رومیصہ اس واقعہ کے بعد پہلے سے زیادہ محتاط ہو گئی تھی اب وہ اسے بالکل ہی نیچے نہیں لاتی تھی اور اگر لاتی بھی تو اسے اپنی نظروں کے سامنے رکھتی۔ آہستہ آہستہ ماہم کے زخم مندمل ہوتے گئے تھے اور اس کے ہونٹ پہلے کی طرح ہو گئے تھے۔ مگر وہ اس واقعے سے بہت ڈر گئی تھی وہ سمجھ تو نہیں پائی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے اور کیوں ہوا ہے مگر اس کے لیے جو واحد احساس تھا وہ درد اور تکلیف کا تھا اور اس تکلیف نے اسے بے تحاشا خوفزدہ کر دیا تھا۔ رومیصہ رات کو جب اوپر جاتی تو بعض دفعہ وہ جاگ جاتی اور پھر رومیصہ اسے گود میں لے کر ٹیرس پر ٹہلتی رہتی اس سے باتیں کرتی۔ وہ نبیل سے بے حد مشابہت رکھتی تھی اور رومیصہ بعض دفعہ بہت دیر تک اس کا چہرہ دیکھتی رہتی۔
وہ اس رات بھی اسے لے کر ٹیرس پر پھرتی رہی تھی۔ پھر جب ماہم اونگھنے لگی تو وہ اسے لے کر اندر آ گئی۔ اس نے اسے کاٹ میں لٹانے کے بجائے اپنے پاس بیڈ پر لٹا لیا تھا۔ وہ خود بھی سونے کے لیے لیٹ گئی۔ لیکن پتا نہیں کیوں وہ اپنے اندر ایک عجیب سی بے چینی محسوس کر رہی تھی۔ اور اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ پھر اچانک کسی کے قدموں کی آواز اسے سنائی دی تھی کوئی اس کے دروازے کے سامنے سے گزر کر آگے گیا تھا اور آگے والے کمرے کا دروازہ بجانے لگا تھا۔ دستک کی آواز میں عجیب سی بوکھلاہٹ تھی جیسے کوئی بہت تیزی میں ہو۔
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ ایک عجیب سے خوف نے اس کے دل کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ وہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ دستک کی آواز اب بند ہو گئی تھی اور تھوڑی دیر بعد ایک بار پھر کوئی اس کے کمرے کے دروازے کے سامنے سے گزرا تھا۔ وہ سانس روکے باہر سے ابھرنے والی آوازوں کو سنتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد کوئی دو افراد ایک بار پھر بڑی تیزی سے اس کے کمرے کے دروازے کے سامنے سے گزرے تھے۔
”یہ یقینا اشعر اور ستارہ ہوں گے۔ اس نے اندازہ لگایا تھا۔ مگر یہ اس وقت نیچے کیوں گئے ہیں؟” اس کی بے چینی میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔ کچھ دیر بعد نیچے کسی گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی تھی۔ پھر ایک اور گاڑی اسٹارٹ ہوئی تھی وہ بے اختیار بیڈ سے اٹھ کر دروازہ کھول کر باہر آ گئی تھی۔ ہال کی ساری لائٹس آن تھیں۔ اس نے نیچے جھانکا۔ ہال میں کوئی نہیں تھا، گھر میں خاموشی طاری تھی۔ وہ تیز قدموں سے نیچے آئی اور پھر بیرونی دروازے کی طرف آ گئی۔ ایک ملازم ستے ہوئے چہرے کے ساتھ اندر آ رہا تھا۔ شاید وہ دروازہ بند کرنے گیا تھا۔ ”غفور! یہ سب کہاں گئے ہیں؟” اس نے پوچھا۔
”ذیشان صاحب کو کسی نے گولیاں مار دی ہیں۔ ابھی فون آیا تھا انھیں لاہور لائے ہیں مگر ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔” اس نے نظر چراتے ہوئے کہا تھا۔ وہ جیسے برف بن گئی تھی۔
”کیا ایک بار پھر…؟” وہ آگے نہیں سوچ سکی تھی اپنے وجود کو بمشکل گھسیٹتے ہوئے وہ اوپر کمرے میں آئی تھی۔
”میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ صرف میرے ساتھ ہی کیوں؟ کیا دنیا میں اور کوئی نہیں ہے؟” وہ سوچ رہی تھی اور گم صم سی بیڈ پر سوتی ہوئی ماہم کو دیکھتی جا رہی تھی۔
”اب کیا ہوگا؟ میں کیا کروں؟ ہر سوال ایک راستہ تھا ہر راستہ جیسے بند ہوتا جا رہا تھا۔ کسی نے مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ مجھے ساتھ لے لیتا۔ مجھے بتا دیا جاتا۔ کیا میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے؟”
اس کی افسردگی بڑھتی جا رہی تھی۔ کمرے میں یک دم بے حد گھٹن ہو گئی تھی وہ اٹھ کر باہر ٹیرس پر آ کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ وہ بہت کچھ سوچتی رہی تھی اپنا ماضی، حال، مستقبل سب بدصورت تھا سب بھیانک تھا کہیں پر کوئی رنگ نہیں تھا کہیں پر کوئی روشنی نہیں تھی وہ خاموشی سے اندر کے سناٹے کو سنتی رہی۔ محسوس کرتی رہی۔ پتا نہیں کتنی دیر وہ اسی طرح بیٹھی رہی تھی۔ آسمان آہستہ آہستہ رنگ بدلنے لگا تھا۔ پرندوں نے چہچہانا شروع کر دیا تھا وہ وہاں سے اٹھ گئی تھی۔ کمرے میں آنے کے بعد وہ زیادہ دیر وہاں نہیں رہ سکی اور نیچے آ گئی۔ گھر میں نوکروں کی آمد و رفت شروع ہو گئی تھی۔ ہر ایک اس حادثے سے باخبر تھا۔ ہر ایک کی آنکھوں میں اس کے لیے ترحم تھا۔
وہ ہال کے ایک صوفے پر آ کر بیٹھ گئی تھی۔ نو بجے اشعر اور احمر اپنی بیویوں اور فاخرہ کے ساتھ گھر آ گئے تھے۔ ممی کی آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں۔ وہ حلق میں اٹکے ہوئے سانس کے ساتھ ان کے سامنے گئی تھی۔ ممی اسے دیکھتے ہی چلانا شروع ہو گئی تھیں۔
”یہ سب اس کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ یہ مار ڈالے گی، یہ کھا جائے گی ہر ایک کو کھا جائے گی اسے نکالو۔ اسے یہاں سے نکالو۔”
اسے برا نہیں لگا۔ کوئی لفظ برا نہیں لگا۔ انھوں نے کچھ کہا تھا اسے کچھ کہا تو تھا۔ ستارہ اور عالیہ انھیں زبردستی بیڈ روم میں لے گئی تھیں۔
”ذیشان کیسے ہیں؟” پتا نہیں اس نے کتنی مشکل سے پوچھا تھا۔ اشعر اپنے کمرے کی طرف جاتا جاتا رک گیا۔
”اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ اسے تین گولیاں لگی ہیں ابھی آئی سی یو میں ہے۔” وہ ستے ہوئے چہرے کے ساتھ اسے بتا کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔
”مگر زندہ تو ہے بہرحال زندہ تو ہے۔” ایک عجیب سا سکون ملا تھا اسے۔
…***…
وہ اس رات پیٹرولنگ پر تھا جب ایک ناکے پر ایک گاڑی رکے بغیر گزر گئی تھی تو اس نے موبائل میں پیچھے جانے کی کوشش کی تھی بار بار کی وارننگ کے بعد اس گاڑی کی اسپیڈ ہلکی ہونی شروع ہوئی تھی۔ موبائل میں اس سمیت بیٹھے ہوئے لوگ مطمئن تھے کہ وہ گاڑی کو روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ لیکن جب وہ اور دوسرے کانسٹیبل موبائل سے اترے تھے تو اس گاڑی سے یک دم فائرنگ شروع کر دی گئی تھی اسے دو گولیاں سینے میں لگی تھیں اور ایک ٹانگ میں لگی تھی ایک دو اور کانسٹیبل بھی بری طرح زخمی ہوئے تھے اور کچھ نے موبائل کے پیچھے چھپ کر خود کو بچایا تھا۔ بعد میں وہ ان لوگوں کو موبائل میں ڈال کر مقامی ہاسپٹل لائے تھے باقی دونوں کانسٹیبلز کو تو وہیں طبی امداد دی گئی تھی۔ لیکن اس کے زخم زیادہ گہرے اور خطرناک تھے اور وہ مسلسل غشی کی حالت میں تھا۔ تھوڑی بہت طبی امداد دینے کے بعد ڈاکٹرز نے اسے لاہور لے جانے کے لیے کہا تھا اور اسے لاہور لایا گیا تھا۔
آپریشن سے تینوں گولیاں نکال دی گئی تھیں لیکن سینے میں لگی ہوئی دونوں گولیوں کے زخم بہت گہرے تھے اور ان سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔ ایک ہفتے تک وہ اسی طرح نیم غشی کی حالت میں رہا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی حالت سنبھلنے لگی تھی اور وہ ہوش میں آ گیا تھا۔
مزید ایک ہفتے کے بعد اسے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ پورا دن اسے کوئی نہ کوئی ملنے آتا رہتا کبھی کوئی آفیسر کبھی کوئی دوست اور کبھی گھر کے افراد۔ وہ بستر پر پڑے پڑے لوگوں کے تبصرے اور باتیں سن سن کر تنگ آ گیا تھا۔ اسے زندگی میں کبھی کوئی چھوٹی بڑی بیماری لاحق نہیں ہوئی تھی۔ اور اب جو مصیبت اس پر آئی تھی وہ اس کی برداشت سے باہر تھی۔ گھر والے روز آتے اسے تسلی دیتے اس کا حوصلہ بڑھاتے اور وہ خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتا باتیں سنتا رہتا۔
چند ماہ وہ ہاسپٹل رہا تھا اور اس پورے ماہ میں رومیصہ ایک بار بھی اسے دیکھنے نہیں جا سکی تھی۔ کسی نے اسے ساتھ لے جانے کی آفر ہی نہیں کی تھی۔ حتیٰ کہ سکندر علی نے بھی نہیں ان کا رویہ بھی اس واقعہ کے بعد سے بے حد عجیب ہو گیا تھا۔ وہ حتیٰ الامکان اسے نظر انداز کرتے اور وہ بے حد حیران ہوتی وہ تو ایسے نہیں تھے انھیں کیا ہو گیا تھا۔
وہ ذیشان کو دیکھنے نہیں جا سکی اور ذیشان کو بھی اس کے آنے کا احساس نہیں ہوا۔ شاید اسے اس کی تسلیوں کی ضرورت ہی نہیں تھی ایک ماہ بعد وہ ضد کر کے گھر شفٹ ہوا تھا۔ ڈاکٹرز ابھی اسے ڈسچارج نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مگر وہ ہاسپٹل کے ماحول سے بیزار ہو چکا تھا، اس لیے ڈاکٹرز کو اس کی ضد کے سامنے سر جھکانا ہی پڑا۔
گھر آنے کے بعد رومیصہ نے پہلی بار اس کی خیریت دریافت کی تھی اور اس نے ”میں ٹھیک ہوں” کہہ کر آنکھیں موند لی تھیں، یعنی وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ مزید کچھ پوچھے اور رومیصہ کے پاس کچھ اور پوچھنے کے لیے الفاظ بھی نہیں تھے۔
وہ ہاسپٹل سے گھر آ کر پرُسکون ہو گیا تھا۔ لوگ اب بھی اس کی خیریت دریافت کرنے آتے رہتے تھے مگر اب پہلے کی طرح ان کا ہجوم نہیں رہتا تھا۔
دو ہفتے تک تو گھر والے بھی دن میں دو تین مرتبہ اس کے پاس آتے تھے اور کافی دیر تک بیٹھے رہتے تھے مگر آہستہ آہستہ یہ دورانیہ کم ہوتا گیا۔ ہر چیز اپنی روٹین پر آتی جا رہی تھی۔ سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوتے جا رہے تھے۔ اب صرف سکندر علی اور فاخرہ تھے جو روز کچھ دیر کے لیے اس کے پاس آیا کرتے تھے۔ باقی لوگ ایک دو دن بعد کھڑے کھڑے آ کر اس کا حال پوچھتے اور چلے جاتے۔ رومیصہ بھی ماہم کو ساتھ لے کر سارا دن نیچے کام میں مصروف رہتی تھی۔ وہ بھی صرف اس وقت آتی تھی جب ذیشان کے کھانے کا وقت ہوتا یا اسے دوا دینی ہوتی یا پھر ماہم کو سونا ہوتا ورنہ وہ بھی نیچے ہی رہتی تھی۔
وہ سارا دن کمرے میں اکیلا پڑا رہتا۔ ٹانگ میں زخم گہرا نہیں تھا وہ سہارا لے کر چل سکتا تھا لیکن وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے نہیں جا سکتا تھا اور نہ ہی زیادہ دیر بیٹھ سکتا تھا۔ کبھی وہ ٹیرس پر کچھ دیر کے لیے چلا جاتا مگر زیادہ تر وہ تکیوں کے سہارے بیڈ پر نیم دراز ٹی وی کے چینل بدلتا رہتا تھا اخبار دیکھتا رہتا۔ لیکن صبح سے لے کر شام تک کی تنہائی نے اسے پریشان کر دیا تھا۔
ڈاکٹر نے ابھی دو ماہ تک اسے آرام کرنے کے لیے کہا تھا اور وہ بے حد چڑچڑا ہو گیا تھا۔ معمولی سی بات اس کے مزاج کے خلاف ہو جاتی تو وہ ہنگامہ کھڑا کر دیتا۔ جب وہ بولنے پر آتا تو بولتا ہی چلا جاتا اور بعض دفعہ خاموش ہوتا تو سارا دن ایک لفظ بھی نہ کہتا۔
…***…
اس دن بھی وہ اس کا ناشتہ لے کر آئی تھی۔ اس کے بیڈ کے پاس ٹیبل پر چیزیں رکھنے کے بعد وہ کسی کام سے ڈریسنگ روم میں چلی گئی تھی۔ ذیشان نے بے دلی سے ٹیبل پر نظریں دوڑائی تھیں۔ وہ چیزیں جو وہ روز کھاتا تھا۔ آج بھی اس کے سامنے تھیں۔ فرائیڈ انڈے، بوائلڈ انڈے، بریڈ، سوپ، جیم، کوئی بھی نئی چیز نہیں تھی۔ بے دلی سے اس نے ناشتہ شروع کیا تھا۔
وہ سر جھکائے دل پر جبر کیے ہوئے ٹیبل پر جھکے چمچ سے سوپ پی رہا تھا جب اچانک ایک ننھا سا ہاتھ اس کے سامنے آ گیا تھا۔ اس نے سراٹھایا۔ ٹیبل کو ایک ہاتھ سے تھامے دوسرا ہاتھ اس کے سامنے پھیلائے ماہم کھڑی تھی۔ وہ اپنی موٹی کالی گہری آنکھیں اس پر جمائے ہوئے تھی۔ پتا نہیں کس وقت وہ رینگتے رینگتے وہاں آ گئی تھی۔ اس نے کچھ ناگواری سے سر جھکا لیا مگر ہاتھ اب بھی اس کے سامنے تھا۔ مطالبہ واضح تھا۔ وہ کچھ کھانے کو مانگ رہی تھی۔ اس نے گردن گھما کر ڈریسنگ روم کی طرف دیکھا۔ رومیصہ ابھی بھی باہر نہیں آئی تھی۔ کچھ سوچ کر اس نے ٹیبل پر نظر دوڑائی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا دے۔ پھر اس نے ابلے ہوئے انڈے کا ایک ٹکڑا کچھ جھجکتے ہوئے اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اب وہاں سے چلی جائے گی مگر جانے کی بجائے وہ وہیں کھڑی ہو کر انڈا کھانے لگی، وہ آرام سے ناشتہ نہیں کر پا رہا تھا۔ کن اکھیوں سے وہ اسے انڈا کھاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ وہاں بلا کا سکون تھا۔
چند لمحوں کے بعد ہاتھ پھر اس کے سامنے تھا۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور اس بار بریڈ کا ایک ٹکڑا اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ رومیصہ اسی وقت ڈریسنگ روم سے باہر آئی تھی اور ماہم کو اس کے پاس کھڑے دیکھ کر وہ کچھ گھبرا گئی تھی۔ تیزی سے اس کے پاس آ کر اس نے ماہم کو اٹھا لیا تھا اور پیشتر اس کے کہ وہ بریڈ کے پیس کو منہ میں ڈالتی اس نے اس کے ہاتھ سے وہ پیس لے کر پلیٹ میں رکھ دیا تھا۔ پھر اسے لے کر وہ اسی تیزی سے کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔ پتا نہیں کیوں لیکن اس کی یہ حرکت اسے اچھی نہیں لگی تھی۔ اسے یوں لگا تھا جیسے اس نے بریڈ کا پیس پلیٹ میں نہیں رکھا۔ ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہے۔ اس کی تنہائی کا احساس اور بڑھ گیا تھا۔
دوپہر تک وہ ننھا سا ہاتھ بار بار اس کے سامنے آتا رہا۔ دوپہر کو رومیصہ ماہم کو سلانے کے لیے لائی تھی۔ اسے کاٹ میں لٹانے کے بعد وہ حسب معمول اس کا لنچ لے کر آئی تھی۔ پھر وہ نیچے چلی گئی تھی۔ ماہم سونے کے بجائے کاٹ کو پکڑ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اکثر ایسا ہی ہوتا تھا۔ رومیصہ اسے تھپک کر چلی جاتی تھی۔ اس کے جانے کے بعد وہ کاٹ کو پکڑ کر کھڑی ہو جاتی۔ منہ سے آوازیں نکالتی اور پھر خود ہی تھک کر بیٹھتی اور سو جاتی۔
اس سے پہلے ذیشان نے کبھی اس پر دھیان نہیں دیا تھا۔ مگر آج جب ماہم کھڑی ہوئی تھی تو وہ اسے دیکھنے لگا تھا۔ وہ بھی اس کی طرف متوجہ تھی۔ وہ لنچ سامنے رکھے گردن موڑے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے لنچ پر نظر دوڑائی تھی۔ وہی لنچ تھا جو روز ہوتا تھا۔ سوپ، بریڈ، کالی مرچ میں پکی ہوئی سبزی، سلاد، دہی، پھل وہ کچھ دیر ان چیزوں کو دیکھتا رہا پھر اس نے بریڈ کا ایک پیس لیا تھا اور ماہم کے پاس چلا گیا تھا اس نے حیرانی سے اسے اپنے پاس آتے دیکھا تھا۔
ذیشان نے بریڈ اس کی طرف بڑھا دیا تھا۔ اس نے ایک قلقاری ماری تھی اور پیس پکڑ لیا تھا۔ ذیشان کو ایک عجیب سا فخر ہوا۔ لنچ کرتے ہوئے وہ وقتاً فوقتاً اسے دیکھتا رہا۔ وہ کچھ کھا رہی تھی کچھ نیچے پھینک رہی تھی۔ مگر وہ خوش تھی۔ لنچ کرنے کے بعد ذیشان اٹھ کر اس کے پاس آ گیا اور اس نے ٹشو سے۔ اس کے ہاتھ اور منہ صاف کیا اور بڑی احتیاط سے کارپٹ پر گرے ہوئے بریڈ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو کافی تکلیف برداشت کرتے ہوئے اٹھایا اور ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔ پتا نہیں کیوں لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ رومیصہ کو یہ سب پتا چلے۔ رومیصہ کچھ دیر کے بعد برتن اٹھانے آئی تھی اور تب تک وہ بیڈ پر دراز ہو چکا تھا۔ اس نے جاگتی ہوئی ماہم کو ایک بار پھر لٹا کر تھپکا تھا اور برتن لے کر نیچے چلی گئی تھی۔
پھر روز یونہی ہونے لگا تھا۔ وہ لنچ میں اسے ضرور کچھ نہ کچھ کھلاتا کم از کم لنچ میں اسے تنہائی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ وہ رفتہ رفتہ اس سے مانوس ہوتی گئی تھی۔ اب اگر وہ اسے کچھ نہ دیتا تو وہ خود زور زور سے آوازیں نکالتی اور چیخیں مار کر اسے اپنی طرف متوجہ کر لیتی۔
اس دن بھی وہ فرش پر رینگتے ہوئے ناشتے کے وقت اس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ رومیصہ نے بال باندھتے ہوئے اسے اس کے پاس جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ذیشان کے پاس آ کر جب وہ اسے اٹھانے لگی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔
”اسے رہنے دو یہیں پر۔” اس کی طرف دیکھے بغیر اس نے کہا تھا۔ وہ ہکا بکا رہ گئی۔ کچھ دیر تک وہ کچھ نہیں بول پائی پھر اس نے کہا تھا۔
”مجھے اسے نیچے لے کر جانا ہے۔”
”تم جاؤ۔ اسے میرے پاس رہنے دو۔” وہ اسے انڈے کا ایک ٹکڑا تھماتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ وہ بے حد حیرانی کے عالم میں نیچے آئی تھی۔
…***…
بہت آہستہ آہستہ ہی سہی مگر اس کے وجود پر جمی برف پگھلنے لگی تھی۔ وہ ماہم سے مانوس ہوتا جا رہا تھا۔ وہ ماہم کو اپنے پاس ہی بٹھا کر کھانا کھلایا کرتا تھا۔ یہ اس کی سب سے بڑی تفریح تھی۔ بعض دفعہ وہ اسے کیلا چھیل کر تھما دیتا اور وہ خود کھاتی پھر اس کے منہ کی طرف بڑھا دیتی۔ وہ تھوڑا سا کھاتا پھر وہ خود کھاتی پھر اس کی طرف بڑھا دیتی یہ جیسے اس کے لیے کوئی دلچسپ کھیل تھا۔ اب وہ تقریباً سارا دن اس کے پاس ہی رہتی تھی اور بعض دفعہ وہ اس کی گود میں بھی آ جاتی۔
پہلے پہل جب اس نے اس کی گود میں چڑھنے کی کوشش کی تھی تو اسے بے حد عجیب لگا تھا۔ مگر وہ اس طرح اس کا کندھا پکڑے اس کی گود میں آنے کی جدوجہد کر رہی تھی کہ وہ اسے روک نہیں سکا اور پھر تو جیسے یہ روٹین ہو گئی تھی وہ اس کے پاس آ کر پہلے کی طرح کھڑے ہونے یا بیٹھنے کے بجائے اس کی گود میں آنا چاہتی تھی اور وہ اس کو اٹھا لیا کرتا تھا حالانکہ اسے گود میں اٹھانے کی وجہ سے بعض دفعہ اس کے زخموں میں تکلیف شروع ہو جاتی تھی۔
پھر پہلی دفعہ اسے محسوس ہوا تھا کہ ماہم کے پاس کوئی کھلونا نہیں ہے۔ اس نے رومیصہ سے اس بارے میں پوچھا تھا اور وہ ٹال گئی تھی۔ مگر اس کے بار بار اصرار پر اس نے کہہ دیا تھا۔
”کھلونے خریدنے کے لیے روپوں کی ضرورت ہوتی ہے۔” وہ اس کی بات پر کچھ دیر تک اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”نبیل نے حق مہر میں جو پانچ لاکھ روپے تمھیں دیے تھے وہ کہاں ہیں؟”
”وہ ممی کے پاس ہیں۔”
وہ اس کے جواب پر حیران ہو گیا۔ ”ممی کے پاس کیوں ہیں؟”
”نبیل کی موت کے بعد گھر سے مجھے نکالنے سے پہلے ممی نے ساری چیزیں لے لی تھیں۔” وہ اس کی بات پر خاموش ہو گیا۔
”تمھارے پاس روپے نہیں ہوتے تھے تو تمھیں مجھ سے کہنا چاہیے تھا۔” کچھ دیر کے بعد اس نے کہا تھا۔
”مجھے کبھی روپوں کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔” پتا نہیں اس کے لہجے میں کیا تھا کہ وہ قدرے بے چین ہو گیا۔
کچھ دیر بعد اٹھ کر وہ اندر ڈریسنگ روم میں گیا تھا اور جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں کچھ رقم تھی۔ اس نے رومیصہ کے پاس بیڈ پر رکھ دی۔ وہ بیٹھے بیٹھے چونک گئی۔
”تم کل بازار جاؤ اور اپنے اور ماہم کے لیے کچھ چیزیں خرید لاؤ۔ میں ڈرائیور کو کہہ دوں گا۔” وہ دوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا تھا۔
”لیکن مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔” اس نے کچھ بے قرار ہو کر کہا تھا۔
”ماہم کو تو ہے نا۔” اس نے آنکھوں پر بازو رکھتے ہوئے کہا۔
وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔
”تو اسے احساس ہو گیا ہے کہ ماہم کو بھی کسی چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے۔”
اگلے دن وہ بازار گئی تھی اور تقریباً ساری رقم خرچ کر آئی تھی جو جو چیز وہ ماہم کے لیے خریدنے کے خواب دیکھتی تھی اس نے خریدی تھی اور وہ بے تحاشا خوش تھی۔ اس خوشی کو ذیشان نے بھی محسوس کیا تھا۔ جب وہ ماہم کے سامنے کھلونوں کا ڈھیر رکھ رہی تھی تو پہلی بار اس نے رومیصہ کو ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کے زرد اور مرجھائے ہوئے چہرے پر ایک عجیب سی چمک تھی۔ وہ عجیب سا سکون محسوس کر رہا تھا۔
…***…
دن آہستہ آہستہ گزر رہے تھے اور بہت سی دیواریں گرتی جا رہی تھیں۔ ان دونوں کے درمیان چھوٹی موٹی گفتگو ہونے لگی تھی۔ کبھی موضوع گفتگو ماہم ہوتی اور کبھی وہ ویسے ہی بات کرتے جاتے۔ بعض دفعہ اسے حیرانی ہوتی۔
کیا یہ وہی ذیشان تھا جسے ماہم کی آواز تک ناپسند تھی؟ آخر اب ایسا کیا ہوا ہے؟
وہ سوچتی تبدیلی کیسے آئی تھی؟ کیوں آئی تھی اسے اس سے غرض نہیں تھی اس کے لیے تو یہی کافی تھا کہ بہرحال وہ بدل گیا تھا۔ اب کبھی کبھی جب وہ زیادہ تنہائی محسوس کرتا تو وہ رومیصہ کو اپنے پاس رہنے کے لیے کہتا۔
دو ماہ بعد جب وہ پہلی دفعہ واپس شیخوپورہ گیا تھا تو ایک عجیب سی اداسی تھی جو وہ دونوں محسوس کر رہے تھے۔ اس رات رومیصہ کو پہلی بار شدید قسم کی تنہائی کا احساس ہوا تھا پچھلے ڈھائی ماہ سے وہ اس کمرے میں تھا۔ وہ دن میں کئی بار اس کو دیکھتی تھی۔ اس کی آواز سنتی تھی۔ اب یک دم وہ سب کچھ خواب کی طرح غائب ہو گیا تھا۔ اس نے ذیشان سے کوئی توقعات وابستہ نہیں کی تھیں پھر بھی اسے خوف تھا کہ کہیں واپس جا کر وہ پھر پہلے کی طرح نہ ہو جائے۔ پتا نہیں کیوں لیکن اب نبیل کے بارے میں سوچنے سے وہ گھبرانے لگی تھی۔ وہ اس کی کوئی بات یاد نہیں رکھنا چاہتی تھی وہ ان چار ماہ کو اپنے ذہن سے نکال دینا چاہتی تھی۔
تنہائی کا احساس صرف اسے ہی نہیں ہو رہا تھا۔ ذیشان بھی اتنا ہی بے چین تھا۔ رات کو سونے سے پہلے بار بار ماہم کی آوازیں اس کے کانوں میں گونجتی رہتی۔ رومیصہ سے اسے محبت نہیں تھی مگر ماہم سے تھی کیوں تھی؟ وہ وجہ نہیں جانتا تھا شاید اس لیے کہ وہ اس کی تنہائی کی ساتھی تھی۔ یا شاید اس لیے کہ وہ نبیل کی بیٹی تھی اور نبیل وہ تھا۔ جو اس کا ہم راز تھا۔ جو اس کی خوبیوں، خامیوں سے واقف تھا۔ جس نے زندگی میں بہت دفعہ اس کی مدد کی تھی اس کا ہاتھ تھاما تھا بعض باتوں کے بارے میں سوچنے میں جتنا وقت لگتا ہے فیصلہ کرنے میں اتنا وقت نہیں لگتا تھا۔
…***…
”آپ کو اعتراض کس بات پر ہے، اگر میں ان دونوں کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں؟”
وہ ویک اینڈ پر گھر آیا تھا اور جب اس نے فاخرہ اور سکندر علی سے رومیصہ اور ماہم کو ساتھ لے جانے کی بات کی تھی تو دونوں نے شدید مخالفت کی تھی۔ اسے فاخرہ کی مخالفت پر حیرانی نہیں ہوئی تھی مگر سکندر علی کے رویے پر وہ ضرور حیران تھا۔
”تم بے وقوف ہو، اسے ساتھ کیوں لے جانا چاہتے ہو؟ وہ یہیں ٹھیک ہے۔” انھوں نے اس سے کہا تھا۔
”جب آپ کے کہنے پر شادی کر لی ہے تو پھر ساتھ لے جانے میں کیا حرج ہے؟”
”میں نے تمھیں صرف شادی کرنے کے لیے کہا تھا۔ یہ نہیں کہا کہ اسے ساتھ رکھو۔ تم کسی اچھی لڑکی سے دوسری شادی کرو اسے اپنے ساتھ رکھو۔ رومیصہ اور ماہم یہیں رہ سکتے ہیں۔”
وہ بولتے جا رہے تھے، کہتے جا رہے تھے۔ ایک کے بعد ایک دلیل دے رہے تھے۔ اسے سمجھا رہے تھے کہ اس کا مستقبل کتنا تابناک ہے اس کے آگے ایک طویل سفر ہے۔ ساری زندگی وہ اپنے بھائی کی بیوہ اور بچی کے ساتھ تو نہیں گزار سکتا۔ اسے اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔ وہ ان کا چہرہ دیکھتا جا رہا تھا۔
چہرے کتنے عجیب ہوتے ہیں۔ راز ہوتے ہیں جب انھیں پڑھنے لگیں تو یوں لگتا ہے جیسے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں۔ دوسری دفعہ نظر ڈالیں تو دوبارہ شروع سے پڑھنا پڑتا ہے یوں جیسے کتاب کا ورق الٹ گیا ہو۔ اس نے بھی سکندر علی کے چہرے کی کتاب کے پلٹے ہوئے ورق کو دیکھا تھا۔ سیاق و سباق وہی تھا موضوع نیا تھا۔ وہ پرُسکون انداز میں ان کی باتیں سنتا رہا جب انھیں یقین ہو گیا کہ وہ قائل ہو چکا ہے تو وہ بولنے لگا۔
”پاپا! میں آپ کو کبھی نہیں سمجھ سکا، نہ کبھی سمجھ سکوں گا، شاید وجہ یہ ہو کہ میں نے کبھی آپ کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بعض لوگوں کے نزدیک رشتوں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا بعض کے نزدیک بہت سی چیزیں رشتوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں آپ دوسری کیٹیگری میں آتے ہیں۔ جب آپ نے رومیصہ سے میری زبردستی شادی کروائی تھی تو میں آپ سے بے حد ناراض تھا۔ پھر بھی مجھے یوں لگتا تھا کہ کم از کم آپ رومیصہ اور ماہم کے ساتھ مخلص ہیں۔ ان کی بھلائی چاہتے ہیں۔ میرے حقوق ضرور غصب کر رہے ہیں مگر بہرحال کسی دوسرے کو اس کے حقوق سے بھی زیادہ دے رہے ہیں۔ مگر یہ میری غلط فہمی تھی۔ پچھلے ایک سال میں آپ کو جس طرح دیکھ رہا ہوں۔ وہ روپ بے حد حیران کن ہے۔ مجھے کہنے دیں پاپا! کہ بنیادی طور پر آپ ایک بے حد خود غرض انسان ہیں۔ آپ میں اور ممی میں پتا ہے کیا فرق ہے؟”
وہ دونوں رنگ بدلتے چہروں کے ساتھ گم صم اس کی باتیں سن رہے تھے۔
”آپ کو اپنے جذبات اور احساسات چھپانے میں کمال حاصل ہے۔ ممی کو یہ فن نہیں آتا۔ آپ ہر چیز پلان کر کے کرتے ہیں۔ ممی بغیر سوچے سمجھے۔ مقصد دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے اور نتیجہ بھی۔ آپ دوسرے کی زندگی تباہ کر دیتے ہیں بڑی خوبصورتی، بڑی ہوشیاری بڑی چالاکی سے۔ ممی نے رومیصہ سے نبیل کی دی ہوئی ہر چیز چھین لی۔ زیورات، فلیٹ کے کاغذات، حق مہر کے روپے ہر چیز، آپ نے اس سے بڑا کمال کیا۔ اس ڈر سے کہ کہیں رومیصہ نبیل کے حصے کی جائیداد نہ مانگنے لگے آپ نے اسے مجھ سے بیاہ دیا۔ اس کے دو فائدے تھے۔ رومیصہ ساری عمر آپ کا احسان مانتی کبھی آپ کے سامنے اپنے حق کے لیے آواز نہ اٹھا سکتی، اور دوسرے یہ کہ اس کی بیٹی آرام سے یہاں پلتی رہتی جب بڑی ہوتی تو آپ تھوڑا بہت جہیز دے کر اپنی مرضی کے کسی گھرانے میں اس کی شادی کر دیتے۔ نبیل کی جائیداد آپ کے پاس ہی رہتی۔ میرا انتخاب آپ نے اس لیے کیا کیونکہ میرا نکاح ہو چکا تھا۔ آپ نے سوچا ہوگا کہ میں آرام سے یہ سب قبول کر لوں گا۔ یہ سوچ کر کہ نبیل میرا سب سے بہترین دوست تھا اور یہ سوچ کر کہ آپ یہ سب اس کی بیوی اور بچی کی بھلائی کے لیے کر رہے ہیں پھر دوسری طرف ایک اچھے خاندان کے ساتھ بھی میرا تعلق رہتا۔ ممی کی مس ہینڈلنگ کی وجہ سے ربیعہ اور میری طلاق ہو گئی آپ کی پلاننگ کچھ خراب ہو گئی۔ مگر آپ نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ میں رومیصہ کو بے حد ناپسند کرتا ہوں تو ضرور کسی اچھے خاندان میں دوسری شادی کر لوں گا۔ کتنی حیرانی کی بات ہے پاپا! میں آپ کا بیٹا ہوں پھر بھی یہ سب جاننے اور سمجھنے میں مجھے اتنا وقت لگ گیا۔ آپ کی پلاننگ میں میری ایک شادی تو کہیں بھی نہیں تھی نہ رومیصہ کا میرے ساتھ جانا تھا۔ مگر پاپا مجھے ان دونوں کو اپنے ساتھ ہی رکھنا ہے اور مجھے آپ دونوں سے ہر وہ چیز چاہیے جو کبھی نبیل کی ملکیت تھی یا جو کبھی رومیصہ کے پاس تھی۔ ان چیزوں پر آپ کا حق ہے نہ میرا نہ کسی اور کا۔ اگر کسی کا ان پر حق ہے تو ماہم کا یا پھر رومیصہ کا۔ میرا ارادہ اتنی لمبی چوڑی تقریر کا نہیں تھا مگر کیا کیا جائے بعض دفعہ بہت سی باتیں ان سے کہنا پڑتی ہیں جن سے آپ کبھی ایک تلخ لفظ بھی نہیں کہنا چاہتے۔ میرے ساتھ آپ نے جو کیا میں آپ کو معاف کرتا ہوں اس کے باوجود کہ آپ دونوں نے مل کر مجھے منہ کے بل زمین پر گرایا ہے۔ آپ نے میری زندگی کا سب سے اہم فیصلہ آنکھیں بند کر کے کیا ہے۔ پھر بھی میں وہ سب بھلانے کی کوشش کروں گا۔ میں چاہتا ہوں آپ کسی دوسرے کی زندگی کے ساتھ نہ کھیلیں۔ کسی دوسرے کے بارے میں فیصلہ نہ کریں ماہم اور رومیصہ کے بارے میں تو بالکل بھی نہیں۔ اس لیے میں ان دونوں کو اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں، امید کرتا ہوں آپ میرے لیے واقعی دعا کریں گے۔”
انھیں بت بنا چھوڑ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔ سکندر علی اور فاخرہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں پا رہے تھے۔ شرمندگی اصلیت کھلنے پر تھی اس بات پر نہیں کہ وہ کیا تھے۔
…***…
اس نے کھڑکی کھول دی۔ نرم بھیگی ہوئی ہوا سے اس کے بال اڑنے لگے تھے۔ بارش آہستہ آہستہ تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ کھڑکی سے باہر پھیلا دیے۔ بارش کی پھوار اس کے ہاتھوں کو بھگونے لگی تھی۔ پتہ نہیں کتنے عرصے بعد اس نے یوں بارش کو چھوا تھا۔ محسوس کیا تھا۔ اس نے گہرے سانس لینا شروع کر دیے۔
”سب کچھ کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔ بارش ہوا، پودے، پھول اور زندگی۔”
”مجھے زیادہ باتیں کرنا نہیں آتی ہیں نہ ہی مجھے یہ پتا ہے کہ کسی عورت کو اپنی بات کیسے سمجھائی جاتی ہے۔ پھر بھی میں کوشش کر رہا ہوں کہ تمھیں بتا سکوں کہ میں تمھارے ساتھ کیسی زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔”
وہ کل شیخوپورہ آ گئے تھے اور رات کو اسی کھڑکی میں کھڑا وہ اس سے کہہ رہا تھا۔
”میں نبیل جتنا خوبصورت نہیں ہوں۔ نہ ہی اتنا گلیمرس ہوں میں بہت سادہ ہوں اور مجھے خوبصورتی کے بجائے کوالٹیز زیادہ اٹریکٹ کرتی ہیں۔ میں جانتا ہوں نبیل تم سے بہت محبت کرتا تھا۔ شاید میں کبھی بھی تمھیں اتنی محبت نہ دے سکوں لیکن بہرحال میں تمہاری عزت ضرور کروں گا، میں نے تم سے کبھی نفرت نہیں کی۔ میرا ذہن صرف اس شاک کو قبول نہیں کر پا رہا تھا جو اس زبردستی کے رشتے نے مجھے پہنچایا تھا۔ بہرحال اب کوشش کر رہا ہوں کہ اس ذمہ داری کو نبھاؤں۔ ربیعہ سے مجھے محبت تھی، بے تحاشا نہیں مگر محبت تھی اور اب بھی ہے۔ میرے دل میں اس کے لیے بہت خاص فیلنگز تھیں شاید وہ میں کبھی بھی تمھارے لیے محسوس نہ کر پاؤں لیکن رومیصہ یہ دانستہ طور پر نہیں ہوگا میں ماضی پرست آدمی نہیں ہوں۔ کمپرومائز کر لیا کرتا ہوں اور ان پر کبھی پچھتاتا نہیں ہوں۔ مجھے لگتا ہے تمھارے ساتھ میری زندگی اچھی گزر جائے گی کیونکہ تم میں بہت سی کوالٹیز ہیں۔ بہت صبر ہے۔ برداشت ہے، حوصلہ ہے۔”
اب وہ کھڑکی سے ٹیک لگائے بازو سینے پر باندھے اسے دیکھ رہا تھا۔
”اتنی برداشت اور اتنا صبر ہے کہ جس نے تمھیں بے حد کمزور بنا دیا ہے۔ جیسی ستی ساوتری قسم کی بیویاں ہوتی ہیں، ویسی ہی ہو تم۔”
”کسی زمانے میں ایسی عورتوں کی بہت ڈیمانڈ ہوتی ہوگی۔ اب نہیں ہے۔ اپنے حق کے لیے بولنا چاہیے۔ نہ بولیں تو ہم صرف اپنے حق سے محروم نہیں ہوتے۔ بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی ان کے حقوق سے محروم کر دیتے ہیں جیسے تم نے ماہم کو کر دیا تھا۔ تمہارا کیا خیال تھا تم چپ رہو گی تو ایک دن دلوں میں اتر جاؤ گی؟ تمھارے صبر اور قربانی کو سب سراہیں گے؟ تمہاری عظمت کے پورا زمانہ گیت گائے گا؟ نہیں رومیصہ! ایسا کبھی نہیں ہوتا کم از کم آج کے زمانہ میں نہیں۔ ہاں اچھی بات ہے، تھوڑی بہت برداشت اور صبر رکھنا مگر صرف تھوڑا بہت، زیادہ نہیں ورنہ دوسرے لوگ اسے آپ کی عادت اور مجبوری بنا دیتے ہیں۔ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو میں نبیل سکندر سے کبھی شادی نہ کرتا۔ میرا خیال ہے تم اچھی طرح جانتی ہوگی کہ وہ ایک فلرٹ ہے ایسے بندے زیادہ اچھے شوہر ثابت نہیں ہوتے اور خاص طور پر تم جیسی لڑکیوں کے لیے جن کا تعلق مڈل کلاس فیملیز سے ہو اور جن کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو یہ زیادہ بہتر ہوتا اگر تم اپنے جیسی کسی مڈل کلاس فیملی میں شادی کر لیتیں۔ مگر تم نے بہت بڑا رسک لیا چلو میں فرض کر لیتا ہوں کہ تم اچھی زندگی گزارنا چاہتی تھیں اور یہ واحد راستہ تھا اور کون ہے جو اچھی زندگی نہیں گزارنا چاہتا ہر اچھے چانس کو Avail کرنا چاہیے تم نے بھی کیا۔”
وہ پرُسکون انداز میں یوں بات کر رہا تھا جیسے اس کی نہیں کسی دوسری لڑکی کی داستان ہو، وہ نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔
”ہاں یہ سب میں نے بعد میں سوچا تھا۔” دل نے اعتراف کیا تھا۔
”پھر نبیل کی ڈیتھ ہو گئی۔ تم نے ممی کے کہنے پر سب کچھ ان کے حوالے کر دیا حالانکہ وہ سب کچھ تمہارا تھا کوئی تم سے کسی طرح بھی وہ سب کچھ چھین نہیں سکتا تھا تم نے خود کو ملازمہ بنا دیا کیوں؟ اس گھر کے باقی لوگوں جتنا حق تھا تمہارا، ہر چیز پر۔ تم نے پاپا سے نبیل کی جائیداد کے بارے میں کیوں نہیں پوچھا؟ تمھیں پوچھنا چاہیے تھا۔ وہ کسی طرح بھی تمھیں نبیل کے حصے سے بے دخل نہیں کر سکتے تھے لیکن تم نے کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی پھر مجھ سے شادی کا مسئلہ سامنے آ گیا تب بھی تم احتجاج یا اعتراض نہیں کر سکیں حالانکہ تمھیں کرنا چاہیے تھا۔ پھر مجھ سے شادی کے بعد تم نے سوچا کہ میں نے تم پر بہت بڑا احسان کر دیا ہے اور تم ایک زر خرید غلام کی طرح میری خدمت کرتی رہیں۔ ناز نخرے اٹھاتی رہیں تم یقین کرو رومیصہ! تمہاری کسی خدمت نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ آج کے مرد کو یہ خاموش آنسو اور بے لوث خدمت پسند نہیں آتی ہے اور میں آج کا مرد ہوں۔ پھر تم نے کبھی مجھ سے نہیں کہا کہ میں تمھیں اخراجات کے لیے روپے دوں آخر یہ شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایسے مرد آج کی دنیا میں کم ہی ملتے ہوں گے جو بیوی کے مانگے بغیر بھی اس کی ہر خواہش اور ذمہ داری پوری کرتے رہیں۔ مرد سے روپے نہیں مانگو تو وہ کبھی نہیں دے گا اور یہ بات بھی اسے کبھی متاثر نہیں کرے گی کہ بیوی تو روپے بھی نہیں مانگتی، اس سے اچھی عورت دنیا میں کہاں ہے۔”
وہ اب کارپٹ کو دیکھنے لگی تھی۔
”ماہم تم سے زیادہ بہادر اور مضبوط ہے اور شاید سمجھدار بھی۔ تم نے کبھی کوشش نہیں کی کہ اس سارے مسئلے پر مجھ سے بات کرو تاکہ سب کچھ ٹھیک ہو سکے لیکن ماہم نے مجھے اگنور نہیں کیا نہ مجھ سے خوفزدہ ہوئی۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھنے پر مجبور ہو گئی کوئی ایسی ہی بات تھی اس میں۔
”میں کھانا کھاتا تھا وہ میرے پاس آ کر ہاتھ پھیلا دیتی مجھے اسے دینا ہی پڑتا تھا۔ میں نے اسے کبھی گود میں اٹھانے کی کوشش نہیں کی، مگر وہ میری گود میں آنا چاہتی تھی اور میری اجازت لینے کے بجائے وہ میری گود میں آ جاتی ہے، اس نے کبھی پروا نہیں کی کہ مجھے یہ اچھا لگتا ہے یا نہیں اس کے نزدیک اہم بات یہ ہے کہ میری گود میں بیٹھنا اسے اچھا لگتا ہے۔ مجھے اس کے لیے بہرحال روپے خرچ کرنے پڑے کیونکہ اس کو بہت سی چیزوں کی ضرورت تھی اس نے مجھے پاپا کہنا شروع کر دیا اسے اس لفظ کا مطلب نہیں آتا لیکن مجھے آتا ہے اور ہر بار جب وہ پاپا کہتی ہے تو میری ذمہ داری میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ وہ نبیل کی بیٹی ہے نا اسے اپنی بات منوانا اپنا حق لینا آتا ہے۔”
وہ اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی جس پر ایک عجیب سا رنگ تھا۔
”شاید مومی نہ ہوتی تو۔” وہ بات کرتے کرتے رک گیا اور غور سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ”شاید آج میری بہت سی باتوں سے تمھیں تکلیف پہنچی ہوگی حالانکہ میں تمھیں تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا تھا۔ یہ سب میں تم سے آج پہلی اور آخری دفعہ کہہ رہا ہوں دوبارہ کبھی نہیں کہوں گا ہم اچھے دوستوں کی طرح زندگی گزاریں گے۔ تم جب چاہو مجھ سے نبیل کے بارے میں بات کر سکتی ہو۔ مجھے برا نہیں لگے گا۔ میں جانتا ہوں وہ تمہاری زندگی کا ایک حصہ تھا۔ ماہم جب بڑی ہوگی تو اس سے بھی نبیل کے بارے میں بات کر سکتی ہو مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔”
وہ نہیں جانتی، اسے کیا ہوا تھا بس وہ اٹھ کر اس کے پاس آ گئی تھی اور اس کے سینے سے سر ٹکا کر رونے لگی تھی۔ چند لمحوں کے بعد اس نے اپنے وجود کے گرد اس کے بازوؤں کی گرفت محسوس کی تھی۔
بارش آہستہ آہستہ تیز ہوتی جا رہی تھی۔ محل سے واپسی کا سفر آزادی کا سفر تھا۔ آزادی کے سفر کے بعد کہیں کوئی تھکن نہیں ہوتی۔ نبیل کی زندگی میں وہ ایک بڑے گھر کی چاہ میں آئی تھی۔ ذیشان کی زندگی میں وہ صرف ایک گھر کے لیے آئی تھی۔ وہ چار ماہ رہی تھی پھر کاش شروع ہو گئی تھی۔ وہ آسمان سے منہ کے بل نیچے گری تھی۔ ذیشان کے ساتھ وہ زمین پر ہی تھی۔ مگر قدم جما کر کھڑا ہونا سیکھ گئی تھی، ہر چیز دھل کر صاف نظر آنے لگی تھی۔ راستہ بھی، منزل بھی۔ اس نے ایک بار پھر کھڑکی سے باہر بازو پھیلا دیے تھے۔ دونوں ہاتھوں کی مٹھی بنا کر اس نے بارش کا پانی جمع کرنا شروع کر دیا۔
”لوگ کہتے ہیں سردیوں کی بارش بہت رلاتی ہے ایسا ہر بار تھوڑی ہوتا ہے۔” اس نے مسکراتے ہوئے سوچا۔
…***…
3 Comments
I think shr could do better than this cliche story. Not impressed.
I think it is baou the tirm when we write stories that are not revoloving around rich guy poor girl, who is.mountain of wafa and qurbani and innocence. We should do more than that.
Impressive