مستانی — منظر امام

”نام ایسا تو نہیں ہے کہ میں ہونٹوں پہ لا سکوں۔وہ تو سورج کا اجالا ہے کہ پھیلے ہر سو ،وہ تو ٹھنڈک ہے نگاہوں کی، دھڑکن ہے دلوں کی ۔وہ تو چندا کی لطافت ہے ،خوش بو ہے گلوں کی ۔”
”ہم تمہاری ذہانت کے بھی قائل ہو گئے مستانی۔ اب اپنی کلا سے ہمیں بھی مسخر کر لو ۔۔۔”
” مہاراجہ!جو خود کسی کے سامنے تسخیر ہو چکا ہو ۔وہ کسی کو کیا مسخر کرے گا؟ ”
” پھر بھی اس دربار میں سردار تمہارے پیروں کی جنبش کا انتظار کررہے ہیں۔”
مستانی نے ایک نظر گھوم کر باجی راؤ کی طرف دیکھا ۔ وہ سنگھاسن کی سیڑھیوں سے نیچے اتر آئی۔ دربار میں موجود سازندوں نے سازوں کو چھیڑنا شروع کر دیا ۔ اسی وقت باجی راؤ اپنی نشست سے کھڑا ہو گیا۔ ”مہاراج !”اس کی آواز پورے دربار میں کسی تیز رفتار پرندے کی طرح پرواز کرتی چلی گئی۔
”نہیں مہاراج !یہ نہیں ہو سکتا ۔”اس نے کہا ۔
”کیا مطلب ؟ ”مہاراج کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں۔
”مہاراج !مستانی کوئی نرتکی نہیں ہے۔ یہ مہاراجہ چھتر سال کی بیٹی ہے۔ یہ اپنی مرضی سے یہاں تک آئی ہے۔ ہم اسے گرفتار کر کے نہیں لائے ۔ یہ ہماری مہمان ہے اور اس کا ہم پر ایک احسان بھی ہے کہ اس نے جنگ کے میدان میں ہماری جان بچائی ہے اور جو ہم پر احسان کر دے،ہم راجپوت اس کا اپمان نہیں کیا کرتے۔ یہ ہماری پرم پرا ہے۔”سب کی نگاہیں باجی راؤ پر مرکوز ہوگئی تھیں۔
نرم نگاہیں،کڑی نگاہیں، تحسین آمیز نگاہیں،طنزیہ نگاہیں اور ان نگاہوں کی بھیڑ میں باجی راؤ اور اپنی محبت پر غرور کرتی نگاہیں بھی تھیں، مستانی کی نگاہیں۔ جس کے ہونٹوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں غرور کی چمک ۔
”بہت خوب”۔مہاراجہ نے کروٹ بدلی اور پھر اس نے مستانی کو دیکھا۔
”مستانی ! تم نے کہا تھا کہ تم اپنے محبوب کا نام نہیں لینا چاہتیں۔ وہ تو سورج کا اجالا ہے۔ لوگ خود ہی پہچان لیں گے۔”
”ہاں مہاراج!ہم نے یہی کہا تھا۔”مستانی نے اپنی گردن جھکا دی ۔
”تو کیا تمہارے آسمان پرطلوع ہونے والا سورج ہمارا بہادر سینا پتی باجی راؤ تو نہیں ہے؟”
”آپ کا یہ سوال ہماری دھڑکنوں سے ہے یا ہماری زبان سے ؟”
”دونوں کا فرق بتاؤ ۔”
”اگر زبان سے پوچھ رہے ہیں تو یہ کبھی نام نہیں بتائے گی۔ اگر دھڑکنوں سے پوچھ رہے ہیں تو سوائے اس نام کے کوئی اور نام نہ ہو گا۔”
دربار میں سرگوشیاں گونج اُٹھیں۔ واہ واہ اور آہ آہ کی صداؤں نے پورے دربار کو یہ یقین دلا دیا کہ لوگوں کو مستانی کی گفت گو ،لہجہ ،اس کی ذہانت اور اعتماد بہت پسند آیا ہے۔
”بہت خوب مستانی”۔مہاراجہ نے تعریف کی۔”ہم تمہارے انتخاب کی داد دیتے ہیںلیکن کیا تم یہ جانتی ہو کہ تم نے جس پھول کی خواہش کی ہے وہ کسی اور کے باغ کی زینت ہے۔”
”ہمیں معلوم ہے مہاراجہ!لیکن ہم پھول کو کسی باغ سے توڑ لینے کے قائل نہیں ہیں بلکہ ہم پورے باغ کو اپنے سینے سے لگانے کا ہنر جانتے ہیں۔”
ایک بار پھر پورے دربار میں مستانی کی باتوں نے ایک سماں باندھ دیا تھا۔

٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اونچے محرابوں ،سرسراتے حریری پردوں ،قیمتی لباسوں کے درمیان سانس لیتی اور شان دار زندگی گزارتی باجی راؤ کی بیوی کاشی کے لئے یہ خبر بہت حیرت اور صدمے کا باعث تھی کہ باجی راؤ نے بھرے دربار میں مستانی کی وکالت کی ۔جس وقت اسے یہ خبر سنائی گئی وہ اس وقت آئینے کے سامنے تھی۔
آئینہ اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا اور وہ آئینے کو غرور سے دیکھ رہی تھی۔
یہ غرور اسے اپنی چتون پر تھا،اپنی ان پلکوں پر تھا جو کسی جھالر کی طرح اس کی خوب صورت آنکھوں کی حفاظت کیا کرتی تھیں۔ یہ غرور اسے اپنی سرو قامتی پر تھا۔ یہ غرور اسے اپنی زلفوں پر تھا۔ جن کی چھاؤں میں باجی راؤ کو سکون اور راحت ملتی تھی ۔
اسے غرو راپنی اس کشش پر تھا جس نے کششِ ثقل کی طرح باجی راؤ کے نظامِ دل و ذہن کو اپنے قابو میں کررکھا تھا۔
خبر سنانے والی داسی یہ خبر سنا کر ایک طرف کھڑی ہو گئی تھی ۔
”کیا تو یہ نہیں جانتی کہ یہ راجپوتوں کا ایک کھیل ہوا کرتا ہے ”۔کاشی نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا ۔
”ہمارے سردار جہاں میدانِ جنگ میں اپنی تلواروں کے جوہر دکھاتے ہیں وہاں وہ کچھ دیر کے لئے کسی کی زلفوں کے اسیر بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ تماشہ رات بھر کے لئے ہوتا ہے۔ صبح کو نمودار ہونے والا سورج دیوتا رات کا نشہ اتار دیا کرتا ہے ۔”
”میں جانتی ہوں رانی۔ میں اس پرم پرا سے بھی واقف ہوں۔ لیکن یہ سودا ایک رات کا نہیں معلوم ہوتا ۔ جیون بھر کا معلوم ہوتا ہے۔”
” یہ تو توُ کہہ رہی ہے نا؟ ”
”میں نہیں کہہ رہی رانی ۔ پورا دربار کہہ رہا ہے ۔بہادر راجپوتوں کی زبانیں اور دبے دبے لہجے کہہ رہے ہیں ۔ سب حیران ہیں کہ ہمارے سردار نے ایسا کیا دیکھ لیا ؟ ”
”ناگن بہت خوبصورت ہوتی ہے پدمنی ۔”کاشی نے کہا ۔
”اس کی آنکھوں میں ایسا جادو ہوتا ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنی طرف کھینچ سکتی ہے اور اس کے جادو کا صرف ایک توڑ ہوتا ہے کہ اس کا سر کچل دیا جائے ۔ ”کاشی کے لہجے میں بلا کی سختی تھی۔
اسی لمحے دوسری داسی نے آکر باجی راؤ کے آنے کی خبر دی۔ دونوں داسیاں اس کمرے سے باہر چلی گئی تھیں۔ کاشی نے ایک نظر آئینے پر ڈالی۔آئینہ اسے اجازت دے رہا تھا کہ وہ اب باجی راؤ کے سامنے جا سکتی ہے۔
باجی راؤ اپنے مضبوط اور اٹل قدموں سے چلتا ہوا کاشی کے پاس آگیا۔ کاشی نے آج خود ہی پہل کی تھی ،وہ اس کے بازؤوں کے حصار میں چلی گئی۔ اس کے جسم سے اٹھتی ہوئی خوشبوؤں نے باجی راؤ کے بدن میں سنسناہٹ سی پیدا کردی تھی۔ اس نے کاشی کو بھینچ لیا تھا ۔اس کے باوجود کاشی کو کچھ کمی سی محسوس ہو رہی تھی۔ جیسے اس کے اور باجی راؤ کے درمیان کوئی ان دیکھی سی چادر حائل ہو گئی ہو۔
وہ چادر اتنی دبیز تھی کہ کاشی کو باجی راؤ کے دل کی دھڑکنیں بہت کمزور اور بہت دور سے آتی محسوس ہو رہی تھیں۔ جب کہ یہی دھڑکنیں اس کی سماعت میں جنگی نقارے کی دھمک کی طرح گونجا کرتی تھیں۔
اس نے اپنے آپ کو باجی راؤ کے حصار سے الگ کیا اور ایک طرف جا کر کھڑی ہوگئی ۔
باجی راؤ کو اس کا رویہ اجنبی سا محسوس ہو ا تھا۔
”کیا بات ہے کاشی”؟اس نے پوچھا :”کیا آج ہمارے بازوؤں کے حصار میں حرارت زیادہ ہو گئی ہے جو تم دور جا کر کھڑی ہو گئی ہو؟”
”سردار، اگر اس حصار میں حرارت بھری ہو تی تو میں شائد ساری زندگی اسی طرح گزار دیتی ۔ آج حصار تو ہے لیکن حرارت کہیں گم ہو چکی ہے۔”
”کاشی !تلواروں کے سپاہی لفظوں کے سپاہی نہیں ہوتے۔”باجی راؤ نے کہا:”تم اگر ہمیں آسان الفاظ میں سمجھا سکو تو اچھا ہو گا۔”
”کسی بہادر راجپوت کا کسی کے قدموں پہ جھک جانا اچھا نہیں لگتا۔”
”اوہ ! ”باجی راؤ نے ایک گہری سانس لی۔ اس کی چمکیلی آنکھیں کاشی پر جمی تھیں۔ پھر اس نے ٹھہرے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا :’کاشی !راجپوت کبھی جھکا نہیں کرتے۔ اپنے قد کے برابر لا کر بات کرتے ہیں۔”
کاشی نے اب براہِ راست بات کر لی ۔”کیا مستانی میں اتنی خوبیاں ہیں کہ وہ آپ کے قد کے برابر آسکے؟”
”کاشی یہ خوبیاں اس کی خوب صورتی سے زیادہ اس کی بہادری اور اس کے خلوص نے اُسے بخشی ہیں۔ ”
”جنگ کے میدان میں دشمن اپنا وار کر گیا تھا ۔ لیکن وہاں مستانی میرے لئے ڈھال بن گئی تھی۔ اس نے میری جان بچائی ہے ۔”
”سردار!جان بچانے والے کے قدموں پردولت رکھی جاتی ہے ،اپنا دل نہیں ۔”کاشی ایک جھٹکے سے مڑ کر ایک طرف چلی گئی ۔
باجی راؤ کو احساس ہوا کہ دل کے میدان جنگ کے میدان سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ اس کو اب خون کا دریا نہیں ،بلکہ آگ کا دریا عبور کرنا تھا۔

٭

رات دبے پاؤں اس کی خواب گاہ میں اتر آئی تھی۔
اس نے شب خوابی کا لباس پہن رکھا تھا۔ ایک چاند آسمان پر اپنی چاندنی لٹا رہا تھا اور دوسری چاندنی اس کے تراشے ہوئے پیکر سے نکل کر پوری خواب گاہ میں پھیل رہی تھی۔
یہ در و دیوار اجنبی تھے۔ وہ اپنے محل سے نکل کر ایک انجانے سے جذبے کی ڈور سے بندھی باجی راؤکے ساتھ یہاں تک چلی آئی تھی۔ پھر اسے ایک ایسی جگہ ٹھہرایا گیا جہاں نرتکیاں رہا کرتیں۔ لیکن اسے کوئی دکھ نہیں تھا۔ جب اس نے محبت میں اپنا محل چھوڑ ہی دیا تھا تو پھر۔
چھوٹا وطن تو پھر کہاں دیر و حرم کی قید۔مسجد ہو مدرسہ ہو یا کو یٔ خانقاہ ہو ۔
دور کسی کمرے سے گھنگروؤں کی جھنکارسنائی دے رہی تھی۔ گھنگرو وہ زیور جو نرتکی کے پیروں میں آکر گھنگرو کہلاتے ہیں اور جب اسے کوئی معصوم کنیا پہن لے تو پازیب ہو جاتے ہیں۔ وہ پازیب جو علامت ہوتی ہے کنوارپن کی ،دوشیزگی کی ،الہڑ پن کی ، جو محبوب کی آمد کا پتا دیتی ہے۔ جس کے لئے شاعر نے کہا ہے!
گنگناتی ہوئی آتی ہیں فلک سے بوندیں۔کوئی بدلی تیری پازیب سے ٹکرائی ہے۔
لیکن اس کی خواب گاہ کی طرف آتی آواز کسی پازیب کی تو نہیں تھی۔ یہ تو ان پاؤں کی آہٹ تھی جو اس کے دل کی گزرگاہ پرہمہ وقت چہل قدمی کیا کرتے۔ وہ جان گئی تھی کہ کون آرہا ہے۔
باجی راؤ اس کی طرف آرہا تھا ۔ اس نے خود کو اپنے آپ میں سمیٹ لیا ۔
اس کی پلکوں کی خوب صورت جھالر اس کی آنکھوں کے لئے چلمن بن گئی ، جس چلمن سے وہ اپنے محبوب کو دیکھ سکتی تھی۔ باجی راؤ آیا ،اس نے اپنی بانہیں دراز کر دیں۔ مستانی ان بازوؤں میں سمٹتی چلی گیٔ۔ باجی راؤ نے سرگوشی کی:”مستانی کیا تم جانتی ہو ۔ ہمارا پورا نام کیا ہے؟ ”
”آپ بتا دیں”اس کی آواز لرز رہی تھی۔
”باجی راؤ مستانی: ”باجی راؤ نے کہا ۔”آج سے تاریخ ہمیں باجی راؤ مستانی کے نام سے یاد کرے گی۔”
مستانی نے اپنے آپ کو ان بازوؤں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا ۔

٭

راگ ملہار،راگ درباری ،راگ بھیروی ،سارے سراورسارے راگ اس نام میں ڈھل گئے۔ پیش وا کے درباری گویوں نے مستانی ،مستانی کی تانیں لگائیں اور ہر طرف ایک ہی نام گونجنے لگا ۔ باجی راؤ مستانی۔ باجی راؤ مستانی ۔
راج کرم چاری سرگوشیاں کرنے لگے۔
سرداروں نے غصے میں آکر اپنی مونچھوں کو بل دینا شروع کر دیا۔
باجی راؤ کی ماں کی گرج دار آوازیں پورے محل میں بازگشت بن کر پھیل گئیں ۔
کاشی نے دیوی دیوتاؤں کے سامنے ہاتھ جوڑ لئے ۔
”ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ سردار پل دو پل کا کھیل تو کھیل سکتے ہیں لیکن ہمارے علاوہ کسی کو اپنے دل کی دھڑکن بنا کر نہیں رکھ سکتے۔ ”
باجی راؤ پر اس مستانی نے جادو کر دیا تھا۔ اس کی بلند قامتی نے جادو کیا تھا، اس کی مدھ بھری آنکھوں نے جادو کیا تھا اور اس کے تراشے ہوےَ پیکر نے جادو کیا تھااور اس کی بہادری اور جنگی مہارت نے جادو کیا تھا۔
باجی راؤ کی ماں نے ایک داسی کو اپنے سامنے طلب کیا ۔
داسی اس کے سامنے گردن جھکا کر کھڑی ہوگئی۔
”جانتی ہے تجھے کیوں بلا یا ہے؟ ”
”نہیں رانی داسی کو کچھ نہیں معلوم ۔” داسی نے جواب دیا۔
”تیری وفاداری کا امتحان لینا ہے۔”رادھا بائی نے کہا ۔
”حکم دیں رانی !اپنی گردن کاٹ کر آپ کے پگ پر ڈال دوں۔”
”نہیں،تجھے گردن تو کاٹنی ہے لیکن اپنی نہیں کسی اور کی ”رادھا نے سفاکی سے کہا۔
”آپ بس حکم کریں رانی ۔ داسی وہ سب کچھ کر سکتی ہے جو مرہٹوں کی سلامتی کے لئے ضروری ہو۔”داسی نے کہا ۔
”ہمارا خیال ہے کہ تو سمجھ گئی ہم کیا کہنا چاہتے ہیں؟ ”رادھا بائی نے پوچھا ۔
”جی رانی! شائد چاروں طرف گونجتی ہوئی گندی آوازوں نے رانی کو پریشان کر دیا ہے۔”
”تو نے ٹھیک سمجھا۔”رادھا نے گردن ہلائی۔ ”یہ آوازیں ہماری صدیوں پرانی پرم پرا ؤں کی کی دشمن ہورہی ہیں داسی۔ ان آوازوں نے میرے سینے میں نہ جانے کتنے ناسور بنا دیے ہیں۔ اس عورت نے مرہٹوں کی پگڑیاں نیچی کر دی ہیں۔ اس نے ہم سے ہمارا مان چھین لیا ہے۔ اس نے ایک ماں سے اس کا بیٹا ،ایک پتنی سے اس کا پتی اور ایک دلیر سورما سے اس کی بہادری چھین لی ہے۔ وہ اب تلواروں کی چھاؤں سے زیادہ زلفوں کی چھاؤں میں وقت گزارنے لگا ہے۔یہ کسی بھی راجپوت کی موت ہے داسی موت ۔ ”
”جی رانی!ہر طرف یہی چرچا ہے۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۷

Read Next

پنج فرمان — سحر ساجد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!