١٧٢٧ ء عیسوی۔
بندیل کھنڈ کا مہاراجہ چھتر سال اپنے خاص کمرے میں مسند پر بیٹھا ہے۔ اس کی بیوی روحانی اس کے سامنے ہے۔ چھتر سال کچھ سوچ رہا ہے۔
”خیریت تو ہے مہاراج!” روحانی نے پوچھا:”آج آپ کے ماتھے پریہ شکنیں کیسی؟ نصیبِ دشمناں طبیعت تو ٹھیک ہے ؟”
”ہاںویسے تو سب ٹھیک ہی ہے۔”،،،چھتر سال نے جواب دیا: ”بس یوں ہی ایک بات سوچ رہے تھے۔”
”اگروہ بات ہمیں بتا دیں تو شائد ہم کوئی مشورہ دے سکیں۔”
”گن پتی بابا کا تیوہار آنے والا ہے۔ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اس سال مستانی کو رقص کی اجازت دی جائے یا نہیں۔”
”کیوں؟اس میں کون سی بات ہو گئی؟وہ تو اپنے بچپن سے ہر سال رقص کیا کرتی ہے۔”روحانی نے کہا ۔
”وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن اب وہ جوان ہو چکی ہے۔ ”
”مہاراج !آپ جانتے ہیں کہ ہم نے اس کی پرورش کس طرح کی ہے کہ اس کو بیٹی ہونے کا احساس نہیں ہونے دیااور نہ ہی اس کے جذبات میں کسی کمزوری کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ رقص اس لئے کرتی ہے کہ اس کو تربیت دی گئی ہے اور تلوار اس لئے چلا تی ہے کہ اسے اپنے بہادر باپ کا مان بھی رکھنا اور اپنی حفاظت بھی کرنی ہے۔اس کے علاوہ ۔۔۔۔”روحانی بولتے بولتے خاموش ہوگئی ۔
”ہاں ہاں کہیں روحانی بیگم۔ اس کے علاوہ کیا ؟”چھتر سال نے پوچھا ۔
”اس کے علاوہ یہ ہماری حکمت ِ عملی بھی ہے۔”روحانی نے کہا:”ہم مسلمان ہیں۔ ہم پر یہ الزام لگا یا جا تا ہے کہ ہم نے اپنی بیٹی کی پرورش مسلم طریق پر کی ہے لیکن جب وہ گن پتی کے تیوہار پر رقص کرتی ہے توسارے الزامات اس رقص کی گر دش میں چھپ جا تے ہیں اور ہماری رعایا خوش ہو جا تی ہے۔مستانی سے ان کا پیار بڑھ جاتا ہے۔”
”بہت خوب ۔”مہاراجہ چھترسال مسکرا دیا۔”تو اس سے کہہ دو کہ ہم نے اس کو اجازت دے دی ۔ تمہاری یہ حکمتِ عملی ہمیں پسند آئی روحانی بیگم !۔”
گن پتی کا تیوہار آگیا۔
مستانی جب رقص کے لئے سامنے آئی تو دیکھنے والوں نے اپنے دل تھام لئے ۔
وہ جوان ہو چکی تھی۔اس نے بلا کا حسن پا یا تھا۔ آنکھوں میں سرشاری ،چال میں مستی اور مستی بھی ایسی کہ لرزے ہے موجِ مے تیری رفتار دیکھ کر۔
اس کی زلفیں گھٹاؤں کی طرح اس کے شانے پربکھری ہوئی تھیں۔ اس نے جب رقص کے لئے ایک گردش لی تو دیکھنے والوں کے دل گردش میں آگئے ۔
اس کے نازک پیروں میں پڑے گھنگرو اپنی ہر جھنکار کے ساتھ یہ اعلان کررہے تھے کہ مستانی کے پیروں سے بندھ کر ان کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اس نے اس دن ایسا رقص پیش کیا کہ گن پتی بابا کا وہ تیوہارایک یادگار بن کر رہ گیا۔
چھتر سال روحانی کے ساتھ ایک طرف بیٹھا مستانی کو دیکھ رہا تھاکہ ایک منتری اُٹھ کر اس کے پاس آگیا۔”شما چاہتاہوں مہاراج!لیکن خبر ایسی ہے کہ مجھے اس وقت آنا پڑا ۔”
”ہاں کہو۔کیا خبر ہے؟ ”
”الہٰ آباد کا محمد خان بنگش اپنی سینا لئے بڑی تیزی سے ہماری جانب آرہا ہے ”۔
رقص جاری تھا۔ چھتر سال نے روحانی بیگم سے سرگوشی میں کچھ کہا اور محفل سے اٹھ کر اس منتری کے ساتھ اندر محل میں آگیا۔ اس خبر نے اسے پریشان کر دیا تھا۔
”کتنی سینا ہے اس کے ساتھ؟ ”اس نے پوچھا ۔
”پچاس ہزار پیدل اور بیس ہزار گھڑ سوار ہیں۔ اس کے علاوہ بھاری تعداد میں توپ خانہ اور ہاتھی بھی ہیں۔بہت بڑی فوج ہے مہاراج۔”
چھتر سال کی پریشانی اور بڑھ گئی ۔ ”تمہارا کیا خیال ہے۔ ہم اس کا مقابلہ کر سکیں گے؟”
”ہم کٹ کے مر سکتے ہیں مہاراج!لیکن تن تنہا مقابلہ بہت مشکل ہے۔” منتری نے کہا۔
”تو پھر ہم کیا کرسکتے ہیں ؟ ”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”ہمیں کسی سے مدد لینی ہو گی مہاراج ”۔منتری نے کہا:” اس وقت صرف باجی راؤ ایسا مرہٹہ سردار ہے جو اس مشکل میں ہماری مدد کر سکتا ہے اور ایک اچھی بات یہ ہے کہ باجی راؤ آج کل بندیل کھنڈ سے زیادہ فاصلے پر نہیں جہاں اس کی سینا نے پڑاؤ ڈال رکھا ہے۔”
”ہوں ”چھتر سال نے ایک گہری سانس لی۔”ہمیں اس کے پاس ایک بھروسے کا آدمی بھیجنا ہو گا۔ ”
دوسرے دن جب مستانی اس کے سامنے آکر کھڑی ہوئی تو چھتر سال حیران رہ گیا تھا۔
”تم!بیٹی تم جانا چاہتی ہو؟”اس نے حیرانی سے پوچھا۔
”تو کیا ہواپتا جی ! کیا ہم بھروسے کے قابل نہیں ہیں؟”
”کیسی بات کررہی ہو؟تم سے زیادہ ہمیں کس پر بھروسہ ہو سکتا ہے۔ لیکن تم ایک لڑکی ہو۔”
”پتا جی مہاراج! جب آپ نے ہمیں تلواربازی سیکھنے کے لئے گروکے سپرد کیا تھا تو ان سے یہ نہیں کہا تھا کہ دیکھو یہ ایک لڑکی ہے، اس پر زیادہ سخت وار مت کرنا۔”چھتر سال مسکرا دیا۔
دوسرے ہی دن مستانی، باجی راؤ کی طرف روانہ ہو گئی ۔اس کے ساتھ پانچ ہزار گھڑ سوار تھے۔ اس نے ایک ایسا خود پہن رکھا تھا جس نے اس کا چہرہ پوری طرح چھپا رکھا تھا۔ وہ گھوڑے کی پیٹھ پر کسی مجسمے کی طرح بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھ چلنے والے ساتھ دینے کی کوشش میں ہانپ ہانپ جا رہے تھے۔
پہلے پڑاؤ پر اس سے پوچھا گیا:”راج کماری! آپ اتنی تیزی سے سفر کیوں کررہی ہیں؟ ”
”اس لئے کہ دشمن ہم سے زیادہ تیز رفتار ہے ۔”اس نے جواب دیا۔
اس تیزرفتاری کے باوجود یہ سفر پانچ دنوں میں طے ہوا تھا۔
٭
باجی راؤ کو اطلاع دی گئی ۔ ”بندیل کھنڈ کا ایک وفد آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ وہ شائد کسی یدھ کے سلسلے میں آپ سے مدد لینے آیا ہے۔”
”لیکن ہم ابھی کسی یدھ میں پڑنا نہیں چاہتے۔ ہم اپنی تھکان دور کرنے کے لئے یہاں آرام کررہے ہیں۔ان کو واپس لوٹا دو۔”
”لیکن وہ واپس لوٹ جانے کے اردے سے نہیں آیا۔”اسے بتا یا گیا۔
عظیم الشان خیمے کے باہر تلواروں کی جھنکار سنائی دینے لگی، پھر مکمل جنگی لباس میں ایک شخص اندر داخل ہو گیا ۔ پہرے داروں نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی تلوار کے جوہر دکھاتا ہوااندر آگیا تھا۔
باجی راؤ کے ماتھے پر بل پڑ گئے ۔
”کون ہو تم ؟” اس نے پوچھا۔
”سردار یہی بندیل کھنڈ والوں کا پیغام لے کر آیا ہے ۔ ”اسے بتا یا گیا۔
”اوہ ۔”اس نے ایک گہری سانس لی ۔پھر اس نقاب پوش سے مخاطب ہوا۔”کیا تمہیں یہ نہیں معلوم کہ مہمان بننے کے بھی کچھ اصول ہو تے ہیں۔”
”معلوم ہے سردار۔”آنے والے نے جواب دیا۔”لیکن جب سروں پر دشمنوں کی تلواریں چمک رہی ہوں تو پھر میزبان اور مہمان کا تکلف نہیں کیا جا تا۔اپنے سروں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہم نے وہی کیا ہے۔”
باجی راؤ کو اس کی آواز میں ایک ایسی لوچ محسوس ہوئی جو صرف عورتوں کی آوازوں میں ہوتی ہے۔ نسوانیت سے بھرپور ۔کھنکتی ہوئی آواز ۔
”اپنا چہرہ دکھاؤ۔”اس نے کہا۔
نقاب پوش نے اپنی نقاب اتار دی۔ باجی راؤ کو ایسا لگا جیسے خیمے میں اچانک چاند نکل آیا ہو۔ مدھ بھری آنکھیں ،کٹیلے ابرو ،اور ہوش اڑا دینے والا ایک خوب صورت چہرہ اس کے سامنے تھا۔
”کون ہو تم؟ ”اس نے بہت جلد اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔
”مستانی۔مہاراجہ چھتر سال کی بیٹی۔”اس نے جواب دیا۔
اس دوران خیمہ خالی ہو گیا تھا۔ باجی راؤ کے آدمی باہر چلے گئے تھے۔
”ہم نے تمہارے بارے میں کافی کچھ سنا تھا مگر کہنے والوں نے تمہارے حسن کا حق ادا نہیں کیا۔”باجی راؤ نے کہا:”تم توبہت خوب صورت ہو۔”
”ہم آپ کے پاس اپنی خوب صورتی کی تعریف سننے نہیں آئے ہیں سردار۔”مستانی نے کہا :
”تعریف کے لئے تو کافی وقت پڑا ہے۔”
”اوہ۔”باجی راؤ نے مستانی کی آنکھوں میں جھانکا۔”کیا ہمیں ایسا موقع مل سکے گا کہ تمہاری تعریف کر سکیں؟”
”اس قسم کا موقع پیش گی اجازت سے نہیں آتا سردار۔”مستانی نے کہا۔”یہ اچانک ہو جانے والے حادثے ہوتے ہیں۔”
”اور یہ حادثہ ہو چکا ہے مستانی ۔”باجی راؤ نے کہا:”بتاؤ ،ایسی کون سی بپتا آن پڑی کہ تم اتنی دور کا سفر کر کے میرے پاس آئی ہو ۔”
”ہمیں محمد خان بنگش سے خطرہ ہے سردار۔ وہ ایک بہت بڑی فوج لے کر ہم پرچڑھائی کرنے آرہا ہے۔”مستانی نے بتا یا۔”ہمیں تو یہ ڈر ہے کہ کہیں اس کی فوجیں اب تک ہمارے قلعے کو گھیر نہ چکیں ہوں۔”
”جس مہاراجہ کی تم جیسی دلیر بیٹی ہو۔اس کو تو کسی دشمن سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے۔”
”ہم خوف زدہ نہیں ہیں سردار۔ ہم لڑنا جانتے ہیں۔ لیکن دشمنوں کی تعداد اور اس کے لاؤ لشکر نے ہمیں الجھا دیا ہے۔ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ہماری تعداد بھی اس سے کم نہ ہو۔ ”
”ہم تمہارا ساتھ دینے کو تیار ہیں”۔باجی راؤ نے کہا:”تم کتنا سفر کر کے آئی ہو؟”
”ہم اسی لئے تو پریشان ہیں سردار ۔” مستانی نے کہا ۔”پانچ دنوں کا سفر ہے۔”
”ان پانچ دنوں کو ہم دو دنوں میں بدل دیں گے ۔”
”یہ ناممکن ہے سردار۔”
”جب باجی راؤ گھوڑے کی پشت پر بیٹھ جائے تو پھر فاصلے سمٹنے لگتے ہیں۔ زمین اپنا راستہ چھوٹا کر لیتی ہے۔۔تم آرام کرو ۔ ہم کل صبح یہاں سے روانہ ہو رہے ہیں”۔
مستانی نے اپنی گردن کو خم کیا اور خیمے سے باہرجانے لگی ۔باجی راؤ نے آواز دے کر اسے روک لیا۔”کیا تم ہمارا شکریہ ادا نہیں کرو گی ؟ ”
”شکریہ تو غیروں کا ادا کرتے ہیں سردار۔”مستانی نے کہا۔
باجی راؤ اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہ گیا ۔ہر چیز جیسے رُک گئی تھی ۔
٭
مہاراجہ چھتر سال قلعے کی فصیل سے جھانک رہا تھا۔
بنگش کی فوجوں نے قلعے کا گھیراؤ کر لیا تھا۔ سامنے کا پورا میدان اس کی فوجوں سے اٹا پڑا تھا۔ ہوا کے زور سے لہراتے ہوئے کئی رنگوں کے پر چم ۔ ہر پرچم ایک دستے کی نشان دہی کررہا تھا۔ درجنوں پرچم تھے۔ پیدل فوجوں کے پیچھے گھڑ سواروں کے دستے تھے۔ پھر ہاتھیوں کے دستے۔ توپ خانہ اور بہت کچھ۔ چھتر سال کو ایک طرف بنگش کی فکر تھی تو دوسری طرف اسے مستانی کی بھی فکر تھی،جو باجی راؤ کے پاس مدد کے لئے گئی تھی۔ دس دن تو صرف آنے جانے میں لگ جاتے ۔
” اگر باجی راؤ نے ساتھ دیا بھی تو اسے بہت دیر ہو چکی ہو گی ۔”
اس کی توقع کے بر خلاف اسے خبر دی گئی ۔
”مہاراج ! راج کماری مستانی باجی راؤ کی مدد لے کر آپہنچی ہے۔ باجی راؤ بھی ساتھ ہے۔”
چھتر سال نے یہ خبر لانے والے کو اپنا موتیوں کا ہار اتار کر دے دیا۔
قلعے کی فصیل پر کھڑے لوگوں نے گرد و غبار کا ایسا طوفان پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا ۔ قلعے کی دیواریں گھوڑوں کی ٹاپوں سے لرزنے لگی تھیں۔ اس کے ساتھ ہر ہر مہادیو کی آوازوں نے چاروں طرف ہیبت کا سماں باندھ دیا تھا۔ بنگش کی فوجوں نے پلٹ کر وار کیا۔ تلواروں کی جھنکاریں دور دور تک پھیلتی چلی گئیں۔ خوں آشام نیزے بہادروں کے جسموں میں اترنے لگے۔ گھوڑے خون میں ڈوب ڈوب کر پھسلتے رہے۔
باجی راؤ بے جگری سے لڑ رہا تھا۔ اس کی تلوار اس کا پوری طرح ساتھ دے رہی تھی۔ ادھر ڈوبا اُدھر نکلا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے شانہ بہ شانہ لڑتی ہوئی مستانی بھی اپنی تلوار کے پورے پورے جوہر دکھا رہی تھی۔
اس کا نازک بدن اس وقت جرأت اور بہادری کی علامت بن کر گھوڑے کی پیٹھ پر کسی مجسمے کی طرح ایستادہ تھا۔ اس کی جانب اٹھتی ہر تلوار اپنے وار کرنے والے کو گھاؤ دیتی ہوئی زمین پر گر جاتی تھی اور اس کی جانب بڑھتے ہاتھ قلم ہو جاتے ۔ گردنیں اپنے شانوں سے جدا ہو جاتی تھیں۔
باجی راؤبے اختیار اُسے دیکھنے لگا۔ اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ بنگش کا ایک فوجی اس کے پیچھے پہنچ چکا ہے۔ مستانی نے اسے دیکھ لیاتھا۔ دشمن کی تلوار باجی راؤ پر اٹھی اور اسی وقت مستانی کی تلوار نے اس کی گردن الگ کر دی۔ اسی دوران خود مستانی پر ایک وار ہو چکا تھا۔ وہ زخمی ہو گئی تھی۔
جنگ کا فیصلہ باجی راؤ کے حق میں ہوا تھا۔
چھتر سال کی فوج بھی قلعے سے نکل کر بنگش کی فوج پر ٹوٹ پڑی تھی۔ بنگش کی فوج دو طرفہ گھر گئی تھی۔ جنگ ختم ہو ئی ۔
باجی راؤ نے مستانی کو سہارا دیا۔ اس وقت وہ ہوش میں تھی اور دو مضبوط بازوؤں نے اسے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ وہ بازو اسے اپنے مضبوط سہارے کا یقین دلا رہے تھے اور مستانی کی آنکھیں یہ بتا رہی تھیں کہ اس نے سہارا دینے والے بازوؤں کو اپنی زندگی کا سہارا بنا لیا ہے۔
چھتر سال کے لئے خوشی کا دن تھا۔ اس نے باجی راؤ کی مدد سے بنگش پر فتح حاصل کر لی تھی۔
٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});