مریم سب بچوں کو لے کر صحن میں ہوم ورک کروا رہی تھی جب اس نے نوٹ کیا کہ عون بہت چُپ چُپ ہے بلکہ بہت دنوں سے وہ ایسا ہی تھا ابھی بھی سعد فہد اپنا کام جلدی جلدی ختم کرکے کھیلنے میں لگ گئے تھے مگر وہ ویسے ہی بیٹھا رہا۔
’’کیا بات ہے بیٹا طبیعت ٹھیک ہے۔‘‘ مریم نے پریشانی سے پوچھا۔
’’مجھے نہیں ان سے کھیلنا۔‘‘ کچھ دیر خاموشی کے بعد اس نے کہا۔
’’کیوں، لڑائی ہوئی ہے؟‘‘ مریم نے پوچھا۔
’’نہیں یہ اب اپنے بے بی سے کھیلے گا۔‘‘ ماہا جھٹ سے بولی تو عون نے فوراً کہا: ’’مجھے نہیں چاہیے بے بی وے بی گھر میں اتنے بے بی ہیں نا اور کیوں لانا ہے؟‘‘ مریم اس کی بات سن کر ہنس پڑی۔
’’بیٹا آپ تینوں بھائی ہو تو اچھا ہے نا ایک بہنا آجائے، ہوں‘‘ اس نے پچکارا مگر وہ منہ بسورے بیٹھا رہا۔ مریم کو لگا شاید وہ پہلے جیسی توجہ نہیں دے پارہی اس لیے وہ ڈسٹرب ہے۔ اس نے ساجد سے بھی کہا کہ وہ اس پر خصوصی توجہ دے۔
٭٭٭٭
اور پھر ایک دن سب بچے سکول سے واپس آئے تو دادی نے خبر سنائی کی عون اور سعد فہد کا ایک اور چھوٹا بھائی پیدا ہوا ہے۔ آسیہ نے سب کو کھانا دیا تو کھانا کھاتے ہوئے بھی سب نئے بے بی کے متعلق ہی بات کرتے رہے ماہا سب سے پوچھ رہی تھی کہ اس کا کیا نام ہونا چاہیے۔ عون نے اس بحث میں کوئی حصہ نہ لیا بلکہ کھانا بھی دو چار نوالے لے کر چھوڑ دیا۔ ساجد اسی وقت دادی کو لینے ہاسپٹل سے گھر آیا۔ آسیہ صبح ہو آئی تھی اس نے یخنی اور کھانا ساتھ دیا اور گھر میں بیٹیوں کے ساتھ رہی۔ ساجد دادی اور بیٹوں کو لے جانا چاہتا تھا مگر عون نے انکار کردیا وہ جلدی میں تھا اس لیے اس کی خاموشی کا نوٹس لیے بغیر سعد فہد اور دادی کو لے کر ہاسپٹل چلا گیا۔ عون چپ چاپ آکر کمرے میں لیٹ گیا۔ رات کو دادی مریم کے پاس رک گئیں۔ ساجد گھر آیا اور بچوں کو اپنے پاس ہی سلایا۔
سعد فہد تو جلدی سو گئے مگر عون ساجد کے ساتھ چمٹ کر روتا رہا۔
’’کیا بات ہے امی یاد آرہی ہیں۔ پاگل نہ ہو تو کل وہ آجائیں گی۔‘‘ ’’چلو شاباش سو جاؤ میں بھی بہت تھکا ہوا ہوں۔‘‘ ساجد نے اسے نرمی سے ساتھ لگایا اور جلد ہی سو گیا عون کی بھی روتے روتے آنکھ لگ گئی۔
مریم گل گوتھنے سے بیٹے کو لے کر گھر آئی تو سب بچے اس کے اردگرد جمع ہوگئے اور باری باری اس کو ہاتھ لگا کر دیکھتے رہے۔ عون کبھی بے بی کو دیکھتا اور کبھی اپنی ماں کے چہرے کو۔
رات کو سب ساجد اور مریم کے کمرے میں جمع تھے اور ننھے مہمان کے نام کے سلسلے میں سب رائے دے رہے تھے۔ تینوں بہنیں بھی آئی ہوئی تھیں۔ ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اپنی پسند بتا رہا تھا۔ سب سے پہلے واجد نے نوٹ کیا کہ عون کمرے میں نہیں ہے وہ اکیلا صحن میں بیٹھا تھا وہ اسے ساتھ لے کر کمرے میں آیا تو اس کی شکل دیکھ کر پہلی بار ساجد اور مریم کو لگا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا رویہ کچھ عرصے سے بہت عجیب ہورہا تھا ابھی بھی اس کی رونے والی شکل ہورہی تھی۔ مریم کے دل کو کچھ ہوا۔
’’کیا ہوا ہے بیٹا‘‘ مریم نے اسے بلایا مگر وہ وہیں کھڑا رہا۔
’’کیا بات ہے میرے بچے‘‘ دادی نے بھی پچکارا مگر وہ وہیں سے باری باری ماں اور باپ کے چہروں کو دیکھتا رہا۔
’’اِدھر آؤ، میرے پاس‘‘ ساجد نے اٹھ کر اسے اپنے پاس بلایا اور بازوؤں کے گھیرے میں لے لیا۔ ’’بتاؤ نا کیا ہوا ہے، تم کیوں اداس ہو۔‘‘
’’بولو بیٹا‘‘ مریم نے بھی بولنے پر اکسایا تو وہ اٹک اٹک کر کہنے لگا۔
’’ابو اب آپ بھی ہمیں چھوڑ جائیں گے راشد چاچو کی طرح‘‘ سب حیران ہوکر اس کی شکل دیکھنے لگے۔
’’کیونکہ ہمارے گھر بہن کی جگہ بھائی پیدا ہوگیا ہے‘‘ اس نے آنسوؤں کے ساتھ جملہ مکمل کیا۔ تھوڑی دیر لگی سب کو سمجھنے میں مگر سب نے اس کی بات کو بہت انجوائے کیا۔ ادھر عون کا ننھا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس کی بات کے جواب میں پورا کمرہ قہقہوں سے کیوں گونج اٹھا۔