حیات حسین کی کتاب ِحیات میں صفحے کم تھے۔ اس لیے تو جلدہی ملکِ عدم سدھارگئے اور پیچھے بلقیس اور بچیوں کو اکیلا چھوڑگئے۔ اب جب ان کو گزرے دس سال ہوچکے تھے اب بھی انہیں یاد کرکے بلقیس کے دل سے ایک آہ خارج ہوتی تھی۔
”کیا تھا حیات صاحب جو آپ کچھ عرصہ ہمارے ساتھ رہتے۔ کم ازکم ان بچیوں کو تو ان کے گھر کا کرکے جاتے۔” پتا ہی نہ چلا حمیرا اور مریم اس قدر بڑی ہوگئیں تھیں اور بلقیس کو انہیںدیکھ کر ہول اُٹھتے۔
یوں بھی جب وہ بیوہ ہوئی تھیں تب بھی کون سا انہوں نے آسانی جھیلی تھی۔ گوکہ ساری گلی میں بھائی بہنوں، دیور اور نندوں کے گھر تھے مگر پھر بھی وہ اکیلی تھیں۔ وہ اکیلا پن جو ان کی قسمت میں لکھا تھا۔
تین چار سال تو سب سے بڑا بھتیجا آکر رات کو سوتا، مگر گزرتے وقت نے بلقیس کو اتنا مضبوط کردیا کہ ایک دن انہوں نے سلیم سے کہہ دیا۔
”بس بیٹااب تمہاری پھوپھو اتنی بزدل بھی نہیں ۔ تم اپنے گھر ہی آرام کیا کرو۔” یوں بھی سلیم کی شادی متوقع تھی۔ شادی کے بعد تو اس کے لیے آکر رہنا ممکن نہ تھا۔ اسی لیے انہوں نے خود سے کہہ دیا۔ جب یہ بات تمام ہوئی تو دوسرے بھائی نے آکرکہا۔
”آپا میرا سجاد سونے کے لیے آجایا کرے گا۔” مگر بلقیس نے طریقے سے منع کردیا۔بیٹیاں بڑی ہورہی تھیں۔ گوکہ سب اپنے تھے مگر وہ زمانے کے انداز سے خائف تھیں اور بیوگی نے بھی کچھ زیادہ محتاط کردیا تھا۔
”امی یہ لیں گرم گرم چائے۔” مریم کی آواز انہیں حال میں لے آئی۔
”آپ نے دوائی کھائی۔” پاس بیٹھتے ہوئے مریم نے پوچھا۔ ذیابیطس اور فشار خون بلقیس کو یہ دونوں عارضے لاحق تھے۔
”نہیں بیٹا۔ یہ موئی گولیاں میرے حلق سے اترتی ہی نہیں۔” بلقیس نے چائے کا گھونٹ بھرا۔
”یہ کیا بات ہوئی ۔ دوائی کے ناغے آپ کی صحت کے لیے ہرگز موزوں نہیں۔ میں ابھی آپ کی دوائی لاتی ہوں۔” مریم اٹھنے لگی۔
”آج رہنے دو بیٹا۔” بلقیس نے اٹھتی ہوئی مریم کی کلائی پکڑلی۔
”آج ہی امی ‘ بلکہ ابھی…” وہ نرمی سے کلائی چھڑاتی ماں کی دوائی کا ڈبا لے آئی ۔ ساتھ گلاس میں پانی بھی۔
”دوائی میں ناغے ہرگز قابل برداشت نہیں آپ کو خیال رکھنا چاہیے۔” مریم ڈبے کا ڈھکن کھولنے لگی۔ ڈھکن کھول کر وہ گولیاں نکالتی مگر…
زندگی کی ایک تلخ حقیقت عفریت بن کر سامنے آٹھہری اور لمحے بھر کو مریم کے ہاتھ تھم گئے اور ماحول میں کچھ ایسی خاموشی چھائی جیسے زندگی سانس ہی نہ لے رہی ہو۔
گولیوں کے خالی پتے منہ چڑا رہے تھے۔ کسی پتے میں گولی نہ تھی۔ تمام دوائیں ختم ہوچکی تھیں۔ خاموشی سے مریم ڈبا بند کرنے لگی اور پھر سے دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ آئی۔
مہینے کے آخری دن تھے۔ گوکہ ان لوگوں کے مہینے کے ابتدائی دن بھی کچھ ایسے آسان نہ گزرتے تھے مگر دکان کے کرائے کا سہارا تو تھا جو پندرہ تاریخ تک تو ساتھ دیتا۔ باقی دن تو حمیرا کی سلائی کڑھائی اور اس کی ٹیوشن کے پیسوں سے جیسے تیسے رینگتے۔
”تم رورہی ہو مریم ۔” گوکہ بلقیس کی نظر کمزور ہوچکی تھی مگر اتنی نہیں کہ آنسو بھی نہ دیکھ پاتی۔
”نہیں تو’ یہ آشوب چشم کی وبا بھی بری ہے ہر وقت آنکھوں میں پانی آجاتا ہے۔” وہ آنکھیں پونچھتی ساتھ آبیٹھی۔
”حمیرا کو آپ نے نوکری کی اجازت نہیں دی، مگر آپ مجھے اجازت نہ بھی دیں تب بھی میں ملازمت کروں گی۔ سارہ کے ابو کے سکول میں ٹیچر کی ضرورت ہے۔”
”تم ملازمت نہیں کروگی۔” چھوٹا شہر تھا۔ سکول ٹیچنگ جیسی ملازمت کے لیے بیٹی کو گھر سے باہر بھیجتے ہوئے ان کا دل گھبراتا تھا اور کچھ زمانہ بھی ایساتیز نہ تھا۔وہ تو اکیڈمی بھیج کر بھی بیٹیوں کی سلامتی مانگتیں۔ اب ملازمت کے لیے تو ہرگز نہیں۔
”نہیں امی، ملازمت ضروری ہے۔ آپ کو اجازت دینا ہی ہوگی۔” دواؤں کا خالی ڈبا اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ اب تو اس کا عزم پائیدار تھا۔
مگر آگے بھی اس کی ماںتھی۔ جانتی تھیں کیسے بیٹی کے ارادے تکمیل سے روکنے ہیں۔
”دوائیں اتنی ضروری بھی نہیں جب یہ انگریزی دوائیں نہ تھیں تب کیا لوگ نہ جیتے تھے۔ کچھ نہیں ہوتا۔ نچلا بیٹھو۔ اس دفعہ تھوڑی فضول خرچی ہوگئی ورنہ اچھے سے گزارا ہوجاتا ہے۔ یوں بھی تم کون سا فارغ بیٹھتی ہو۔صبح گھر کے کام اور شام کو بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تو ہو۔ زیادہ کچھ کرنا چاہتی ہو تو حمیرا کی طرح فریم اٹھالو۔” یوں تو بلقیس نرم اور حلیم تھیں، مگر اس معاملے میں کیوں قطعیت دکھاتی۔ مریم انہیں دیکھ کر رہ گئی۔
٭…٭…٭
مرکزی دروازے کے پار ڈیوڑھی تھی ، یہی بس دو قدم کی۔ ڈیوڑھی پار کرو تو صحن آتا تھا۔ ڈیوڑھی کے آخری سرے پر ایک گملا پڑا تھا۔ گملے میں گلاب کے پودے پر کھلتے گلاب آنکھوں کو اپنی طرف مائل کرتے اور اس چاندنی رات میں تو ان گلابوں کے حسن کی اور ہی بات تھی۔ پورا صحن چاندنی میں نہایا تھا۔ صحن سے اوپر چھت کی طرف جاتی سیڑھیاں خاموش تھیں۔ یہ سیڑھیاں پار کرکے چھت پر پہنچو تو ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے مریم کھڑی نظر آتی تھی۔ کروٹ بدل کر تھک گئی اور نیند مسلسل روٹھی رہی تو مریم چپکے سے چھت پر آگئی اور اب وہ رات کی چادر اوڑھے آسمان جس کی زینت چودھویں کا چاند تھا کو تکے جاتی۔
پیسوں کی کمی ۔ کتنا بڑا رونا تھا اور کیسی کمی تھی کہ انتہائی ضروریات سے منہ موڑنا پڑتا۔ ابو آپ کیوں اتنی جلدی چلے گئے۔ آج آپ ہوتے تو کم از کم امی کی دواؤں کے ناغے تو نہ ہوتے۔ مکدر دل لیے وہ یونہی سوچے گئی۔
تبھی ساتھ والی چھت پر کھٹکا ہوا۔ چاند کی چاندنی اس قدر روشنی پھیلارہی تھی کہ سامنے ابھرتے عکس کو دیکھ سکتی۔ نیچی دیوار کے پار کھڑا بلال ہاتھ ہلاکر اسے اپنی طرف متوجہ کررہا تھا۔ وہ قدم قدم چلتی دیوار کے پاس آئی۔
”تم اتنی رات کو چھت پر؟ لڑکیوں کا یوں رات کو چھت پر آنا انتہائی غیر مناسب ہے۔” بلال کاپہلا فقرہ یہی تھا ۔ مریم سلگ کر رہ گئی۔
”یوں لگتا ہے لڑکی ہونا آزمائش سے کم نہیں۔ امی ملازمت کی اجازت نہیں دیتیں اور تم مناسب اور غیر مناسب کا فرق سمجھاتے رہتے ہو۔” بلال جو اسے مزید سمجھانا چاہتا تھا اپنی ہنسی نہ روک سکا۔
”زمانے سے ناراض رہنا تمہاری پرانی عادت ہے۔ شادی کے بعد تمہیں اس عادت کو ترک کرنا ہوگا۔” مدھم آواز ماحول میں گونجی اور جگنوؤں سی روشنی کرگئی۔
”شادی۔” ایک شرمگیں مسکراہٹ مریم کے لبوں پر آگئی اور اگر دن کا اجالا ہوتا تو بلال اس کے گلنار ہوتے چہرے کے بدلتے رنگ بھی دیکھ لیتا۔
”اچھا اب نیچے جاؤ یوں رات کو کسی نے ہمیں دیکھ لیا تو اچھا نہیںہوگا۔” بات سچ تھی اور مریم بھی مانتی تھی ، مگر وہی زمانے سے ناراضی کا افسانہ۔
”بس ڈرتے رہو ساری زندگی۔ہونہہ!” وہ منہ پھلائے مڑی اور تھوڑی دیر بعد سیڑھیاں اتررہی تھی اور جب وہ کمرے میں آئی تو بلقیس جاگ رہی تھیں۔
‘کہاں تھی مریم؟ میں سمجھی کہ پانی کے لیے اٹھی ہوگی مگر تم نے تو دیر لگادی۔”
”بس امی نیندنہیں آرہی تھی اس لیے چھت پرچہل قدمی کے لیے چلی گئی۔ ”
”یوں رات کو چھت پر مت جایا کرو۔ مناسب نہیں۔” پھر مناسب اور غیر مناسب کا سبق ۔ اپنے جلتے دل پر اس نے صبر کے چھینٹے مارے۔
”ٹھیک ہے امی۔” ماں کو تائید بھرا یقین دلاتے اس نے کروٹ بدلی اور ایک بار پھر سونے کی کوشش کرنے لگی
٭…٭…٭
اگلا دن جمعتہ المبارک کا تھا۔موسم میں سردی پوری طرح وارد ہوچکی تھی۔ صبح نل کے پانی سے وضو کرنا محال لگتا۔ اس لیے مریم اٹھتے ہی چولہے پر پانی گرم کرنے کے لیے رکھتی۔ پانچ منٹ میں پانی نیم گرم ہوجاتا۔ بلقیس اور حمیرا کو بھی اٹھانا پڑتا اور کبھی وہ خود اٹھ جاتیں۔ وضو کرنے میں ماں کی مدد بھی کرتی۔
”لو آج بھی تم پہلے اٹھ گئیں۔” جیسے ہر صبح بلال کے گھر مرغا بانگ دیتا ویسے ہی ہر صبح حمیرا کہتی۔
ناشتا تیار کرنے اور کھانے سے فرصت ملی تو لگے ہاتھوں سارے گھر میں جھاڑو بھی پھیردیا۔ حمیرا اپنی کڑھائی والا فریم لے کر بیٹھ گئی اور دھاگوں کے رنگوں میں الجھ گئی اور مریم یہ سوچنے لگی کہ اب کیا کروں؟
گھر میں ایک پرانا اخبار پڑا تھا جس کا وہ ایڈیٹوریل والا صفحہ اتنی بار پڑھ چکی تھی کہ اسے ازبر ہوگیا تھا۔ اور تمام کالم نگاروں کا نقطئہ نظر بھی۔
”آمریت کے دور میں ملک چاہے جتنی بھی ترقی کرلے۔ وہ ترقی ، ترقی نہیں ہوتی۔” ضیاء الحق کے مخالف کالم نگار کا تجزیہ تھا۔
”بھٹو کی بیٹی۔ قوم کی بیٹی۔ مشرق کی بیٹی۔” یہ دوسرا کالم نگار تھا۔
اس سے قبل کہ وہ پڑھے ہوئے اخبار کو دوبار سے مکمل پڑھ پاتی، دروازے پر دستک ہوئی۔
سارہ اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ آئی تھی۔ سارہ کی یہ آمد متوقع تھی بلکہ مریم نے ہی تو بلایا تھا۔
سارہ کے آنے کا مقصد بلقیس کو قائل کرنا تھا کہ وہ مریم کو سکول کی ملازمت کی اجازت دیں۔
”گول گپے منگوالو ۔ تمہاری امی مان گئیں تو گول گپے کھاؤں گی۔” سارہ ڈیوڑھی پار کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”تم مناؤ تو سہی ۔ روز گول گپے کھلاؤں گی۔” مریم نے سرگوشی کی۔
”خالہ میں آج آپ سے ملنے آئی ہوں۔” سارہ بلقیس کے ساتھ آبیٹھی تھی۔ بلقیس نے ایک نظر شگفتہ رنگت سارہ کو دیکھا اور ایک نظر اپنی بیٹی پر ڈالی ۔ سمجھنے میں انہیں دیر نہ لگی کہ وہ ان سے ملنے کیوں آئی ہے۔ حمیرا دھاگوں کے رنگوں میں لاکھ الجھی سہی لحظہ بھر میں اس کے ہاتھ تھم گئے۔
”اگر سکول میں پڑھانے کا مقدمہ اس نے تمہیں سونپا ہے تو بیٹی میں پہلے سے ہی انکار کردیتی ہوں ۔” سارہ نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ لوگوں کی نا کو ہاں میں بدلنے کا فن تو اس کے ہاتھوں میں تھا۔ یہ وہ نہیں اس کی سہیلیاں کہتی تھیں۔
”آخر کیوں خالہ؟”
”آپ برا مت مانیے گا میں بس یونہی کہہ رہی ہوں۔”
”آپ کو سکول کے نظام سے تسلی نہیں تو ایک ہفتہ ساتھ آجائیں۔”
”فکر مت کریں خالہ۔ میرے ابا تو پرنسپل ہیں، ان کے لیے میرے اور مریم میں کیا فرق ہے۔”
”گھر کے حالات اچھے ہوں گے۔” یہ سارہ کے بولنے کا انداز تھا کہ بلقیس کے لہجے کی قطعیت ڈھلتی جارہی تھی۔
”گول گپے منگوالو۔” اب وہ اشارے سے مریم کو کہہ رہی تھی۔ مریم مسکراتی ہوئی اٹھی اور تکیے کے غلاف میں چھپے پانچ روپے کا نو ٹ لے آئی اور آکر سارہ کے بھائی کو پکڑایا۔ بھائی گول گپے لینے چلا گیا۔
”مجھے تو اجازت نہ دی تھی۔ یوں ان سوئی دھاگوں میں الجھادیااور اب اپنی دلاری کے لیے آپ کے الگ اصول ہی وضع ہیں۔” پیشانی پر بل لیے حمیرا دوبارہ سے سوئی میں پرونے کے لیے دھاگے کا رنگ منتخب کرنے لگی۔ اس کی ناراضی تو جیسے معمول کا حصہ تھی۔
کچھ دیر میں سارہ کا چھوٹا بھائی گول گپے لے کر آگیا۔
”آج چھٹی تھی اس لیے وکی گھر پر ہے اور میرے ساتھ بھی آگیا ۔ اسی بہانے گول گپے تو کھانے نصیب ہوئے۔” ان دنوں جمعہ کے روز ہفتہ وار تعطیل ہواکرتی تھی۔ پانچ روپے کے دس گول گپے ملے۔ چار سارہ نے کھائے ، تین مریم نے ، دو وکی نے اور چونکہ حمیراناراض تھی۔ اس لیے ناراضی جتانے کو اس نے محض ایک گول گپا کھایا۔
”بوڑھے لوگ ایسی کھٹی چیزیں نہیں کھاتے۔” بلقیس کو جب پیشکش کی گئی تو انہوں نے منع کردیا۔
”لوگ بوڑھے ہی اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ کھٹی چیزیں کھانا ترک کردیتے ہیں۔” یہ سارہ کا نادر قول تھا۔
”امی ! تھوڑی دیر کے لیے چھت پر جائیں۔” گول گپے پیٹ میں چلے گئے تو اب مریم ماں سے چھت پر جانے کی اجازت لے رہی تھی۔ وہ مریم جو تاریک رات کو ماں کی خفگی کا خیال کیے بغیر چھت پر چلی جاتی تھی۔ ماں کی طرف سے ملی سکول پڑھانے کی تازہ اجازت کی وجہ سے زیادہ ہی مؤدب ہورہی تھی۔
اور چند لمحے بعد دونوں سہیلیاں سیڑھیاں پھلانگتی چھت پر جارہی تھیں۔
”کم بخت ماریاں۔ جھوٹے منہ بھی مجھے ساتھ چلنے کو نہ کہا۔ میری کوئی سہیلی آئے تو کیسے مریم ساتھ چپکی رہتی ہے۔” غصے میں حمیرا سوئی انگلی میں چبھو بیٹھی۔
”کیا چٹخارہ تھا گول گپوں میں ۔ میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ ایسے گول گپے پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کہیں نہیں ملیں گے۔” لبوں پر زبان پھیرتی مریم دعوے سے کہہ رہی تھی۔ آدھا گھنٹہ مزید گزار کر سارہ چلی گئی اور مریم جو سوچ رہی تھی کہ حمیرا ناراض ہے، چنانچہ آج تو وہ کسی کام کو ہاتھ نہ لگائے گی۔ اس کے برعکس وہ خود سے دوپہر کے کھانے کا انتظام کرنے لگی اور یونہی ایک چھوٹے سے وقفے میں وہ مریم سے کہہ رہی تھی۔