مستانی — منظر امام

اڑتے ہوئے پرچم،گھوڑوں کی ہنہناہٹ، تلواروں کے ٹکرانے کی آوازیں۔ گھوڑوں کی پشت پہ سوار کڑیل جوان، جن کی آنکھوں میں اپنے دشمن کے لئے موت کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
جنگی نعرے جن کی گونج سے پوری گھاٹی لرزنے لگی تھی۔ سخت اور نرم سینوں میں اندر تک اترتی تیز دھار تلواریں، نیزوں کی نوکوں پرترازو ہو جانے والے گوشت پوست کے بدن۔
زندگی اس وقت بہت مہنگی اور موت بہت سستی ہو گئی تھی۔
ایک اور جنگ ،ایک اور معرکہ،ایک اور دریا خون سے بھرا ہوا۔
باجی راؤ کے لئے ایک اور امتحان۔ مرہٹوں کی طرف سے ایک اور ذمے داری۔ اس کے رجواڑے پر ایک اور جنگ مسلط ہو گئی تھی۔
باجی راؤ کو اس جنگ میں بھی سرخرو ہو نا تھا۔
اس کی تلوار بجلی کی طرح کوند رہی تھی۔ دشمنوں کی گردنیں اتر کر ایک طرف جا رہی تھیں۔ سنسناتی ہوئی موت مسلط ہو رہی تھی۔ اس کے جاں نثار اس کے گرد گھیر اڈالے ہوئے تھے اور اس سے کچھ فاصلے پر ایک نقاب پوش اپنی تلوار کے جوہر دکھا رہا تھا۔ اس نے سیاہ خود پہن رکھا تھا ۔جس نے اس کے چہرے کو ڈھانپ لیا تھا۔ اس کی تلوار بجلی بنی ہوئی تھی۔ ایک کے سینے میں اترتی تو دوسرے کی کمر کے گرد دائرہ کھینچ دیتی۔ صرف ایک کرب ناک چیخ رہ جا تی تھی۔
باجی راؤ اسے بڑی حیرت اور دل چسپی سے دیکھ رہا تھا۔
ا س نے اپنے پاس کھڑے بالا جی سے پوچھا!”کون ہے یہ جوان ؟ ”
بالا جی خاموش رہا۔
”ہم نے تم سے کچھ پوچھا ہے بالا جی ۔”باجی راؤ نے کہا:”کیا تم اس کو جانتے ہو ؟ ”
”جانتا تو ہوں سردار لیکن بتانے کی اجازت نہیں ہے۔”
باجی راؤ نے اپنی تلوار اس کی گردن پر رکھ دی۔”بتاؤ۔ ورنہ۔”
”سردار کیا اس کے لڑنے کے انداز سے آپ کو کچھ یاد نہیں آرہا ۔”بالا جی نے کہا ۔
اچانک ایک بجلی سی کوند گئی ۔ ذہن پر چھائی ہوئی دھند صاف ہو گئی ۔ اس نے سرگوشی کی
”مستانی۔”
”ہاں سردار۔”بالا جی ایک طرف ہٹ گیا ۔
باجی راؤ دشمنوں کی بھیڑ کو چیرتا ہوا اس نقاب پوش کے پاس پہنچ گیا ۔ اس نے اپنی تلوار اس کے سینے پر رکھ دی۔”اس تلوار کو دوست اور دشمن کا فرق نہیں معلوم ۔”
”لیکن تلوار رکھنے والے ہاتھ تو جانتے ہیں نا کہ یہ سینہ کس کا ہے۔”مستانی نے اپنا خود اتار دیا۔ اس کی حسین زلفیں اس کے شانوں پر بکھرگئیں۔
”مستانی تم ! تم یہاں کیوں آئی ہو ؟” باجی راؤ نے پوچھا۔
”ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا نا ۔ چاہے پھولوں کی سیج ہو یا جنگ کا میدان۔”
”مستانی تم ہمیں کتنی بار خریدو گی ؟ ”
”جب تک سانسوں میں خریدنے کی ہمت ہے ۔ خرید تی رہوں گی”مستانی نے کہا ۔
باجی راؤ نے اپنے بازو پھیلا دیے ۔مستانی اس کے بازوؤں میں سمٹ آئی۔
”مستانی کیا تمہیں اندازہ ہے کہ تم ماں بننے جا رہی ہواور اس وقت اس قسم کی حرکت تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔”
”جانتی ہوں۔”مستانی نے کہا ۔”لیکن میں اپنے وجود میں پرورش پانے والے کو تلواروں کی جھنکار سے آشنا کرنا چاہتی ہوں تاکہ جب وہ اپنی آنکھیں اس دنیا میں کھولے تو ایسی آوازیں اسے خوف زدہ نہ کر سکیں۔”
باجی راؤ اسے ستائشی نگاہوں سے دیکھنے لگا تھا۔
٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

شادیانے بج رہے تھے۔ جھنڈوں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ رجواڑے کے گوئیے راگ الاپ رہے تھے۔ رادھا بائی نے انعامات کی بارش کر دی تھی۔
کاشی نے بیٹے کو جنم دیا تھا۔ جس کا نام رگھو ناتھ راؤ رکھا گیا تھا۔ پنڈتوں نے اس کی جنم کنڈلی نکال لی تھی۔ اس کے مطابق یہ بچہ بہت بھاگوان تھا۔ اپنے باپ باجی راؤ کی طرح بہادر۔ تلوار اور قول کا دھنی۔ جس کی جنبشِ ابرو سے تقدیروں کے فیصلے ہونے والے تھے۔
قلعے کے مردانہ حصے میں باجی راؤ کو سرداروں نے گھیر رکھا تھا۔ وہ سب اس کے نومولود بیٹے کے لئے تحائف لے کر آئے تھے۔ باجی راؤ بے حد خوش تھا۔ وہ ایک کام یاب انسان تھا۔ وہ جہاں جاتا،جس میدان میں قدم رکھتا ،کامیابی اس کا ساتھ دیتی تھی۔ چاہے وہ جنگ کا میدان ہو یا محبت کا ۔
”سنو!”اس نے جشن منانے والوں کو مخاطب کیا۔”آج کا دن میرے لئے دو بیٹوں کی خوش خبریاں لے کر آیا ہے۔”
”دو بیٹوں کی ؟ ”بے شمار سوالیہ نگاہیں اس کی طرف مرکوز ہو گئیں۔
”ہاں دو بیٹے۔ ایک رگھوناتھ راؤ اور دوسرا شمشیر بہادر ”۔اس نے بتایا۔”ایک کی ماں کا نام کاشی ہے اور دوسرے کی ماں مستانی دیوی ہے۔”
ایک سناٹا سا ہو گیا۔
”سردار !”ایک مرہٹہ سردار نے جسارت کی : ”لیکن وہ تو ایک مسلمان ماں کا بیٹا ہوا نا۔”
”نہیں وہ پیار کا بیٹا ہے اور محبت کا کوئی دین دھرم نہیں ہوتا ۔ محبت خود ایک دھرم ہے۔”
ایک طرف ایک گویّا میرا بائی کو گا رہا تھا۔
ایک غلغلہ سا ہوا ۔ سرداروں نے ادب سے گردنیں جھکا لیں ۔
رادھا بائی اور کاشی دربار میں آرہی تھیں۔ رگھوناتھ راؤ کاشی کی گود میں تھا۔ تخت پر بیٹھا باجی راؤ ان دونوں کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ کاشی نے آگے بڑھ کر بچے کو باجی راؤ کی آغوش میں ڈال دیا۔ بچہ باپ کی گود میں آکر سرشار ہو گیا تھا۔ اس کے پیارے ہونٹوں پر مسکان کھیل رہی تھی۔
”باجی تمہارا بیٹا تمہارے باپ پر گیا ہے”۔رادھا نے کہا:”اس کی چتون دیکھو۔ اس کی آنکھیں دیکھو۔ سب کچھ تمہارے پتا سمان ہے۔”
”ہاں ماں اور آپ کا دوسرا پوتا بالکل آپ پر گیا ہے ۔”باجی راؤ نے کہا ۔
یک دم تیور بدل گئے ۔ہونٹوں کی مسکراہٹیں دم توڑ گئیں۔ تبدیلی سب نے محسوس کی۔ پیشانیوں پر بل پڑ گئے ۔
کاشی کی آنکھوں سے خون برسنے لگا ۔ رادھا کے چہرے پر نفرتوں کی دھند چھا گئی۔
”باجی راؤ!”رادھا غصے سے بولی:”یہ مت بھولو کہ وہ ایک ناجائز اولاد ہے۔”
”اور ماں جی آپ یہ نہ بھولیں کہ آپ کے بیٹے نے اس کو وچن دے رکھا ہے اور راجپوت کا وچن اس کے دھرم کی طرح اٹل ہوتا ہے اور ہم نے اس سے شادی کی ہے۔”
”وہ ایک مسلمان عورت ہے باجی راؤ۔”
”وہ صرف ایک عورت ہے ۔ ایک ماں ہے۔ ہندو یا مسلمان تو اس کو سماج نے بنا یا ہے۔”
”بھگوان کسی کو کوئی مذہب دے کر پیدا نہیں کرتا ۔ دھرم کی زنجیریں تو ہم پہنا دیتے ہیں۔”
”اوہ ! تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شمشیر بہادر کی بھی وہی اہمیت ہو گی جو ہمارے رگھوناتھ راؤ کی ہے ۔”
”ہاں ” باجی راؤ نے جواب دیا۔
”ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے ۔”رادھا نے اٹل لہجے میں کہا۔
” ہم اس کو اپنے سائے سے دور نہیں جانے دیں گے۔”باجی راؤ اتنا کہہ کر ایک طرف مڑ گیا۔
رادھا کے چہرے پر نفرت کی لکیریں اور گہری ہو گئی تھیں۔

٭

شمشیر بہادر بالکل اپنے باپ پر گیا تھا۔
لیکن یہ کیسی پیدائش تھی۔ جیسے ویران جنگل میں کوئی شیرنی کسی بچے کو جنم دے رہی ہو ۔ کوئی ساتھ نہیں تھاسوائے نوری کے۔ رگھو ناتھ بھی اسی دن پیدا ہوا تھا ۔ لیکن اس کی پیدائش پر شادیانے بجائے گئے تھے۔وہاں منوں مٹھائیاں تقسیم ہوئی تھیں۔ درجنوں پجاریوں نے بیٹھ کر ہونک نکالے تھے۔
رامائن سنی گئی تھی۔ گیتا کا پاٹھ ہوا تھا۔
لیکن یہاں تو صرف سناٹا تھا۔ نرتکیاں اسے دیکھ دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔ ان میں کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ کھل کر کچھ کہہ سکتیں ۔ لیکن ان کے چتون بتا رہے تھے کہ شمشیر بہادر انہیں قبول نہیں ہے کیوں کہ وہ مستانی کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے۔
نوری کی آنکھوں میں آنسو بھی تھے اور غصے کی چنگاریاں بھی تھیں۔
مستانی نے اس کا حال دیکھ کر پوچھا:”نوری تمہیں کیا ہوا ہے؟ ”
مجھے تو کچھ نہیں ہوا ہے مستانی ،جو کچھ ہوا ہے آپ کو ہوا ہے۔ ”نوری نے کہا ۔ اس کے لہجے میں بلا کی تلخی تھی ۔
مستانی مسکرا دی۔”ہم سمجھتے ہیں کہ تمہارے من میں کیا ہے۔ ”اس نے کہا:”تمہیں اس بات کا دکھ ہے کہ ہم تنہا کیوں ہیں؟ ہمیںیہاں اس طرح کیوں ڈال دیا گیا ہے۔ جیسے کوئی ناکارہ سامان کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ ہمارا شمشیر بہادر پید ہوا ہے تو کوئی چراغاں کیوں نہیں ہوا؟ خوشیوں کے شادیانے کیوں نہیں گونجے؟ درباری گویوں نے کوئی راگ کیوں نہیں الاپا ؟
”ہاں مستانی ہاں”۔نوری بپھر اٹھی۔”یہی سوال ہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے۔”
”اب کچھ بھی نہیں ہے نوری ،جو انسان محبت اور جنگ کے میدان میں اپنے ہتھیار پھینک چکا ہو۔ اس سے اس کی مرضی معلوم نہیں کی جا تی۔ ”
”لیکن ہتھیار ڈالنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں ۔ اپنی انا کا سودا پھر بھی نہیں کیا جا تا ۔”
”یہ انا ہی تو محبت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے نوری اور باجی راؤ کو دیکھتے ہی ہم نے پہلا کام یہی کیا تھا کہ اپنی انا کی رکاوٹ خود اپنے ہاتھوں ہٹا دی تھی۔ تم نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی ورنہ تمہیں معلوم ہوتا کہ ایسی ہار میں بھی جیت کا نشہ ہوتا ہے۔ کسی کو جیت لینے کی سرشاری ہوتی ہے۔”
مستانی نے سرشاری سے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ جیسے وہ تصور ہی میں باجی راؤ کے قریب ہو رہی ہو۔
ایک داسی دوڑتی ہوئی داخل ہوئی ۔ وہ باجی راؤ کے آنے کی خبر لے کر آئی تھی۔
مستانی نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اس کے ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ ”دیکھ لیا تم نے ۔”اس نے نوری کو مخاطب کیا ۔
”جذبہ عشق سلامت ہو تو سرکار خود بندھے چلے آتے ہیں ۔ ”
نوری آداب کر کے چلی گئی تھی۔
مستانی نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔ باجی راؤ اس کے پاس آ کھڑا ہو ا۔
”مستانی تم نے آنکھیں کیوں بند کررکھی ہیں؟ ”باجی راؤ نے پوچھا ۔
”تاکہ اپنی آنکھوں کو آپ کا نظاراکرنے کی تربیت دے سکوں۔”مستانی نے جواب دیا ۔
”آنکھیں کھول دو مستانی ۔ تم تو بہت دنوں سے ہمیں دیکھ رہی ہو۔”
”ایسی تربیت زندگی بھر مکمل نہیں ہوتی سردار۔”مستانی نے آنکھیں کھول دی تھیں ۔
نومولود شمشیر بہادر ماں کے پہلو میں سو رہا تھا۔ باجی راؤ نے جھک کر اس کی پیشانی چوم لی۔
”اس کی کنڈلی بہت مبارک ہے مستانی۔”باجی راؤ نے کہا ۔”اتہاس میں اس کا نام بہت بلندیوں پر ہو گا۔”
”اس کا اتہاس تو آپ کی محبت لکھے گی سردار ۔”مستانی نے کہا ۔
”وہ تو ہم لکھ چکے ہیں مستانی۔ ہم راجپوتوں کی صدیوں پرانی پرم پرا کے بندھن توڑ کر اس کو وجود میں لائے ہیں۔ ہم نے اس کے لئے اپنی ماں سے بغاوت کی ہے۔ اپنی پتنی کاشی کے ارمانوں اور خوشیوں کو پھلانگتے ہوئے تمہارے پاس آئے ہیں۔ اب اس سے بڑا اتہاس اور کیا ہوسکتا ہے ؟ ”
مستانی اپنی جگہ سے اٹھ کر باجی راؤ کے مقابل آکر کھڑی ہو گئی ۔ اس نے اپنی آنکھیں باجی راؤ پر مرکوز کر دی تھیں۔
”اس طرح کیا دیکھ رہی ہو؟ ”باجی راؤ نے پوچھا ۔
”دیکھ رہے ہیں کہ محبت کرنے والے کتنے عظیم ہوتے ہیں؟ ”
باجی راؤ نے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔”آؤ تھوڑا پاس آؤ مستانی۔”
مستانی اس کے مضبوط حصار میں سمٹ گئی تھی۔

٭

وقت کی چاپ سنائی نہیں دیتی۔
لیکن وہ گزر جا تا ہے۔ کبھی کبھی اس کے قدم اتنے بوجھل ہو جاتے ہیں کہ جسم و جاں پر بار گزرتے اور کبھی کبھی اتنے سبک کہ آنے اورجانے کا احساس تک نہیں ہو تا۔
دو سال گزر گئے ۔ کاشی کے یہاں ایک اور بیٹا پیدا ہو چکا تھا ۔ نانا صاحب۔
مستانی اپنے شمشیر بہادر کو بہادر بنانے میں لگی تھی۔ یہ بچہ اس کی محبت کا مرکز تھا۔ یہ اس کے اس پیارکی نشانی تھا جس کے لئے اس نے اپنی دہلیز چھوڑ دی تھی۔ اپنے مسلک سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اپنی انا اور اپنی خود داری کو سمیٹ کر ایک طر ف رکھ دیا تھا۔
اس کے لئے اتنا ہی بہت تھا کہ باجی راؤ اس کا اپنا تھا۔ اس کا محبوب تھا۔
کئی بار ایسا ہوا کہ جنگ کے میدان میںجب باجی راؤکو کوئی گھاؤ لگتا تو مستانی سوتے سوتے بے چین ہو کر اٹھ جاتی تھی۔ اسے ایسا لگتا کہ جیسے کوئی تلوار اس کے بہت قریب چلائی گئی ہو۔ نہ جانے محبت کرنے والے دور رہتے بھی ایک دوسرے کے اتنے قریب کیسے ہو جاتے ہیں کہ دکھ سُکھ ،تکلیف خوشی سب ایک ہو جاتا ہے۔ شاید یہی محبت کا معجز ہ ہے۔
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے ۔۔۔۔کہ چوٹ تجھ کو لگے اور زخم آئے مجھے
اور ایسا معجزہ مستانی کے ساتھ کئی بار ہو چکا تھا۔ نوری نے بھی اب اسے سمجھانا چھوڑ دیا تھا۔ اس نے جان لیا تھا کہ یہ محبت ہے جس کے فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں۔
اس محبت کے راستے میں قدرت بھی حائل نہیں ہوتی ۔ کوئی مداخلت نہیں کرتی ۔
مستانی نے اپنی الگ دنیا آبا د کر لی تھی۔ اس دنیا میں کسی اور کا کہیں گزر نہیں تھا۔وہ تھی ،شمشیر بہادر تھا،باجی راؤ تھااور اس محل کے در و دیوار تھے۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔
مستانی کی بے پناہ محبت کے سامنے سازشوں نے بھی شکست تسلیم کر لی تھی۔ اب ہر طرف خاموشی تھی۔ سناٹا تھا مگر ایسا سناٹا ،ایسی خاموشی جیسی کسی طوفان کی آمد سے پہلے ہوا کرتی ہے اوربالآخر یہ طوفان آہی گیا ۔
رام لیلا کا تیوہار،ہر طرف جھنڈے اور خوشیاں۔ پنڈتوں اور پجاریوں کے اشلوک پڑھنے کی بلند آوازیں۔ رام اور سیتا کے قدِ آدم مجسمے۔ جن کو پورے واڑے میں گھمایا جا رہا تھا۔ سینکڑوں داسیاں ہاتھوں میں پھولوں کے تھا ل لئے ان مجسموں کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ کاشی کے ہاتھ میں بھی ایک تھال تھا۔ جب ایک داسی نے اسے آکر بتا یا :
” مستانی کی جان خطرے میں ہے۔ اسے جان سے مارنے کے لئے کچھ لوگوں کو بھیج دیا گیا ہے۔”
کاشی چلتے چلتے رک گئی ۔”تجھے کیسے معلوم ؟ ”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۷

Read Next

پنج فرمان — سحر ساجد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!