محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

آج اس کی زندگی کا پہلا انٹرویو تھا اور اپنی باری آنے سے پہلے ہی وہ یہ جاب مل جانے کی امید چھوڑ چکی تھی۔ وزیٹرز روم میں اس کے ساتھ جو دوسری لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں، وہ ہر لحاظ سے اس سے بہتر تھیں اور وہ خود بھی ذہنی طور پر ان کے حق میں دستبردار ہو چکی تھی۔ مگر پھر بھی وہ انٹرویو دے دینا چاہتی تھی کیونکہ وہاں تک آنے میں وہ کافی کرایہ خرچ کر چکی تھی۔ وزیٹرز روم کے ایک کونے میں بیٹھ کر وہ خاموشی سے اپنے اردگرد بیٹھی ہوئی لڑکیوں کی باتیں اور قہقہے سنتی رہی۔ جس لڑکی کے چہرے پر وہ نظر ڈالتی، اسے لگتا کہ یہ جاب اسے ہی مل جائے گی اور وہ جاب بے شک سیکرٹری کی تھی مگر وہ جس فرم میں تھی اور اس کے ساتھ جو مراعات دی گئی تھیں وہ کافی کوالیفائڈ لڑکیوں کو وہاں کھینچ لائی تھی۔ وہ خود بھی صرف قسمت آزمائی کے لیے آئی تھی ورنہ اسے قطعاً کوئی امید نہیں تھی کہ جو دو لڑکیاں اس فرم کو سیکرٹری کے طور پر چاہئیں ان میں اس کا نام بھی ہو سکتا ہے اور یہاں آ کر تو وہ بالکل مایوس ہو چکی تھی اس وقت وزیٹرز روم میں ایک کونے میں بیٹھی وہ Odd one out کی بہترین مثال لگ رہی تھی۔ کسی قسم کے میک اپ سے بے نیاز چہرے اور گھٹنوں تک لمبی چادر میں خود کو لپیٹے وہ رنگین و سنگین ملبوسات اور لہراتے آنچلوں کی اس بھیڑ میں کافی احمق لگ رہی تھی۔
اب اسے یاد آ رہا تھا کہ صبح آتے ہوئے خالہ کی بات نہ مان کر اس نے کتنی بڑی غلطی کی تھی جو بار بار اس سے کہہ رہی تھیں کہ وہ اس قسم کی جاب کے لیے جانے سے پہلے اپنا ظاہری حلیہ تو ٹھیک کرے۔ انھوں نے بہت زور لگایا تھا کہ وہ چادر کے بجائے دوپٹہ اوڑھ لے اور کچھ میک اپ اور جیولری بھی پہن لے مگر وہ قطعاً نہیں مانی تھی۔ وہ خوفزدہ تھی کہ اسے اتنی دور جانا ہے اور وہ بھی اکیلے اور اگر وہ کچھ سج سنور کر جائے گی تو کیا ہوگا پھر اس کے ذہن میں یہ بھی تھا کہ وہ ایک فرم میں جا رہی ہے جہاں مردوں کی اکثریت ہوگی اور اگر وہ کچھ بناؤ سنگھار کر کے گئی تو پتا نہیں ان کا رویہ اس کے ساتھ کیسا ہو اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اسے یہ امید ہی نہیں تھی کہ وہ اسے ملازمت دیں گے، کیونکہ وہ اشتہار میں موجود کوائف پر بھی پورا نہیں اترتی تھی وہ تو صرف اپنی جھجک ختم کرنے کے لیے آئی تھی۔ سو خود پر توجہ دینا اس نے ضروری نہیں سمجھا مگر اب اسے یہ سب باتیں احمقانہ لگ رہی تھیں۔
”اگر یہ سب لڑکیاں اس طرح یہاں آ سکتی ہیں تو میں بھی آ سکتی تھی۔ خالہ ٹھیک سمجھا رہی تھیں۔”
بار بار اس کے ذہن میں یہی خیال آ رہا تھا۔ اس کی باری آ ہی گئی تھی۔ فائل کو سینے سے لگائے چادر سنبھالتی دھڑکتے دل اور لرزتے قدموں کے ساتھ وہ اندر داخل ہوئی۔ اندر کا ماحول اسے ٹھنڈے پسینے دلانے کے لیے کافی تھا۔ وزیٹرز روم کی ڈیکور نے ہی اسے بہت مرعوب کیا ہوا تھا۔ لیکن یہ کمرہ اس سے بھی زبردست تھا۔ دروازہ کھولتے ہی اس کی نظر گلاس ٹاپ ٹیبل کے پیچھے ریوالونگ چیئر میں بیٹھے ہوئے ایک ادھیڑ آدمی پر پڑی تھی۔ دوسرا آدمی قدرے کم عمر تھا اور وہ ٹیبل کی دائیں طرف رکھی ہوئی دو کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھا ہوا تھا۔
”پلیز تشریف رکھیے۔” ٹیبل کے پاس پہنچنے پر ادھیڑ عمر آدمی نے اسے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”پلیز اپنی فائل دکھائیں۔” دائیں طرف بیٹھے ہوئے آدمی نے اس سے کہا تھا کانپتے ہاتھوں سے اس نے فائل اس کی طرف بڑھا دی۔





”آپ کا نام؟” ادھیڑ عمر آدمی نے اس سے پہلا سوال کیا تھا۔
”رومیصہ عمر۔” اس کے حلق سے بمشکل آواز نکلی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ دوسرا سوال کرتا۔ کمرے کے بائیں کونے میں موجود ادھ کھلا دروازہ کھول کر کوئی کمرے میں داخل ہوا تھا اور دیوار کے ساتھ شیلف پر رکھے ہوئے کمپیوٹر کو کھڑے کھڑے آپریٹ کرنے لگا تھا۔ وہ صرف اس کی پشت دیکھ سکتی تھی۔ دونوں آدمیوں کی نظر صرف ایک لمحہ کے لیے ادھر گئی تھی اور پھر دوبارہ ان کی توجہ اس پر مبذول ہو گئی تھی۔
”آپ کا نام رومیصہ ہے اور آپ کی کوالیفیکیشن؟”
ادھیڑ عمر آدمی نے دوبارہ سلسلہ وہی سے جوڑا تھا۔ اس نے ٹشو سے ناک پر آیا پسینہ خشک کیا۔ حالانکہ کمرہ میں اے سی چل رہا تھا۔
”ایف اے” اسے لگا تھا۔ اس کے جواب پر کمپیوٹر پر کام کرتا ہوا آدمی مڑا تھا۔ مگر وہ اس وقت اپنی توجہ ادھیڑ عمر آدمی پر مبذول کیے ہوئے تھی۔ جس نے اس کے جواب پر اپنی بائیں ابروا چکائی تھی۔
”آپ ایف اے پاس ہیں۔ آپ کو علم ہے کہ ہم نے گریجویٹ کے لیے اشتہار دیا تھا۔”
”یس۔” اس نے تھوک نگلتے ہوئے جواب دیا تھا۔ کمپیوٹر پر کام کرتا ہوا بندہ اب باقاعدہ رخ موڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ ادھیڑ عمر آدمی کچھ دیر تک خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے پوچھا۔
”آپ کو کوئی تجربہ ہے؟” اس بار اس نے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ خشک کیا تھا “No”
“Can you operate computer?” (آپ کمپیوٹر آپریٹ کر سکتی ہیں) اس نے ایک اور سوال داغا تھا۔
جواب اب بھی وہی تھا “No”
“Do you know how to type?” (آپ ٹائپ جانتی ہیں؟)
اس نے نظر ٹیبل کی چمکتی ہوئی سطح پر جمادی “No”
”شارٹ ہینڈ۔” “No”
“Do you know how to handle telephone exchange?”
(آپ ٹیلیفون ایکسچینج ہینڈل کر سکتی ہیں) “No” سوالوں کی ایک لمبی قطار کا جواب اس نے ایک ہی لفظ سے دیا تھا۔ ہر بار وہ نظر اٹھاتی اور پھر ٹیبل پر نظر جما لیتی۔
”تو بی بی! پھر آپ نے ہمارا وقت ضائع کیوں کیا؟” پہلا جملہ اردو میں اسی ادھیڑ عمر نے بولا تھا مگر اس بار اس کا لہجہ کافی ترش تھا۔ رومیصہ کو اپنی گردن ایک دم دو من کی لگنے لگی تھی۔
“Who is your favourite actor?” (آپ کا پسندیدہ ایکٹر کون ہے) کمرے کی خاموشی کو اس بار ایک اجنبی آواز نے توڑا تھا۔ رومیصہ نے گردن اٹھا کر ادھیڑ عمر آدمی کو دیکھا تھا، جس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی۔ پھر اس نے آواز کی سمت میں دیکھا تھا۔ کمپیوٹر پر کام کرنے والا بندہ اب دونوں بازو سینے پر لپیٹے شیلف سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ چند لمحوں کے لیے تو وہ اسے دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔ بلیو جینز اور بلیک شرٹ میں وہ بے حد خوبصورت لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے کی سنجیدگی سے یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے کوئی بہت اہم سوال پوچھا تھا۔ وہ چند لمحے کچھ کہے بغیر اسے دیکھتی رہی اور پھر اس نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کی طرف گردن موڑ لی۔ وہ اس قسم کے سوال کا جواب دینا نہیں چاہتی تھی۔ مگر ادھیڑ عمر آدمی نے کہا۔
”آپ اس سوال کا جواب دیں۔”
”کوئی بھی نہیں۔” دھیمی آواز میں اس نے کہا تھا۔
“Why?” (کیوں؟) اس نے پھر اس بندے کو دیکھا تھا جو اب بھی اسی انداز میں کھڑا تھا۔
”میں فلمیں نہیں دیکھتی۔” اس نے کہا تھا۔
“Why?” (کیوں؟) اس بار اس نے بے چارگی سے اسے دیکھا۔ لیکن اس بندے کو شاید اس پر ترس نہیں آیا تھا۔
“Your favourite T.V actor?” (آپ کا پسندیدہ ٹی وی فنکار؟)
”میں ٹی وی نہیں دیکھتی۔”
“Why?” اس بار پھر وہی سوال دہرایا گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ اس نے سوال کا جواب دیے بغیر اس بندے کی طرف سے نظر ہٹا کر سامنے دیکھنا شروع کر دیا۔ مگر وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر ادھیڑ عمر آدمی کی کرسی کی طرف آ گیا تھا۔ جس نے اپنی کرسی اس کے آنے پر خالی کر دی تھی اور خود دوسرے آدمی کے ساتھ والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
“Who is you favourite author?” (آپ کا پسندیدہ مصنف کون ہے؟)
اپنا پچھلا سوال دہرانے کے بجائے ریوالونگ چیئر پر بیٹھتے ہی اس نے اگلا سوال کیا تھا۔
”میں کتابیں نہیں پڑھتی۔” اسے اپنے بالکل سامنے موجود پا کر وہ کچھ سراسیمہ ہو گئی تھی۔
“What are your passtimes then?” (پھر آپ وقت کیسے گزارتی ہیں؟) ریوالونگ چیئر پر آگے پیچھے جھولتے ہوئے اس نے اگلا سوال پوچھا تھا۔ اس بار وہ چپ رہی۔
”فادر کیا کرتے ہیں آپ کے؟” اس بار اس نے اردو میں پوچھا تھا۔
”وہ مر چکے ہیں۔”
”اور آپ کی مدر؟”
”وہ بہت سال پہلے وفات پا چکی ہیں۔”
تاسف کا کوئی تاثر اس شخص کے چہرے پر نہیں ابھرا تھا۔ نہ ہی لہجے میں کوئی نرمی آئی تھی۔
”بہن بھائی ہیں؟”
”نہیں۔”
”کس کے پاس رہتی ہیں؟”
”خالہ کے پاس۔”
”آپ کو پتا ہے سیکرٹری کی جاب کتنی مشکل ہوتی ہے؟” وہ اس کے سوال پر اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
”ہم لوگ بہت سہولیات دیتے ہیں مگر کام میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرتے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ورکنگ آورز کے بعد بھی آفس میں ٹھہرنا پڑ جاتا ہے، خاص طور پر جب کوئی ڈیلنگ ہو رہی ہو کسی غیر ملکی پارٹی سے اور ایسا اکثر ہوتا رہتا ہے۔ بعض دفعہ رات تک ٹھہرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ یہ شیڈول فالو کر سکتی ہیں؟”
اس بار اس نے کسی مشکل کے بغیر جواب دیا تھا۔ ”نہیں۔”
اس شخص نے اس جواب پر چند لمحوں کے لیے دوسرے دو آدمیوں کو دیکھا پھر چیئر کو آگے پیچھے جھلاتے ہوئے وہ کچھ دیر تک اسے دیکھتا رہا جو اب دوبارہ ٹیبل پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔
”اگر آپ کو ملازمت دے دیں تو کیا آپ اتنی ہی بڑی چادر اوڑھ کر آتی رہیں گی؟”
رومیصہ نے کچھ حیرانی سے اپنے مدمقابل کو دیکھا تھا۔
”میں دوپٹہ لے لیا کروں گی۔”
اس شخص کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی اور فوراً ہی غائب ہو گئی تھی۔ مزید کچھ کہے بغیر وہ یک دم کرسی چھوڑ کر کھڑا ہو گیا۔
”ٹھیک ہے۔ انھیں اپائنٹ کر لیں اور اپائنٹمنٹ لیٹر ابھی دے دیں۔”
وہ دوبارہ اس پر نظر ڈالے بغیر ادھیڑ عمر آدمی کو یہ ہدایت دینے کے بعد کمپیوٹر کی طرف چلا گیا تھا اور پرنٹر سے کچھ کاغذات نکالنے کے بعد اسی تیز رفتاری سے اس ادھ کھلے دروازے کے پیچھے غائب ہو گیا۔ وہ ہکا بکا ہو کر اسے جاتے دیکھتی رہی۔
”ٹھیک ہے۔ آپ وزیٹرز روم میں بیٹھیں۔ کچھ دیر بعد آپ کو اپائنٹمنٹ لیٹر مل جائے گا۔”
ادھیڑ عمر آدمی نے اب یکسر بدلے ہوئے لہجے میں اس سے کہا تھا۔ وہ کچھ پوچھے بغیر حیرت کی اسی کیفیت میں باہر آ گئی تھی۔ اس سہ پہر واپس گھر آتے ہوئے بھی وہ حیرانگی کی اس کیفیت سے باہر نہیں آئی تھی۔
”کیا انٹرویو ایسا ہوتا ہے؟” بار بار اس کے دماغ میں یہی سوال آ رہا تھا۔
…***…
اگر دنیا میں پہلی نظر میں محبت نام کی کوئی چیز تھی تو اس دن نبیل سکندر بری طرح اس کا شکار ہوا تھا۔ یہ صرف اتفاق ہی تھا کہ اس روز اس کے کمرے میں موجود کمپیوٹر خراب ہو گیا تھا اور وہ مینیجر کے کمپیوٹر پر کام کرنے کے لیے ان کے آفس میں گیا جب وہ انٹرویوز ہو رہے تھے۔ ایک سیکرٹری کا انتخاب اسی کے آفس کے لیے ہو رہا تھا مگر وہ ان کے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ ہمیشہ مینیجر ہی انٹرویوز کر کے فرم کے مختلف حصوں کے لیے سیکرٹریز اپائنٹ کیا کرتے تھے اور اسے ان کے انتخاب پر کبھی شکایت نہیں ہوتی تھی۔ سو اس روز بھی کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے وہ آتے جاتے ہوئے امیدوار لڑکیوں پر نظر ڈالتا رہا۔ اچانک اسے کچھ کاغذات کی ضرورت پڑی تھی۔ انھیں لینے کے لیے وہ اپنے آفس گیا تھا اور واپس آ کر وہ پرنٹر سے کچھ ڈاکومنٹس نکال رہا تھا۔ جب غفور صاحب کے سوالوں پر اس نے گھبرائی ہوئی مدھم آواز میں کسی لڑکی کے جواب سنے تھے۔ کچھ دلچسپی سے اس نے مڑ کر دیکھا اور اس لڑکی نے اسے چونکا دیا تھا۔ وہ دوبارہ کمپیوٹر کی طرف متوجہ نہیں ہو سکا۔ غفور صاحب کے سوالوں پر وہ شرمندگی سے سر جھکائے اپنی نااہلیت کا اقرار کرتی رہی۔ وہ زیادہ دیر تک چپ نہیں رہ پایا اور اس نے جان بوجھ کر ایک بہت احمقانہ سا سوال پوچھا تھا۔ اس لڑکی نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بے پناہ حیرت تھی اور اس کے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات نے نبیل سکندر کو کچھ لمحوں کے لیے منجمد کر دیا تھا۔ وہ بے حد خوبصورت تھی اور شاید کچھ اور بھی تھا اس میں کوئی ایسی کشش کوئی ایسی چیز جسے وہ سمجھ نہیں پایا۔ وہ خود کو انٹرویو میں انوالو کرنے سے باز نہیں رکھ سکا۔ وہ جانتا تھا وہ اس کے سوالوں پر بہت پریشان تھی بلکہ روہانسی ہو رہی تھی۔ مگر وہ بس اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اسے دیکھتے رہنا چاہتا تھا۔ اس کی آواز سننا چاہتا تھا۔ اس نے اسے اپائنٹ کر لیا تھا۔
انٹرویوز ختم ہونے کے بعد غفور صاحب نے اس کے پاس آ کر اسے فیصلہ کے کچھ مضمرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے بہت پرُسکون انداز میں کہا تھا۔
”وہ سب کچھ سیکھ جائے گی۔ اس میں اتنی صلاحیت ہے اور ویسے بھی وہ میرے آفس میں کام کرے گی، وہاں پر ورک لوڈ اتنا زیادہ ہے بھی نہیں کہ میرے لیے کوئی پرابلم ہو۔ آپ پریشان نہ ہوں۔”
غفور صاحب نے دوبارہ کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ سمجھدار آدمی تھے۔ جان گئے تھے کہ اس لڑکی کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے جاب دی گئی ہے اور یہ واحد قابلیت تھی جو نبیل سکندر کو متاثر کرتی تھی۔ وہ خود خوبصورت تھا اور خوبصورت چیزوں کے عشق میں گرفتار ہونے کا کافی شوق تھا اسے۔ چاہے وہ کوئی لڑکی ہو یا پھر کسی دکان میں پڑا ہوا ڈیکوریشن پیس۔ وہ دونوں کو ایک ہی طریقے سے سراہتا تھا۔ جب تک دل نہیں بھرتا۔ وہ اس کی نظروں کے سامنے رہتے پھر ان کی جگہ کوئی اور لے لیتا۔ کچھ اس سے بہتر چیز کوئی اس سے اچھی لڑکی۔
سکندر علی کے چھ بیٹے تھے۔ نبیل سکندر تیسرے نمبر پر تھا۔ اس سے بڑے اشعر اور احمر تھے اور ذیشان، فراز اور ولید اس سے چھوٹے تھے۔ سکندر علی ملک کے چند نامور ایکسپورٹرز میں سے تھے۔ اور نبیل بھی اپنے بڑے بھائیوں کی طرح باپ کے ساتھ سرجیکل اور لیدر گڈز کے بزنس میں شریک تھا۔ اس نے امریکا سے بی بی اے کیا تھا اور پھر اسٹڈیز میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ سکندر علی چاہتے تھے کہ وہ امریکا میں ہی رہے تاکہ وہاں ان کے آفس کو اسٹیبلش کیا جا سکے۔ وہ خود بھی اس پروجیکٹ میں انٹرسٹڈ تھا۔ اس لیے وہ امریکا میں ہی رہنے لگا تھا۔ پانچ چھ سال تک وہ مستقل امریکا میں ہی رہا اور جب وہاں ان کا آفس اچھی طرح اسٹیبلش ہو گیا تو اس نے سال کا کچھ حصہ پاکستان میں گزارنا شروع کر دیا تھا۔
وہ سال میں تین چار بار پاکستان آتا۔ شادی سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اسے ایک فضول ذمہ داری سمجھتا تھا اور سوچتا تھا کہ اگر شادی کبھی کی بھی تو صرف اس وقت کروں گا جب کسی لڑکی سے اتنی انڈر اسٹینڈنگ ہو جائے گی کہ وہ مجھ پر فضول پابندیاں لگانے کی کوشش نہ کرے اور مجھے اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارنے دے۔ یہی وجہ تھی کہ بتیس سال کا ہونے کے باوجود ابھی تک وہ خود کو شادی کے لیے آمادہ نہیں کر پایا تھا۔
اس کے بڑے دونوں بھائیوں کی شادی ہو چکی تھی اور وہ دونوں بہت پرُسکون زندگی گزار رہے تھے مگر یہ سکون بھی اسے شادی کی طرف اٹریکٹ نہیں کرتا تھا۔ سکندر علی کا وہ لاڈلا تھا اس لیے ان کی طرف سے اس پر کوئی پریشر نہیں تھا اور حیرت کی بات یہی تھی کہ ساری اولاد میں سے سکندر علی اگر واقعی کسی کو چاہتے تھے تو وہ نبیل ہی تھا۔ نہ انھیں اپنے سب سے بڑے بیٹے اشعر سے اتنا لگاؤ تھا نہ سب سے چھوٹے بیٹے ولید سے اتنی محبت تھی۔ جتنی وہ نبیل سے کرتے تھے۔ وجہ شاید یہ تھی کہ نبیل ان سے بہت مشابہت رکھتا تھا۔ یا پھر شاید یہ بات تھی کہ بہت عرصے تک بیرون ملک ان سے الگ رہا تھا، اس لیے وہ اسے زیادہ چاہنے لگے تھے اور شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ نبیل کسی دوسرے کے لیے اچھا ہو یا نہ ہو، وہ کم از کم ایک فرمانبردار بیٹا ضرور تھا۔ وہ نہ صرف فرمانبردار بلکہ بہت محنتی بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے مختصر عرصے میں امریکا میں ان کے لیے ایک اچھی خاصی مارکیٹ بنا دی تھی۔ اس وقت ان کی پچاس فیصد ایکسپورٹس امریکا کو ہی ہو رہی تھیں اور اس میں بڑا ہاتھ نبیل کا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اس پر کبھی کوئی روک ٹوک کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ نہ ہی کوئی پابندی لگائی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ اس کی حرکتوں کے بارے میں مکمل طور پر بے خبر تھے، مگر پھر بھی وہ اس سب کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ سو نبیل سکندر کو ہر معاملے میں خاصی چھوٹ تھی۔ روپے کی اس کے پاس کوئی کمی نہیں تھی اور جس معاشرے میں وہ رہتا تھا وہاں یہ چیز ہو تو پھر کچھ بھی حاصل کیا جا سکتا تھا۔ پھر وہ جسمانی طور پر بھی اتنا خوبصورت تھا کہ صنف مخالف کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی تھی۔
امریکا میں اس کی کافی گرل فرینڈز تھیں اور ان میں سے اکثر بہت اچھی فیملیز سے تعلق رکھتی تھیں۔ سکندر علی کو قطعاً اعتراض نہ ہوتا، اگر وہ ان میں سے کسی سے شادی کرنا چاہتا۔ مگر نبیل سکندر کو صرف وقتی تعلق بنانے کی عادت تھی۔ وہ انھیں مستقل کرنے کی کوشش کبھی نہیں کرتا تھا۔ یہ عادت اچھی تھی یا بری، وہ کبھی نہیں جان سکا، کیونکہ اسے اس عادت سے کبھی نقصان اٹھانا نہیں پڑا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اسے پہلے کبھی کسی سے عشق ہوا ہی نہ ہو، کئی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ خود کو محبت کی بیماری میں مکمل طور پر گرفتار سمجھنے لگا تھا۔ مگر یہ کیفیت بہت عارضی ثابت ہوئی تھی۔ مگر اس بار اس نے قدرے مختلف قسم کے جذبات محسوس کیے تھے۔
…***…




Loading

Read Previous

میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

Read Next

سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

3 Comments

  • I think shr could do better than this cliche story. Not impressed.

  • I think it is baou the tirm when we write stories that are not revoloving around rich guy poor girl, who is.mountain of wafa and qurbani and innocence. We should do more than that.

  • Impressive

Leave a Reply to Isha Tariq Cancel reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!