محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

”آؤ نبیل! آؤ۔” سکندر علی نے اسے اپنے بیڈروم کے دروازے پر دستک دے کر اندر آنے کی اجازت مانگتے دیکھا تھا۔
”آپ کو کوئی کام تو نہیں ہے؟” اس نے باپ کے قریب صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا جو فائلیں دیکھ رہے تھے۔
”نہیں۔ اب ایسا بھی کوئی کام نہیں ہے یہ تو بس میں کچھ بلز کی فائلز دیکھ رہا ہوں۔ تمھیں کچھ کہنا ہے مجھ سے؟” انھوں نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل میز پر رکھ دی تھی۔
”ہاں، مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ اصل میں پاپا! میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔”
بغیر کسی تمہید کے اس نے اپنے مخصوص انداز میں سیدھے موضوع پر آتے ہوئے کہا تھا۔ سکندر علی کے چہرے پر مسکراہٹ لہرا گئی تھی۔
”That’s very good لگتا ہے، کوئی لڑکی پسند آ ہی گئی ہے تمھیں۔”
”وہ ان کی بات پر مسکرایا تھا۔” بالکل نہ صرف مجھے پسند آ گئی ہے بلکہ میرا خیال ہے آپ کو بھی پسند آئے گی۔”
”اچھا۔ اس کا مطلب ہے کافی سوچ سمجھ کر انتخاب کیا ہے؟” ان کے لہجے کی دلچسپی بڑھ گئی تھی۔
”پاپا! آپ میری سیکرٹری کو جانتے ہیں نا رومیصہ عمر کو۔ میں اسی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔”
اس کی بات پر انھیں جیسے شاک لگا تھا۔ کچھ دیر تک تو وہ کچھ بول ہی نہیں پائے۔ بس حیرت سے اس کا چہرہ دیکھتے رہے۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا نبیل! اس بات پر جو تم نے کہی ہے۔ تم اپنی سیکرٹری سے شادی کرنا چاہتے ہو؟” انھوں نے اس سے کہا تھا۔
”پاپا! آپ کو بھی یہ بات سن کر یقین نہیں آئے گا کہ میں نے اسے پہلی بار دیکھتے ہی شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ سیکرٹری کے طور پر اپائنٹ تو میں نے اسے صرف اس لیے کیا تھا تاکہ میں اس کے طور طریقوں کے بارے میں تھوڑا بہت جان سکوں اور اب جب میں اس سے مطمئن ہوں تو میں اس سے شادی کرنا چاہ رہا ہوں۔”
سکندر علی کے چہرے پر سنجیدگی کے آثار نمایاں تھے۔
”یہ ایک بہت احمقانہ اور جذباتی قسم کا فیصلہ ہے اور ایسا فیصلہ کرنے والے اکثر اس پر پچھتاتے ہیں۔” انھوں نے سمجھانے کی کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے پہلا جملہ بولا تھا۔
”پاپا! کم از کم اس بار ایسا نہیں ہوگا۔





ویسے بھی میں کوئی ٹین ایجر نہیں ہوں۔ بتیس سال کا ہوں اور میرے خیال میں یہ کافی میچور عمر ہے۔ میں جانتا ہوں رومیصہ کے بارے میں آپ کو بہت سے خدشات اور اعتراضات ہوں گے۔ مثلاً یہ کہ وہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا مضبوط تو ایک طرف کوئی بیک گراؤنڈ ہی نہیں ہے۔ تعلیم کم ہے، پھر ورکنگ گرل ہے۔ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹی ہے۔ مگر ان باتوں کے بارے میں پہلے ہی اچھی طرح سوچ چکا ہوں اور میرا نہیں خیال کہ یہ چیزیں میرے یا اس کے لیے شادی کے بعد کوئی مسئلہ کھڑا کر دیں گی۔ میرے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ وہ ایک بہت اچھی لڑکی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ اعتراض نہیں کریں گے۔”
وہ بہت روانی سے بولتا چلا گیا تھا۔ سکندر علی نے بہت غور سے اس کی باتوں کو سنا تھا۔
”تمھیں لگتا ہے کہ وہ ہمارے ماحول میں ایڈجسٹ کر پائے گی، تمھارے ساتھ چل سکے گی؟” اس کی باتیں سننے کے بعد انھوں نے اس سے پوچھا تھا۔
”بالکل وہ نہ صرف یہاں ایڈجسٹ کر لے گی، بلکہ اچھی طرح ایڈجسٹ کر لے گی وہ بہت کمپرومائزنگ ہے، صبر ہے اس میں ضد یا انا ٹائپ کی کوئی چیز نہیں ہے اس میں اور میرے خیال میں ایک اچھی بیوی میں یہی خوبیاں ہونی چاہئیں۔”
”تمہاری ممی تو اس بات پر ہنگامہ کھڑا کر دیں گی۔” سکندر علی نے اس کی ماں کا غصہ یاد دلانے کی کوشش کی تھی۔
”ان کی مجھے پرواہ نہیں ہے، وہ اگر مان گئیں تب بھی اور نہ مانیں تب بھی مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ میں صرف آپ کی رضامندی چاہتا ہوں اور آپ کو یاد ہے، آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں جہاں شادی کرنا چاہتا ہوں کر سکتا ہوں۔ آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور اگر ہوگا بھی تب بھی آپ مجھے شادی سے نہیں روکیں گے۔”
اس نے سکندر علی کو ان کا وعدہ یاد دلایا تھا۔ ایک پھیکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر آئی تھی۔
”مگر مجھے یہ توقع تھی کہ شاید تم کسی غیر ملکی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو” انھوں نے کہا تھا۔
”جو بھی تھا وعدہ تو وعدہ ہے۔ آپ کو پورا تو کرنا پڑے گا۔”
”ٹھیک ہے نبیل! میں اس بارے میں سوچوں گا اور تمہاری ممی سے بھی بات کروں گا۔” انھوں نے ایک گہری سانس لے کر کہا تھا۔
”دیکھیں پاپا! آپ ممی کو بتا دیجئے گا کہ اگر انھیں اعتراض ہوا تب بھی میں شادی تو اسی لڑکی سے کروں گا، اس لیے بہتر ہے کہ وہ اعتراض نہ کریں۔ آفٹر آل زندگی مجھے گزارنی ہے اور کس کے ساتھ کس طرح گزارنی ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کا حق بھی مجھے ہی ہونا چاہیے۔”
وہ یہ کہتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا اور جب سکندر علی نے اپنی بیوی سے یہ بات کی تھی تو انھوں نے حسب توقع ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا وہ بے حد غصے اور طیش میں تھیں۔ لیکن نبیل کو ان کی کوئی خاص پروا نہیں تھی۔ وہ جانتا تھا گھر میں باپ کا حکم چلتا ہے۔ اس لیے ممی جتنا شور مچا لیں وہ اپنی مرضی کا کام نہیں کروا سکتی تھیں اور وہ جانتا تھا کہ باپ اسے اس شادی کی اجازت دے دے گا اور ایسا ہی ہوا تھا۔ انھوں نے بادل نخواستہ سہی لیکن اس کو شادی کے لیے رضامندی دے دی تھی لیکن اپنی بیوی کے غصے کو وہ ختم نہیں کر سکے تھے۔ اور فاخرہ اس رشتے کی مخالفت میں تنہا نہیں تھیں۔ نبیل کے سارے گھر والے، اس کے بھائی بھابھیاں حتیٰ کہ ذیشان بھی اس رشتے کی مخالفت کر رہا تھا۔ بھائیوں میں اگر کسی کے ساتھ اس کی دوستی تھی تو صرف ذیشان کے ساتھ اور یہی حال ذیشان کا تھا۔
مگر اب جب نبیل نے اسے اپنے فیصلے کے بارے میں بتایا تھا تو وہ نہ صرف حیران ہوا تھا بلکہ اس نے نبیل کا مذاق بھی اڑایا تھا۔
”تو نبیل سکندر صاحب شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ہاؤ فنی۔”
”اس میں مذاق کی کیا بات ہے؟” نبیل کو اس کے لہجے کا تمسخر پسند نہیں آیا تھا۔
”دیکھیں جناب نبیل صاحب! آپ کچھ بھی ہو سکتے ہیں، مگر آپ کبھی بھی ایک اچھے شوہر نہیں ہو سکتے۔ پھر کیوں خود کو اس رول میں ٹرائی کرنا چاہتے ہیں؟” اس کی طرح ذیشان بھی خاصا صاف گو تھا۔
”کیوں میں اچھا شوہر کیوں نہیں ہو سکتا؟”
”یہ سوال آپ کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے۔ جواب بڑی آسانی سے مل جائے گا۔ رشتہ بہت زیادہ بھی ہوا تو صرف چند سال چل سکے گا وہ بھی اگر تمہاری بیوی میں صبر اور برداشت کا مادہ وافر مقدار میں ہوا تو اور جب بھی اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو وہ تمہاری شادی شدہ زندگی کا آخری دن ہوگا۔”
ذیشان کا تجزیہ حقیقت پسندانہ تھا کیونکہ وہ نبیل سکندر کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ لیکن اس کی باتوں نے نبیل کو ہرٹ نہیں کیا۔ وہ بڑے سکون سے اس کی باتیں سنتا رہا تھا۔
”ذیشان! کم از کم اس معاملے میں میں تمھیں حیران کر دوں گا۔ تم دیکھو گے کہ میں اس رشتے کو نبھانے کے لیے کس حد تک جاتا ہوں۔ کم از کم مجھے شبہ نہیں ہے کہ میں اور رومیصہ بہت اچھی زندگی گزاریں گے۔” اس کے لہجے میں بے حد سنجیدگی تھی۔
”جس لڑکی کی تم بات کر رہے ہو۔ اس میں ہر وہ خامی ہے جو ہماری کلاس کے نزدیک ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ صرف خوبصورتی کی وجہ سے تم کب تک اسے سراہتے رہو گے۔ اس کا سارا چارم شادی کے چار دن کے بعد ختم ہو جائے گا پھر تمھیں اس میں صرف خامیاں نظر آنے لگیں گی تب تم کیا کرو گے؟ ابھی تو اس نے تمھیں اور تمہاری دولت کو دیکھا ہے۔
تمہاری کسی خامی کے بارے میں وہ جانتی نہیں ہوگی اور اگر جانتی بھی ہوگی تو اسے یہ لگتا ہوگا کہ تم شادی کے بعد بالکل صحیح ہو جاؤ گے۔ لیکن بعد میں جب وہ تمھارے بارے میں جاننا شروع کرے گی پھر وہ بہت مسائل کھڑے کرے گی تمھارے لیے۔ اس اٹھارہ، انیس سال کی لڑکی سے شادی کر کے تمھیں صرف ٹینشن ملے گی۔ وہ عمر میں تم سے بہت چھوٹی ہے ظاہر ہے میچور بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی ہماری کلاس کی لڑکیوں کی طرح براڈ مائنڈڈ ہوگی، جو اپنے شوہروں کو تھوڑی بہت آزادی ضرور دیتی ہیں۔ مجھے تو حیرت ہے کہ تم نے یہ سب سوچا کیسے ہے صرف خوبصورتی دیکھ کر پاگل ہو گئے ہو۔ نہیں نبیل سکندر صاحب! آپ بہت حماقت کا ثبوت دے رہے ہیں، ایسے رشتے دیر تک نہیں چلتے۔ کل پچھتانے کے بجائے بہتر ہے کہ آج ہی کچھ عقل سے کام لیں۔”
ذیشان نے اس کو سمجھانے کے لیے بے تحاشا دلائل دیے تھے۔ مگر نبیل قائل نہیں ہوا تھا۔ اسے قائل کرنا بہت مشکل کام ہوتا تھا وہ دوسروں کی بات سن لیا کرتا تھا مگر کرتا صرف وہی تھا جسے وہ ٹھیک سمجھتا تھا۔
”مجھے مزید سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بہت سوچ چکا ہوں اور جتنا میں سوچ رہا ہوں ،میرا فیصلہ اور ارادہ اتنا ہی مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے اسی سے شادی کرنا ہے۔”
اس نے ذیشان کی ساری باتوں کے جواب میں بس یہی کہا تھا۔ ذیشان نے مزید سر کھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
”ٹھیک ہے جیسا تم بہتر سمجھتے ہو۔” اس نے یہ کہہ کر بات کا موضوع بدل دیا تھا۔
…***…
اس دن اسے آفس میں آئے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی۔ جب خلاف توقع اور خلاف معمول نبیل سکندر ساڑھے نو بجے آفس آ گیا تھا۔ رومیصہ نے حیرانی سے اسے آفس میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ اپنی تین ماہ کی سروس میں ایسا پہلی دفعہ ہوا تھا۔
”آپ ذرا میرے آفس میں آئیں۔” وہ اس کی ٹیبل کے پاس سے گزرتے ہوئے کہہ گیا تھا۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر اس کے پیچھے آفس میں چلی گئی تھی۔ وہ اپنا کوٹ اتار کر ریوالونگ چیئر کی پشت پر ڈال رہا تھا۔ جب وہ اندر داخل ہوئی تھی۔
”بیٹھیں۔” اس نے ہاتھ کے اشارے سے سے کہا تھا۔ لیکن خود وہیں کھڑا رہا تھا۔ وہ رائٹنگ پیڈ ٹیبل پر رکھ کر ڈکٹیشن لینے کے لیے تیار ہو گئی۔ کچھ دیر تک وہ ریوالونگ چیئر کے پیچھے کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر ایک گہری سانس لے کر چیئر پر بیٹھ گیا۔
“Are you engaged?” (آپ انگیجڈ ہیں؟) وہ اس کے اس غیر متوقع سوال پر حیران رہ گئی تھی۔
“No” بمشکل اس کے حلق سے آواز نکلی تھی۔ نبیل سکندر کے چہرے پر اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ کچھ دیر تک وہ خاموش رہا پھر اس نے کہا۔
“Alright then would you like to marry me?” (آل رائٹ تو آپ مجھ سے شادی کریں گی؟)
اسے جیسے دوہزار وولٹ کا کرنٹ لگا تھا۔ وہ حیرت سے اس کا منہ دیکھتی رہ گئی تھی۔
”آپ کیا کہہ رہے ہیں؟”
”میں یہ کہہ رہا ہوں کہ کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟” نبیل کا اطمینان ابھی بھی برقرار تھا۔ وہ حیرانی کے عالم میں اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ کچھ دیر تک دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی تھی پھر اس نے ٹیبل کے ایک کونے میں پڑی ہوئی ایک ڈبیا کھول کر اس کے آگے سرکا دی۔ اس نے ڈبیا کو دیکھا تھا۔ ایک خوبصورت انگوٹھی اس میں جگمگا رہی تھی۔
”یہ کیا ہے؟” اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ ”انگیجمنٹ رنگ ہے۔ پہن لیں۔ یا اگر آپ اجازت دیں تو میں پہنا دوں؟”
وہ اپنی چیئر سے کھڑا ہو گیا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ حرکت کرتا۔ وہ بھی بوکھلا کر اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
”میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ مجھے باہر جانا ہے، کام کرنا ہے مجھے۔” نبیل نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
”میرے والدین ایک دو دن تک آپ کے گھر آئیں گے اور مجھے امید ہے کہ آپ کی طرف سے انکار نہیں ہوگا۔” وہ اس کے پاس آ گیا تھا۔
”مجھے باہر جانا ہے۔” اس نے بے چارگی سے کہا تھا۔
”آپ بیٹھ جائیں۔ مجھے آپ سے کچھ اور باتیں بھی کرنی ہیں۔”
”مجھے بہت کام ہے۔” وہ کسی طرح وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔
”میں نے کہا ناں، بیٹھ جائیں۔” اس بار اس نے ترش لہجے میں اسے جھڑکتے ہوئے کہا تھا۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ وہ اس کے ساتھ رکھی ہوئی دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔
”کیا آپ کو اس پروپوزل پر کوئی اعتراض ہے؟” اس نے بیٹھتے ہی اس سے پوچھا تھا۔
”دیکھیں۔ میں یہاں کام کرنے آتی ہوں۔”
”میں جانتا ہوں مگر میں نے تم کو اسی کام کے لیے رکھا تھا۔ جب میں نے پہلی بار وہاں آفس میں تمھیں انٹرویو دیتے ہوئے دیکھا تو میں نے سوچا تھا This girl is going to be my wife, (یہ لڑکی میری بیوی بنے گی) میں تمھیں اس وقت پرپوز کر دینا چاہتا تھا مگر پھر تمھارے بارے میں کچھ اور جاننے کے لیے میں نے تمھیں جاب دی اور اب میں تمھیں پروپوز کر رہا ہوں۔ تمہاری فیملی اور حالات کے بارے میں تقریباً سب کچھ جانتا ہوں۔ سو تمھیں اس بارے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ تم سے کوئی وعدے تو نہیں کرنا چاہتا مگر پھر بھی یہ یقین ضرور دلاتا ہوں کہ میرے ساتھ تم بہت خوش رہو گی کیا اتنی یقین دہانی کافی نہیں ہے؟”
اس کی آنکھوں میں کوئی ایسی بات تھی جس نے اسے نبیل کے چہرے سے نظر ہٹانے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس نے رومیصہ کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ اس نے مزاحمت نہیں کی۔ وہ جیسے ہپناٹائز ہو چکی تھی۔ بہت آہستگی سے نبیل نے اس کے ہاتھ میں انگوٹھی پہنا دی تھی۔ وہ خاموشی سے اپنا ہاتھ دیکھتی رہی۔ وہ کچھ دیر تک دونوں ہاتھوں میں تھامے ہوئے اس کے خوبصورت ہاتھ کو دیکھتا رہا پھر وہ ایک گہری سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
”تھینک یو ویری مچ۔ تم آفس سے اپنی چیزیں سمیٹ لو۔ نیچے میری گاڑی میں ڈرائیور تمہارا انتظار کر رہا ہوگا۔ تم گھر چلی جاؤ اور کل سے آفس مت آنا۔”
وہ سر جھکائے اس کی آواز سنتی رہی تھی۔ بات ختم ہونے پر وہ اس کی طرف دیکھے بغیر کمرے سے باہر آ گئی تھی۔ گھر آ کر اس نے خالہ کو طبیعت کی خرابی کا بتایا تھا اور آرام کرنے کو کہہ کر لیٹ گئی تھی۔ انگوٹھی اس نے گاڑی میں ہی اتار کر بیگ میں رکھ لی تھی۔ وہ خالہ کے سامنے اس انگوٹھی کی موجودگی کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکتی تھی۔ نہ ہی اس میں اتنی ہمت تھی کہ وہ اس پروپوزل کے بارے میں خالہ کو بتا دیتی۔
خالہ بری نہیں تھیں مگر بہت اچھی بھی نہیں تھیں۔ اس کی امی بہت چھوٹی عمر میں فوت ہو گئی تھیں اور اس کے ابو نے اسے اکیلے ہی پالا تھا مگر سات آٹھ سال بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا تھا وہ تب ساتویں میں تھی۔ ابو ایک فرم میں اکاؤنٹنٹ تھے اور جب تک وہ زندہ رہے۔ رومیصہ ان کی آنکھوں کا تارا بنی رہی۔ انھوں نے اسے ہر آسائش دینے کی کوشش کی، مگر ان کی وفات کے ساتھ ہی حالات بدل گئے تھے۔ وہ اپنے گھر سے خالہ کے گھر آ گئی تھی۔ خالہ نے اس کا گھر بیچ دیا تھا اور ابو کے آفس سے جو رقم ملی تھی وہ بھی انھوں نے یہ کہہ کر اپنے پاس رکھ لی تھی کہ بڑے ہو کر اس کی شادی کے کام آئے گی۔ وہ اتنی چھوٹی تھی کہ ان معاملات میں بول ہی نہیں سکتی تھی پھر اسے خالہ کے ساتھ رہنا تھا۔ وہ اگر اعتراض کرتی تو اپنے لیے ہی کانٹے بوتی۔ خالہ نے سب سے پہلے اس کا اسکول بدلا تھا اس وقت انھوں نے یہ بہانا کیا تھا کہ وہ اکیلی اسکول جائے گی تو وہ پریشان ہوں گی۔ اس لیے بہتر ہے وہ ان کی بیٹیوں کے ساتھ اسکول جائے۔ وہ کچھ کہہ نہیں پائی تھی۔ انگلش میڈیم سے وہ گورنمنٹ اسکول آ گئی تھی پھر آہستہ آہستہ بہت کچھ بدل گیا تھا۔
دو سال میں خالہ نے اپنی دو بیٹیوں کو بیاہ دیا تھا اور وہ بھی خاصی دھوم دھام سے۔ اتنا پیسہ کہاں سے آیا، تقریباً سب ہی جانتے تھے انھوں نے رومیصہ کے باپ کا روپیہ اپنی بیٹیوں کے جہیز پر خرچ کر دیا تھا ورنہ اپنے کلرک شوہر کی کمائی سے وہ بیٹیاں کیسے بیاہ سکتی تھیں۔ ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا جو سب سے چھوٹا تھا۔ دو بیٹیاں بیاہنے کے بعد انھوں نے رومیصہ کو کوئی جاب ڈھونڈنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ ہر وقت یہی کہا کرتی تھیں۔
”بھئی۔ آج کل تو سب لڑکیاں جاب کرتی ہیں اس طرح کام کرنے والی لڑکیوں کی عزت بھی ہوتی ہے اور وہ دوسروں پر بوجھ بھی نہیں بنتیں۔ میں تو تمھیں پڑھا بھی اس لیے رہی ہوں کہ تم بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤ۔”
اپنی بیٹیوں کے لیے ان کے خیالات اور ارشادات اور طرح کے ہوتے تھے انھیں وہ کبھی گھر کے کام کے سوا باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ ایف اے کرتے ہی انھوں نے رومیصہ کو جاب ڈھونڈنے پر لگا دیا تھا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی باہر نکلنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ خالہ کی دونوں بیٹیاں رومیصہ سے بڑی تھیں شاید وہ یہ چاہتی تھیں کہ رومیصہ بھی گھر کی آمدنی میں کچھ اضافہ کرے تاکہ وہ اپنی باقی دونوں بیٹیوں کے فرض سے بھی سبکدوش ہو سکیں اور رومیصہ اس بات سے واقف تھی لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی، وہ خالہ کا گھر نہیں چھوڑ سکتی تھی ان کے علاوہ اس کا کوئی اور سگا رشتہ دار نہیں تھا اور جو دور پار کے رشتے دار تھے بھی وہ اس کی ذمہ داری کہاں اپنے کندھوں پر لے سکتے تھے۔ بہت صبر سے وہ یہاں وقت گزار رہی تھی۔ مگر اب زندگی میں جو انقلاب آیا تھا اس نے اسے دنگ کر دیا تھا۔
…***…
نبیل سکندر کے والدین تین دن بعد آئے تھے اور تین دن تک وہ طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کر گھر پر ہی رہی۔ وہ خالہ کو جاب چھوڑنے کا نہیں بتا سکتی تھی۔ نبیل کے پرپوزل پر خالہ کا ردعمل عجیب تھا۔ پہلے انھیں یقین نہیں آیا کہ وہ واقعی رومیصہ کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے مانگ رہی ہیں سکندر علی کی بیوی کا رویہ بھی کافی نخوت بھرا تھا۔ مگر سکندر علی کافی سلیقے اور قرینے سے بات کر رہے تھے۔ پھر خالہ نے سوچنے کے لیے وقت مانگا مگر ان کے جانے سے پہلے یہ کہہ کر انکار کر دیا ان کے خاندان میں لڑکیوں کی شادیاں خاندان سے باہر نہیں کرتے پھر رومیصہ ابھی بہت چھوٹی ہے۔ فاخرہ سکندر علی اس انکار سے کافی خوش ہوئی تھیں جبکہ سکندر علی نے اسے اپنی توہین جانا تھا اور کافی ناراضگی کے عالم میں واپس گئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد خالہ اس کے پاس آئی تھیں اور عجیب نظروں سے اسے دیکھتی رہی تھیں پھر انھوں نے بڑے نارمل انداز میں کہا تھا۔
”جس کے ساتھ تم کام کرتی ہو۔ اس نے اپنا رشتہ بھیجا ہے۔ میں نے انکار کر دیا۔ تم نے بتایا تھا نا کہ وہ اچھا آدمی نہیں ہے پھر میں تمھیں اس کے ساتھ کیسے بیاہ دیتی۔ ویسے بھی تم ابھی چھوٹی ہو پہلے تو نازیہ اور شازیہ کی شادی ہوگی اور پھر مجھے لڑکے کی ماں بھی اس رشتے پر خوش نظر نہیں آئی۔ خیر دفع کرو ان باتوں کو تم ذرا رات کا کھانا بنا لو۔”
وہ اس کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی تھیں اور پتا نہیں کیوں لیکن رومیصہ کا دل چاہا تھا کہ وہ بلند آواز سے رونے لگے۔ اسے نبیل سکندر سے عشق تھا نہ محبت نہ اس نے اس کے ساتھ کوئی عہد و پیمان کیے تھے۔ پھر بھی وہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ یک دم اسے خالہ کا گھر جہنم لگنے لگا تھا۔
پچھلے تین دن اسے یوں لگتا رہا تھا جیسے قسمت اس پر مہربان ہو گئی ہے اور اب اسے یوں لگ رہا تھا جیسے یہ ایک فریب تھا۔ نہ وہاں کوئی نبیل سکندر تھا نہ اس کے لیے کوئی سائبان سب کچھ پہلے ہی کی طرح صحرا تھا۔ لیکن وہ کسی چیز کا اظہار کرنا نہیں چاہتی تھی۔وہ خالہ پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ ان کے انکار سے اسے دکھ ہوا ہے۔ اس لیے بڑے حوصلے کے ساتھ وہ رات کا کھانا تیار کرنے میں مصروف ہو گئی تھی۔
اس وقت شام کے چھ بج رہے تھے جب اچانک دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ خالہ کا بیٹا دروازہ کھولنے گیا تھا اور کچھ دیر بعد وہ اندر آیا تھا۔
”رومیصہ باجی کے دفتر سے کوئی نبیل سکندر آئے ہیں۔” وہ دسترخوان پر کھانا لگانا بھول گئی تھی۔ فق ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ اس نے خالہ کو دیکھا تھا جو سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔
”میں دیکھتا ہوں۔” خالو اٹھ کر باہر چلے گئے تھے۔ خالہ بھی ان کے پیچھے ہی نکل گئی تھیں۔ دروازے پر نبیل سکندر منتظر کھڑا تھا۔ اس نے خالو سے ہاتھ ملایا اور پھر اپنا تعارف کروایا۔
”میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں اگر آپ مجھے اندر آنے دیں۔”
اس نے خالو سے کہا تھا۔ جو اس کے حلیے سے بہت مرعوب ہو گئے تھے اور کچھ ایسا ہی حال خالہ کا تھا۔ ان کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ نبیل سکندر اس قدر خوبرو ہو سکتا ہے۔ خالو اسے ڈرائنگ روم میں لے گئے تھے اور نبیل نے بیٹھتے ہی اپنے آنے کا مقصد بیان کرنا شروع کر دیا تھا۔ خالو کچھ حیران ہوئے تھے کیونکہ ابھی تک خالہ نے انھیں چند گھنٹے پہلے آنے والے رومیصہ کے پرپوزل کے بارے میں نہیں بتایا تھا اور نہ ہی وہ یہ جانتے تھے کہ ان کی بیوی نے انکار کر دیا تھا۔ وہ حیران تھے کہ اگر ایسا رشتہ آیا تھا تو خالہ نے سوچنے کے لیے وقت لینے کے بجائے انکار کیوں کر دیا۔
”آپ کو مجھ میں کیا کمی نظر آتی ہے؟” نبیل نے خالہ سے پوچھا تو اس کے سوال پر گڑبڑا گئی تھیں۔ ان کے تو وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ نبیل سکندر رشتہ ٹھکرانے کے چند گھنٹوں بعد ہی ان کے سامنے ہو گا۔
”وہ اصل میں بیٹا ہمارے ہاں لڑکیاں خاندان سے باہر بیاہنے کا رواج نہیں ہے۔” انھوں نے بہت کمزور سے لہجے میں کہا تھا۔
”یہ تو کوئی وجہ نہیں ہے۔ میرا فیملی بیک گراؤنڈ بہت اچھا ہے۔ اور میرا خیال ہے ہمارے خاندان کے ساتھ رشتہ جوڑ کر آپ کو بہت خوشی ہوگی، دوسری بات آپ نے میرے والدین کو یہ کہی تھی کہ رومیصہ ابھی کم عمر ہے۔ ٹھیک ہے وہ کم عمر ہے لیکن کیا لڑکیوں کی شادی کم عمری میں نہیں ہوتی اور ویسے بھی وہ کوئی بارہ یا تیرہ سال کی تو نہیں ہے پھر عمر کا کیا مسئلہ ہے۔ ایک بات تو بہرحال طے ہے کہ مجھے ہر صورت میں اسی کے ساتھ شادی کرنا ہے اگر آپ کو عمر کا کوئی مسئلہ لگتا ہے تو ٹھیک ہے میں چند سال انتظار کر لیتا ہوں۔ لیکن آپ میرے ساتھ اس کا نکاح کر دیں۔ میں آپ لوگوں کی بہت عزت کرتا ہوں اور آپ کی مدد بھی کرنا چاہتا ہوں۔ رومیصہ کے بدلے میں اگر آپ مجھ سے کوئی مطالبہ بھی کریں گے تو میں اسے پورا کروں گا۔ اگر آپ کی کوئی ڈیمانڈ ہے تو آپ بتا دیں۔ لیکن رومیصہ کی شادی اگر ہوئی تو صرف مجھ سے کہیں اور نہیں ہوگی۔ اگر آپ اپنی مرضی سے نہیں کریں گے تو پھر مجھے کوئی اور راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ جو میں نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ آپ رومیصہ کے رشتہ دار ہیں اس لیے میں آپ کی عزت کرتا ہوں لیکن آپ کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑے گا۔”
اس نے بہت دھیمے لیکن بہت مستحکم آواز میں انھیں اپنے عزائم سے آگاہ کر دیا تھا۔ خالہ نے گلا صاف کر کے کہا۔
”دیکھو بیٹا! رومیصہ میری دونوں بیٹیوں سے چھوٹی ہے۔ ان کے شادی کیے بغیر اس کی کیسے کر سکتی ہوں۔”
”وہ کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ ان کے لیے رشتے ڈھونڈیں اور شادی طے کر دیں۔ جہاں تک اخراجات کا تعلق ہے تو وہ میں ادا کروں گا۔ اس بارے میں آپ فکر مند نہ ہوں۔”
”لیکن دیکھو ابھی ہمارے پاس رومیصہ کی شادی کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم اسے خالی ہاتھ تو نہیں بھیج سکتے۔ آخر وہ بھی ہماری بیٹی ہے۔” خالہ نے ایک بار پھر کہا تھا۔
”وہ بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے جہیز کی ضرورت نہیں ہے میرے پاس سب کچھ ہے اور شادی بھی بہت سادگی سے ہوگی۔ آپ کو صرف نکاح کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ جو تھوڑے بہت اخراجات ہوں گے یا رومیصہ اگر کوئی زیور اور کپڑے بنوانا چاہتی ہے تو میں اس کے لیے آپ کو چیک کاٹ کر دے دیتا ہوں۔”
خالہ کا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا مگر وہ چہرے سے سنجیدہ نظر آ رہی تھیں۔
”رومیصہ کا حق مہر کیا ہوگا؟” انھوں نے پوچھا تھا۔
”جو آپ چاہیں۔” نبیل جیسے گھر سے پوری تیاری کر کے آیا تھا۔
خالہ نے معاملات طے کرنے شروع کر دیے۔
”ایک تو اس کے نام کوئی گھر ہونا چاہیے۔”
”ٹھیک ہے۔” وہ ایک لفظ کہے بغیر ان کا پہلا مطالبہ مان گیا۔
”کم از کم پانچ لاکھ روپیہ ہونا چاہیے اس کے نام بینک میں۔”
”ٹھیک ہے۔”
”اور ماہانہ خرچ کم از کم دو ہزار ہونا چاہیے۔”
”اور کم از کم پچاس تولے زیور بری میں آنا چاہیے۔”
”میں سو تولے دے دوں گا۔” اس نے صرف آخری مطالبے میں کچھ تبدیلی کی تھی۔
”کچھ اور؟” نبیل نے پوچھا تھا۔
”نہیں۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔” اس بار خالو کو شرم آ گئی تھی۔
”اب ایک بات آپ میری مان لیں۔ میں دو ہفتے میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔ آپ تاریخ طے کر دیں۔” اس نے اپنا واحد مطالبہ سامنے رکھا تھا۔
”ٹھیک ہے۔ ہم دوہفتے میں شادی کر دیں گے۔”
خالہ نے فوراً کہہ دیا۔ نبیل نے اپنی جیب سے چیک بک نکال کر ایک لاکھ کا چیک لکھ کر خالہ کو دیا تھا۔
”یہ اخراجات کے لیے ہے۔ میرے ایک دوست کی بیوی ہر روز میرے ڈرائیور کے ساتھ آیا کرے گی۔ وہ رومیصہ اور آپ کو ساتھ لے جایا کرے گی رومیصہ کو کپڑے اور زیورات پسند کروانے کے لیے۔ میں شادی پر کوئی ہنگامہ نہیں چاہتا، چند لوگ آپ کی طرف سے ہونے چاہئیں اور چند ہی لوگ ہماری طرف سے ہوں گے۔ ہوٹل کے ہال کی بکنگ کروا دوں گا اور کل آپ کو اس کے بارے میں انفارم کر دوں گا۔ کسی اور بارے میں مجھ سے کوئی بات کرنا چاہیں تو ان میں سے کسی بھی نمبر پر رنگ کر کے مجھ سے کونٹیکٹ کر سکتے ہیں۔ اب مجھے اجازت دیں۔”
وہ یہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ خالہ اور خالو دروازے تک اسے چھوڑنے آئے۔ وہ اندرکمرے میں دسترخوان پر بے جان سی بیٹھی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ نبیل نے ان سے کیا کہا تھا مگر وہ بے حد خوفزدہ تھی لیکن خالہ نے اندر آتے ہی اسے گلے لگا لیا تھا۔
”بیٹا! نبیل تو بہت ہی اچھا لڑکا ہے۔ ایسے رشتے تو قسمت والوں کو ملتے ہیں۔ میں تو اسے انکار نہیں کر سکی۔”
خالہ اس کا منہ چومتے ہوئے کہہ رہی تھیں اور وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
…***…
اگلے دو ہفتے بے حد مصروف گزرے تھے۔ نبیل کے ایک دوست کی بیوی ہر روز آیا کرتی تھی اور اسے اور خالہ کو ساتھ لے کر شادی کی شاپنگ کیا کرتی تھی۔ خالہ کو اس کی قسمت پر رشک اور حسد دونوں ہوتے تھے۔ چند دن پہلے تک وہ کیا تھی اور اب وہ کیا بننے جا رہی تھی۔ شادی کے تمام انتظامات نبیل نے کیے تھے۔ بیوٹی پارلر سے لے کر ہال تک سب کچھ پہلے سے بک تھا۔ شادی والے دن صرف نبیل کے گھر والے اور اس کے کچھ دوست اپنی بیویوں کے ساتھ آئے تھے۔ رومیصہ کی طرف سے بھی زیادہ لوگ نہیں تھے۔ نکاح کے فوراً بعد رخصتی ہو گئی تھی۔ وہ نبیل سکندر کے گھر آ گئی تھی۔ جو کسی طرح سے بھی شادی والا گھر نہیں لگ رہا تھا۔ نبیل کا کمرہ سیکنڈ فلور پر تھا۔ آنے کے فوراً بعد اسے نبیل کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔ نبیل کے ماں باپ اور بڑے بھائیوں اور بھابھیوں نے اسے منہ دکھائی میں بجھے دل سے کچھ تحفے دیے تھے۔ ان کے رویے سے وہ یہ جان گئی تھی کہ اس شادی سے کوئی بھی خوش نہیں ہے مگر اسے اس سب کی توقع تھی۔ اس لیے زیادہ دکھ نہیں ہوا۔ پھر اس کے چھوٹے دیوروں نے بھی اسے کچھ تحائف دیے تھے باقی لوگوں کی نسبت ان کا رویہ قدرے بہتر تھا۔ خاص طور پر ذیشان کا۔ کچھ دیر تو اسے دیکھ کر وہ بھی اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکا تھا۔
”تو نبیل سکندر صاحب! یہی وہ خوبصورتی تھی جس نے آپ کو عقل سے پیدل کر دیا تھا۔” بے اختیار اس نے سوچا تھا۔ وہ بلاشبہ بے تحاشا خوبصورت تھی اور اس وقت تو ویسے بھی خوبصورتی کے تمام ہتھیاروں سے لیس تھی۔
”رومیصہ! یہ وہ بندہ ہے جس نے تم سے شادی کے فیصلے پر میرا سب سے زیادہ مذاق اڑایا تھا۔ اس کا خیال ہے کہ میں کبھی بھی ایک اچھا شوہر نہیں ہو سکتا۔”
نبیل نے اس کا تعارف کرواتے ہوئے اس کے بارے میں میں کچھ مزید اطلاع فراہم کی تھی۔ رومیصہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ وہ نبیل سے کافی مشابہ تھا اور اس وقت کچھ جھینپا ہوا تھا۔ وہ کچھ دیر رومیصہ سے رسمی سی باتیں کرتا رہا تھا اور پھر وہ نبیل کے ساتھ کمرے سے نکل گیا تھا۔ کمرے میں اب اس کے سوا کوئی نہیں تھا۔ اس نے سر اٹھا کر کمرے میں نظر دوڑائی تھی اور کچھ لمحوں تک وہ مبہوت ہو کر رہ گئی تھی۔
ہر چیز کتنی خوبصورت ہو گئی تھی۔ اس کی زندگی کی ساری بدصورتیاں پتا نہیں کہاں چھپ گئی تھیں۔ سب کچھ کتنا مکمل، کتنا خوبصورت نظر آ رہا تھا۔ اور پھر وہ آ گیا تھا اور پتا نہیں اس رات نبیل سکندر نے اس سے کیا کیا کہا تھا۔ اسے پہلی بار دیکھنے سے لے کر آج تک کی ساری کیفیات اس نے اسے بتا دی تھیں۔ اور وہ بس خاموشی سے اس کے خوبصورت چہرے پر نظر آنے والی چمک اور جھلملاتے رنگوں کو دیکھ رہی تھی۔ کیا میں کسی کے لیے اس قدر اہم ہو سکتی ہوں اور وہ بھی نبیل سکندر جیسے بندے کے لیے اسے یقین نہیں آ رہا تھا مگر یہ سب حقیقت تھی۔
…***…




Loading

Read Previous

میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

Read Next

سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

3 Comments

  • I think shr could do better than this cliche story. Not impressed.

  • I think it is baou the tirm when we write stories that are not revoloving around rich guy poor girl, who is.mountain of wafa and qurbani and innocence. We should do more than that.

  • Impressive

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!