وہ تب بھی نہیں رویا جب اس کا جما ہوا کاروبار بیٹی کے جاتے ہی ڈوبنے لگا۔ پہ درپہ نقصان اور مالی پریشانیاں اس کے گلے کا ہار بن گئیں۔اگلے پانچ سال اسی کش مکش میں گزر گئے،ادھر ڈوبے اِدھر نکلے لیکن وہ ہمت اور استقامت کا پہاڑبنا حالات کا سامنا کرتا رہا۔بالآخر قدرت کو اس کی حالت پر رحم آگیا اور اس کے مالی حالات میں ٹھہراؤ آگیا۔ ان پانچ سالوں میں زرینہ کا کردار مثالی رہا تھا۔ ایک دن بھی اس کے منہ سے حرف شکایت نہ نکلا تھا بلکہ اس کی خدمت اور محبت اور بڑھ گئی۔لیکن سرفراز شاہ کی نظروں میں محبت اپنی دل کشی کھوچکی تھی یا شاید اس کا پینتالیس سالہ دل صدمات کا عادی ہوچکا تھا۔یہی وجہ تھی کہ جب اس کا شفیق اور مہربان باپ خاموشی سے دنیا سے رخصت ہوا تو اس نے اس صدمے کو بھی خاموشی سے سہہ لیا۔زندگی پھولوں کی سیج نہیں تو کانٹوں کا طوق بھی نہیں۔ جو زندگی جیتے ہیں انہیں دکھ کے پھول اور سکھ کے کانٹے چننے پڑتے ہیں۔بات صرف دکھ سکھ کی ہوتی تو زندگی کوہ گراں نہ ہوتی۔ یہ تو دراصل جدائی ہے، جو بندے کو جیتے جی مار دیتی ہے۔جینے والوں کی زندگی میں چھید کردیتی ہیں۔ورنہ پھول تو مرجھا جاتے ہیں اور گھاؤ بھی بھر ہی جاتے ہیں۔اس کی زندگی ابھی باقی تھی اس لیے جدائیوں کی فہرست بھی باقی تھی۔ بہ مشکل دوسالوں میں باپ کے سہارے کے بغیر جینا سیکھا تو پیاری ماں جدائی کا غم دے گئی۔صدمہ چھوٹا نہیں تھا۔ کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ ممتا کی یادیں، چھوٹی بہنوں کے بین اور بھائیوں کے چشمے کی طرح بہتے آنسو اس کا وجود اندر ہی اندر سے گھلائے جارہے تھے۔ اس کی بھوک مرگئی، نیند اڑگئی، دل کا قرار کہیں کھو گیا۔لیکن وہ اس دکھ کے سامنے بھی تن کر کھڑا رہا۔ بھلا ماں کی وفات پر ماں ہی کا دیا ہوا سبق کیسے بھولتا کہ تم ایک مرد ہو اور مرد کبھی رویا نہیں کرتے۔اسے اندر ہی اندر گھلتے دیکھ کر زرینہ کا کلیجہ منہ کو آتا۔اس نے کئی بار کوشش کی کہ سرفراز شاہ رودے۔ لیکن اس کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔شاید نہیں جانتی تھی کہ ٹھیس پہنچتی ہے تو روتے سب ہی ہیں، بس کسی کے آنسو باہر گرتے ہیں اور کسی کے اندر۔
بے انتہا محبت اور بے لوث دعائیں کرنے والی ماں کی جدائی پر سرفراز شاہ بھی اندر ہی اندر غم کی بارش میں بھیگتا رہا لیکن ظاہر کی آنکھوں پر ضبط کا بند باندھے رکھا۔زرینہ سے شوہر کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ شوہر غم کو لے کر وہ بھی اندر ہی اندر گھلنے لگی اور ایک روز چارپائی سے لگ گئی۔تب مدتوں بعد سرفراز شاہ کو اپنے ارد گردہمیشہ سے کسی کے ہونے کا احساس ہوا۔ برسوں سے بنجر دل کی سرزمین پر محبت کی ایک اور کونپل پھوٹی اور دیکھتے ہی دیکھتے تن آور درخت بن گئی۔ وہ اپنے سارے غم بھول کر زرینہ کی خدمت میں لگ گیا۔ساری ساری رات اس کے سرہانے سے لگا بیٹھا رہتا ا ور اس کی دل جوئی کرتا رہتا۔محبت جتاتا رہتا اور اپنی بے اعتنائی کی معافی طلب کرتا رہتا اوروہ جو ساری عمر اپنے محبوب شوہر کے دکھ اپنی ذات پر جھیلتی آئی تھی۔یہ خوشی برداشت نہ کرپائی یا شاید وہ اپنے مرد کو کمزور اورزیادہ شرم سار نہیں کرنا چاہتی تھی، ایک رات محبوب کی گود میں سر رکھ کر اطمینان سے ابدی نیند سوگئی اور وہ مرد جو کبھی نہیں رویا تھا آج پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
٭٭٭٭