مستانی — منظر امام

”میں نے راج ماتا کی باتیں سنی ہیں ۔”داسی نے بتا یا :اس کا اشارہ رادھا کی طرف تھا۔” رانی اگر آپ اسے بچا سکتی ہیں تو بچا لیں۔”
کاشی نے اپنا تھال اس کے حوالے کیا اور داسیوں کی بھیڑ میں اپنا راستہ بنانے لگی۔
سنی وار واڑہ میں زندگی اور موت کی جنگ جاری تھی۔
مستانی نے ایک ہاتھ سے اپنے بیٹے کو سینے سے لگا رکھا تھا او ر دوسرا ہاتھ تلوار لئے دشمنوں کا مقابلہ کررہا تھا۔
اس پر حملہ کرنے والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی بہادر اور تلوار کی دھنی بھی ہو سکتی ہے۔ اب تک تین آدمی مارے جا چکے تھے۔ چوتھا پینترے بدل بدل کر حملہ کررہا تھا۔ پوری راہ داری تلواروں کے ٹکرانے کی آوازوں سے گونج رہی تھی۔
ایک طرف سے ایک اور آدمی نمودار ہوا۔ اب مستانی کے لئے دشواری ہو گئی تھی۔ اگر بچہ اس کی گود میں نہ ہو تا تو یہ جنگ آسانی سے جیتی جا سکتی تھی۔ لیکن اسے اپنی جان سے زیادہ بچے کی حفاظت کرنی تھی ۔ وہ اس کی محبت کی نشانی تھااور اس نشانی کو قائم رہنا تھا۔ ہر حال میں چاہے اس کے جسم پر سینکڑوں زخم آجا ئیں۔
ایک تلوار اس کے بازو کو زخمی کرتی ہوئی نکل گئی۔ خون بہنے لگا تھالیکن یہ وقت ایسی باتوں پر دھیان کا نہیں تھا۔ اس نے پانچویں کا وار روکا اور اسی ہلے میں چوتھے کے سینے میں اپنی تلوار اتار دی۔
کاشی راستہ بناتی نکل رہی تھی ۔ اچانک رادھا اس کے سامنے آگئی۔
”کہاں جا رہی ہو کاشی؟” اس نے کڑے تیور سے پوچھا ۔
”اپنی محبت کی رکھشا کرنے ۔”کاشی نے جواب دیا ۔
”کیا مطلب ہے تمہارا ؟ ”
”مستانی کو بچانے جا رہی ہوں۔”کاشی نے جواب دیا
”مستانی تمہاری محبت کب سے ہو گئی؟”
”جب سے باجی راؤ کی آنکھوں میں اس کے لئے محبت دیکھی ہے۔ آپ نے سنا ہو گا راج ماتا کہ لیلیٰ کا کتا بھی پیارا ہوتا ہے اور مستانی تو پھر ایک انسان ہے۔ میری اور آپ کی طرح۔ کیا آپ کو اپنے بیٹے کی آنکھوں میں اُس کے لئے پیار نظر نہیں آتا۔”
”فضول باتیں مت کرو تم اس وقت کہیں نہیں جاؤگی ۔”رادھا نے کہا ۔
اس کے اشارے پر کچھ داسیوں نے کاشی کو گھیر لیا تھا۔
ایک اور زخم ۔ تلوار کا ایک اور وار مستانی کو چرکا لگا تا گزر گیاتھا۔ اب خون اور تیزی سے بہ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا۔
اس نے ایک بھر پور وار کر کے چوتھے کو بھی اس کے انجام تک پہنچا دیا ۔
پانچواں اس کے سامنے تھا اور چھٹا مستانی کی پشت پر پہنچ چکا تھا۔ جس نے اپنی تلوار حملہ کرنے کے لئے بلند کی ہی تھی ایک تلوار اس کی پشت میں اتر تی چلی گئی۔ اس کی چیخ کے ساتھ مستانی نے مڑ کر دیکھا باجی راؤ کھڑا تھا ۔ اس کی تلوار چھٹے کے خون سے سرخ ہو رہی تھی ۔ پانچویں نے اپنی تلوار پھینک کر اپنے گھٹنے ٹیک دئیے ۔
باجی راؤ کا دھیان اس کی طرف نہیں ،مستانی کی طرف تھا ۔ جو اب گرنے والی تھی۔ باجی راؤ نے ایک ہاتھ سے اپنے بچے کو سنبھالا اور دوسرے ہاتھ سے مستانی کو سنبھال لیا ۔
مستانی کو مارنے کی یہ سازش بھی ختم ہو چکی تھی ۔
ہوتا بھی یہی ہے ۔جب قدرت کہانی کے کسی کردار کی پرورش کر کے اسے عروج تک لے جانے کا فیصلہ کر لیتی ہے تو اس قسم کی رکاوٹیں اس کی راہ سے دور کر دیتی ہے۔
ایک اور سازش بھی ناکام ہو چکی تھی۔ لیکن کب تک ۔

٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

باجی راؤ کو یہ اندازہ تھا کہ کب تک ۔
اس محبت کے سب ہی دشمن تھے۔ پورا رجواڑہ ، اس کی ماں اور اس کی بیوی کاشی ۔ یہ اور بات کہ اس کی بیوی نے اب خاموشی اختیار کر لی تھی۔ لیکن کوئی چنگاری تو اب تک اس کے اندر سلگ رہی ہو گی۔
باجی راؤ نے مستانی کو مستانی محل میں منتقل کر دیا۔
مستانی محل پونا کے پاس بنا یا گیا تھا۔ یہ وہ تحفہ تھا جو باجی راؤ، مستانی کو تیوہارکے دن دینا چاہتا تھا۔
وہ بے حد ارمانوں سے اسے یہ تحفہ دینا چاہتا تھا،جب ہر طر ف سکون ہو ۔
لیکن اب مستانی کو فوری طور پر اس محل میں بھیجنا ضروری ہو گیا تھا۔
بہت خوب صورت محل تھا۔ در و دیوار نازک مینا کاری اور منقش شیشوں سے سجے ہوئے۔ ایسے قیمتی پردے تھے جنہیں خاص بنارس کے کاری گروں نے تیار کیا تھا۔
اس محل میں داسیوں کی پوری فوج تھی جو مستانی کی اَبرو کی ایک جنبش کی منتظر رہا کرتیں۔ نوری بھی یہاں آکر خوش تھی۔ مستانی کو پہلی بار اس کے شایانِ شان درجہ دیا گیاتھا۔
محل میں راگ رنگ کا بھی اہتمام تھا ۔ صبح ہوتے ہی گوئیے راگ درباری چھیڑ دیتے اور اس دوران مستانی باغ کی سیر کرتی رہتی۔
باجی راؤ ہر ہفتے اس کے پاس آیا کرتا۔
جب چاند اپنے عروج پر ہوتا تو یہ دونوں محبت کرنے والے دیوانے باغ میں آکر بیٹھ جاتے اورچاند نی سے لطف اندوز ہوتے ۔
ایک رات باجی راؤ نے اس سے کہا :”مستانی تمہیں معلوم ہے یہ چاند کس وقت اور زیادہ خوب صورت ہو جا تا ہے۔”
”یہ آپ بتائیں۔”
”جب دو محبت کرنے والوں کی نظریں ایک ساتھ اس کی طرف اٹھتی ہیں تو جو روشنی وہ بکھیرتا ہے۔ اس کی مثال نہیں ۔
”واہ۔ شاعری کرنے لگے ہیں آپ۔”
”جب مکمل شاعری پہلو میں سمٹی ہوئی ہوتو کون کافر شاعری نہیں کرے گا۔”
”ایک بات بتائیں ۔کیا یہ لمحے امر نہیں ہو سکتے ؟” مستانی نے پوچھا ۔
”امر تو ہو چکے ہیں مستانی ”۔
”وہ کیسے؟ ”
”وہ اس طرح کہ ہم چاہے رہیں یا نہ رہیں۔ باجی راؤ مستانی زندہ رہے گی۔ ہماری کہانی دہرائی جاتی رہے گی جب تک محبت کرنے والے دھرتی پر رہیں گے۔ تاریخ نے ہمیں محفوظ کرلیا ہے مستانی۔ اور ہم دنیا سے تو جا سکتے ہیں تاریخ سے نہیں۔”
”سنیں کبھی کبھی ہم ایک خواب دیکھتے ہیں۔”مستانی نے کہا ۔
”کیسا خواب ؟ ”
”’ہم دیکھتے ہیں کہ ہم بہت ہلکے ہو کر اوپر اوپر اڑے جا رہے ہیں بادلوں کے درمیان ۔ بہت ڈر لگ رہا ہے ہمیں۔ کوئی آس پاس نہیں ہے۔ میں گھبرا کر آوازیں دیتی ہوں۔ پکارتی ہوں ۔ پھر کسی طرف سے آپ بھی اڑتے ہوئے آجا تے ہیں۔ میرا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔ پھر ہم دونوں اڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہ کیسا خواب ہے سردار؟ ”
”جانتی ہو مستانی اس خواب نے ہمیں کیا بتا یا ہے؟ ”
”نہیں جانتے نا ۔ آپ بتائیں۔”
”تمہارا یہ خواب بتا رہا ہے کہ ہمیں ہر جنم میں ایک ساتھ رہنا ہے۔”باجی راؤ نے کہا ۔
مستانی نے سرشاری سے اپنا سر اس کے شانے سے لگا دیا۔
چاند بھی اس وقت بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا تھا۔

٭

کچھ اور سال بیت گئے ۔
زندگی اور واقعات کی رفتار کبھی تیز ہو جا تی اور کبھی مدھم ۔
مستانی اس وقت اپنے کمرے میں تھی جب ایک داسی نے آکر بتا یا کہ نانا صاحب اس سے ملنے آیا ہے۔ مستانی اٹھ کھڑی ہوئی۔
نانا صاحب،باجی راؤ اور کاشی کا بیٹا تھا۔ رگھوناتھ راؤ کے بعد پیدا ہونے والابچہ ۔ وہ پہلی بار اس کے محل میں آیا تھا۔
”اس کو پوری عزت اور احترام کے ساتھ لے کر آؤ۔”مستانی نے حکم دیا ۔
پندرہ سولہ برس کا نوجوان کچھ دیر بعد اس کے سامنے کھڑا تھا ۔ وہی نقوش جو باجی راؤ کے تھے۔
مستانی کو اس پر پیار آنے لگا تھا۔
”زہے نصیب بیٹا ۔”اس نے کہا ۔”تم آج میرے پاس آئے ہو۔”
”ہم تمہارے پاس تمہار ابیٹا بن کر نہیں آئے ۔”نانا صاحب نے کہا”اور نہ ہی ہم تمہیں اپنی ماں کا استھان دے سکتے ہیں۔”
مستانی مسکرا دی۔ وہی تیور جو باجی راؤ کے ہوا کرتے ہیں۔ وہی لہجہ وہی تندی ،وہی تیزی ۔
” تو پھر کس لئے آئے ہوہمارے پاس ۔”
”فیصلہ کرنے ۔”نانا صاحب نے کہا ۔
”کس بات کا فیصلہ؟ ”مستانی نے پوچھا ۔
”یہ سننے کے لئے آئے ہیں کہ تم ہماے پتا جی کو کب چھوڑ رہی ہو؟ ”
مستانی ہنس پڑی اور ہنستی ہی چلی گئی۔”بیٹا !تم نے یہ سوال دیر بہت دیر بعد کیا ہے۔ اب تو ہم اس طرح ہیں جیسے سایہ اور بدن۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ بیٹھ جاؤ ۔ ہم تمہاری ماں کی طرح ہیں۔”
”نہیں ۔”اس نے اپنی تلوار نکال لی ۔ ”اس کا فیصلہ اب میری تلوار کرے گی۔”
مستانی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ سب کچھ اُسی کی طرح۔ وہی انداز۔ وہی بے خوفی۔
”ہمیں تمہارا جواب چاہئے ۔”
”بیٹا ہم اس وقت نہتے ہیں۔ ”مستانی نے کہا :”تم ہم پر حملہ کرو ۔ اگر تم مجھے زخمی بھی کر سکو تو یہ ہمارا وعدہ ہے کہ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ ”
”راجپوت کی تلوار کو للکارنا آسان نہیں۔”
نانا صاحب نے اچانک اس پر حملہ کردیا ۔ مستانی نے ایک طرف جھک کر اس کا وار خالی جانے دیا ۔ پھر اس نے بجلی کی سی تیزی سے نانا صاحب کے ہاتھ سے تلوار چھینی اور اس کے سینے پر رکھ دی۔
”اولاد چاہے جتنی بھی بڑی ہوجائے۔ماں کا مقابلہ نہیں کرسکتی بیٹا،جاؤ۔”اس نے تلوار اُس کے آگے بڑھا دی۔
نانا صاحب چند لمحوں تک اس ی طرف دیکھتا رہا ۔پھر تن فن کرتا ہوا واپس ہو گیا۔

٭

لیکن ان سب کے باوجود زندگی آسان نہ تھی ۔
باجی راؤ کسی محاذ پر تھا کہ باجی راؤ کے دوسرے بھائی چمن جی اپا نے مستانی کے محل پر چڑھائی کر دی۔
مستانی کے پیروں میں زنجیریں پہنا کر، اس کے بیٹے شمشیربہادر کو گرفتار کر کے لے جا یا گیا۔
سب کچھ بدل گیا تھا۔
باجی راؤ کو پھر بھی خبرنہ ہو سکی ۔
وہ شدید بیمار ہو گیا تھا۔
ایک بہادر راجپوت بسترِ مرگ پر تھا۔
اس کو جنگ کے میدان میں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن موت بستر پر آرہی تھی۔
تلواروں کے نہ جانے کتنے گھاؤ اس کے بدن پر تھے۔
کبھی کوئی گھاؤ اتنا جان لیوا ثابت نہیں ہو سکا تھا کہ اس کو موت سے ہم کنار کر سکتا۔
لیکن اس کی بیماری اسے موت کے دربار تک کھینچ کر لے آئی تھی۔
پھر اس کا انتقال ٢٧ اپریل ١٧٤٠ ء کو ہو گیا ۔
ایک دن بعد اس کی چتا کو نرمدا ندی کے کنارے آگ لگا دی گئی ۔
مستانی کو جب اس کی موت کی خبر ملی تو وہ سکتے میں رہ گئی۔
اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہا تھا۔
اس کا محبوب مر چکا تھا۔
اس کا بیٹا اس سے جدا کر دیا گیا تھااور وہ خود قید میں تھی۔
وہ پاؤں جو دلوں پر خرامی کیا کرتے ،زنجیروں میں جکڑے تھے۔
باجی راؤ کی موت کے کچھ دنوں کے بعد وہ بھی اس دنیا کو چھوڑ گئی تھی۔
تاریخ بتا تی ہے کہ اس کی قبر پابل (ایک مقام) پونا میں ہے۔
ہر سال سینکڑوں محبت کرنے والے اس کی قبر پر جا کر اپنی محبتوں کے استحکام کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔
اور مستانی محل میں ہر چاند رات کو مستانی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
وہ باجی راؤ کو پکارتی رہتی ہے۔ پکارتی رہتی ہے۔
باجی راؤ اور مستانی اس دنیا میں نہیں رہے لیکن محبت زندہ ہے۔
ورنہ کون کسی کو یاد رکھتا ہے۔ کس پر فلمیں بنتی ہیں اور کہانیاں کہی جا تی ہیں۔
محبت ختم نہ ہونے والے ایک سفر کا نام ہے۔
اس راہ پر چلنے والے کبھی نہیں مرتے ۔ کبھی نہیں۔
بعد میں شمشیر بہادر کی پرورش کاشی نے کی تھی۔
شمشیر بہادر کی موت ١٧٦١ ء میں احمد شاہ ابدالی کے حملے کے دوران ہوئی تھی۔
تاریخ میں اس جنگ کو پانی پت کی تیسری جنگ کا نام دیا گیا ہے۔
اس طرح یہ کہانی ختم ہو گئی ۔لیکن کیا یہ کہانی واقعی ختم ہوئی ہے؟

(ختم شد )

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۷

Read Next

پنج فرمان — سحر ساجد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!