مشام — میمونہ صدف

کمرے کے دروازے کا ایک پٹ کھلنے کی دیر تھی گویا کسی نے تیزاب بھر کر اس پر انڈیل دیا ہوا۔ انتڑیاں جل کر راکھ ہوئیں ، دماغ اک سڑاند سے الٹ گیا ۔ گویا آدم نہیں ، آدم خور بستے ہوں ۔گھر کم، گور زیادہ ۔ ایسی بدبو جو کبھی نہ مردہ خانو ں سے گزری ہو ، نہ اس نے مقتل گھاٹ کا رخ کیا ہو۔
گھر نہیں، اُگال دان تھا جہاں دروبام پر ہر شے اندر سے نکال ماری ہو، حتیٰ کہ خون بھی۔ بے مصرف الماریاں شاکی تھیں کہ وہ وہاں کیوں بنائی گئی تھیں جب سب باہر ہی بکھیرنا تھا ۔ کچا فرش کیچڑ سے بھرا اور بچھونا یوں کہ ابکائیاں کر دی گئی ہوں ۔ ظروف اپنے اند ر پکا پکا کر معذور ہو گئے تھے، مگر اب تک معزول نہیں کیے گئے تھے ۔ سارے کمرے میں بدبو تھی۔ عالم کو لگا کہ وہ بھی سب کھایا پیا وہیں اگلنے کے لیے خاص طور سے مدعو کیا گیا ہے ۔ چہرہ ڈھانپنے پر وہ مجبور کر د یا گیا ۔
سامنے ایک چارپائی پر ہڈیوں کو مختلف طرز سے جوڑ کر ، ہلکی سی کھال چڑھا کر اسے ایک لباس میں لپیٹ کر لٹایا گیا تھا جسے وہ خاتون ‘چھوٹی بی بی ‘ کا نام دے رہی تھی ۔ استخوانی ڈھانچے کی نبض ٹٹولتے ہوئے اس کی اپنی نبض تھم تھم جانے لگی ۔
” کسی طبیب کو بلا لیتے تو اچھا تھا ۔” اس نے مدھم روشنی میں سامنے کھڑی اس بڑی بی بی کو دیکھا جن کے وجود میں چھوٹی سے کئی گنا مردنی تھی ۔
” ختم ہے شاید ۔” آواز یوں چاروں اور ٹکرائی گویا صور پھونکنے کا کام کر دیا گیا ہو ۔ وہ خود نیم مردہ سا سر ہلا کر رہ گیا ۔
” میں کفن دفن کا انتظام کر لوں۔” وہ اٹھتے ہوئے ‘ گویا بھاگتے ہوئے بولا۔
” انتظام کفن دفن کا ہی ہو ، مجمع کا نہیں ۔”
اس نے حیرت سے سامنے کھڑے اس خوف ناک مجسمے کو دیکھا ۔اس بار سر ہلانے کی بھی زحمت نہ کی گئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

پھر انتظام ہوا۔ دو لوگوں نے جنازہ پڑھایا ، دو ہی لوگوں نے دفنایا۔ ایک عالم ، دوسرا گورکن۔
اگلے روز اس کمرے کے باہر تالا پڑا ملا اور محلے بھر میں چہ میگوئیاں ہوئیں کہ چھوٹی بی بی انتقال کر گئیں اور اس دہلیز کو پار کرنے والا پہلا اور آخری شخص عالم تھا اور عالم کو دستار عزیز تھی، سو اپنی صفائیاں اور ان کی برائیاں سنانے لگا۔ وہ جو نام کا عالم تھا ، عمل میں جاہل ٹھہرا اور جاہل جہالت کے وارث بنائے جاتے ہیں ، علمیت کے در اُن کے لیے ‘وا ‘ نہیں ‘آہ ‘ ہوا کرتے ہیں۔
اتنے برسوں مکرمت کا خمار صیدگاہ ثابت ہوا اور وہ اسی میں منہ کے بل جا گرا ۔
پھر ساری داستان سنائی گئی، ہنسی اڑائی گئی، حجاب والوں کو بے حجا ب کیا گیا، پردہ داری کو اوڑھ لیا گیا۔ بشر، مقامِ آدمیت سے نیچے جا گرا۔ کراماًکاتبین میں سے ایک کے اوراق مٹا دیے گئے اور دوسرے کے وزنی ہوتے آسمان تک لگا دیے گئے ۔
‘پاگل کدے ‘ کی ساری بساند اس میں حلول کر گئی ۔ساری غلاظت اس پر اُلٹا دی گئی۔ یہ وہ کمائی تھی جو اپنے ہاتھوں سے کمائی گئی تھی اور پھر کتنی عطر ، کتنی مشک ، کتنی زعفران انڈیلی گئی ،مگر حال بے حال ہی ر ہا ۔
وہ رب کے حضور حاضریاں لگانے لگا، عبادات کے واسطے دینے لگا ، نیکیاں یاد کرانے لگا، دعائیں مانگنے لگا ، استغفار کرنے لگا ۔ عرش والا اُس فرش والی کے انتظار میں تھا کہ وہ کوئی فیصلہ دے، تو وہ فیصلہ سنائے ۔
وہ دن میں کتنے چکر اُس ” پاگل کدے” کے لگا آتا، مگر اک قفل تھا جو ٹوٹ کر نہ دے رہا تھا ۔دو ماہ بعد کوئی تیسرے پہر اسے دروازہ کھلا ملا۔ وہ رستہ اُس گھر کا نہیں تھا جو کھلا تھا ، وہ رستہ اُس در کا تھا جو اس کے لیے بند ہو ا تھا ۔
” کہاں چلی گئی تھی بی بی ؟ میں روز آپ کو ڈھونڈتا رہا ۔’ ‘
سب سے پہلا کام ، سب سے پہلی بات اسے یہی تو کرنا تھی ۔ سفر کا زادِراہ اکٹھا کر نے والی نے حیرت سے اسے دیکھا ۔
” انسان جو تلاشتا ہے ، بالآخر اسے پا ہی لیتا ہے ۔ بہتر تو یہ ہے کہ تلاش معبود کی کی جائے تاکہ حاصل کثیر اور محصول قلیل ہو ۔”
”جب تصفیہ عبد کے ہاتھ میں تھما دیا جائے تو معبود کے بہ جائے عبد کو ڈھونڈا جاتا ہے ۔” برسوں کی سرد بوڑھی نے ناسمجھی سے اسے تکتے پہچاننے کی کوشش کی ۔
”آپ کی نظر میں ایک ماس خور کی کیا سزا ہو گی؟ ”
” مردار خور یا آدم خور؟”
”دونوں۔” بڑی بی بی نے سب سمجھتے ، ہاتھ کے اشارے سے اسے کچھ کہنے سے منع کیا ۔
”یہ سب مجھے نہ بتا ، رب کو سنا ۔ ”
”رب کہتا ہے تجھے بتاؤں اور تو کہتی ہے رب کو بتاؤں؟ آخر میں کسے سناؤں؟ میری ساری دولت لے لو، مگر بدلے میں میرا کہا سب بھول جاؤ۔” وہ گھٹنوں کے بل گر گیا ۔
”انسان سے اس کی حسیات مانگنا، موت سونپنے جیسا ہے ۔”
” تو پھر میں کیا کروں کہ میرا گناہ دھل جائے ۔” اس نے سر کے بال نوچ ڈالے ۔
”انسان کم ظرف واقع ہوا ہے ، وہ دوسروں کی خطاؤں کو جان لینے کے بعد کم ہی معاف کرتا ہے۔ جو پاتا ہے ، وہی لوٹاتا ہے ۔گناہ پا کر ‘ گناہ لوٹانا ‘ سب سے بڑا گناہ ہے ۔ جب کسی کی عیب جوئی ہو جائے تو اس کے حق میں دعا دو ا ور اس کی جان کا صدقہ کرو ۔ ” بڑی بی بی نے بڑی بات کر ڈالی ۔
وہ بس حیرت سے گنگ تھا ۔
” اس پاگل کدے کو سچ میں پاگل کدہ بنا دو۔ شاید کسی بڑی اور چھوٹی بی بی کو جائے قرار مل جائے ۔”
سب مانگ کر بھی کچھ نہ مانگا گیا اور سب دے کر بھی کچھ نہ دیا گیا ۔خاموش سودا تھا ، خاموشی سے طے ہوا ۔
٭…٭…٭
حاکم نے عالم کے ہاتھ سے شیشی تھام لی اور اسے بہ غور دیکھا ۔ شیشی خالی تھی ۔ وہ کون سی خوش بو تھی جسے وہ اندر اتارا کرتا تھا۔ مشام ہنس دیا۔
”انسان اپنے وجود کے کرگس کو جان لے، تو کبھی اس کرگس کو معاف نہیں کر سکتا۔ انسان اتنا اعلیٰ ظرف نہیں ہوتا کہ اپنی ذات کے تاراج گر کو تاجِ فیروزہ پہنائے ۔ وہ خدا نہیں ہوتا، تو اس کی صفت کیسے اپنا سکتا ہے؟”
”پھر اس گناہ کی معافی کیسے ملا کرتی ہے ؟”
”صدقہ کردو ، اپنی طرف کا بھی اس کی طرف کا بھی۔ دعا کر ڈالا کرو ، اپنے لیے بھی ، اس کے لیے بھی۔ استغفار کر لیا کر و ، اپنے لیے بھی اس کے لیے بھی اور اللہ پر معاملہ چھوڑ دیا کرو ، اپنا بھی اور اس کا بھی۔” حاکم نے گہری سانس بھری ۔
”کیا آپ نے یہ سب کیا ؟”
”میں نے یہ سب کیا اور باقی سب بھی۔”
”اور یہ مشک کیسی ہے ؟” اس نے پھر سے دو تین سانسیں بھریں ۔
”یہ تو اس شیشی کی ہے جو تیری مٹھی میں بند ہے ۔”
”مگر یہ تو خالی ہے۔ ” حاکم نے ڈھکن کھول کر شیشی الٹا دی۔ مشام نے حیرت سے اسے دیکھا۔
خوش بو عجیب تھی اور مو جب عجیب تر۔
اس حکمت کو ” حکیم’ ‘ نے حاکم پر کھول دیا اور اس علم کو ‘ ‘علیم’ ‘ نے عالم پر وا کر دیا کہ یہ وہ مشک تھی جو ہر اس عام کے لیے بھیجی جاتی ہے جو تائب ہوتا خاص بن بیٹھتا ہے۔ وہ مشام بن بیٹھتا ہے ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

موسمِ گرما —- حرا قریشی

Read Next

سمے کا بندھن — ممتاز مفتی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!