوال کے دس جواب دیتی تھی۔ آج کچھ نہ بولی۔ بس مدھم مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائے سیڑھیاں اترنے لگی۔
ادھر مریم سیڑھیاںاتری، ادھر دروازہ دھکیلتی بلقیس اندر داخل ہوئی۔
اس کی دونوں بیٹیاں آگے پیچھے صحن میں ٹہل رہی تھیں۔
اور آنگن میں کنواری بیٹیاں ٹہلتی رہیں ، تو دل کا اطمینان رخصت ہوتا ہے۔
”حمیرا میری بات سنو۔” حمیرا کو اشارہ کرتی وہ اندر آئیں ۔ مریم کو بھی بلقیس کے انداز باور کراگئے کہ جو بھی بات ہے وہ حمیرا سے اکیلے میں کرنا چاہتی ہیں۔ عام حالات میں مریم ماں کو کبھی اکیلے تنہائی میں حمیرا سے بات کرنے نہ دیتی تھی، مگر شاید عام حالات اپنی ڈگر سے ہٹ رہے تھے۔ اس لیے تو وہ بغیر دھیان دیے اپنے خیالوں میں ٹہلتی رہی۔
”تمام بہن بھائیوں میں میری نسیم سے الگ ہی دوستی تھی۔ سارا بچپن اکٹھے گزارا۔ اپنے اپنے گھر کی ہوئیں تو بھی ایک دوسرے کا خیال رکھتیں۔” اندر کمرے میں بلقیس جیسے ماضی میں کھوئی تھیں اور حمیرا سامنے والی چارپائی پر بیٹھی دھیان سے انہیں سن رہی تھی۔
”اور پھر قسمت اسے کراچی لے گئی۔ کراچی یہاں دوسری گلی میں تو نہیں جہاں پاکستان کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں ہے کراچی اور وہ بہنیں جو سوتی بھی اکٹھی تھیں۔ عید کے جوڑے بھی ایک سے پہنتیں، وہ اب ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو ترستی ہیں۔ اس بار نسیم چار سال بعد آئی ہے۔ بہن کی جدائی تو میں نے برداشت کرلی مگر بیٹی تو دل کا ٹکڑا ہے اسے یوں ایک ہزار کلو میٹر دور کیسے بھیجوں۔ میں نہیں بھیج سکتی۔” نسیم اپنی ہی دھن میں کہے جارہی تھی اور حمیرا تائید میں سرہلارہی تھی۔
”مگر اب تم دونوں کی شادیاں ہوجانی چاہئیں۔ یہ امانتیں اپنے گھر کو پہنچیں تو میں بھی سکون سے مرسکوں۔”
”اوہ اماں ایسے کیوں کہتی ہیں۔” حمیرا نے جیسے بات کاٹی۔ تبھی برآمدہ پارکرتی مریم اندرکمرے میں آئی۔
”بلال آیا ہے۔ اس کے ساتھ سارہ کے گھر جارہی ہوں۔”





”کیوں؟” بلقیس کے ماتھے پر خودبخود بل آنے لگے۔
”اماں آپ کو بتایا تو تھا ۔ سارہ کے گھر قل خوانی ہے ۔ ایک گھنٹے میں آجاؤں گی۔” کھونٹی سے چادر اتارتی وہ جانے لگی۔
”بہن کو سمجھا ، بلال کے ساتھ راہ و رسم کم رکھے۔ لڑکا لڑکا ہوتا ہے اور لڑکی، لڑکی۔ چاہے کزن ہی کیوں نہ ہو ایک حد رکھنی چاہیے۔” حمیرا اثبات میں سر ہلانے لگی۔
اور باہر گلی میں سائیکل پر سوار بلال نے ایک بار پھر گھنٹی بجائی۔
”آتو گئی ہوں۔ یہ گھنٹی کی آواز توجیسے میرے سر پر ہتھوڑے کی طرح لگتی ہے۔” مریم سنبھل کر سائیکل کے پیچھے کیرئیر پر بیٹھ گئی اور مسکراتے ہوئے بلال نے سائیکل آگے بڑھائی۔ گلی پار کرکے جب سائیکل بوہڑ پر آیا تو مریم کی آواز بلال کے کانوں میں گونجی۔
”اگر رات ہوتی تو آسمان پر چاند ہوتا اور اگر چاند ہوتا تو میں دیکھتی وہ ہمارے سائیکل کے پیچھے آرہا ہے اور پھر کچھ دیر سوچتی تم سے پوچھتی۔ یہ چاند ہماری سائیکل کے پیچھے پیچھے کیوں آتا ہے۔” سائیکل لہرایا، مگر گرا نہیں۔ بلال نے قابو پالیا۔
” تم اب بھی اچھا سائیکل نہیں چلاسکتے۔ گرجاتے تو۔” مریم دبی دبی آواز میں کہہ رہی تھی۔
جواباََ بلال مسکرایا اور اپنے جذبات کے اظہار کے لیے گھنٹی پر انگوٹھا رکھ دیا۔
ٹن…ٹن…ٹن…ٹن… سائیکل کی گھنٹی بجے جاتی ۔
اور بس پھر زندگی کے معمولات یونہی چلتے رہے۔ مریم کے اسکول کی تنخواہ سے کچھ ضروریات بہتر انداز میں پوری ہوجاتیں۔ حمیرا یونہی دھاگوں کے رنگوں میں الجھی رہتی۔ بلقیس بیٹیوں کو دیکھتی اور دل میں دعائیں مانگتی۔
”یااللہ سبب بنا، تو مسبب الاسباب ہے۔”
اور یونہی جاتی سردیوں کے دنوں میں سلطان چچا کی بیٹی شبانہ کی شادی کا شور اٹھا۔
”اس تقریب پر بھی یہی جوڑا۔ بہتر ہے میں جاتی ہی نہیں، مختلف وقتوں میں ہونے والی پانچ تقریبات میں، میں نے یہی جوڑا پہناہے اور ہر بار تقریب میں نورین بھابھی مجھے کہتی ہے۔ ”ایسا جوڑامیرے جہیز میں بھی تھا، مگر ابھی تک نہیں سلوایا۔” یہ بھی جتانے کا طریقہ ہے کہ لو تم تو ہر تقریب میں ایک ہی جوڑا ٹھمکائے تشریف کا ٹوکرا لے آتی ہو۔” منہ پھلائے کھڑی مریم چارپائی پر بچھے جوڑے کو الٹ پلٹ کیے جاتی۔
یوں تو بلقیس حالات سے سمجھوتا کرچکی تھیں، مگر جانے کیوں آج دل بھر آیا اور وہ رونے لگیں۔
”تمہارا باپ زندہ ہوتا تو دنیا کی ہر نعمت تمہارے قدموں میں رکھتی۔ میں بیوہ عورت…” آنسوؤں نے فقرہ مکمل کرنے کی بھی اجازت نہ دی۔
حمیرا نے جھلاکر مریم کو دیکھا۔ مریم خود بھی پچھتانے لگی۔ بھلا کیا ضرورت تھی یہ سب کہنے کی۔
”امی میں بھی پاگل ہوں ۔ یونہی منہ سے بات نکل گئی ۔ آپ نے ہماری ہر خواہش تو پوری کی ہے۔” ماں کو چپ کرواتے ہوئے دونوں بیٹیاں بھی رودیں۔
اور شام کی تقریب رخصتی میں ہشاش بشاش چہرہ لیے مریم وہی جوڑا زیب تن کیے جو خاندان کی مختلف تقریبات میں پانچ دفعہ پہلے بھی پہن چکی تھی۔ سلطان چچا کے گھر میں مہمانوں کا حصہ بنی بیٹھی تھی۔ تبھی سلیم کی بیوی نورین چلتے ہوئے اس کے پاس آئی۔ ایسے جیسے بھرے مہمانوں میں مریم کو مشکل سے ڈھونڈاہو۔
”تمہارا جوڑا خوبصورت ہے۔ ایسا جوڑا میرے جہیز میں بھی ہے ۔ ابھی تک نہیں سلوایا۔” مریم کھلکھلاکرہنسنے لگی۔
”تو بھابی سلوائیں نا۔ یہ ڈیزائین تو آؤٹ آف فیشن ہورہا ہے۔ میں خود کتنی تقریبات میں یہ سوٹ پہن چکی ہوں۔” اور دور باقی رشتہ داروں سے الگ بلقیس ایک دور کی رشتہ دار خاتون کے ساتھ بیٹھی تھی۔
”کوئی رشتہ آیا بچیوں کا؟” بلقیس کے چہرے پر یاسیت چھانے لگی اور اس نے نفی میں سرہلایا۔
”تمہیں نسیم کو نا نہیں کہنا چاہیے تھا۔”
”مگر بیٹی کو اتنی دور کیسے…”
”گھر بٹھانے سے دور بھیجنا بہتر ہے۔ یہاں کے تمہارے بہن بھائیوں یا دیور نندوں کا ارادہ ہوتا تو اور نہیں تو کم از کم اشارتاً تو کہتے۔ بیٹیوں کے لیے سوچو کہتے ہوئے عجیب لگ رہا ہے جانے تم برا ہی نہ مان جاؤ۔ تمہاری بیٹیاں میری بیٹیاں ہی ہیں۔ یہیں پاس گاؤں کا ایک ملک ہے۔ اس کے باغوں کے آم پورے پاکستان میں مشہور ہیں۔ شادی کو پندرہ سال ہوچکے ہیں۔ اللہ نے اولاد نہیں دی۔ دوسری شادی کے لیے لڑکی دیکھ رہے ہیں۔ ملک کی زیادہ عمر بھی نہیں، پچاس سے کم ہوگی۔ میرے ذہن میں تمہاری حمیرا آئی تم کہو تو…”
بلقیس کو لمحے بھر کو دھچکا لگا۔
”کیا اس کی بیٹیوں کے لیے ایسے رشتے آئیں گے ؟”
رخصتی کا وقت آن پہنچا۔ رخصتی کے وقت کی ان کے خاندان میں ایک الگ رسم تھی اور مریم کو شادی کی رسومات میں یہی رسم سب سے زیادہ پسند تھی کہ دلہن کا بھائی دلہن کا ہاتھ ، دولہے کے ہاتھ میں تھماتا اور کہتا۔
”لو اب سے ہماری بہن تمہارے حوالے۔” چنانچہ سارے خاندان کی موجودگی میں سجاد نے شبانہ کا ہاتھ دولہے کے ہاتھ میں دیا۔
”آج سے ہماری شبانہ تمہارے حوالے ۔ ہماری بہن کا خیال رکھنا۔” شبانہ کا حنا سے سجاہاتھ جس کی کلائیوں کی زینت سونے کی چوڑیاں تھی۔ دولہے بھائی کے ہاتھ میں کیسے سجتا تھا۔
”ہائے نہ بھائی ہے اور نہ ہی ابو حیات ہیں۔میری شادی میں تو یہ رسم ہونہ پائے گی۔” مریم دل مسل کررہ گئی۔
رخصتی ہوگئی اورمہمان اپنے گھروں کو روانہ ہورہے تھے۔مریم بھی ماں اور بہن کے ساتھ گھر جانے کو پرتول رہی تھی تب کہیں سے بلال سامنے آگیا۔ یوں تو مردوں عورتوںکا الگ الگ انتظام تھا، مگر اب رخصتی کے بعد بس قریبی رشتے دار ہی بیٹھے تھے اس لیے گھر کے مرد بھی آجارہے تھے۔ مریم نے بے نیازی دکھانی چاہی۔
”تم اس تقریب میں سب سے زیادہ اچھی لگ رہی تھی۔” جسے تقریب میں دو خواتین نے کہا تھا کہ یہ سوٹ کیوں پہنا اسی لباس میں بلال اسے اچھا لگنے کا سرٹیفیکیٹ دے رہا تھا۔ لب خود بخود مسکرا اٹھے۔ اسے شاید اسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت تھی۔
اور جب وہ لوگ شادی والے گھر سے اپنے گھر آرہے تھے تب سجاد گلی میں کھڑا تھا۔ بہن کی رخصتی کے بعد کچھ ایسا غمزدہ نہ لگتا تھا۔
یوں تو گلی میں اندھیرا رہتا، مگر اب شادی کی وجہ سے پانچ سو واٹ کا عارضی بلب لگا کر پیلی روشنی کی گئی تھی۔ مریم ماں اور بہن سے پیچھے تھی۔
”تقریب میں سب سے زیادہ تم ہی اچھی لگ رہی تھی۔” سجاد نے سرگوشی کی تھی۔ مریم ٹھٹک گئی۔ اس کے اور بلال کے کہے گئے الفاظ میں فرق نہ تھا۔ پر ایک کا کہا دل کو چھوا اور ایک کا کہاسن کر دل چاہا کاش کہ نہ کہا جاتا۔ خیر… گلی پارکرکے وہ اپنے گھر آگئے۔
”اب ہم بہنوں کی بھی شادی ہوجانی چاہیے۔ نہ حمیرا کے لیے کوئی رشتہ آرہا ہے اور بلال بھی کچھ کہہ کیوں نہیں رہا۔ ” اپنی سوچوں میں غلطاں و پیچاں وہ کپڑے بدل کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔
اور وہ گھر والے جو رات کو پرسکون نیند سوئے، وہ لڑکیاں جو بے فکر ہوکر ماں کے دائیں بائیں بچھی چارپائی پر لیٹیں، کہاں جانتی تھیں کہ دنیا میں ان کو جنت کا رخ بتانے والی ماں صبح دم اس دنیا میں نہ ہوگی۔
سادہ سے لوگ۔ ذیابیطس اور فشار خون جیسی پیچیدہ بیماریوں کی حقیقتوں سے کہاں واقف تھے اور کہاں جانتے تھے ان بیماریوں کے اچانک حملے۔ چلتے پھرتے انسان کی زندگی ختم کردیتے ہیں۔
بلقیس بھی رات کو اچھی بھلی تھی۔ واپسی پر تقریب سے متعلق دو چار باتیں بھی کیں گوکہ تھوڑی چپ چپ تھیں، مگر کون جانتا تھا۔ صبح جب مریم ماں کو نماز کے لیے اٹھانے گئی تو ماں ایسی نیند میں جاچکی تھی جس سے کوئی نہیں اٹھتا۔
”اماں’ اماں اٹھو۔ اماں اٹھتی کیوں نہیں ہو۔ اماں…اماں… اماں… اماں!” مریم بدحواسی سے چلائے جارہی تھی۔
٭…٭…٭
دھندلا سا منظر تھا۔ مرکزی دروازے کے پار ڈیوڑھی تھی۔ ان دنوںڈیوڑھی کے آخرے سرے پر گملا نہیں ہوتا تھا۔ ہاں البتہ صحن کے ایک کونے میں لگے نل کے نیچے کسی اور رنگ کی ٹوٹے پیندے والی بالٹی رکھی تھی۔ صحن سے آگے برآمدے میں بچھی چارپائی پر دونوں بہنیں آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔ اس وقت یہ چھوٹی بچیاں ہی تھیں۔ حمیرا دس سال کی اور مریم ساڑھے سات سال کی۔
دوپہر کا وقت تھا اور بیشتر بچوں کی طرح انہیں بھی دوپہر میں سونا اچھا نہیں لگتا تھا۔ عموماََ بلقیس انہیں زبردستی سلادیتی مگر آج دونوں ہاتھ نہ آئیں۔
”ابو تمہارے ، امی میری۔” حمیرا کہہ رہی تھی۔ آج وہ بہنیں رشتے بانٹنے بیٹھی تھیں۔
”امی ساری تمہاری؟” مریم آنکھوں میں سراسیمگی لیے پوچھ رہی تھی۔
”ہاں۔”
”کیوں؟”
”ابو سارے تمہارے ہوئے اور امی ساری میری، اب سمجھ آئی۔” دس سال کی حمیرا کو ساڑھے سات کی مریم اکثر اوقات کم عقل لگتی تھی۔
”نہیںمجھے امی بھی چاہئیں۔”
”مریم تم بے ایمانی کرتی ہو۔” حمیرا جھلاکر بولی۔
”تو پھر تم کیوں کہہ رہی ہو۔ امی ساری تمہاری ہیں۔” جواباََ حمیرا نے گھور کر مریم کو دیکھا اور پھر کچھ سوچنے لگی کہ منصفانہ تقسیم کرے۔
”چلو ابو آدھے تمہارے اور آدھے میرے، امی بھی آدھی میری اور آدھی تمہاری۔ٹھیک۔”
”ہاںاب صحیح ۔” مریم کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ اثبات میں سرہلانے لگی۔
دھندلے منظر کو چیرتا شفاف منظر واضح ہوا۔ ڈیوڑھی کے ایک سرے پر گملا رکھا تھا جس میں لگے گلاب کے پودے پر کوئی پھول نہ تھا۔ صحن میں چٹائیاں بچھی تھیں۔چٹائیوں پر رشتہ دار خواتین سر جھکائے غمگین سی بیٹھی تھیں۔ صحن کے بیچوں بیچ ایک چارپائی پر پرسکون سی بلقیس لیٹی تھی۔ دونوں پیروں کے انگوٹھے ایک سفید کپڑے کی پٹی سی بندے تھے۔ ناک کے نتھنوں میں روئی کے پھاہے تھے۔ چارپائی کے پائے سے لگی بیٹیاں بے یقینی سے ماں کو دیکھے جاتیں اور روئے جاتیں۔
عام حالات میں ان کے لیے فکر مند رہنے والی ماں آج اتنی پرسکون کیوں دکھتی تھی؟
اماں، اماں، آنکھوں سے آنسو دھار کی شکل میں نکلتے اور رخساروں پر بہتے چلے جاتے۔
تبھی دروازے پر کھٹکا ہوا۔ دستک دے کر مرد اندر آئے۔ وہ میت اُٹھانے آئے تھے۔ چار مرد چارپائی کے پائیوں کی طرف کھڑے ہوگئے۔
”کلمہ شہادت!” مامون ماموں نے نعرہ بلند کیا اور باقی مرد وں کو اشارہ کیا۔ اس سے قبل کہ چارپائی اٹھاتے۔ مریم بلک اٹھی۔
”نہیں ، میں اماں کو نہیں لینے جانے دوں گی۔ امی اٹھ جائیں گی۔ آپ لوگ جائیں۔ امی اٹھیں۔ امی، امی!” مریم پرسکون لیٹی ماں کا کندھا ہلارہی تھی۔
”امی!” آنکھ کا ایک آنسو ماں کے جسم پر لپٹے کفن میں جذ ب ہوا۔
بلقیس کا وجود آج اتنا ٹھنڈا کیوں تھا۔
”بیٹا یوں مت جھنجھوڑو، میت کو تکلیف ہوتی ہے۔” نسیم کی آنکھ میں آنسو تھے۔ بہن کی وفات کا سن کر وہ جیسے دوڑتے ہوئے کراچی سے آئی تھیں۔
”میت؟”مریم نے بے یقینی سے نسیم کو دیکھا۔ اس کی ماں میت کب ہوئی تھی اور کیوں ہوئی تھی۔
”امی!” لفظ سسکی کی طرح منہ سے نکلا اور وہ بے دم سی ہوکر گرگئی۔ نسیم نے آگے بڑھ کر اسے ساتھ لگایا اور مامون کو اشارہ کیا۔
مردوں نے چارپائی اٹھائی اور کلمہ شہادت کا نعرہ بلند کرتے مرکزی دروازہ پارکرگئے۔
حمیرا ساکت سی بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔ مریم بلک بلک کر روتے ہوئے ماں کو پکارتی رہی۔
اے ماں تو یوں نہ روٹھ
بھری دنیا ترے جانے سے
خالی ہوجاتی ہے
اے ماں تو یوں نہ روٹھ
بلقیس چلی گئی۔ بیٹیاں دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

میزانِ بریّہ — راؤ سمیرا ایاز

Read Next

نیل گری — افتخار چوہدری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!