محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

اس شرمندگی اور افسردگی کو محسوس کرنے والا وہ واحد نہیں تھا۔ رومیصہ بھی اتنی ہی شرمسار تھی۔ وہ مرد تھا۔ اختیارات رکھتا تھا۔ مجبور نہیں تھا۔ خود مختار تھا پھر بھی وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا تھا اور وہ تو بہرحال ایسی عورت تھی جس کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا نہ اپنی پسند بتانے کا نہ اپنی بات منوانے کا۔ سکندر علی نے نکاح سے ایک ہفتہ قبل رسمی طور پر اسے اطلاع دے دی تھی اور وہ جیسے سر کے بل ہوا میں معلق ہو گئی تھی۔ انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ شادی ذیشان کی مرضی کے خلاف ہو رہی ہے۔
وہ ربیعہ کی طلاق کے بارے میں بھی جانتی تھی اور اس کی ندامت تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ نکاح کے بعد ستارہ نے سرد مہری سے اسے نبیل کا کمرہ چھوڑ کر ذیشان کے کمرے میں منتقل ہو جانے کو کہا تھا۔ کمرے کو چھوڑنے سے پہلے وہ بڑی دیر تک ایک ایک چیز کو دیکھتی رہی۔ یہ وہ کمرہ تھا جہاں ایک سال پہلے کوئی اسے بڑی چاہ سے لایا تھا۔ جہاں انھوں نے ایک دوسرے سے بے پناہ وعدے کیے تھے لاتعداد خواب دیکھے تھے، بے شمار منصوبے بنائے تھے۔ ابھی بھی جیسے فضا میں نبیل کی باتوں اس کی آواز کی بازگشت تھی۔
نبیل کے کمرے سے ذیشان کے کمرے تک آتے آتے اسے جیسے صدیاں لگ گئی تھیں۔ ہر قدم جیسے پل صراط پر پڑ رہا تھا۔
نبیل اور ذیشان کے کمرے میں اتنا ہی فرق تھا جتنا ان کی فطرت میں۔ نبیل کے کمرے کے کارپٹ سے لے کر لہراتے ہوئے پردوں تک سے اس کے اچھے ذوق کا اظہار ہوتا تھا۔ ہر چیز میں ایک نفاست، نزاکت، ایک دلکشی تھی۔ ذیشان کا کمرہ آسائشات کے اعتبار سے تو نبیل کے کمرے جیسا ہی تھا مگر وہاں پڑی ہوئی کسی چیز سے بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ اس چیز کے انتخاب میں ذاتی دلچسپی لی گئی تھی اور شاید دلچسپی لی بھی نہیں گئی تھی۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ بہت کم ہی وہاں آیا کرتا رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اسے جنت سے زمین پر پھینک دیا گیا تھا اور دنیا میں اب بھی کوئی نہیں تھا۔
…***…
شیخوپورہ جا کر بھی ذیشان کی بے چینی میں کمی نہیں ہوئی تھی۔ وہ ایک ہفتے کی چھٹی لے کر مری چلا گیا تھا۔ سکون یہاں بھی نہیں تھا مگر کم از کم یہاں اس تک کوئی آ نہیں سکتا تھا۔ وہ شروع سے ہی بہت کم گو تھا۔ نبیل کے برعکس وہ بہت کم باتیں کرتا تھا اور جب کرتا تھا تو دلائل کے ساتھ سنجیدگی اس کے مزاج کی ایک اور خصوصیت تھی۔ ہر بات کے بارے میں اس کا اپنا انداز فکر تھا۔ باپ سے اسے ہمیشہ بے توجہی کی شکایت رہی اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس نے لاشعوری طور پر بزنس کے بجائے جاب کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
وہ اپنی ذات کو نوٹ کمانے والی مشین بنانا نہیں چاہتا تھا۔ یہ اور بات تھی کہ جاب کا انتخاب کرتے ہوئے وہ اس جاب کا انتخاب کر بیٹھا جس میں نو سے پانچ والی کوئی روٹین نہیں تھی مگر پھر بھی وہ ناخوش نہیں تھا، وہ پولیس کی جاب کو انجوائے کر رہا تھا۔





جاب اگرچہ اس کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ مگر اسے اس کی زیادہ پروا نہیں تھی۔ سکندر علی اس کے اکاؤنٹ میں اچھی خاصی رقم جمع کرواتے رہتے تھے اور باپ سے چھوٹے موٹے اختلافات کے باوجود اس کی زندگی بہت سکون سے گزر رہی تھی اور اب سکون نام کی کوئی چیز اس کے پاس نہیں رہی تھی۔ مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ رومیصہ کی وجہ سے اسے ربیعہ کو طلاق دینی پڑی تھی نہ ہی مسئلہ یہ تھا کہ وہ نبیل کی بیوی تھی۔
پرابلم یہ تھا کہ وہ اس کے بارے میں نبیل کے سارے احساسات اور جذبات سے واقف تھا۔ اسے پہلی بار دیکھنے سے لے کر شادی کے بعد تک نبیل اس کے بارے میں اپنے ہر احساس کو اس کے ساتھ شیئر کرتا رہا تھا اور اب… اب وہ اس کی بیوی تھی اور اس کے بارے میں نبیل کی کہی گئی ہر بات اسے یاد آنے لگی تھی اور اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ خودکشی کر لے۔ وہ اس کے لیے اب بھی نبیل کی بیوی تھی جسے وہ چند ماہ پہلے تک بھابھی کہتا رہا تھا۔ مری میں ایک ہفتہ رہنے کے دوران وہ سارا دن آوارہ پھرتا رہتا تھا اور ذہن میں آنے والی سوچیں بھی اتنی ہی آوارہ تھیں۔ جس چیز کے بارے میں وہ نہ سوچنا چاہتا، وہ اس کے دماغ سے چپک کر رہ جاتی اور جس چیز کے بارے میں وہ سوچنا چاہتا اسے دماغ میں لانے میں کئی گھنٹے لگ جاتے۔
پہلے اسے صرف سکندر علی سے شکایت تھی اب اسے وہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے لگتے۔ گھر والوں کے خلاف اس کے دل میں ایک عجیب سی کدورت پیدا ہو گئی تھی۔ اسے یوں لگتا جیسے سب نے مل کر اس کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ اسے دھوکا دیا ہے اور یہ احساس دن بدن شدت اختیار کرتا گیا تھا۔
ایک ہفتہ مری میں رہنے کے بعد وہ وہاں سے سیدھا لاہور آیا تھا اور آتے ہی اس نے سکندر علی سے اپنے حصے کی جائیداد کا مطالبہ کر دیا تھا، سکندر علی کو شاید اس کا اندازہ تھا اس لیے انھوں نے پہلے ہی کاغذات تیار کروا رکھے تھے۔ وہ بڑی سرد مہری سے کاغذات ان سے لے آیا تھا۔ واپس شیخوپورہ جانے سے پہلے وہ اپنے بیڈ روم میں آیا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک کونے میں پڑے ہوئے بے بی کاٹ نے کمرے میں ہونے والی تبدیلی کے بارے میں اسے بتا دیا تھا۔ اس کا دل چاہا تھا وہ ماہم کو اٹھا کر کھڑی سے باہر پھینک دے وہ نہ ہوتی تو شاید یہ سب بھی نہ ہوتا۔ اسے یوں قربانی کا بکرا نہ بنایا جاتا۔ جلتی آنکھوں کے ساتھ وہ ہونٹ بھینچے ہوئے ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔
کپڑے بدلنے کے بعد جب وہ کمرے میں آیا تھا تو اس نے رومیصہ کو کاٹ پر جھکے ہوئے دیکھا تھا ڈریسنگ کے دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ سیدھی ہو گئی تھی۔ دونوں کی نظریں جس تیزی سے ملی تھیں اسی تیزی سے چرا لی گئی تھیں۔ وہ واپس جانے سے پہلے اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتا تھا اور یہ مرحلہ بے حد مشکل تھا۔
”میں نے اسے دیکھا اور میں اس کا تھا بس۔ اسے کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔”
ایک بار نبیل نے اسے بتایا تھا اور وہ… اور وہ اس کا ہونا نہیں چاہتا تھا۔
”کچھ باتیں ہیں جو میں کلیئر کر دینا چاہتا ہوں تم جانتی ہو، یہ شادی میری مرضی سے نہیں ہوئی۔ مجھے مجبور کر دیا گیا تھا۔ کوئی دوسرا راستہ میرے پاس تھا ہی نہیں۔ میرے دل میں تم دونوں کے لیے پہلے جگہ تھی، اب نہیں ہے۔ میرے لیے بہت مشکل ہے کہ میں تم دونوں کو اپنی زندگی میں شامل کر لوں۔ بہرحال میں کوشش کروں گا لیکن تم مجھ سے کوئی توقعات وابستہ نہ کرنا۔ میں ماہم کے باپ کا رول کبھی ادا نہیں کر سکتا اور نہ ہی اچھا شوہر بن سکتا ہوں۔ لیکن مجھے اچھا شوہر بننے کے لیے کہا بھی نہیں گیا۔ پھر بھی میں کوشش کروں گا کہ تمھیں مجھ سے کوئی شکایت نہ ہو۔” وہ اس کے چہرے پر نظر ڈالے بغیر بولتا رہا تھا اور اپنی بات کے اختتام پر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ سر جھکائے بیڈ کے ایک کونے پر بیٹھ گئی اور کتنی ہی دیر بیٹھی رہی۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں اس کی شادی ہوئی تھی، وہ بیوہ ہوئی تھی، ماں بنی تھی۔ ایک بار پھر شادی ہو گئی تھی، زندگی میں اب آگے کیا تھا؟ زندگی کو اس سے جلدی کس نے برتا ہوگا اور اب وہ کہہ رہا تھا وہ کوشش کرے گا کہ اسے شکایت نہ ہو۔
”رومیصہ عمر کی شکایت کہاں ہوتی ہے اسے تو بس سمجھوتا کرنا آتا ہے کل، آج اور کل۔ بس اسے سمجھوتے ہی تو کرنے ہیں۔” اس نے آنسو پونچھتے ہوئے سوچا تھا۔
”تمھیں کیا ضرورت تھی آنے کی دنیا میں تمھارے لیے کیا رکھا تھا۔ جس طرح میں زندگی گزار رہی ہوں۔ تمھیں بھی ویسے ہی گزارنی تھی پھر کیوں… اللہ میں کیا کروں جو میری راہ کے کانٹے اس کے رستے میں نہ آئیں۔ کیوں پیدا کیا اسے تم نے؟ کیوں پیدا کیا؟ اس کی کیا ضرورت تھی؟ میں کافی تھی نا آزمائشوں کے لیے؟ پھر یہ کیوں میری بیٹی ہی کیوں؟”
وہ ماہم کے پاس آ کر اسے دیکھتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ سوچ رہی تھی۔
…***…
وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ زندگی اپنی ڈگر پر آتی جا رہی تھی۔ آزمائشوں میں اضافہ ہوا تھا نہ کمی بس ان کی عادت ضرور ہو گئی تھی۔ اسے کسی کی بات پر اعتراض ہوتا تھا نہ شکوہ جب تک اسے سر پر چھت جسم پر لباس اور کھانے کے لیے روٹی ملتی اسے اس بات سے قطعاً کوئی غرض نہیں تھی کہ کون اسے کیا کہتا ہے اور کیا نہیں۔
وہ صبح سے شام تک مشین کی طرح گھر والوں کی خدمت میں لگی رہتی۔ اکثر اسے یہ بھی پروا نہیں ہوتی تھی کہ ماہم کس حال میں ہے اسے دودھ ملا ہے یا نہیں۔ وہ سو رہی ہے یا جاگ رہی ہے۔ وہ صرف یہ چاہتی تھی کہ گھر والے خوش رہیں۔ ان کا کوئی کام خراب نہ ہو۔ انھیں ہر چیز وقت پر مل جائے۔ ماہم کا کیا تھا وہ تو پل ہی رہی تھی۔
ذیشان مہینے میں ایک دو بار آیا کرتا تھا۔ کبھی صرف چند گھنٹے گزار کر چلا جاتا۔ کبھی ایک رات کے لیے ٹھہر جاتا۔ اس کا اشتعال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو گیا تھا اور اس کی جگہ افسردگی اور پچھتاوے نے لے لی تھی اس کے دل میں رومیصہ کے لیے جگہ تھی یا نہیں مگر اس نے اسے بیوی کی حیثیت ضرور دے دی تھی۔ اگرچہ یہ سب دونوں کے لیے بہت مشکل، بہت تکلیف دہ تھا۔
نبیل زندہ نہ ہونے کے باوجود ان دونوں کی تنہائی میں موجود رہتا تھا جہاں رومیصہ کو لگتا کہ وہ نبیل سے بے وفائی کر رہی ہے وہاں ذیشان کو یوں لگتا جیسے وہ اپنے بھائی کو دھوکا دے رہا ہے۔ شروع میں اس بیڈ روم میں رات گزارنا اسے قیامت سے کم نہیں لگتا تھا۔ وہ سوتے سوتے نیند سے اٹھ جاتا۔ اسے یوں لگتا جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہو جیسے کوئی اس کا گلا دبا رہا ہو۔ وہ کمرے کی کھڑکیاں کھول دیتا مگر تب بھی اسے سکون نہیں ملتا پھر وہ ٹیرس پر نکل جاتا اور بعض دفعہ صبح تک وہیں سگریٹ پھونکتا رہتا۔ وہ بے خبر نہیں تھی۔ وہ سب جانتی تھی مگر وہ بے بس تھی کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ اسے اپنے وجود سے شدید نفرت ہوتی۔
”نہ میں ہوتی نہ دوسروں کے لیے یوں عذاب بنتی۔” وہ سوچتی اور سر پکڑ لیتی۔
…***…
جوں جوں وقت گزرتا گیا ذیشان کی آمد کم ہوتی گئی۔ اب وہ مہینے میں صرف ایک بار آتا تھا۔ ایک خاموشی تھی جو اس پر طاری رہتی تھی۔ وہ سنجیدہ پہلے بھی تھا مگر اتنا چپ کبھی بھی نہیں تھا۔ مگر اب تو گھر آ کر جیسے وہ بات کرنا بھول جاتا تھا۔ رومیصہ کے ساتھ تو وہ ضرورت سے زیادہ کبھی بات نہیں کرتا تھا۔ مگر اب باقی لوگوں کے ساتھ بھی اس کی گفتگو بہت کم ہو گئی تھی۔ اسے ماہم سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
جب تک سکندر علی نے اسے رومیصہ سے شادی کرنے کے لیے نہیں کہا تھا تب تک وہ ماہم کو ہر دفعہ گھر آنے پر ضرور دیکھنے آیا کرتا تھا اور کچھ دیر کے لیے اٹھا بھی لیتا تھا۔ مگر شادی کے بعد اس نے ماہم کو اٹھانا تو درکنار کبھی اس پر نظر بھی نہیں دوڑائی تھی۔ بلکہ بعض دفعہ جب وہ رونے لگتی تو اسے بے تحاشا غصہ آتا اور وہ رومیصہ سے کہتا کہ وہ اسے کمرے سے باہر لے جائے۔
ماہم جب رونے پر آتی تو روتی ہی جاتی پھر اسے چپ کروانا بے حد مشکل ہو جاتا اور ذیشان کا پارہ آسمان سے باتیں کرنے لگتا۔ اس دن بھی یہی ہوا تھا۔ ماہم نیند سے اٹھ کر یک دم رونے لگی تھی وہ اس وقت خود سونے کے لیے بیڈ پر لیٹنے کو تھی۔ ذیشان کچھ کاغذات دیکھ رہا تھا۔ اس نے اٹھ کر ماہم کو چپ کروانے کی کوشش کی۔ مگر وہ چپ ہونے کے بجائے اور زور سے رونے لگی۔ کچھ دیر تک وہ یہ شور شرابا برداشت کرتا رہا مگر پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔
”اسے چپ کرواؤ ورنہ میں اسے اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دوں گا۔”
اس نے بڑے درشت لہجے میں کہا تھا اور وہ اس کی بات پر خوفزدہ ہو گئی تھی۔ ماہم کو اٹھا کر وہ کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔ اور باہر نکل کر اسے چپ کروانے کے بجائے وہ خود بھی رونے لگی تھی۔ ماہم کچھ دیر تک روتے رہنے کے بعد خاموش ہو گئی تھی۔ وہ کتنی ہی دیر اسے لیے سیڑھیوں پر بیٹھی رہی۔ اس واقعہ کے بعد یہ ہوتا تھا کہ جب ذیشان کمرے میں ہوتا تو وہ ماہم کو وہاں نہ چھوڑتی۔ اگر اسے کام کرنا ہوتا تو وہ ماہم کو اپنے پاس ہی لٹا لیتی اور خود کام میں مصروف رہتی۔ کبھی ماہم سو جاتی۔ کبھی وہ اٹھ کر خود ہی کھیلتی رہتی اور اگر ذیشان کی موجودگی میں وہ کبھی رات کو رونے لگتی تو وہ فوراً اس کو لے کر کمرے سے باہر ٹیرس پر نکل جاتی۔ اس کے موڈ کو بگڑنے سے بچانے کا جو واحد حل اسے نظر آتا تھا۔ وہ یہی تھا۔
جب ذیشان نہ ہوتا تب وہ اسے سارا دن کمرے میں ہی رکھتی۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ ماہم کمرے میں رو رو کر ہلکان ہو جاتی اور اسے پتا ہی نہ چلتا اور پھر جب خیال آنے پر وہ اوپر جاتی تو وہ زور و شور سے رو رہی ہوتی پتا نہیں کیوں لیکن وہ پھر اسے نیچے لے کر نہ آتی، شاید وہ خوفزدہ تھی کہ کہیں گھر والوں کو یہ بات بھی ناگوار نہ لگنے لگے۔
شروع میں ماہم نے اسے کچھ تنگ کیا تھا مگر آہستہ آہستہ وہ بھی جیسے حالات سے سمجھوتہ کرنا سیکھ گئی تھی۔ جہاں رومیصہ اسے ڈال دیتی وہ وہیں پڑی رہتی۔ جو وہ اسے کھانے کو دیتی وہ خاموشی سے کھا لیتی۔ رومیصہ کے پاس روپے نہیں ہوتے تھے۔ جن سے وہ اس کے لیے اچھی خوراک یا کپڑے خریدتی، ستارہ اسے اپنی بیٹی کے استعمال شدہ کپڑے دے دیتی اور رومیصہ وہی کپڑے ماہم کو پہناتی رہتی۔ کھانے کے لیے وہ اسے دودھ دیتی تھی یا پھر روٹی کا ایک ٹکڑا تھما دیتی اور کبھی نرم سے چاول پکا کر اسے کھلا دیتی۔
جب ستارہ اور عالیہ اپنے بچوں کو طرح طرح کے سیریلز دیتی تو بعض دفعہ اس کا دل چاہتا کہ وہ بھی ایسی ہی کوئی اچھی سی چیز اسے کھلائے۔ اسے جوس پلائے، بسکٹ دے، اسے کوئی پھل کھلا سکے مگر ہر بار وہ دل مسوس کر رہ جاتی۔ وہ کچن سے اس کے لیے کچھ بھی چرا کر نہیں لینا چاہتی تھی اور اگر وہ ممی سے کسی چیز لینے کی اجازت مانگتی تو وہ کبھی اسے اجازت نہ دیتیں۔ انھوں نے شروع ہی سے اسے کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو سادہ خوراک کھلائے تاکہ اس کی عادتیں نہ بگڑیں اور اسے اپنی اوقات یاد رہے اور وہ وہی کر رہی تھی جو ممی چاہتی تھیں۔
سکندر علی نے شادی سے پہلے دو تین بار اسے کچھ روپے دیے تھے مگر پھر انھوں نے اسے روپے نہیں دیے تھے۔ شاید وہ سوچتے ہوں گے کہ اب ذیشان اسے روپے دیتا ہوگا اور ذیشان نے شاید یہ سوچا ہوگا کہ اسے روپوں کی کیا ضرورت ہوگی، شاید اسے کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا ہوگا کہ اسے اب مالی طور پر رومیصہ کو سپورٹ کرنا چاہیے اور رومیصہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس سے روپے مانگتی۔ اسے لگتا تھا کہ اس نے شادی کر کے ہی اس پر بہت بڑا احسان کر دیا۔ اب وہ اور کیا مطالبہ کرے۔ جب تک نبیل زندہ تھا، اسے کبھی روپے مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔ نہ صرف وہ اس کے اکاؤنٹ میں ہر ماہ روپے جمع کرواتا تھا بلکہ اس کی دراز میں بھی وقتاً فوقتاً روپے رکھتا رہتا تھا۔ اور اب اس کے پاس اتنے روپے نہیں ہوتے تھے کہ وہ ماہم کے لیے دودھ کا ایک ڈبہ ہی خرید لے۔
پھر بھی اسے کسی سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ اب اسے اتنی فرصت بھی نہیں ملتی تھی کہ وہ نبیل کو یاد کرتی پھرے۔ صبح سے لے کر رات گئے تک وہ اتنی مصروف رہتی کہ جب رات کو سونے کے لیے لیٹتی تو چند منٹوں میں سو جاتی۔ کئی کئی دن اسے نبیل کا خیال ہی نہ آتا اور اگر کبھی آتا تو پھر سب کچھ یاد آتا۔ اس کی ہنسی، اس کی باتیں، اس کی آنکھیں، اس کی خواہشات، اس کے خواب، ہر چیز اور پھر جیسے ایک دھواں سا اس کے وجود کو اپنے حصار میں لے لیتا۔ ”اگر وہ نہ مرتا تو آج میں اور ماہم کہاں ہوتے، اگر وہ ہوتا تو زندگی کیسی ہوتی۔” وہ سوچتی اور اس کی آنکھیں جلنے لگتیں۔
”تم اس قدر خوبصورت ہو رومی! کہ اگر کوئی تمھیں میری نظر سے دیکھے تو شاید کہہ دے کہ اب میں کچھ اور دیکھنا نہیں چاہتا۔”
بعض دفعہ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھتی تو نبیل کی آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگتی۔
”اور اب اگر تم مجھے دیکھو تو شاید کہو۔ میں دوبارہ تمھیں دیکھنا نہیں چاہتا۔”
وہ شیشے میں اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے سوچتی۔ جب خواب ٹوٹتے ہیں تو نہ چاند چہرے، چاند رہتے ہیں نہ ستارہ آنکھیں ستارہ زندگی بس تاریک آسمان بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔
…***…
ماہم آہستہ آہستہ بڑی ہو رہی تھی اور سارا دن کمرے میں رہنے کی وجہ سے یہ ہوا تھا کہ جب بھی رومیصہ اس کو نیچے لے کر جاتی وہ حیرانی سے ہر چیز کو دیکھتی رہتی۔ گھر میں موجود دوسرے بچوں کو دیکھتی اور خوفزدہ ہو جاتی اور رومیصہ کو اس بات کا احساس بھی نہیں تھا کہ اس طرح سے اکیلے کمرے میں چھوڑ دینا اس کے ذہن کے لیے کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ وہ چاہتی ہی یہی تھی کہ ماہم کسی کے پاس نہ جائے تاکہ کسی کو اس سے شکایت نہ ہو، نہ ہی وہ کوئی نقصان کرے۔
گھر میں موجود ستارہ کی دو بیٹیاں اور عالیہ کا بیٹا اور بیٹی ماہم کو دیکھتے تھے، مگر انھوں نے بھی کبھی اس کے پاس آنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ہاں گھر کے نوکر بعض دفعہ اسے اٹھا لیتے۔ قدرتی طور پر انھیں رومیصہ سے ہمدردی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ وہ بے شک سارا دن ان کے ساتھ کام کرتی رہتی ہے اور اس کا حلیہ بھی ان سے زیادہ مختلف نہیں ہے پھر بھی وہ ملازمہ نہیں تھی، صرف حالات کا شکار تھی۔
اس دن ذیشان گھر آیا ہوا تھا۔ ویک اینڈ تھا اور اگلی صبح جب وہ نیچے آنے لگی تو وہ ماہم کو بھی نیچے اٹھا لائی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی غیر موجودگی میں وہ جاگ کر رونا شروع کرے اور ذیشان کو بھی جگا دے۔ اس نے کچن کے سامنے والی راہداری میں بٹھا دیا تھا۔ پھولوں کی ایک شاخ اس نے کھیلنے کے لیے اسے دی تھی۔ کافی دیر تک وہ اسی شاخ کے ساتھ کھیلتی رہی اور رومیصہ کچن میں دوسرے ملازموں کے ساتھ کام میں مصروف تھی۔
پھر پتا نہیں کب ماہم وہاں سے رینگتی ہوئی ہال میں چلی گئی تھی اور وہیں اس نے ٹیلی فون کے تار سے کھیلنا شروع کر دیا تھا۔ عالیہ کا بیٹا سفیان باہر سائیکل چلا رہا تھا اور جب وہ سائیکل چھوڑ کر اندر آیا تو اس نے ماہم کو فون کا تار کھینچتے ہوئے دیکھا تھا۔ کچھ غصے میں وہ اس کے پاس آیا تھا۔ اور اس سے تار کھینچنے لگا جب سفیان اس کے ہاتھ سے تار نہیں چھڑا سکا تو جھنجھلاہٹ میں اس نے ماہم کو زور سے دھکا دیا تھا اور وہ منہ کے بل دیوار سے ٹکرائی تھی۔ ایک زور کی چیخ اس کے حلق سے نکلی تھی اور رومیصہ جس تک اس کے رونے کی آواز نہیں آئی تھی اس آواز پر چونک پڑی تھی اور جب اس نے کچن سے باہر آ کر دیکھا تو وہ دھک سے رہ گئی تھی وہ اپنی جگہ پر نہیں تھی اور اس کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ وہ تقریباً بھاگتی ہوئی ہال میں گئی تھی۔
آٹھ سالہ سفیان اب فاتحانہ نظروں سے تار ہاتھ میں لیے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا اور وہ زمین پر اوندھی پڑی ہوئی تھی وہ بھاگ کر اس کے پاس آئی تھی اور اسے سیدھا کرتے ہی اس کا سانس رک گیا تھا۔ اس کا منہ خون سے تر تھا۔ اس نے بنا سوچے سمجھے سفیان کے منہ پر زور سے تھپڑ مارا اور وہ روتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا تھا۔ وہ اسے گود میں اٹھا کر واش روم میں لے آئی تھی اور وہاں اس نے اس کے ہونٹوں پر لگا ہوا خون صاف کرنا شروع کیا تھا مگر صرف اس کے ہونٹ ہی زخمی نہیں تھے اس کے منہ کے اندر سے خون بہہ رہا تھا۔ اس نے ماہم کا منہ کھول کر اندر دیکھنے کی کوشش کی تھی اور یک دم اس نے خود بھی پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا تھا۔
ماہم کے اوپر والے جبڑے میں صرف ایک دانت نکلا ہوا تھا اور اب وہ بھی معمولی سے گوشت کے ساتھ لٹک رہا تھا اور جس جگہ پہلے دانت تھا وہاں سے بے تحاشا خون نکل رہا تھا۔ اس میں اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ وہ اس لٹکتے ہوئے دانت کو کھینچ کر الگ کر دیتی یا خون روکنے کی کوشش کرتی۔ وہ روتی ہوئی ماہم کو لے کر واش روم سے باہر نکل آئی تھی، وہ ماہم کا اکلوتا دانت تھا۔ اور جب یہ دانت نکلنا شروع ہوا تھا تو وہ بے تحاشا خوش ہوئی تھی۔ وہ روز کتنی بار اس دودھیا دھبے کو دیکھتی اور اس کے لیے وہ چاند ہی کی طرح تھا اور اب جب دانت مکمل ہوا تھا جیسے اسے دنیا کی ساری دولت مل گئی ہو۔ اس کے دانت کو دیکھنا اسے چھونا اور ہنسنا ان دنوں اس کی واحد تفریح تھی اور اب وہ بھی ختم ہو گئی تھی۔
وہ اوپر جانے والی سیڑھیوں میں اسے لے کر بیٹھ گئی تھی۔ اسے سینے سے لپٹائے چپ کروانے کے بجائے وہ خود بھی بلک بلک کر رو رہی تھی چند لمحوں بعد قدموں کی آواز پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔ نائٹ گاؤن میں ملبوس عالیہ اس کے سر پر کھڑی شعلہ بار نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ شاید سفیان اسے نیند سے اٹھا کر لایا تھا۔ اس لیے وہ بالکل آپے سے باہر ہو رہی تھی۔ وہ جب بولنا شروع ہوئی تھی تو بولتی ہی چلی گئی تھی۔ اس نے روتی ہوئی ماہم کو دیکھا تھا نہ رومیصہ کے بہتے ہوئے آنسوؤں کو۔ بس وہ بلند آواز میں دھاڑتی رہی تھی۔ گھر کے سارے ملازم ایک ایک کر کے وہاں آ گئے تھے۔ اس نے کوئی وضاحت پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس میں بات کی ہمت ہی نہیں تھی۔ تھوڑی دیر میں ممی بھی وہاں پہنچ گئی تھیں اور جو کسر رہ گئی تھی انھوں نے پوری کر دی تھی۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ رومیصہ کو بچی سمیت دھکے دے کر باہر نکال دیتیں۔
شور کی آواز پر گھر کے مردوں میں سب سے پہلے باہر نکلنے والا ذیشان تھا۔ اس کی آنکھ بھی انھیں آوازوں سے کھلی تھی۔ کمرے سے باہر نکل کر اس نے نیچے ہال میں جھانکا تھا اور سیڑھیوں میں ماہم کو لیے بیٹھی ہوئی رومیصہ کو دیکھا تھا اور ہال میں ہی اس نے عالیہ اور ممی کو چنگھاڑتے سنا تھا۔ گھر کے نوکروں کا جھمگھٹا بھی اس نے دیکھ لیا تھا۔ جھگڑا کس بات کا ہے وہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کیونکہ اس وقت عالیہ اور ممی رومیصہ کے خاندان کے قصیدے پڑھنے میں مصروف تھیں۔ وہ بڑی خاموشی سے ریلنگ کے پاس کھڑا بازو لپیٹے ہوئے یہ سب دیکھتا رہا۔ اس نے مداخلت کی کوشش نہیں کی تھی۔
کافی دیر تک گرجنے برسنے کے بعد ممی اور عالیہ وہاں سے چلی گئی تھیں اور نوکر بھی وہاں سے غائب ہو گئے تھے۔ ماہم کے رونے کی آواز ابھی تک آ رہی تھی اور رونے سے زیادہ اب وہ کراہ رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا تھا۔ قدموں کی آواز پر اس نے جھکے ہوئے سر کو اٹھایا تھا۔ ماہم کو ابھی بھی اس نے سینے سے لگایا ہوا تھا۔ ذیشان نے اس کی سوجی ہوئی آنکھوں میں عجیب سی وحشت دیکھی تھی۔
”کیا ہوا ہے؟” وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس نے جواب نہیں دیا تھا۔ صرف ماہم کو ہال کے فرش پر اچھال دیا تھا اور تقریباً بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ گئی تھی، اگر ہال میں فرش پر کارپٹ نہ ہوتا تو جتنی شدت سے اس نے ماہم کو پٹخا تھا ضرور اس کی کوئی ہڈی ٹوٹ جاتی مگر چوٹ اسے اب بھی لگی تھی کچھ دیر تک وہ بے حس و حرکت وہیں پڑی رہی پھر وہ مچھلی کی طرح تڑپنے لگی تھی۔
ذیشان جو بھونچکا کھڑا تھا وہ بے اختیار اس کی طرف آیا تھا۔ اور پہلی دفعہ خون سے لتھڑے ہوئے ہونٹ اس کی نظر میں آئے تھے اور جب اس نے اس کے منہ کے اندر جھانکا تو وہ اٹکا ہوا دانت بھی اس کی نظر میں آ گیا تھا۔ اس کے دل کو بے اختیار کچھ ہونے لگا تھا۔ وہ اسے کندھے سے لگائے ہوئے اوپر کمرے میں گیا تھا۔ رومیصہ وہاں نہیں تھی اور ڈریسنگ روم کا دروازہ بند تھا۔ اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل سے اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی اور نیچے آ گیا۔
آواز دے کر اس نے خانساماں کی بیوی کو بلوایا تھا اور ماہم کو اسے تھما کر اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہہ کر وہ گاڑی کے پاس آ گیا۔ ہاسپٹل جا کر اس نے ڈاکٹر سے یہ کہا تھا کہ وہ سیڑھیوں سے گر گئی ہے اور پھر اس کے ایکسرے کروائے تھے۔ رومیصہ کے پھینکنے کی وجہ سے اس کے دائیں کندھے کی ہڈی کو ہلکی سی ضرب آ گئی تھی۔ ڈاکٹر نے اس کا دانت نکال دیا تھا اور خون روکنے کے لیے وہ برف کو استعمال کرتا رہا۔ وہ خاموشی سے پورا عمل دیکھتا رہا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے ایک انجکشن دیا تھا اور ایک دو سیرپ لکھ دیے تھے۔
واپسی پر اس نے خانساماں کی بیوی سے اس کے زخمی ہونے کی داستان بھی سن لی تھی۔ ماہم اس قدر تھک چکی تھی یا پھر اس انجکشن کے زیر اثر تھی کہ گھر واپس آنے تک وہ سو چکی تھی۔ وہ جب تک گاڑی لا ک کر کے اوپر پہنچا تھا تب تک خانساماں کی بیوی اسے کمرے میں پہنچا چکی تھی، اور جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو اس نے رومیصہ کو اس کے پاس کھڑے دیکھا تھا۔ اس نے سیرپ اور کار کی چابی ٹیبل پر رکھ دی اور شوز اتار کر پھر لیٹ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ آنکھیں بند کرتا۔ وہ یک دم اس کی طرف پلٹی تھی۔
”دوبارہ دانت نکل آئے گا نا؟” اس نے پوچھا تھا اور اس کے چہرے پر پتا نہیں کیا تھا کہ وہ زیادہ دیر اسے نہیں دیکھ پایا۔
”ہاں۔” بہت دھیمی آواز میں اس نے کہا تھا۔
”کب؟” وہ پتا نہیں کون سی تسلی چاہتی تھی۔
”بہت جلدی۔”اس بار بھی اس کا جواب مختصر تھا۔ وہ دوبارہ ماہم کے کاٹ کی طرف پلٹ گئی تھی وہ آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر بری طرح ناکام رہا۔ ایک عجیب سی شرمندگی اور خجالت اسے گھیرے ہوئے تھی۔
”اگر نبیل ہوتا اور یہ سب کچھ اس کے سامنے ہوا ہوتا تو اس وقت گھر میں طوفان آ چکا ہوتا۔”
وہ آنکھیں بند کیے سوچ رہا تھا۔ وہ بڑی دیر تک آنکھیں بند کیے سوچتا رہا۔
”نبیل ہاں نبیل کیا کرتا؟ مگر میں نبیل نہیں ہوں اور پھر میں جو کر سکتا تھا وہ کر چکا ہوں اب اور کیا کروں؟”
وہ ان سب سوچوں سے جھنجھلا گیا تھا اور اس نے انھیں ذہن سے جھٹک دیا کچھ دیر بعد وہ سونے میں کامیاب ہو ہی گیا۔
اس وقت دوپہر کا وقت تھا جب وہ دوبارہ بیدار ہوا تھا۔ ایک عجیب سی تھکن اس کے اعصاب پر سوار تھی۔ سر جھٹکتے ہوئے وہ اٹھ گیا۔ رومیصہ کمرے میں نہیں تھی۔ باتھ روم کی طرف بڑھتے بڑھتے پتا نہیں اس کے دل میں کیا آیا کہ وہ ماہم کی طرف بڑھ آیا۔ وہ ابھی بھی سو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی عجیب سا تاسف اس کے دل میں پیدا ہوا تھا اس کے ہونٹ صبح سے زیادہ سوجے ہوئے تھے اور نیلگوں ہو رہے تھے، کچھ دیر تک وہ اسے دیکھتا رہا پھر وہ سر جھکا کر باتھ روم کی طرف چلا گیا۔ اس دن ان دونوں کے درمیان مزید گفتگو نہیں ہوئی تھی۔ رات کو وہ واپس شیخوپورہ چلا گیا تھا۔
…***…




Loading

Read Previous

میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

Read Next

سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

3 Comments

  • I think shr could do better than this cliche story. Not impressed.

  • I think it is baou the tirm when we write stories that are not revoloving around rich guy poor girl, who is.mountain of wafa and qurbani and innocence. We should do more than that.

  • Impressive

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!