مدیر سے پوچھیں | علی عمران سے ملاقات


علی عمران: مجھے ”ہم” ٹی وی کی کونٹینٹ ٹیم کا کام بہت اچھا لگتا ہے، ان کے پاس sensible team ہے، ان کی content selection بہت اچھی ہے، پروڈکشن اچھی ہوتی ہے۔
٭ اب تک آپ کو موصول ہوئے آئیڈیاز میں کوئی ایسا جو آپ کو نہایت مضحکہ خیز لگا ہو؟
علی عمران: اب تو میں ہنسنے اور غصہ کرنے والے فیز سے نکل گیا ہوں، اب میں اتنا immuneہوگیا ہوں لیکن میری ٹیم یہ حرکت کرتی ہے (قہقہہ) جان بوجھ کر مجھے برے سکرپٹ لاکر دیتی ہے کہ سر یہ سکرپٹ آپ ضرور پڑھیں کیوں کہ اس میں ہمیں کنفیوژن ہورہی ہے کہ کیا کیا جائے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ یار مجھے motivation کے لئے کوئی اچھا سا سکرپٹ دو۔ہمارے پاس ہر دوسرے دن اس طرح کی چیزیں آرہی ہوتی ہیں، لیکن ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم رائٹر کو سمجھائیں،ا پنا پوائنٹ آف ویو اس کے سامنے رکھیں۔
٭ کوئی ایسا ڈرامہ جو آپ نے دیکھا ہو اور سوچا ہو کہ کاش میں نے اس پر کام کروایا ہوتا؟
علی عمران: ایسا کوئی ڈرامہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پورا ایک process ہے۔ ”ہم سفر” ایک زمانے کا بہت بڑا ہٹ سیریل تھا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم سفر کی کہانی کوئی مجھے سناتا تو مجھے نہیں سمجھ آتی، کئی بار ہوتا یہ ہے کہ بہت سارے اجزاء کے ساتھ مل کر چیزاچھی بنتی ہے۔ جیسا میںنے آپ سے کہا کہ مجھے ہم ٹی وی کا کام اچھا لگتا ہے کیوں کہ وہ سکرپٹ کے اوپر بہت محنت کرتے ہیں، بیٹھتے ہیں ، رائٹرز کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں ، ہمیں نہیں پتا کہ جو کہانی مجھے بہت اچھی لگ رہی ہے وہ ابتدائی شکل میں کیسی ہوگی۔
٭ کسی بھی کہانی میں وہ کون سی تین چیزیں ایسی ہیں جو آپ کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیںاور کون سی تین چیزیں ایسی ہیں جس کی وجہ سے آپ کسی بھی کہانی کو ریجکٹ کردیتے ہیں؟
علی عمران: جن تین چیزوں کی وجہ سے میں کسی بھی کہانی کو پسند کرتا ہوں، ان ہی تین چیزوں کی وجہ سے ریجکٹ بھی کرتا ہوں ۔ سب سے بنیادی چیز جو مجھے متوجہ کرتی ہے وہ کہانی لکھی کس طرح گئی ہے، کہانی کیا ہے، اس کا پلاٹ کیا ہے۔ دوسری چیز اس کی association کہ عام لوگ اس سے کتنا associateکرتے ہیں۔ ہمارا ٹیلی ویژن ایک mass audience کے لئے کام کرتا ہے تو یہ چیز دیکھنی پڑتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھ خود کو associate کررہے ہیں، اور پھر کرداروں کے ساتھ relateablity ۔کردار نگاری ایسی ہو کہ جو لوگوں کے درمیان رہنے والوں جیسے ہی لگیں۔
٭ تو آپ کے نزدیک fantasized scripts آپ کو اچھے نہیں لگتے؟ میرا سلطان یا مور محل جیسے سکرپٹس؟
علی عمران: Fantasy کو بھی relateable ہونا بہت ضروری ہے، میرا سلطان جس طرح بنایا گیا اس پر ہم بات کرسکتے ہیں کہ اتنی خوبصور ت چیز بنے گی تو میں اس کو لینے پر تیار ہوں، مور محل میرے سامنے آئے گا تو میں نہیں لوں گا۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی آدمی ایسا ڈرامہ بنائے جو صرف پانچ لوگ یا پچاس لوگ یا پانچ سو لوگ دیکھیں۔ Fantasy کی تھیم پر کام کرنے میں بالکل کوئی ہرج نہیں ہے، لیکن پھر بات وہی آتی ہے کہ آپ سنڈریلا کی کہانی بنارہے ہیں تو آپ کو اس کی پروڈکشن ویلیو بھی وہی دینی پڑے گی۔ اگر آپ میرا سلطان کے لیول پر جاکر کوئی چیز بنائیں گے تو بالکل بنائیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ آپ نے پریوں کی کہانیاں دکھانی ہیں، شہزادیوں کی کہانیاں دکھانی ہیں تو پھر وہ شہزادی لگے پھر وہ والی شہزادی نہ لگے کہ شہزادی بیٹا ذرا کمرہ صاف کردے، چائے لے آ(قہقہہ)
٭ کیا آپ ری میک اور ماخوذ کہانیوں کے حق میں ہیں؟
علی عمران: دیکھیں adaptations کو adaptation ہی ہونا چاہے، ترجمہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے ایک آدھ adaptations کی ہیں اور مجھے تو لگتا ہے کہ اس پر زیادہ کام ہونا چاہیے۔
٭ کیا آپ لوگ رائٹرز کے ساتھ table reads کرتے ہیں؟
علی عمران: اس وقت تو ہم لوگ rush hour کا شکار ہیں ، slot replacement ہوتی ہے ہم بس اپنا inputپروڈکشن ہاؤس کو دے دیتے ہیں، رائٹر کے ساتھ ایک میٹنگ ہوتی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ سیٹ کے اوپر بھی reading session ہوتی ہے یا نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ چیز بہت ضروری ہے لیکن اب وقت نہیں ہے۔ اب رائٹر کہتا ہے کہ میں نے یہ لکھ دیا ہے اب اس میں تبدیلیاں کروانی ہیں تو خود کرلیں یا ڈائریکٹر سے کہیں وہ خود دیکھ لے ۔میرے خیال میں رائٹر کو اتنی سنجیدگی تو دکھانی چاہیے کہ جو تبدیلیاں ہوں وہ خود ہی کرے۔
٭ نئے آنے والے ایڈیٹرز کے لئے کوئی مشورہ؟
علی عمران: ایک بہت ہی سیدھا سا فارمولا ہے، آپ کے گھر میں جس طرح کی چیزیں دیکھی جاتی ہیں، اس سے آپ کی understanding ہونا ضروری ہے، اپنے ماحول سے آگہی ہونی چاہیے۔ جو کہانی آپ پڑھیں اس کے حوالے سے یہ سوچیں کہ آیا یہ آپ دیکھیں گے یا آپ کی والدہ دیکھیں گی؟ یا آپ کے جاننے والے؟اور ایک سب سے اہم بات، آپ کو اردو پڑھنی آنی چاہیے، کیوں کہ اگر آپ کو اردو پڑھنی لکھنی نہیں آتی تو پھر آپ اپنے کام اور اپنے ڈپارٹمنٹ کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں۔ آپ پھر کسی اور ڈپارٹمنٹ میں چلے جائیں۔
٭ کیا آپ سکرپٹ رائٹنگ ورک شاپس کے حق میں ہیں؟
علی عمران: بالکل مجھے لگتا ہے کہ اگر آپ اس فیز سے گزر کر آئیں گے تو آپ آدھا کام کر کے ہی آئیں گے، یہ بالکل ویسا ہی ہے کہ آپ کسی استاد کی نگرانی میں کام کررہے ہیں۔میرے خیال میں ایک چیز بہت اہم ہے کہ اگر ہمارے پاس raw شکل میں سکرپٹس آنا اگر شروع ہوجائیں گے تو ہم شاید اس کو پڑھیں بھی نہیں، تو کم از کم ہمارے پاس سکرپٹ یا ون لائنر کم از کم اس شکل میں آئے کہ ہم اسے پڑھ سکیں۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ آج کل آدھی سے زیادہ یونیورسٹیز میں ایکسٹرا کلاسز ہوتی ہیں سکرپٹ رائٹنگ کی۔
٭ کیا آپ سکرپٹ میں تبدیلی کروانے پر اصرار کرتے ہیں؟ اور اگر رائٹر نہ مانے تو کیا آپ اپنا حق استعمال کرتے ہوئے سکرپٹ میں تبدیلی کرلیتے ہیں؟
علی عمران: ہم اپنا حق اس وقت استعمال کرتے ہیں جب رائٹر ہمیں یہ حق دیتا ہے ۔ ہماری پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم رائٹر کو آمادہ کریں اور ہم اس سے لکھوائیں، اگر رائٹر کہتا ہے کہ آپ خود تبدیلیاں کردیں تو ہم کرلیتے ہیں، اگر وہ نہیں مانتا تو ہم سکرپٹ واپس کردیتے ہیں۔ویسے رائٹر عام طور پر مان جاتے ہیں۔
٭ کیا آپ ڈیڈلائن پر سختی سے عمل کرواتے ہیں؟
علی عمران: اگر ہم بالواسطہ رائٹر کے ساتھ کام کرتے ہیں تو ہم وقت کی پابندی کو سختی سے follow کرتے ہیں اورجب تک سکرپٹ مکمل نہ ہوجائے ہم پروڈکشن ہاؤسز کو آگے نہیں بھیجتے ہیں۔ باقی ہم رائٹرز کو تھوڑا بہت مارجن دیتے ہیں، کیوں کہ ظاہر ہے ہم سب انسان ہیں،مشین نہیں مشکلات ہر کسی کے ساتھ ہوتی ہیں۔
٭ اکثر کہا جاتا ہے کہ رائٹرز اناپسند یا خود پسند ہوتے ہیں؟ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں؟
علی عمران: یہ پھر سے perception ہے، ایک آدمی چار آدمیوں کے ساتھ اچھا ہو ، دو کے ساتھ اچھا نہ ہو تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ مغرور ہیں۔ ہاں اگر وہ کسی بات پر اڑجائے تو اس کی justification ان کے پاس ہوتی ہے۔
٭ ہمارے ملک میں best selling کتابوں کا رجحان نہیں ہے؟ ایسے کیا اقدامات کرنے چاہیے کہ best sellers کا رجحان اس ملک میں آسکے؟
علی عمران: ہمارے یہاں book culture اس طرح کا رہا نہیں ہے، باقی رہی سہی کسر online reading نے پوری کردی ہے۔ کتاب کی محبت اس طرح سے نہیں رہی ہے۔ ہمارا ملک تو وہ ہے کہ ادھر اگر کسی کی پانچ سو کتابیں بک جائیں تو وہ بیسٹ سیلر ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم لوگ دس ہزار روپے کے جوتے خرید لیتے ہیں، چار سو روپے کی کتاب نہیں خرید سکتے۔ پبلشنگ ہاؤس بھی خسارے میں ہیں۔
٭ اگر آپ باہر دیکھیں تو paperless culture اور digital publishing پر زیادہ کام ہورہا ہے،اگر ہم اردو زبان کی ترویج کی بات کریں تو کیا ہمیں بھی یہ میڈیم اختیار نہیں کرنا چاہیے؟
علی عمران:ہمارے ملک میں بھی بہت سارے لوگ اب ڈیجیٹل میڈیا پر کام کررہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو mould ہونا پڑے گا۔ یہ الگ بحث ہے کہ digital publishing ہونی چاہیے یا نہیں ہونی چاہیے۔ اب آپ digital media کے دور میں داخل ہوگئے ہیں، اب ہم reverse نہیں کرسکتے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنی اقدارسے بہت پیار کرتے ہیں۔ کتاب کا لمس، صفحہ پلٹنے کا ذائقہ اس کا ایک الگ چارم ہے۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ کتاب ہونی چاہیے اور کتاب رہنی چاہیے۔
٭ ہمارے معاشر ے میں ایک اور چیز جس کا رجحان بری طرح سے پھیل رہا ہے وہ ہے رومن اردو کا استعمال اس کو کس طرح ختم یا کم کیا جاسکتا ہے؟
علی عمران: دیکھیں ختم تو نہیںکیا جاسکتا، جو چیز شروع ہوچکی ہو، اس کو ختم کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ مجھے صرف یہ لگتا ہے کہ یہ ساری چیزیں زبان کے بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔ ایک چیز ہمیں followکرنی چاہیے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم سختی سے ساری scripting اردو میں کریں گے ، ہم ساری بات چیت اردو میں کریں گے، اور یہ چیزیں سرکاری سطح سے شروع ہوں گی تو نیچے تک جائیں گی۔ ہمارے یہاں اردو بولنا ایک کامپلکس بن گیا ہے ، یہ رجحان بہت خطرناک ہے، یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ آپ کی قومی زبان آپ کے لئے باعثِ شرم ہو، اور یہ مجھے اتنی آسانی سے صحیح ہوتی نظر نہیں آرہی، کیوں کہ ہمارے یہاں کے بڑے بڑے ادیب بھی اب انگریزی زبان کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ دیکھیں زبان کو زبان ہی رہنا چاہیے اس کو status symbol نہیں بنانا چاہیے ۔ انگریزی زبان آنا بہت اچھی بات ہے لیکن اپنی زبان کو پروموٹ کرنا بھی بہت ضروری ہے، قومیں زبان کے لئے جنگیں لڑتی ہیں۔ زبان جب آتی ہے تو وہ اکیلی خود نہیں آتی، ایک پوری ثقافت کے ساتھ آتی ہے۔ ہمارے یہاں انگریزی زبان جب آئی تو پوری ایک ثقافت لے کر آئی۔

٭ آپ کی پسندیدہ کتاب/فلم؟
علی عمران: کتابوں کی اگر میں بات کروں تو دو کتابیں ہیں۔ علی پور کا ایلی اور راجہ گدھ۔ لوگ اداس نسلیں کے بارے میں کہتے ہیں کہ اردو ادب کا سب سے بڑا ناول ہے لیکن مجھے راجہ گدھ زیادہ بہتر لگتا ہے اور فلموں کی اگر بات کریں تو ایک فلم ایسی ہے جو میں نے زندگی میں کوئی تیس سے چالیس بار دیکھی ہے وہ فلم ہے ”لیکن” گلزار صاحب نے لکھی اور ڈائریکٹ کی تھی اور میرے خیال میں میں نے اس سے بہترین فلم آج تک نہیں دیکھی۔
٭ نئے لکھنے والوں کے لئے پیغام؟
علی عمران: مجھے لگتا ہے کہ لکھنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ پڑھیں اور دماغ کھول کر ہر طرح کی چیزیں پڑھیں، دنیا بھر کا ادب پڑھیں۔ ایک زندگی میں کئی زندگیاں آپ صرف اس صورت میں جی سکتے ہیں جب آپ کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ ہوسکتا ہے پڑھیں، اس سے آپ کے لکھنے میں مدد ملے گی۔

Loading

Read Previous

سیاہ اور سفید کے درمیان

Read Next

مدیر سے پوچھیں | پرویز بلگرامی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!