’’کوئی ضرورت نہیں یہ ڈرامے کرنے کی۔‘‘ اس نے تن ضن کرتے ہوئے کہا۔
’’بیٹیاں ہیں میری بہت پیاری ہیں مجھے۔‘‘
’’رہنے دو بیٹیاں یاد ہوتیں تو باہر مزے نہ اُڑا رہے ہوتے۔‘‘ آسیہ کے جو منہ میں آیا بولتی گئی۔
’’زبان سنبھال کر بات کرو جاہل عورت۔‘‘ راشد کو بھی غصہ آگیا ساجد اپنے کمرے میں جا چکا تھا۔ دادی سوتی بن گئیں اور مریم کان لپیٹ کر کچن میں لگی رہی۔ کوئی میاں بیوی کے معاملے میں نہیں بولتا تھا بلکہ سب کو لگتا تھا کہ راشد کے ساتھ جتنا ہو کم ہے۔ ایسے میں کسی کو خیال نہ آتا کہ بچوں کو بھی کوئی اِدھر اُدھر کر دے یہ سب سن کر ان پر کیا اثر پڑے گا۔
’’میں جاہل ہوں تو وہ طلاقن کون سی سولہ جماعت پاس ہے۔‘‘ اس نے چلا کر کہا۔
’’میرا دماغ مت کھائو میں اپنے بچوں اور ماں سے ملنے آتا ہوں۔‘‘
وہ دادی کے پاس آکر بیٹھا اور دادی کی گود میں سر دیئے ماہا کو اپنے ساتھ لگایا تو اس نے ڈرتے ڈرتے آسیہ کی طرف دیکھا مگر وہ کچن میں جا چکی تھی تو اس نے سکون سے باپ کے سینے سے سر لگا لیا۔ راشد رات رکنے کے ارادے سے آیا تھا مگر کھانے کے بعد ابھی سب صحن میں ہی بیٹھے تھے کہ آسیہ نے بچیوں کو ساتھ لے کر اپنا کمرہ بند کر لیا تو وہ غصے میں واپس چلا گیا۔
’’اگر اس نے شادی کر ہی لی ہے کیا ہو گیا۔‘‘ ساجد نے راشد کے جانے کے بعد کہا تو مریم نے ایک کٹیلی نظر اس پر ڈالی۔ دادی نے بھی کچھ کہنا چاہا مگر بہو کے تیور دیکھ کر چپ رہنے کو ترجیح دی۔ ’’کتنا آسان ہے نا آپ لوگوں کے لیے، شادی کر لی تو کیا ہوا؟‘‘ اس نے نقل اتاری۔ ’’سوتیلے رشتوں کی بنیاد رکھی ہے۔ آگے جا کر کیا کیا مشکلات پیش آئیں گی آپ کو کیا پتا۔ ان بچیوں کے کل کو رشتے کرنے ہیں تب کتنی مشکل ہو گی۔‘‘ مریم بہن تھی اس کی پوری ہمدردی آسیہ کے ساتھ تھی۔ اس نے بھی راشد سے بات کرنا چھوڑ دی تھی۔
’’اپنی بیٹیوں کی ذمہ داری لے تو رہا ہے وہ۔ اگر بیٹے کی خواہش کر لی تو کیا قیامت آگئی۔ اپنی بیٹیوں کے لیے ہی سمجھوتہ کر لیں تم بھی بجائے بھابھی کو سمجھانے کے انہی کا ساتھ دے رہی ہو۔‘‘ وہ روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آگیا تھا اور اب گھر میں سکون چاہتا تھا۔ ’’مجھے خود سمجھ آئے تو میں سمجھائوں نا۔ یا تو بندہ بے اولاد ہو۔ بس انسان ہے ہی ناشکرا۔‘‘ دونوں میاں بیوی کی بحث جاری تھی جسے دادی اور پاس بیٹھا بہ ظاہر کتاب پڑھتا عون خاموشی سے سن رہے تھے اور اپنی اپنی سوچوں اور اندیشوں میں گم تھے۔
رات دن ایسے ہی روکھے پھیکے سے گزر رہے تھے کہ پتا چلا کہ راشد کی دوسری بیوی امید سے ہے۔ آسیہ نے وہ سارا دن کمرہ بند کر کے رو رو کر گزارا اور مریم گھر اور بچوں کو سنبھالتی اور کڑھتی رہی۔ دادی خواہ مخواہ گھٹڑی بنی ایک کونے میں پڑی رہیں۔ اب راشد کا آنا بالکل ہی کم ہوگیا۔ وہ آتا بھی تو آسیہ بات ہی نہ کرتی وہ بالکل خاموش ہوگئی تھی ادھر راشد کو کون سی پرواہ تھی۔ باقی گھر والوں نے اس کی خاموشی سے یہی نتیجہ نکالا کہ اس نے بالآخر حقیقت کو قبول کرکے سمجھوتہ کریا ہے مگر جس دن راشد کا بیٹا پیدا ہونے کی اطلاع آئی تو کچن میں جانے کتنے برتن ٹوٹے اور بچیوں نے بلاوجہ جانے کتنی بار مار کھائی سمجھوتہ کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔ دادی بھی اپنی بہو اور پوتیوں کے ساتھ تھیں نہ تو انہوں نے راشد کو مبارک باد دی اور نہ ہی پوتا دیکھنے کی خواہش کی۔ بیٹے کی پیدائش سے پہلے راشد کبھی کبھار آجاتا تھا اب بالکل ختم ہوکررہ گیا۔ آسیہ نے پھر سے خاموشی کی چادر اوڑھ لی اور بچیوں کی آنکھوں میں حسرت نے مستقل ڈیرا ڈال لیا۔ ماہا بھی ماں کی طرح خاموش ہوگئی تھی۔ وہ چھوٹ سی عمر میں بہت سمجھ دار ہوگئی تھی مگر باقی تینوں آسیہ سے بار بار باپ کا پوچھ کر اسے زچ کیے رکھتیں۔
’’مرگیا تمہارا باپ‘‘ ایک دن اس نے تنگ آکر زویا سے کہا۔
غنیمت تھا کہ دادی نے نہیں سنا، آخر کو ان کا بیٹا تھا، مگر مریم پاس ہی تھی اس سے رہا نہ گیا۔
’’بس کر دو آسیہ، ایسی بھی انہونی نہیں ہوگئی دنیا میں یہ سب ہوتا رہتا ہے کتنی عورتیں اسی تکلیف سے گزری ہیں۔ تم نے تو روگ ہی لگا لیا ہے۔ اپنی بیٹیوں کی طرف دھیان دو دیکھو کیسے مُرجھا گئی ہیں کچھ ان کا خیال کرو۔ اچھا بھلا وہ آتا تھا۔ بچیاں بھی خوش ہوتی تھیں اپنا نہیں تو بیٹیوں کا ہی سوچو ان کا تو وہ باپ ہے اور رہے گا انہیں تو دور نہ کرو۔‘‘
’’جس کے ساتھ ہوتا ہے اسے ہی پتا ہوتا ہے‘‘ مریم کی اتنی لمبی بات کو خاموشی سے سُن کر آسیہ نے تیز لہجے میں کہا اور اٹھ کر پھر سے کمرہ بند کرلیا۔
اس دن کے بعد مریم اسے وقتاً فوقتاً سمجھاتی رہتی۔ دادی بھی اب دل سے یہی چاہتی تھیں مگر رشتے کا لحاظ کرتے ہوء کچھ کہتی نہ تھیں ویسے بھی مریم یہ کام کرہی رہی تھی۔ اس کے بار بار سمجھانے کا یہ اثر ضرور ہوا کہ آسیہ نے بیٹیوں پر دھیان دینا شروع کردیا۔ اب وہ کم از کم ان کے سامنے رونے یا کو سنے دینے سے گریز کرتی۔ مگر پھر بھی باپ کی کمی وہ سب محسوس کررہی تھیں۔ خاص طور پر ماہا تو اب بالکل شرارتیں نہ کرتی بلکہ کوشش کرتی کہ کچھ بھی ایسا نہ ہو جس سے آسیہ کا موڈ خراب ہو۔ پچھلے سال ڈیڑھ میں جو کچھ ہوا اس نے آسیہ اور بچیوں پر تو جو اثر ڈالا سو ڈالا مگر ایک اور فرد بھی بری طرح متاثر ہوا اور وہ عون تھا۔ اس کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا۔ چچا کی غیر حاضری چاچی کا واویلا اور ماہا کا اس کے ساتھ پہلے کی طرح نہ کھیلنا، ان سب نے اس پر خاصا نفسیاتی اثر ڈالا وہ جانے کیا کیا سوچتا رہتا اس کا دل چاہتا کہ وہ کچھ ایسا کرے کہ سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے۔ ابو اور چاچو دونوں شام کو اکٹھے گھر آئیں اور سب بچے ان کے گرد گھیرا ڈال کر لاڈ اٹھوائیں اور چاچی کچن میں مزے مزے کے کھانے بنائیں دادی نئی نئی کہانیاں سُنائیں اور سب سے بڑھ کر ماہا پہلے کی طرح اسے چھیڑے، تنگ کرے، شرارتیں کرے۔ وہ اپنی سی کوشش کرتا بھی رہتا تھا۔
پھر اس کی کوشش، دادی کی خاموش خواہش اور مریم کے بار بار سمجھانے کا اثر ہوا کہ آسیہ نے حقیقت کو قبول کر ہی لیا اور جب راشد چار ماہ کے بیٹے کو لے کر دادی اور بیٹیوں سے ملوانے آیا تو وہ خود تو کمرے سے باہر نہ آئی مگر بچیوں کو دل پر پتھر رکھ کر کہا کہ جاؤ بھائی سے مل لو۔ اب راشد ہر دو چار دن بعد عاشر کو لانے لگا بلکہ سب انتظار کرتے اس کے آنے کا اور پھر ایک دن اس نے کمر ے میں جاکر اکیلی بیٹھی آسیہ کی گود میں بیٹے کو ڈال دیا اور اس نے مزاحمت نہیں کی بلکہ اپنی گود میں سمیٹ لیا بس ایک خاموش آنسو بچے کے چہرے کو چھو گیا۔
راشد روز چکر لگاتا چاہے تھوڑی دیر کو ہی سہی اکثر رات بھی رُک جاتا۔ دوسری بیوی کو گھر لانے کی بات دادی نہیں مانیں ان کا خیال تھا گھر کا ماحول خراب ہوجائے گا اس لیے اسے الگ ہی رکھو۔ پیسے کی تنگی نہیں تھی سوراشد کو بھی یہی مناسب لگا فی الحال یہی بہت تھا کہ وہ آسیہ اور بیٹیوں کی زندگی میں واپس آگیا تھا۔ صرف یہی نہیں ننھے عاشر کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ واجد بھی پڑھائی مکمل کرکے واپس آچکا تھا اور آج کل جاب کی تلاش میں تھا۔ سب کچھ آہستہ آہستہ نارمل ہوتا گیا جس کی سب سے زیادہ خوشی عون کو تھی۔
٭٭٭