مستانی — منظر امام

مستانی کے ایک بازو پرزخم آیا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں تھی۔ جب ایک کنیز نے اسے آکر یہ خبر دی کہ باجی راؤ اس سے ملنا چاہتا ہے۔ مستانی نے اجازت دیدی۔
باجی راؤ مضبوط قدموں سے اس کے کمرے میں داخل ہوا۔
کنیزیں اُٹھ کر جانے لگیں۔ مستانی نے بلند آواز میں کہا۔”رُکو!ہماری اجازت کے بغیر کوئی نہیں جائے گا۔ ”
باجی راؤ بھی جانے لگا لیکن مستانی نے پھر کہا ۔”ہم نے کہا تھا کہ ہماری اجازت کے بغیر کوئی نہیں جائے گا۔اور اب کنیزوں کو جانے کی اجازت ہے۔”
کنیزیں تسلیم کرتی ہوئی باہر چلی گئیں۔
کمرے میں صرف باجی راؤ اور مستانی رہ گئے تھے۔ باجی راؤ آہستہ آہستہ مستانی کے پاس آگیا۔”کیا ہم آپ کا شکریہ ادا کرسکتے ہیں؟”
”کس بات کا شکریہ ،،،
”ہماری جان بچانے کا۔”
”باجی راؤ ہم نے آپ کو نہیں بلکہ آپ کو بچا کر اپنی سلطنت کو بچایا ہے۔”مستانی نے کہا۔
”اس لئے َ شکریہ تو ہمیں آپ کاادا کرنا چاہئے ۔”
”کیا ہم آپ کے بازو کا زخم دیکھ سکتے ہیں؟”
”ہم آپ کو بازو کا زخم تو دکھا سکتے ہیں باجی راؤ ۔لیکن دل کا زخم کیسے دیکھیں گے۔”
”ہم آپ کے دل کے زخم کو اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھیں گے مستانی ۔”باجی راؤ نے کہا۔
مستانی نے مسکرا کر اپنی آستین اوپر کر دی۔
سفید براق جیسابازو باجی راؤ کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ اس نے اپنی کٹار نکالی اور اچانک مستانی کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے بازو کے زخم پر ایک چرکا لگا دیا تھا۔ مستانی چیخ اٹھی۔ خون بہنے لگا تھا۔ باجی راؤ نے اپنی جیب سے رومال نکال کر مستانی کے بازو پر کس کر باندھ دیا۔ ”اب ٹھیک ہے مستانی۔ ورنہ اس زخم میں زہر پھیل جا تا۔”
”لیکن یہ توبہت بے رحمی سے علاج کیا آپ نے ۔” مستانی نے کہا۔
”ہر بے رحمی صرف بے رحمی نہیں ہو تی۔”باجی راؤ مسکرا کر بولا۔”اس کا انحصار زخم لگانے والے کی نیت پر ہوتا ہے۔ ”
”کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کی نیت کیا تھی؟ ”
”جو کسی کی آنکھوں کی جھیل میں ڈوب چکا ہو،اس کی نیت پر شک نہیں کیا جا تا۔”
”اب آپ نے بھی ہمارے زخم کا علاج کر کے ہماری جان بچائی ہے۔ اب بتائیں۔کیا انعام دیا جائے؟”
”ایک بار پھر وہی سکون سمیٹنا چاہتا ہوں۔”
باجی راؤ نے اپنے بازو پھیلا دیے ۔مستانی اس کے بازوؤں کے حصار میں سمٹ آئی تھی۔

٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

باجی راؤ کی فاتحانہ واپسی کا اعلان ہو گیا تھا۔
مہاراجہ چھتر سال اس کی کامیابیوں سے بہت خوش تھا۔ باجی راؤ کے محل میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اس کی بیوی کاشی نے اس کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھا دی تھیں۔
محرابوں والا خوب صورت محل ،جس کے در و دیوار مرہٹہ روایتوں سے سجے تھے،اس وقت اور بھی عالی شان ہو گئے تھے۔ کاشی نے نہ جانے کتنے من گلاب اپنی کنیزوں کے ذریعے اس پر نچھا ور کر دئیے تھے ۔ ہر طرف خوشبو بکھری ہوئی تھی۔
باجی راؤ جب محل کے اندرونی حصے میں پہنچا تو عورتوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ مرہٹوں کا شیر اپنے شکار سے واپس آگیا تھا۔ اس کے ماتھے پر کامرانی ستارے کی طرح جگمگا رہی تھی۔
کاشی نے عورتوں کے جھرمٹ سے نکل کر اس کی آرتی اتاری۔ اس کے قدموں کو رواج کے مطابق ہاتھ لگا یاجب کہ باجی راؤ نے اس کی آنکھوں میں اپنا پورا وجود اتار دیاتھا۔
”کاشی تمہارا رنگ اتنا پھیکا کیوں ہو رہا ہے؟ ”باجی راؤ نے اس کے کان میں سرگوشی کی ۔
”انتظار کرنے والوں کے رنگ دمکتے نہیں ہیں پیش وا!”کاشی نے جواب دیا۔
”اور انتظار ختم ہو جاےَ تو۔”
”تو پھر پرانا رنگ و روپ لوٹ آتا ہے۔”
”تو آؤ ۔ہم تمہارا رنگ روپ تمہیںواپس کر دیتے ہیں۔”
کاشی شرما کر سمٹ گئی تھی۔
٭

چھتر سال کی طرف سے تحائف کے انبار لگا دئیے گئے تھے۔
باجی راؤ نے بنگش کو شکست دے کر اس کی سلطنت کو بچایا تھا۔ اس کے بدلے میں اس نے جھانسی،ساگر اور کالپی کے علاقے باجی راؤ کو دے دیے تھے۔
اس کے علاوہ ٣٣ لاکھ سونے کے سکے بھی دیے گئے تھے۔ ہیروں کی ایک کان بھی تحفے میں دے دی گئی تھی ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھا۔
باجی راؤ کی ماں باجی راؤ کے ساتھ کھڑی ان کنیزوں اور غلاموں کو دیکھ رہی تھی ،جو تحائف کے طشت اٹھائے چلے آرہے تھے۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ اس نے جس بچے کو جنم دیا تھا وہ آج ستارہ بن کر مرہٹوں کی قسمت کے آسمان پر چمک رہا تھا۔
پھر اس نے ایک بڑی سی پالکی دیکھی ۔جس کو بہت سے غلام اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔
”یہ کیا ہے بلرام ؟”اس نے پاس کھڑے ہوئے ایک سپاہی سے پوچھا۔
”نہیں معلوم ماتا۔”اس نے جواب دیا۔
پالکی رُک گئی ۔ اس میں سے ایک ایسی لڑکی اُتری ،جسے دیکھ کر باجی راؤ کی ماں کی آنکھوں میں ستائش کے جذبات اترنے لگے تھے۔ وہ بہت خوب صورت تھی۔ دور کھڑا باجی راؤ اس لڑکی کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ وہ مستانی تھی۔
وہ مستانی جس کے پاس وہ امانت کے طور پر اپنے دل کی دھڑکنیں چھوڑ آیا ، اس کے پاس پہنچ چکی تھی۔ مستانی نپے تلے قدموں سے چلتی ماتا کے پاس آکر کھڑی ہو گئی ۔
”کون ہو تم؟ ”ماتا نے پوچھا۔
”ہم مستانی ہیں۔ چھتر سال کی بیٹی۔”مستانی نے جواب دیا۔
”ہم نہیں جانتے تھے کہ چھتر سال کی بیٹی اتنی خوب صورت ہو گی۔”
”بہت شکریہ آپ کا ۔”مستانی نے ایک خاص ادا سے تسلیم کیا۔
”اوہ ۔”اس کے اس انداز کو دیکھ کر ماتا جی کی آنکھیں پھیل گئیں ۔
”ہم نے سنا ہے کہ راجہ چھتر سال کے بہت سے رشتے تھے تمہارارشتہ کس حوالے سے ہے؟”
”میں روحانی بیگم کی بیٹی ہوں۔”مستانی نے بتا یا ۔
”اوہ تو مسلمان ہو؟”نگاہوں میں تحسین کی جگہ تحقیر سمٹ آئی۔
”ہم یہاں کسی دھرم کے ناطے سے نہیں آئے ہیں۔ ”مستانی نے کہا۔”ہم تو شکر گزاری کے طور پرتحائف لے کر آئے ہیں۔”
”تحائف دینے کے لئے غلاموں اور کنیزوں کی فوج ہی کافی تھی۔۔تمہارے آنے کی کیا ضرورت تھی؟”سوال بہت تلخ تھا جس کا جواب مستانی نے بہت شیریں زبان میں دیا۔
مستانی نے اک نظر باجی راؤ کو دیکھا پھر دھیرے سے بولی:”ماتا !کچھ خاص لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ جن کے لئے غلاموں اور کنیزوں کی نہیں دل کے رشتوں کی ضرورت ہو تی ہے۔”
”خوب۔۔”باجی راؤ ایک قدم آگے آگیا۔
”ماتا جی !انہوں نے ہماری جان بچائی تھی۔ ہم ہمیشہ ان کے شکر گزار رہیں گے۔”
”شکر گزاری کسی کو کسی کے دروازے تک کھینچ کر نہیں لاتی، بہر حال ۔”اس نے پاس کھڑے ہوئے بلرام کو دیکھا ۔
”بلرام!مستانی کے لئے پونا کے رنگ محل میں رہنے کا نتظام کر دیا جائے اور ان کا خاص خیال رکھا جائے ۔ ”
باجی راؤ نے اس وقت کچھ کہنا چاہا لیکن مصلحتا ً خاموش رہا۔ مستانی نے ایک نظر باجی راؤ کی طرف دیکھا اور اپنی نظریں جھکا لیں ۔ محبوب کے در سے اگر ٹھوکر بھی مل رہی ہو تو محبت کرنے والے اسی پر نازاں رہتے ہیں۔

٭

ایک ٹھوکر ہی تھی جو رادھا بائی (باجی راؤ کی ماں) کی طرف سے مستانی کو لگائی گئی تھی۔
اسے ایک ایسے محل میں رکھا گیا ،جہاں پیروں میں گھنگرو بندھے ہوتے اور پیشانی پر سرداروں کی طرف سے دی گئی مہربانیوں کی چمکتی پٹیا ں ہوتیں۔ نازک سفید ہاتھوں میں سونے کے بھاری بھاری راجپوتی کنگن ہوتے اور ان کی چھن چھن طبلوں کی گمک کے ساتھ شامل ہو کر پورے محل میں تھرکتی رہتیں۔ ہر طرف چمکیلے بدن اپنی کلا دکھا یا کرتے، یہ وہ محل تھا جہاں سے تربیت پانے والی رقاصاؤں کو اپنی چھب دکھانے کے لئے محلوں میں طلب کیا جا تا۔
مستانی کی خاص خادمہ نوری نے کہا:”مستانی یہ جگہ آپ کے لائق نہیں ہے۔ رادھا بائی نے آپ کو یہاں رکھ کر آپ کی توہین کی ہے۔”
”نوری!”مستانی ٹھہرے لہجے میں بولی :”توہین کسی در و دیوار کے درمیان قیام کرنے سے نہیں ہوتی۔میزبانوں کے لہجوں اور ان کے دلوں کی وسعت یاتنگی سے ہوتی ہے۔ فرض کرو اگر ہم کسی خاص محل میں رکھے جاتے اور باجی راؤ کی نظروں میں ہمارے لئے قدر شناسی کا کوئی عکس نہ ہوتا تو تم اسے کیا کہتیں؟ ”
”لیکن مستانی یہاں رکھنے کے باوجود میں نے تو ان کی نظروں میں ایسی کوئی خاص چمک نہیں دیکھی”۔ نوری حیران تھی ۔
”ایسی چمک دیکھنے کے لئے کسی اور کی نہیں خود اپنی آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے نوری۔ چوں کہ وہ چمک صرف ہمارے لئے تھی۔ اسی لئے تم نہیں دیکھ پائیں ۔”
”دعا کریں مستانی کہ وہ چمک کسی اور کو دکھائی نہ دے کیوں کہ یہاں میزبانوں کے تیور اچھے معلوم نہیں ہوتے ۔”
”ہمیں تو اس وقت دکھ ہو گا نوری ،جب باجی راؤ کے تیور کسی اور کے لئے برہم ہو جائیں ۔ اس کی محبتوں اور اس کی نفرتوں کے محور صرف ہم رہنا چاہتے ہیں۔”
”یہ محبت کی کون سی منزل ہے مستانی۔”نوری نے ایک گہراسانس لیا۔
”یہ وہ منزل ہے جہاں محبوب کی نفرت بھی کسی اور کے لئے گوارانہیں ہوتی۔”
”میں ایک بات کہہ دوں مستانی ۔ سیاست اور جنگ کا انجام چاہے کچھ بھی ہو ۔ لیکن آپ تاریخ میں محبت کی ایک داستان لکھنے جا رہی ہیں۔”
مستانی مسکرا دی۔ محل کے کسی گوشے میں ٹھمری الاپی جا رہی تھی ۔ٹھارے رہیو بانکے شام

٭

شان دار دربار میں مہاراجہ اونچے سنگھاسن پر بیٹھا دھیرے دھیرے سے سنگھاسن کی جانب قدم اٹھاتی مستانی کو بڑے شوق سے دیکھ رہا تھا ۔
مہاراجہ نے مستانی کی تعریف سن کراُسے دربار میں رقص کے لئے بلایا کیوں کہ اُس نے سنا تھا کہ اس کے سینا پتی باجی راؤ نے مستانی کو اپنا مہمان بنایا ہوا ہے۔
باجی راؤ بڑی فتوحات کے ساتھ واپس آیا تھا۔ بنگش کو شکست دینے کے بعد اس نے نظام سے بھی مرہٹوں کا وہ حق حاصل کر لیا تھا ، جو حق نظام کے پاس برسوں سے تھا۔
باجی راؤ کی دھوم ہر طرف مچ گئی تھی۔ اس کے گھوڑے جب جنگ کے میدانوں میں دوڑتے تو ایک بھونچال سا آجا تا تھا۔ ایسا ہی ایک بھونچال مستانی کے قدموں سے پیدا ہو رہا تھا۔
لگتا تھا اس شوخ کے قدموں سے توبھونچال بندھے تھے۔
دربار میں بیٹھا باجی راؤ مضطرب تھا۔ بار بار پہلو بدل رہا تھا۔ دربار میں بیٹھے لوگوں کی ہوس زدہ نگاہیں اسے اپنی محبت کے دامن میں آگ لگاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
راجپوتوں کی پگڑیاں ان کے سروں کی حرکات کے ساتھ ساتھ متحرک تھیں۔
مستانی نے مہاراجہ کی طرف بڑھتے ہوئے ایک نظر باجی راؤ کی طرف دیکھا اور بس وہی ایک نظر اس کے لئے جینے کا سامان کر گئی ۔
باجی راؤ کی آنکھوں میں آنسو تو نہیں تھے، لیکن چنگاریاں ضرور تھیں۔ اس کی ماں نے یہ اچھا نہیں کیا تھا۔
دربار میں فتح کی خوشی میں جشن کا اعلان کیا گیا تھا۔ رادھا بائی نے مہاراجہ کو پیغام بھیجا تھا کہ اس کے محل میں ایک ایسی مہمان موجود ہے جو راجہ چھتر سال کی بیٹی تو ہے لیکن اس نے ایک مسلمان عورت کے کوکھ سے جنم لیا ہے۔
مہاراجہ اسے دیکھے گا تو اسے ایسا لگے گا جیسے آکاش سے اپسرا اتر کر دھرتی پر آ گئی ہو۔ وہ جب چلتی ہے تو زندگی چلتی ہوئی محسوس ہو تی ہے اور جب رک جاتی ہے تو نبضِ کائنات رک جا تی ہے۔
واقعی مہاراجہ اس وقت نبضِ کائنات کو رکتے اور چلتے ہوئے محسوس کررہا تھا۔
مستانی اس کے سنگھاسن کی طرف آچکی تھی۔
وہ سنگھاسن کے پاس آکر رک گئی اور اس نے ایک خاص ادا سے تسلیم کیا۔
”بہت خوب !جتنی تعریف سنی تھی تم اس سے زیادہ خو ب صورت ہو”۔
”عورت صرف اسی وقت خوب صورت ہو تی ہے جب اس کا محبوب اس کے سامنے ہو ۔”
مستانی نے اپنی مترنم آواز میں جواب دیا ۔
” وہ محبوب کون ہے جس کی موجودگی نے تمہیں خوب صورت بنا دیا ہے؟ ”مہاراجہ نے پوچھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۷

Read Next

پنج فرمان — سحر ساجد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!