میری ڈائریاں میرے خواب —- محسن علی شامی

”دو ایک دو… دو، دو چار … دو تین چھے …”
کیفیات اور میری ذات میں اوّل درجے کی دشمنی تھی… جانے یہ کیوں تھا؟… میری زندگی کے مشکل سوالوں میں سے مشکل ترین ایک سوال … میں آہستہ سے جناح پارک کے داخلی گیٹ کی طرف بڑھا … اُنھوں نے ورق کو ہاتھوں میں دبا کر گیند بنایا اور دور اُچھال دیا… مجھے لگا میرا حب الوطنی کا جذبہ مٹی مٹی ہو رہا ہو… وہ دُونوں اب دوبارہ ”کارل فلومی” نامی شخصیت پر گفت گو کر رہے تھے… میں نے اُن کے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا… کھلے منہ بیگ میں ایک موٹا سا چیونٹا داخل ہو رہا تھا… میں مسکراتا ہوا آگے بڑھا … فضا میں رسیلی کوئل نے سروں کی مٹھاس بکھیری … میں ہمیشہ داخلی گیٹ سے ہی باہر جاتا تھا کیوںکہ خارجی گیٹ کافی فاصلے پر تھا…
میں نے گولڈن ڈائری کو آہستہ سے تھامتے ہوئے آسمان کی نیلی چادر کو دیکھا …” اللہ کرے… کارل فلومی جو بھی ہے، اُسے اسہال ہو جائیں… میرے خوابوں پر ہنس رہے تھے دونوں لفنگے…”
شاید میری بد دُعاؤں کی فہرست میں یہ پہلی بد دُعا تھی… مجھے قوی یقین تھا میرے آئیڈیلز کو وہ ایسی کوئی بھی بددُعا نہیں دے سکتے… کیوںکہ ابدی نیند سوئے ہوئے وجودوں کے لیے دُعا تو اثر رکھتی ہے مگر ”بد دُعائیں” نیلے آسمان سے ٹکرا کر پلٹ آتی ہیں…
٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
راجہ گدھ ایشو کروا کر لائبریری سے باہر آتے میں اچانک رُک گیا… جھپٹ کر میز سے اخبار اُٹھایا… ” کارل فلومی ایک ہر دل عزیز ہیرو ہے… اس کی نئی فلم جلد ہی تہلکہ مچانے کو تیار ہے… اُمیدہے پچھلی تمام فلموں کی طرح یہ بھی ریکارڈز بنائے گی…”
تقریباً ننگا جسم، بہ مشکل ستر پوشی کئے یہ جناب کارل فلومی تھے… شکر ہے یہ گتھی بھی آج سُلجھ گئی تھی… شکر ہے میر ے آئیڈیلز ایسے نہیں تھے… آئیڈیلز ایسے نہیں ہونے چاہئیں کہ اُنہیں دیکھتے ہوئے نظر جھکانا پڑے…
میری زندگی میں لفظ ”آئیڈیل” کی تعریف کچھ یوں درج ہے…
”کسی انسان کی خوب صورت شکل ہماری آئیڈیل نہیں ہوتی بلکہ کسی انسان کی خوبیاں ہماری آئیڈیل ہوتی ہیں… جن کی تعریف کی جاتی ہے… جن کی تقلید کی جاتی ہے…”
میرے لئے پاکستان بنانے کی سوچ رکھنے والا ہر شخص آئیڈیل ہے… جانے کیوں مجھے لگنے لگا ہے کہ دُنیا کے برعکس … ہمیشہ…
”میری زندگی میں میرے مذہب اور میرے ملک کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہے گی… شاید ابھی تک میری ذات انسانوں سے محبت کے دائرے میں نہیں آئی… ”
اکثر کہیں نا کہیں انسان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو صرف ایک لفظ میں بیان کرے… تب لوگ گھنٹوں سوچتے ہیں اور پھر بہ مشکل کوئی ایک لفظ چن پاتے ہیں کیوںکہ کسی بھی مجموعہ میں سے کوئی ایک بہتر چیز چننا ہمیشہ دقت طلب کام ہوتا ہے…
اگر مجھے اس سوال کا جواب دینے کے لئے کہا جاتا تو میں یک ثانیہ لگاتا … یعنی کہ لمحہ…
میری بند آنکھیں پٹ سے کھلتیں اور میری مسکراہٹ میں ایک الوہی سی چمک ہوتی … میں ہولے سے کہتا … ” میں یعنی محسن علی… ”انسانیت” ہوں…”
میرا مذہب ”اسلام” مجھے ”انسانیت” سکھاتا ہے… میرا ملک ”پاکستان” مجھے ”محبت” سکھاتا ہے… ایسی محبت جو کوئی محب وطن اپنے ملک سے کرتا ہے… میں نے قلم ”پاکستان” کے لیے اُٹھایا ہے… ایک شخص کی سوچ بھی اگر بدل ڈالی توسمجھوں گا کہ اپنے حصے کا دِیا جلا دیا۔ اگرچہ میری یہ کوشش آٹے میں نمک جیسا کام کرے گی… بے شک مقدار کم سہی مگر اثر تو رکھتی ہے ناں… اس اثر کی محبت میرے لیے ایسی ہے جیسی کہ کسی چکور کو چاند سے ہوتی ہے… کبوتر کو مقدس دربار ہوتی ہے…
٭٭٭٭
یہ نومبر کی نرم گرم سی صبح ہے، جو ڈگری کالج بھکر کے سراپے پر نئے رنگ ڈھنگ سے اُتری ہے… مین بلڈنگ کے احاطے میں لگے سنگتروں کی کھٹی باس کافی خوش گوار محسوس ہو رہی ہے سرمئی رنگ سے قلعی کئے جنگلی کبوتر بار بار کالج کی چونے زدہ دیواروں سے لپٹ لپٹ جاتے تھے… جب وہ اُڑتے تو اُن کے ننھے پنکھ ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے… شاید اُنھیں تکلیف نہیں ہوتی ہو گی کیوںکہ انسان کو بھی تو ناخن کاٹتے وقت تکلیف نہیں ہوتی … خدا کی بنائی ہوئی ہر چیز بناوٹ کے لحاظ سے مکمل ہے… خطا کا پتلا ہونا تو صرف انسان کی سرشت میں داخل ہے…
میں نے ہال میں بیٹھے ہجوم کو دیکھا … طلبا… پروفیسرز… کچھ سرکاری افسران … سب جمع تھے… مجھے تقریر کرنا تھی… اسٹیج پر کھڑے ہوتے وقت مجھے بہ خوبی علم تھا کہ مجھے کوئی ایوارڈ نہیں لینا …بلکہ سوچوں کو بدلنا ہے…
وہ ساری باتیں جو کالج میں گھومتے ہوئے میں نے جامن کے درخت، لیموں کے پودوں اور راتوں کو چاند ستاروں سے کی تھیں وہ سب آج ان لوگوں کے سامنے کرنا تھیں… میرے سامعین بھی میری طرح ہی عجیب ہوا کرتے تھے… سٹیج پر کھڑے جانے کیوں میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور نہ ہی ہاتھ لرز رہے تھے… میری نظریں سب سے ہوتی ہوئی اُس کھڑکی پر آن رُکیں جو میں نے ہمیشہ بند ہی دیکھی تھی مگر آج … ہاں… وہ کھڑکی کھل چکی تھی…
”میرے پیارے طلبا… اور عزیز پروفیسر صاحبان!! سب کو محسن علی کا سلام… ہمیشہ سے میری خواہش رہی کہ کبھی ایسا وقت آئے کہ میں پاکستان کا قرض ادا کر سکوں… شاید فرض معاف ہو جائیں مگر ”قرض” معاف نہیں ہوا کرتے…
پہلی جماعت سے لے کر آج تک لفظ پاکستان میری سماعتوں میں کسی باز گشت کی مانند گونجتا رہا ہے… کبھی اس بازگشت سے نظر بچا لی… کبھی مکمل نظر انداز کیا… مگر جب زندگی شعور کی چوکھٹ پر لا کھڑا کرتی ہے تب یاد آتا ہے کہ اپنے ”ملک” سے نظر بچائی یا چرائی نہیں جاتی بلکہ ”دان” کی جاتی ہے… وار دی جاتی ہے۔ قربان کی جاتی ہیں… ” ہال میں سناٹے کی اجارہ داری تھی… سفید کبوتر ہال کی دیواروں سے ٹکرا کر روشن دان میں سر چھپانے لگے تھے…
”پوچھاجاتا ہے کہ پاکستان کیا چیز ہے…؟… آسان سا جواب دے کر جان چھڑا لی جاتی ہے کہ پاکستان پاک لوگوں کی سرزمین ہے… مگر پھر بھی اپنے ملک کی تعریف میں ڈنڈی مار لی جاتی ہے… میں آپ کو بتاؤں کہ پاکستان کیا ہے…؟ ” میں نے سوالیہ نظروں سے سار ے ہال میں دیکھا ہر آنکھ میں سوالیہ نشان جھلملا رہا تھا…
”ہر کام کی بنیاددو چیزوں پر ہوتی ہے… ایک چیز ”انتہا” ہے جو ”ابتدا” کے بعد آتی ہے… ابتدا اور انتہا ضروری ہیں… ہم مسلمانوں کی ”ابتدا” ہے پاکستان… ایک ایسا حوالہ جس کے بغیر ہم ادھورے ہیں… آپ کی شناخت ہے پاکستان… ہم میں کچھ ایسے میر جعفر بھی ہیں جو کہ مغربی طاقتوں کے زیرِ اثر اِس شناخت کو بے شناخت کرنے کے درپے ہیں… ہر کوئی انفرادی طور پر ملکی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرے کیوں کہ یہی ترقی کی ضمانت ہے…” باہر سرد ہوا کھڑکیوں سے ٹکرانے لگی تھی…
تالیوں کی گونج میں مجھے اپنی سوچ کو ذرا سا بدلنے کا اشارہ ملا تھا… میں نے لفظوں کی گِرہ لگانے کا قصد کیا …
”زندگی میں محنت کا پھل ضرور ملتا ہے… آپ محنت چھوڑ کر اگر تن آسانی کا قرب اختیار کر کے یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ کو سب بیٹھے بٹھائے مل جائے گا تو آپ غلطی پر ہیں…
رزق ڈھونڈنا پڑتا ہے… تن آسانی اختیار کر کے اِس کا الزام پاکستان کو مت دیں… اپنی غلطی تسلیم کرنے کا ہنر سیکھ لیں…
روز گریبان میں جھانکیں… اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے… علم کو پیسہ کے حصول کے لیے حاصل کریں گے تو پھر ضرور ڈگریاں تھامے بھٹکتے رہیں گے…
اپنے ملک کا موازنہ دوسرے ممالک کے ساتھ کرنے کی علت سے دستبردار ہو جائیں… مالی خوش حالی اپنے ساتھ اخلاقی گراوٹ لاتی ہے… حکمرانوں کو الزام دینے کی رِیت بہت پرانی ہے اسے چھوڑ کر اپنی انفرادی صلاحیتیں کام میں لائیں… حکمرانوں پر بھی ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتا ہے… ہر بار اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہو سکتی… اپنے مذہب و اقدار سے ہی حالات بدحالی کی جانب رُخ کرتے نظر آتے ہیں…” بکائن کے کاسنی پھولوں کی مدھم خوشبو میرے نتھنوں سے ٹکرائی تھی…
ایک پل کو لگا میرا وجود آسمانوں پر ٹہلتا ہوا بادلوں کا کوئی سفید رُوئی جیسا ٹکڑا ہے…
میں نے تقریر کے آخری جملوں کو تالیوں کی گونج کے ساتھ جوڑا …
”اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی ترقی کی راہیں ملتی ہیں… تعلیم و تربیت عام کرنے کی ضرورت ہے اور ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا وقت ہے… معمارِ وطن ہی اصل ہیرو ہونے چاہئیں…”
تالیوں کی گونج میں، میں نے چاروں طرف دیکھا … میں تالیوں کی گونج کی چاہ ہرگز نہیں رکھتا تھا… کیوںکہ یہ آواز ہے مٹ جاتی ہے… مجھے سوچوں پر یقین تھا جو حقیقت ہوتی ہیں قائم رہتی ہیں…
دم بہ خود چہرے گواہ تھے کہ لفظوں کی گِرہ لگ چکی تھی… اور جب گِرہ لگ جائے تو پھر اُسے آہستہ آہستہ کھولنا پڑتا ہے… اور جب ساری گانٹھیں کھل جاتی ہیں تو تب دو چیزیں سامنے آتی ہیں… پہلی چیز ”حُب الوطنی…” …دوسری چیز… ”انسانیت…” پیلی پڑتی دو پہر میں سائنس بلاک کے سامنے رکھے سنگی پنچ پر بیٹھ کر میں نے اپنی گولڈن ڈائری میں لکھا ۔
”میرا سوچ بدلنے کا سفر جاری ہے… لفظوں کے قرض اُتارنا کافی مشکل ہوتا ہے مگر ناممکن نہیں… اور محسن علی اس ناممکن کو ممکن کر دکھائے گا… وقت کو ہدایت ہے کہ وہ میرا دوست رہے…”

٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۲

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!