مستانی — منظر امام

”لیکن اب اس چرچا کو رک جانا چاہئے ”۔ رادھا بائی نے کہا:”اور اس کو تو روکے گی”۔رادھا بائی نے داسی کو حکم دیا ۔
داسی کی آنکھوں میں حیرت اور پریشانی کے سائے لرزنے لگے۔ رانی نے یہ کیا کہہ دیا تھا۔ وہ بھلا کیا کر سکتی تھی۔
”تو بتا!مرہٹوں کی گرتی ہوئی پگڑیوں کو سنبھالنے کے لئے توکیا کرسکتی ہے؟”رادھا نے پوچھا۔
”داسیوں سے پوچھا نہیں جاتا رانی صرف حکم دیا جاتا ہے ، حکم کریں۔”
”خوب” رادھا بائی کے ہونٹوں پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ نمودار ہوگئی ۔
انہوں نے کمرے میں موجود میز کی دراز سے چھوٹی سی شیشی نکالی اور داسی کی طرف بڑھا دی۔
”اس میں ایسا زہر ہے جس کے دو قطرے پتھر پر بھی ڈال دو تو پانی بن کر بہ جائے ۔”
اس شیشی کوپکڑتے ہوئے داسی کے ہاتھ کانپ اٹھے تھے۔
”جا، ہماری شبھ کامنائیں تیرے ساتھ ہیں۔”رادھا نے کہا ۔
”رانی !میں اس محل تک کیسے جا سکوں گی؟ ”داسی نے پوچھا ۔
”تو جا ! اس کا بندوبست ہو گیا ہے۔ تجھے مستانی کے پاس رکھا جائے گا۔”رادھا نے کہا ۔
بس ہوشیاری سے کام کرنا ہے۔ ہم سے وچن لیا گیا ہے کہ ہماری دھرتی پر مستانی کا خون نہیں بہا یا جائے گا لیکن اس زہر سے خون نہیں بہتا ۔ بدن پانی بن کر بہ جا تا ہے۔”رانی کے چہرے پر ایک سنگ دلانہ سی کیفیت تھی۔
”اور جانتی ہے ،اس کے بدلے میں تجھے انعام کیا ملے گا”۔
”رانی اگر بات عزت اور پرم پرا کی ہو تو انعام نہیں دیکھا جا تا ۔ اپنی آن دیکھی جا تی ہے۔”
”شاباش اب جا اور کل شام تک تو مستانی کے پاس ہو گی۔”

٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

مستانی کی خاص خادمہ نوری کو مستانی کا یہ انداز اچھا نہیں لگا تھا۔
مستانی جب چلتی تو نہ جانے کتنے دل اس کی راہوں میں قالین بن کر بچھ جاتے تھے لیکن یہاں آکر تو وہ خود قالین بن گئی تھی جسے ا یک مرہٹہ سردار کے پاؤں روندتے رہتے تھے۔ نہ جانے کیا ہو گیا تھا اس کو ۔
نوری نے ایک بار پھر مستانی سے بات کی۔”مستانی! کیا ضروری ہے کہ آپ خود کو بالکل ہی بے بس کر لیں۔ ؟ ”
”محبت تو نام ہی بے بس ہونے کا ہے نوری۔”
”بے بسی اور بے حسی میں فرق ہو تا ہے مستانی ۔ ”
”خدا کی قسم نہ تو ہم بے بس ہیں اور نہ ہی بے حس ہیں۔”مستانی نے کہا”بس اتنا ہوا ہے کہ ہم نے اپنے پیروں کو ایک زنجیر سے باندھ لیا ہے۔ وہ زنجیرہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتی ۔”
”آپ بندیل کھنڈ سے تحفے لے کر آئی تھیںلیکن خود تحفہ بن کر رہ گئی ہیں۔مرہٹے سردار وں کی نگاہیں آپ کو اسی روپ میں دیکھتی ہیں۔”
”نوری تم نے مرہٹہ سرداروں کی نگاہیں تو دیکھ لیں۔ لیکن ان نگاہوں سے آگے اس دیوار کو نہیں دیکھا جو باجی راؤ کھڑی کردیتے ہیں۔”
نوری کو اندازہ ہو گیا تھا کہ مستانی اس کی بات نہیں مانے گی۔
تیز و تند عشق کا زہر اس کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہا تھا۔
پھر بھی مستانی کی حفاظت اس کا فرض تھا۔ اس کو اسی شرط پر مستانی کے ساتھ بھیجا گیا تھا کہ وہ مستانی کی سلامتی کو اپنا ایمان سمجھے گی۔
نوری اپنے کمرے میں آئی تووہاں ایک داسی اس کے انتظار میں تھی۔
”رادھا بائی نے ایک داسی بھیجی ہے ۔” اس نے بتا یا”مستانی کی خدمت کے لئے ۔”
”وہ کیوں ؟مستانی کی خدمت کے لیے یہاں بہت سی داسیاں ہیں اور پھر میں بھی ہوں۔”نوری نے کہا:”اور رادھابائی کو مستانی سے اتنا لگاؤ کیسے ہو گیا کہ اس نے خدمت کے لئے ایک اور داسی بھیج دی ۔”
”وہ داسی باجی راؤ کی ماں کی طر ف سے آئی ہے۔” اس کو انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔”
”ہوں”۔نوری نے ایک گہری سانس لی ۔”اس کو میرے پاس بھیج دو۔”
کچھ دیر بعد نوری کے سامنے ایک داسی کھڑی تھی۔ زیادہ سے زیادہ بیس برس کی ۔ بہت خوب صورت ،مدھ بھری آنکھیں،کمر سے نیچے تک لہراتے ریشمی بال اور دھلا ہو ا روشن چہرہ۔ نوری اس کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
”ہوں۔ ”اس نے ایک گہری سانس لی۔”نام کیا ہے تمہارا ؟”
”اب تو صرف ایک داسی ہوں جی ۔ویسے ماں باپ نے مالا نام رکھا تھا۔ ”اس وقت انہوں نے یہ نہیں سوچاتھا کہ مالا بکھر بھی جاتی ہے۔
”خوب ۔ پڑھی لکھی بھی لگتی ہو۔ ”
”جی ہاں اتنی شکھشا تو حاصل کر رکھی ہے کہ کچھ کتابیں اور بہت سے چہرے پڑھ سکتی ہو ںلیکن اب صرف ایک عورت بن کر رہ گئی ہوں۔”
”کیا عورت بن کر رہ جانا بُری بات ہے؟ ”
”نہیں مالکن۔ بہت بڑی بات ہے۔ یہ یشودھا کی ہم جنس ہوتی ہے،رادھا کی بیٹی ہوتی ہے،سیتاکی بہن ہو تی ہے لیکن جب اس عورت کو کھلونا سمجھ لیا جائے تو ا س کا صرف ایک ہی مصرف رہ جاتا ہے ،کسی غیر کی راتوں کو دل فریب اور دل کش بنانا ہے۔ یہ وہ ہنر ہے جس کی ہمیں تعلیم دی جاتی ہے۔ اسی لئے پیروں میں گھنگرو باندھے جاتے ہیں،اسی لئے پھولوں کی طرح مہکنے اور صنوبر کی طرح لچکنے کی تربیت دی جاتی ہے۔۔۔”
”بہت ہی تلخ باتیں کررہی ہو ؟ ”
”ہاں ۔ بہت تلخ”اس نے کہا:”جب پورے وجود میں تلخیاں بھری ہوں تو لبوں پر مٹھاس کیسے آسکتی ہے؟ ”
”مالا، یہاں خود سے آئی ہو یا بھیجا گیا ہے؟ ”
”بھیجا گیا ہے مالکن۔ ”مالا نے بتا یا۔”جب رادھا بائی نے بھیجا تھا تو ایک فرض میرے ذمے تھا لیکن یہاں آکر وہ فرض ایک مضبوط خواہش میں بدل گیا اور وہ خواہش ہے مستانی جی کی سیوا اور ان کو دشمنوں کے وار سے بچانا ۔”
”مجھے بھیجا گیا تھا کہ میں مستانی جی سے اس کی سانسیں چھین لوں لیکن یہاں آکر جب میں نے مستانی کی ایک جھلک دیکھی تو میرے اندر ایک بھونچال سا آگیا ۔ نہیں ابھی مستانی کی مرنے کی عمر نہیں ، ابھی اس پھول کو جیون بگیا میں بہت دیرتک اپنی خوش بو بکھیرنی ہے۔ ابھی ان کو زندہ رہنا ہے۔ ”
”مالا ،تمہاری باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آرہی ہیں۔؟”نوری کچھ پریشان ہو گئی تھی۔
”مالکن !یہ دیکھیں ۔”مالا نے زہر کی چھوٹی شیشی دکھا دی۔
”کیا ہے یہ ؟ ”نوری نے حیرانی سے پوچھا۔
”یہ وہ زہر ہے مالکن ۔اگر پتھر پر بھی دو قطرے ڈال دیں تو پانی بن کر بہ جائے اور مستانی جی تو گوشت پوست سے بنی نازک بدن ۔”
”تم یہ کیوں لے کر آئی ہو؟ ”نوری پریشان ہو گئی ٔ تھی،”اورکس کے لئے لے کر آئی تھیں ؟”
”ان کے لئے جو اپنے ساتھ مرہٹوں کی زندگیوں میں بھوکم اور بھونچال لے کر آئی ہیں۔ جن کے آنے سے ایک ایسی آندھی اُٹھی ہے جس سے باجی راؤ کے محل کے در و دیوار لرزنے لگے ہیں ۔”
”اوہ مستانی جی کے لئے ۔”
”ہاں اور مجھے رادھا بائی نے بھیجا تھا ۔”
”پھر تم نے اپنا کام کیوں نہیں کیا ؟ ان سے بغاوت کیوں کی ؟”
”اس لئے کہ میں ایک عورت ہوں اور محبت کی طاقت سے واقف ہوں۔ میں نے بھی کسی سے محبت کی تھی لیکن تلواروں کی طاقت نے میری محبت کوہرا دیا اور میں داسی بن کر محل کے درو دیوار میں قید ہو گئی ۔ مرہٹے سردار مجھے اپنے بستر کی زینت بناتے رہے کیوں کہ جیت جانے والے کو ہر ستم جائز ہو تا ہے۔ مجھے مستانی کو راستے سے ہٹانے کا کام سونپا گیا ۔ لیکن مستانی کو دیکھتے ہی میرے اندر محبت کا وہ شعلہ بھڑک اٹھا جسے میں نے برسوں سے دبا رکھا تھا۔ میں نے جان لیا کہ اس عورت کے چہرے پر جو روشنی ہے وہ اس کے حسن سے زیادہ اس کی محبت کی ہے اور میں ایسی روشن محبت والی عورت کو زہر نہیں دے سکتی ، کبھی نہیں۔ ”
نوری نے آگے بڑھ کر مالا کو سینے سے لگا لیا ۔ مالا رو رہی تھی لیکن نوری کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اب مزید یہاں رہنا مستانی کے لئے ٹھیک نہیں ہو گا۔

٭

کاشی کے لئے دن اور رات ایسے خواب کی طرح ہو گئے تھے ،جو آنکھوں سے سکون چھین لیتے ہیں۔ اس نے تپسیا کی تھی۔ منتیں مانی تھیں ۔ اسے اس بات کا غرور تھا کہ اس کا باجی راؤ کسی اور عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔
لیکن اب اس کا غرور خاک ہو چکا تھا۔
مستانی ایک آندھی کی طرح اٹھی اور اس کے سارے غرور ،سارے اندازوں ،اندیشوں اور والہانہ پیار کے بھید بھاؤ کو اپنے ساتھ اڑا لے گئی تھی۔
اس کی پالکی گھاٹ سے کچھ فاصلے پر تھی۔ اس کے ساتھ آنے والی داسیاں اور کڑیل مونچھوں والے راجپوت سپاہی اپنی اپنی تیز دھار تلواروں کے ساتھ چاق و چوبند کھڑے تھے۔
کاشی گرو سے ملنے آئی تھی۔ گرو ایک مہا پرش تھا ۔ اس کی گہری نگاہیں صدیوں کے فاصلوں کو سمیٹ لیتی تھیں۔ زمانے کے گرم اور سرد نے اس کے چہرے پر جالے تان لئے تھے۔ یہ جالے اس کے تجربوں کی کہانی سنا رہے تھے۔
ندی کا یہ گھاٹ اس کا ٹھکانہ تھا۔ وہ یہیں بیٹھ کر تپسیا کیا کرتا ۔ وہ سمادھی کے درجے تک پہنچا ہوا تھا۔ کاشی اس کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھی۔
”کون سی چنتا تجھے بے کل کر کے یہاں تک لے آئی ہے رانی ۔ ”گرو کی آواز گونجی۔
”آپ تو انتر یامی ہیں مہاراج”کاشی نے کہا :”زمانے تو آپ کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہیں۔ ہم اپنی زبان سے کیا بتائیں ؟”
”ہاں جانتا ہوں میں۔”گرو نے کہا۔”لیکن توایک بات نہیں جانتی ۔”
”ہم تو صرف ایک بات جانتے ہیں مہاراج کہ جس کو محبت چھن جانے کا خوف ہو وہ کچھ بھی نہیں جانتا ۔”کاشی نے کہا ۔
”یہی تو بھول ہے کہ تو نے محبت کا مرکز شریر کو سمجھ لیا ہے آتما کو نہیں۔ ”گرو نے کہا ۔
”اس لئے کہ ہم ایک عام سی عورت ہیں۔”کاشی نے کہا :”ہم نے شریر اور آتما کو ایک جان کرباجی راؤ کو اپنا یا ہے۔”
”اب بتا میرے پاس کیوں آئی ہے؟ ”
”اس کھیل کا انجام معلوم کرنے ۔”کاشی نے کہا ۔
”جس کھیل میں پریم خود غرض ہو جائے اس کا انجام سوائے آنسوؤں کے اور کچھ بھی نہیں ہوتارانی۔”
گرو نے کہا۔”محبت کرنے والے اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ اس کا محبوب اس کی طرف دھیان دے رہا ہے یا نہیں۔ انہیں صرف ایک ہی بات کی چنتا ہوتی ہے کہ وہ جس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ خوش رہے۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہے۔ بس اس کے سوا وہ اور کچھ نہیں چاہتے۔ تومحبت کے جذبے کو صرف اپنے لئے قید مت کر ۔ آزادی دے دے اپنے محبوب کو۔ اسے لوٹ کر تیرے ہی پا آنا ہے۔فکر مت کر پرندے اپنے گھونسلے سے زیادہ دور نہیں جاتے۔ واپس آجا تے ہیں۔ ”
”گرو!”کاشی نے اپنے ہاتھ جوڑ لئے ۔۔”آنند مل گیا ہے مجھے۔ آپ کی مہربانی ۔”
”آنند باہر سے ملنے والی چیز نہیں ہے رانی۔ یہ تو انسان کے اندر ہوتی ہے۔ محبت تو روشنی کی طرح ہوتی ہے ۔ نہ کسی کے لئے کم اور نہ کسی کے لئے زیادہ۔ لیکن جسے کچھ دکھائی ہی نہ دیتا ہو اس کے لئے یہ وجود نہیں رکھتی۔ روشنی تو یکساں رہتی ہے ۔”
”انحصار تو بس اس بات پر ہے کہ کتنا وصول کرتی ہو ۔ تم اپنے دل اور گھر کے دروازے کھلے رکھو۔ ہر آنے والا تمہارے محبوب کا مہمان ہو گا۔”
”اور جب تم اس کے مہمان کا کھلے دل سے سواگت کرو گی تو محبوب کو تمہاری بے لوث محبت کا احساس ہو جائے گا۔ جاؤ اس کا بھلا چاہو جس کا بھلا تمہارا محبوب چاہتا ہے۔ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔”گرو نے آنکھیں بند کر لیں۔
کاشی نے پرنام کیا اور خاموشی سے اپنی پالکی کی طرف چل دی۔

٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۷

Read Next

پنج فرمان — سحر ساجد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!