محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

”بیٹھو ذیشان۔” سکندر علی نے ذیشان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
وہ اپنے اس غیر متوقع بلاوے پر حیران تھا۔ سکندر علی نے اسے شیخوپورہ سے ضروری کام کا کہہ کر بلایا تھا اور وہ اپنے سارے کام چھوڑ کر قدرے پریشانی کے عالم میں لاہور آیا تھا۔ سکندر علی نے فون پر اسے کام کی نوعیت نہیں بتائی تھی اور یہ پہلی بار تھا کہ سکندر علی نے اسے یوں بلوایا تھا۔ اور اب وہ سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھتے ہوئے ان کے سامنے بیٹھا تھا۔ سکندر علی بہت سنجیدہ نظر آ رہے تھے۔ اور پتا نہیں کیوں لیکن ذیشان کو ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس سے نظریں چرا رہے ہوں۔ اسٹڈی میں کچھ دیر تک عجیب سی خاموشی چھائی رہی تھی۔ پھر ایک گہری سانس لے کر سکندر علی نے اسے دیکھا تھا۔
”جو بات میں تم سے کہنے والا ہوں، اسے بہت سکون سے سننا، اس پر غور کرنا اور پھر مجھے اپنا ردعمل بتانا۔ کسی فوری ردعمل کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں جو بات میں کرنے والا ہوں وہ معمولی بات نہیں ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس سے تمہاری زندگی متاثر ہوگی مگر پھر بھی ذیشان! میں چاہتا ہوں کہ تم رومیصہ سے شادی کر لو۔”
ذیشان کو لگا تھا۔ کسی نے اسے پہاڑ کی چوٹی سے دھکیل دیا تھا۔ سن سے اعصاب کے ساتھ وہ سکندر علی کا چہرہ دیکھتا رہ گیا تھا۔
”زندگی میں ہر کام ہم اپنے لیے کرتے ہیں کچھ کام دوسروں کے لیے بھی کرنا چاہیے۔ تم نبیل سے بہت محبت کرتے تھے۔ اگر کوئی رومیصہ اور ماہم کو تحفظ دے سکتا ہے تو وہ تم ہی ہو۔ تم اس بارے میں اچھی طرح سوچ لو پھر مجھے اپنے فیصلے سے آگاہ کرنا۔”
وہ دھیمے لہجے میں اس سے کہتے گئے تھے اور آہستہ آہستہ وہ اس شاک سے باہر آ گیا تھا۔
”مجھے اس بارے میں کچھ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ میرا جواب سوچنے سے پہلے بھی انکار میں ہے اور سوچنے کے بعد بھی انکار میں ہی ہوگا۔ میں حیران ہوں کیا سوچ کر آپ نے مجھ سے ایسی بات کی ہے۔ نبیل بے شک مر گیا ہے مگر میرے لیے رومیصہ آج بھی اس کی بیوی ہے اور میں اسی حوالے سے اس کی عزت کرتا ہوں۔ اور وہ اور اس کی بچی دونوں اس گھر میں محفوظ ہیں اور کسی نئے رشتے کے بغیر وہ زیادہ خوش رہیں گے۔ مگر آپ پتا نہیں پاپا! آپ کیوں ایسی بات سوچ رہے ہیں؟ آپ کیوں ہر ایک کی زندگی میں ایک نیا طوفان لانا چاہتے ہیں؟”وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
”ذیشان! تم جذباتی ہو رہے ہو۔” سکندر علی نے کچھ کہنے کی کوشش کی تھی اور اس نے ان کی بات کاٹ دی تھی۔
”ہاں میں جذباتی ہو رہا ہوں اور یہ معاملہ ہے ہی جذبات کا۔ آپ نے اس لڑکی کے بارے میں کیا سوچا ہے جو میری منکوحہ ہے۔ آپ نے میرے بارے میں کیا سوچا ہے جو ربیعہ سے محبت کرتا ہے۔ آپ نے رومیصہ کے بارے میں کیا سوچا ہے، جس کے شوہر کو مرے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا، آپ ہر فیصلہ خود کرتے ہیں۔ آپ ہر فیصلہ غلط کرتے ہیں۔” ذیشان کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔





”میں نے تم سے ربیعہ کو طلاق دینے کا نہیں کہا نہ میں چاہتا ہوں کہ تم اسے طلاق دو۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم رومیصہ سے نکاح کر لو۔ وہ یہیں رہے گی ہمارے پاس اس گھر میں۔ اور ربیعہ کو تم اپنے پاس رکھ سکتے ہو۔ جہاں بھی تم رہو۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم رومیصہ کو اپنا نام دے دو۔”
سکندر علی کا لہجہ اب پرُسکون تھا۔
”پاپا! میں ربیعہ، ماہم اور رومیصہ تاش کے پتے نہیں ہیں جنھیں آپ اپنی مرضی سے Shuffle کر سکتے ہیں ہم انسان ہیں جیتے جاگتے انسان، جذبات اور احساسات والے انسان۔ رومیصہ کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ مجھے نبیل کی جگہ دے دے۔ میرے لیے کیسے ممکن ہے کہ میں اسے بھابھی سے بیوی بنا لوں۔ ربیعہ اپنے شوہر کو کیوں کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرے گی۔ شاید آپ نے سوچا ہی نہیں ہے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ نبیل کے مرنے سے صرف رومیصہ کا گھر تباہ ہوا تھا لیکن اب آپ میری اور ربیعہ کی زندگی کیوں برباد کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے تو ابھی اپنا گھر بنایا بھی نہیں۔”
”کتنے دعوے کرتے تھے تم نبیل سے محبت کے۔ اب اس کے لیے کچھ کرنے کا وقت آیا ہے تو تم میں اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ تم ایک قدم بھی آگے بڑھا سکو۔ دنیا میں تم واحد آدمی نہیں ہو جسے یہ قربانی دینے کا کہا گیا ہے۔ تم سے پہلے بھی بہت سے آدمی یہ قربانی دیتے رہے ہیں۔ تم کوئی ایسا کام نہیں کرنے جا رہے جو تم سے پہلے کسی نے کیا ہی نہ ہو۔” سکندر علی کا لہجہ ایک دم سخت ہو گیا تھا۔
”ان لوگوں کو قربانی کا شوق ہوگا۔ مجھے نہیں ہے۔ مجھے ایک زندگی ملی ہے کوئی دس بارہ نہیں میں اسے اپنے لیے اور صرف اپنے لیے گزارنا چاہتا ہوں۔ دوسروں کے لیے سولی پر چڑھنے کا مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔ آپ کو شوق ہے ہر نارمل چیز کو ابنارمل کرنے کا آپ دوسروں کی زندگی پر مکمل اختیار چاہتے ہیں۔”
”تم بکواس مت کرو۔” سکندر علی کو اس کی بات سے زیادہ اس کے لہجے پر طیش آیا تھا۔
”میں بکواس نہیں کر رہا پاپا۔ میری خوشیاں چھین کر آپ کو خوشی ہوتی ہے۔ اشعر، احمر، فراز، ولید ان میں سے کسی کو کہیں وہ رومیصہ سے شادی کر لیں آخر میں ہی کیوں کروں۔”
”تم نبیل کے لیے جو احساسات رکھتے تھے وہ نہیں رکھتے۔ تم رومیصہ اور اس کی بچی کے لیے جتنی ہمدردی رکھتے ہو وہ ان کے پاس نہیں ہے۔”
”میں نہیں جانتا تھا کہ یہ احساسات یہ ہمدردی میرے گلے کا پھندہ بن جائے گی۔ اگر مجھے رومیصہ اور ماہم سے ہمدردی ہے تو اس ہمدردی کو باقی رہنے دیں۔ کوئی نیا رشتہ بنا کر اسے ختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مجھے رشتے نبھانے نہیں آتے ہیں پھر آپ کیوں زبردستی یہ طوق میرے گلے میں ڈال رہے ہیں۔”
تم بہت خود غرض ہو ذیشان تم بے حد خود غرض ہو۔”
”ہاں میں ہوں ہر ایک ہوتا ہے۔ کیا آپ نہیں ہیں؟” وہ بے حد تلخی سے بات کر رہا تھا۔ سکندر علی اسے صرف دیکھ کر رہ گئے تھے۔ اس کا ردعمل ان کی توقعات کے بالکل برخلاف تھا۔
”ہاں میں بھی ہوں اور اسی لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے اگر تم میری بات نہیں مانتے تو پھر تمھیں میری جائیداد میں سے کچھ نہیں ملے گا۔”
ان کا لہجہ بے حد سرد تھا۔ ذیشان ہکا بکا سا ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔ انھوں نے بات جاری رکھی تھی۔
”میں نے تمھیں بیرون ملک بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم دلوانے پر ڈھیروں روپیہ خرچ کیا مگر تم نے واپس آ کر کاروبار میں میرا ہاتھ بٹانے کے بجائے سول سروس جوائن کرلی۔ میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ لیکن اب میرا خیال ہے کہ تمھیں اپنے پیروں پر بھی کھڑا ہو جانا چاہیے۔ تمھیں اپنے اخراجات اپنی تنخواہ میں پورے کرنے چاہئیں۔ جیسے سب ملازمت پیشہ لوگ کرتے ہیں۔ جس کاروبار کے چلانے میں تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ اس کے منافع میں بھی تمہارا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ آئندہ میں تمھارے اکاؤنٹ میں کوئی رقم جمع کرواؤں گا اور نہ ہی میری وصیت میں تمھارے لیے کچھ ہوگا۔”
”آپ مجھے بلیک میل کر رہے ہیں۔” وہ بولا تھا۔
”ہاں بلیک میل کر رہا ہوں۔ کتنی دیر تمھیں پالوں گا۔ دوسروں کی محنت کتنی دیر تمھیں کھلاتا رہوں گا۔ نہیں ذیشان صاحب! اب یہ نہیں ہوگا اگر تم اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتے ہو تو گزارو اور اسے گزارنے کے لیے اپنے وسائل پر انحصار کرو۔”
وہ باپ کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر حیران ہو گیا تھا۔ ”پاپا! آپ میرے ساتھ یہ نہیں کر سکتے۔ میں اپنے حق کے لیے کورٹ میں جاؤں گا۔ جو حصہ جائیداد میں میرا ہے وہ تو رہے گا۔ چاہے میں کاروبار میں حصہ لوں یا نہ لوں۔ آپ مجھے اس سے محروم نہیں کر سکتے۔ میں اپنے حقوق سے اچھی طرح واقف ہوں اور انھیں Defend کرنا بھی جانتا ہوں۔”
”بہت اچھی بات ہے اب تم کورٹ کے ذریعے ہی مجھ سے اپنا حصہ لینا۔ میں ویسے تو تمھیں کچھ نہیں دوں گا۔” سکندر علی نے حتمی لہجے میں کہا تھا وہ کچھ نہیں بولا تھا۔ کچھ دیر تک انھیں دیکھتے رہنے کے بعد وہ زور سے دروازہ پٹختے ہوئے باہر نکل گیا تھا۔
…***…
اس رات گھر میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔ فاخرہ جہاں حیران تھیں وہاں بے حد مشتعل بھی تھیں۔ انھیں لگا جیسے سکندر علی کا دماغ خراب ہو گیا ہے اور انھوں نے برملا اس کا اظہار کیا تھا۔ مگر سکندر علی پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا اور کوئی بھی انھیں اپنے فیصلے سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ہر ایک اس فیصلے کی شدید مخالفت کرے گا۔ اسی لیے وہ اس ہنگامے سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے تھے۔ انھوں نے فاخرہ کو بھی اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ ذیشان کو اپنی جائیداد میں سے کچھ نہیں دیں گے اور فاخرہ کا خون کھول کر رہ گیا تھا۔ ربیعہ ان کی بھانجی تھی اور ان ہی کی خواہش پر ذیشان نے ایک سال پہلے اس سے نکاح کیا تھا اور اگر نبیل کی موت نہ ہوئی ہوتی تو اب تک ربیعہ کی رخصتی ہو چکی ہوتی۔ فاخرہ جانتی تھیں کہ صرف تنخواہ میں ذیشان کا شادی سے پہلے گزارہ نہیں ہوتا تو شادی کے بعد کیسے ہوگا اور اگر اسے جائیداد لینی تھی تو رومیصہ سے شادی کرنی تھی۔
اور یہ بات ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ جو لڑکی نبیل کی ضد پر ان کے گھر آئی تھی اور جسے وہاں سے نکالنے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھیں۔ وہ ایک بار پھر سے ان کے گھر پر جڑ پکڑ جائے یہ وہ کیسے برداشت کر سکتی تھیں۔ اور مخالفت کرنے والی صرف وہ نہیں تھی اس گھر میں کوئی ایسا فرد نہیں تھا جو سکندر علی کی حمایت کر رہا ہو اور یہ مخالفت کھلے عام ہو رہی تھی حتیٰ کہ ستارہ اور عالیہ بھی خاموش نہیں رہی تھیں۔ مگر وہ اپنی بات پر قائم رہے تھے بلکہ اگلی صبح انھوں نے وکیل کو بھی گھر بلوا لیا تھا۔ اور وکیل نے ان کی پہلے سے تیار شدہ وصیت پڑھ کر سنا دی تھی باقی سب کو ان کا حصہ دیا گیا تھا ماسوائے ذیشان کے۔ اور اسی وجہ سے ذیشان کے بڑے اور چھوٹے بھائیوں نے اطمینان کا سانس لیا تھا۔ کم از کم ان سے کسی قسم کی حلق تلفی نہیں کی گئی تھی۔ مگر وصیت میں ذیشان کے بارے میں سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔
وہ وصیت ختم ہونے پر سرخ چہرے کے ساتھ ایک لفظ کہے بغیر وہاں سے چلا گیا تھا۔ مگر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ اسے بھی حقیقت کا سامنا کرنا تھا۔ ربیعہ کو اس نے اس سارے مسئلے سے آگاہ کر دیا تھا اور اس کے گھر والے اتنے مشتعل ہو گئے تھے کہ انھوں نے ذیشان سے خلع کا مطالبہ کر دیا تھا۔ اس نے ربیعہ سے کہا تھا کہ وہ اپنی جائیداد سے دستبردار ہونے کو تیار ہے لیکن وہ رومیصہ سے شادی نہیں کرے گا مگر یہ بات ربیعہ کو قابل قبول نہیں تھی۔
”آخرتم کس جرم کی سزا بھگتو گے؟ آخر کیوں اپنا حصہ چھوڑو۔ نہیں ذیشان! قطعی نہیں۔ تمھیں اپنے فادر سے اس معاملے میں جھگڑنا ہوگا۔ ان سے کہنا ہوگا کہ وہ تمہاری حق تلفی نہ کریں۔ وہ کیوں یہ سب کر رہے ہیں؟ کیا ہو گیا ہے انھیں؟”
ربیعہ کے پاس ان باتوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور یہ بیان، تقریریں اور مطالبے ذیشان کا مسئلہ حل نہیں کر سکتے تھے۔ وہ ربیعہ کے رویے سے کچھ مایوس ہو گیا تھا، گو دونوں کے درمیان روایتی قسم کے عہد و پیمان تو نہیں ہوئے تھے کیونکہ یہ رشتہ فاخرہ کی مرضی سے طے پایا تھا۔ مگر پھر بھی قدرتی طور پر ذیشان نے اس سے کچھ توقعات وابستہ کر لی تھیں جنھیں بری طرح ٹھیس لگی تھی۔
”اگر میں صرف اس سے شادی کرنے کے لیے اپنا حصہ چھوڑنے پر تیار ہوں تو یہ کیوں تھوڑی قربانی نہیں دے سکتی، اسے اپنی خواہشات کو ہی کسی حد تک کنٹرول کرنا ہوگا۔ کیا یہ میرے لیے یہ بھی نہیں کر سکتی؟ آخر اس کے نزدیک آسائشات مجھ سے زیادہ اہم کیوں ہیں؟ اسے میری ضرورت ہے مگر باقی سب کچھ بھی چاہیے اور اس ”باقی سب کچھ” کے بغیر اس کے نزدیک میری کیا اہمیت ہے؟”
اس سے ہر ملاقات یا فون پر ہونے والی ہر گفتگو کے بعد ذیشان کا ذہن سوالوں میں الجھتا جاتا تھا۔ وہ ربیعہ پر دل و جان سے فدا نہیں تھا۔ لڑکیوں میں اس کی دلچسپی شروع سے نہیں تھی۔ اس کے اور مشاغل تھے اور اس معاملے میں وہ اور نبیل ایک دوسرے کے بالکل برعکس تھے۔ نبیل کو لڑکیوں میں جتنی دلچسپی تھی وہ لڑکیوں سے اتنا ہی دور بھاگتا تھا۔ شادی کے معاملے میں شروع سے ہی اس کی رائے یہ تھی کہ وہ ارینج میرج کرے گا کیونکہ وہ ہی سب سے بہتر ہوتی ہے۔ نبیل اکثر اس کی اس بات کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔
”اگر تمہاری ارینج میرج نہ ہوئی تو کبھی شادی ہوگی ہی نہیں کیونکہ تمھیں کبھی کسی لڑکی سے عشق نہیں ہو سکتا۔”
وہ نبیل کی بات سنتا اور بس مسکرا دیتا۔ ربیعہ سے نکاح کے بعد دونوں اکثر ملتے رہتے تھے اور زندگی میں پہلی اور اپنی طرف سے آخری بار اس کے دل میں کسی لڑکی کے لیے نرم گوشہ پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ مگر اب وہ عجیب صورت حال میں گرفتار ہو گیا تھا۔ وہ دوسری شادی کو ہی سرے سے مناسب نہیں سمجھتا تھا اور کہاں یہ کہ نبیل کی بیوی سے شادی۔ وہ رومیصہ کے بارے میں نبیل کے جذبات اور احساسات سے بہت اچھی طرح آگاہ تھا اور اب اس لڑکی سے سکندر علی اس کی شادی کروانا چاہتے تھے۔
سکندر علی سے اس کے تعلقات پہلے بھی کوئی زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔ اور تعلقات میں اس کشیدگی کا آغاز تب ہوا تھا جب اس نے بی بی اے کے لیے باہر جانے سے انکار کر دیا تھا اس نے تب صاف صاف سکندر علی سے کہہ دیا تھا کہ اسے بزنس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اسے کیریئر بنانا چاہتا تھا۔ مگر سکندر علی اس کی بات پر بے حد ناراض ہوئے تھے وہ باقی بیٹوں کی طرح اسے بھی بزنس میں لانا چاہتے تھے۔ نبیل نے اس وقت ذیشان کو سمجھا بجھا کر امریکہ آنے پر رضامند کر لیا تھا۔
”بعد میں تم بے شک بزنس نہ کرنا۔ مگر فی الحال اس میں تعلیم حاصل کرنے میں کیا حرج ہے؟”
اس نے ذیشان کو قائل کر لیا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے بی بی اے کر لیا تھا۔ مگر تعلیم مکمل کرنے کے بعد بزنس جوائن کرنے کے بجائے وہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے پولیس سروس میں آ گیا تھا اور سکندر علی نے اس بار ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ انھوں نے اس کی تعلیم پر روپیہ اس لیے خرچ کیا تھا کہ بعد میں وہ بزنس میں ان کا ہاتھ بٹائے مگر وہاں تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا تھا۔ وہ نہ صرف ان کے بزنس میں نہیں آنا چاہتا تھا بلکہ اس نے ان کی کھلم کھلا حکم عدولی کرتے ہوئے جاب کر لی تھی اور یہ بات انھیں ہضم نہیں ہوئی تھی۔ ایک بار پھر نبیل اس کی مدد کو آیا تھا اور اس نے باپ اور ذیشان کے درمیان نہ صرف صلح کروائی تھی بلکہ سکندر علی کو اس بات پر منا لیا تھا کہ وہ ذیشان کو جاب کرنے دیں گے۔
بظاہر دونوں کے درمیان تعلقات نارمل ہو گئے تھے، مگر سکندر علی اب بھی اس کی جاب کو پسند نہیں کرتے تھے اور ان کی یہ ناپسندیدگی اسے ناپسند تھی۔ نبیل کی موت نے اور رومیصہ کے لیے ہمدردی نے وقتی طور پر دونوں کے پرانے اختلافات نہ صرف ختم کر دیے تھے بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کے کافی قریب کر دیا تھا۔ مگر اب سکندر علی کے اس مطالبے نے ایک بار پھر دونوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا تھا۔
…***…
رومیصہ کو اس سارے معاملے کے بارے میں بالکل علم نہیں تھا۔ سکندر علی نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ لیکن فاخرہ اور گھر کے دوسرے افراد کے رویے کی بڑھی ہوئی تلخی نے اسے پریشان کر دیا تھا۔ فاخرہ جس طرح اب اسے طعنے دینے لگی تھیں۔ پہلے نہیں دیتی تھیں عالیہ اور ستارہ نے بھی اب اسے جھڑکنا شروع کر دیا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے اگر وہ اس سے بات نہیں کرتی تھیں تو اسے جھڑکتی بھی نہیں تھیں۔ اس تلخی کی وجہ زیادہ دیر تک اس سے پوشیدہ نہ رہ سکی تھی۔ گھر کی ایک ملازمہ نے جب سکندر علی اور گھر کے دوسرے افراد کے درمیان ہونے والے جھگڑے کی وجہ اسے بتائی تھی تو وہ ہکا بکا رہ گئی تھی۔
”کیا مجھ پر آنے والے عذاب کبھی ختم نہیں ہوں گے؟” اس نے بے بسی سے سوچا تھا۔ اس رات وہ ماہم کو گود میں لیے بے تحاشا روئی تھی۔
”پاپا! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔” وہ پہلی بار بڑے حوصلے اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلی شام سکندر علی کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی۔ چند لمحوں تک اس کا چہرہ دیکھتے رہنے کے بعد انھوں نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا تھا۔ شاید وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کیا بات کرنا چاہتی ہے۔
”پاپا! مجھے ذیشان سے شادی نہیں کرنی ہے۔” اس نے بیٹھتے ہی کہہ دیا تھا۔
وہ اس کی بات پر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بڑے پرُسکون انداز میں بولے تھے۔ ”کیوں؟”
”مجھے اب کسی سے بھی شادی نہیں کرنی اور ذیشان تو میرے لیے بھائیوں کی طرح ہے۔”
”لیکن وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔” وہ اب بھی بے حد پرُسکون تھے۔
”پاپا وہ نبیل کا بھائی ہے اور میں نے بھی اسے ہمیشہ بھائی ہی سمجھا ہے۔”
”رومیصہ! تمھارے سمجھنے سے رشتے نہیں بنیں گے۔ رشتہ وہی ہوتا ہے جو اصل میں ہے۔ تمہارا بھائی ہ وہ پہلے تھا نہ اب ہے۔”
”پاپا! مجھے شادی کرنا ہی نہیں ہے۔ شادی ایک دفعہ ہی ہوتی ہے اور میری شادی ہو چکی ہے، اب اگر نبیل نہیں رہا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میں دوسری شادی کر لوں؟ نبیل کیا سوچے گا میرے بارے میں؟” وہ بات مکمل نہیں کر سکی اور رونے لگی۔
”جو لوگ مر جاتے ہیں ان کی پسند ناپسند کا خیال رکھنے کے بجائے زندہ لوگوں کی خواہشات کا خیال رکھنا چاہیے۔ تم کمر عمر ہو۔ جذباتی ہو۔ بہت سی باتیں ابھی تمھارے دماغ میں نہیں آئیں گی۔ کچھ عرصہ کے بعد سوچو گی۔ ساری زندگی تم نبیل کے نام کے سہارے نہیں گزار سکتیں۔ گزارنا چاہو گی تب بھی نہیں گزار سکو گی۔” سگار سلگاتے ہوئے وہ کہتے گئے تھے۔
”پاپا! میں گزار سکتی ہوں۔” اس نے بڑے یقین سے کہا تھا۔
”نہیں تم نہیں گزار سکتیں۔ یہ چند مہینوں یا چند سالوں کی بات نہیںہے۔ یہ ساری زندگی کی بات ہے۔”
”میرے پاس ماہم ہے۔ میں اس کے سہارے زندگی گزار لوں گی۔”
”اور ماہم کس کے سہارے زندگی گزارے گی؟ تمہارا سہارا تو اتنا مضبوط ہے نہیں اور زندگی میں بہت سی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ سہارے کی بیساکھیوں کے علاوہ بھی۔ ماہم کو تم کیا دو گی؟ باپ نہیں ہوگا۔ بہن بھائی نہیں ہوگا۔ اچھی جگہ شادی کیسے کرو گی؟ اور فرض کیا اس کی کہیں شادی کر دیتی ہو تو پھر تم کہاں رہو گی؟” ان کے انداز میں عجیب سی سرد مہری تھی۔
”پاپا! آپ ہیں نا۔”
”ہاں میں ہوں مگر کب تک؟ میرے مرنے کے بعد تم کیا کرو گی؟ میری زندگی میں اس گھر میں تمہاری کوئی اہمیت ہے نہ عزت۔ میرے مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ وہ تمھیں اس گھر سے نکال دیں گے۔ پھر ماہم کو لے کر کہاں جاؤ گی؟ تمھارے کون سے ماں باپ ہیں جو تمھیں سر چھپانے کو جگہ دیں گے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو تمھارے پاس نہیں ہے۔ پھر دنیا کا کیسے مقابلہ کرو گی؟”
وہ بڑی بے رحمی سے حقیقت بتاتے گئے تھے۔
”پاپا! میں ذیشان سے شادی نہیں کر سکتی۔ میں اس کی زندگی برباد نہیں کر سکتی۔ مجھے کوئی حق نہیں ہے کہ میں اس کی اور ربیعہ کی زندگی میں زہر گھولوں۔ پاپا! میں یہ نہیں کر سکتی۔ آخر انھیں کیوں سزا ملے۔” وہ بے چارگی سے کہہ رہی تھی۔
”اس شادی سے کسی کی زندگی برباد نہیں ہوگی بلکہ تمہاری اور ماہم کی زندگی سنور جائے گی۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تمھیں اور ماہم کو ذیشان کا نام مل جائے۔ کم از کم پھر تمھیں اس گھر سے کوئی نہیں نکال پائے گا اور ماہم کا مستقبل بھی محفوظ ہو جائے گا اور ذیشان اور ربیعہ کی زندگی میں کوئی زہر نہیں گھولے گا۔ وہ دونوں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ میں اس سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ ربیعہ کو طلاق دے دے۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ تم سے بھی نکاح کر لے اور یہ ایسا کون سا انوکھا کام ہے جو پہلے کبھی کسی آدمی نے نہیں کیا۔ مرد چار چار شادیاں بھی کرتے ہیں اور اچھی زندگی گزارتے ہیں۔ تم لوگ بھی خوش رہ سکتے ہو۔”
”پاپا میں…”
”رومیصہ! اس بارے میں جو تم نے کہنا تھا وہ میں نے سن لیا ہے۔ اس سے زیادہ بحث کی گنجائش نہیں ہے، زندگی کے بارے میں تمہاری اپروچ حقیقی نہیں ہے۔ بیٹی کے بجائے اگر تمہارا بیٹا ہوتا تو شاید میں اس شادی پر اصرار نہ کرتا مگر تم ایک بیٹی کی ماں ہو۔ جو باتیں تمھیں میں سمجھا رہا ہوں اگر تمھارے ماں باپ ہوتے تو وہ سمجھاتے پھر تمھیں یہ خیال کبھی نہ آتا کہ شاید میں تم پر ظلم کر رہا ہوں۔ زندگی ایک حقیقت کا نام ہے۔ اسے تصورات کے سہارے نہیں گزارا جا سکتا۔ جو شخص اب زندہ نہیں ہے اس کے بارے میں مت سوچو، تمہارا کوئی اقدام اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ لیکن تمہاری بیٹی جو زندہ ہے، اس کے بارے میں سوچو، جس کی پوری زندگی، پورے مستقبل کا دار و مدار تمھارے فیصلوں پر ہے اب تم جاؤ اور نبیل کو ذہن سے نکال کر ان سب باتوں کے بارے میں سوچو اور ایک بات ضرور یاد رکھنا اگر تم مر جاتیں تو نبیل بھی دوسری شادی کر لیتا۔ تمھارے تصورات کے سہارے زندگی نہیں گزارتا۔”
انھوں نے اسے کچھ کہنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ ان کے پاس دلائل تھے۔ وزنی دلائل، دل جو نہیں مانتا تھا وہ باتیں اس نے سن لی تھیں۔ بہتے آنسوؤں کے ساتھ وہ اٹھ کر وہاں سے آ گئی تھی۔
…***…
پہلے ذیشان مہینے میں دو تین بار گھر آ جایا کرتا تھا۔ مگر اس بار وہ پورا مہینہ گھر نہیں آیا تھا، فاخرہ اسے فون کر کر کے تنگ آ گئی تھیں اور پھر وہ خود اس کے پاس شیخوپورہ گئی تھیں۔
”پاپا نے میرا اکاؤنٹ فریز کروا دیا ہے۔” انھیں دیکھتے ہی رسمی سلام دعا کے بعد اس نے اطلاع دی تھی۔ ”وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں یہ کہ میں گڑگڑاتا ہوا ان کے پاس آؤں؟ ان سے کہوں کہ وہ مجھ پر یہ ظلم نہ کریں۔ ان سے پیسوں کی بھیک مانگوں۔ اس نے تلخ لہجے میں کہا تھا۔
”تم گھبراؤ مت تمھیں جتنے روپوں کی ضرورت ہو۔ تم مجھ سے لے لیا کرو۔” فاخرہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی مگر وہ ان کی بات پر بھڑک اٹھا تھا۔
”آپ سے کیوں لوں؟ ان سے کیوں نہیں؟ میں بھیک تو نہیں مانگ رہا۔ اپنا حصہ چاہتا ہوں۔ کیا باقیوں کو نہیں دیتے وہ؟ کیا انھیں بھی آپ دیتی ہیں؟”
”تو مجھے بتاؤ۔ میں کیا کروں، جتنا انھیں سمجھا سکتی تھی سمجھا چکی ہوں مگر وہ شخص تو دل میں ٹھان کے بیٹھا ہے کہ جو اس نے کہا ہے وہی ہوگا۔ آخر میں کیا کروں تم خود ایک بار پھر ان سے بات کرو۔” فاخرہ نے بے چارگی سے کہا تھا۔
”میں کیا بات کروں اور آخر کیوں کروں وہ آخر کیوں میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں، انھوں نے جیسے تہیہ کر لیا ہے کہ مجھے وہ کبھی چین سے نہیں رہنے دیں گے۔”
اس پر ان کی بات کا اثر نہیں ہوا تھا۔ مگر فاخرہ تو اسے قائل کرنے آئی تھیں۔ اسی لیے انھوں نے کئی گھنٹے بحث کر کے ایک بار پھر اسے اس مسئلے پر باپ سے بات کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔
اگلی صبح وہ ماں کے ساتھ ہی لاہور آیا تھا۔ دونوں نے ایک بار پھر سکندر علی کو سمجھانے کی کوشش کی تھی اور اس بحث و مباحثہ کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ سکندر علی نے اعلان کیا تھا۔
”ٹھیک ہے۔ تم اس سے شادی نہ کرو، تب پھر میں نبیل اور اپنے حصے کی جائیداد ماہم کے نام لکھوا دیتا ہوں۔ آخر مجھے بھی تو اس کا تحفظ چاہیے۔”
فاخرہ اس اعلان پر سکتے میں آ گئی تھیں اور ذیشان سرد نظروں اور بے تاثر چہرے کے ساتھ انھیں دیکھتا رہ گیا تھا۔ وہ مزید کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گئے تھے۔
”دیکھا آپ نے۔ میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ کبھی اپنی سوچ بدلتے ہیں نہ فیصلہ۔ مگر آپ کو شوق تھا کہ میں اپنا وقت ضائع کروں۔”
وہ بھی یہ کہہ کر اٹھ کر چلا گیا تھا۔ یک دم فاخرہ کو خطرے کا احساس ہونے لگا تھا۔ پہلی بار انھوں نے کچھ سنجیدگی اور تحمل سے اس معاملے پر غور کیا تھا۔ پہلے اگر ذیشان کو حصہ نہیں ملنا تھا تو بھی وہ جائیداد سکندر علی کے نام ہی رہنی تھی اور وہ انھیں کے پاس رہتی، لیکن اب سکندر علی کے اس اعلان نے انھیں پریشان کر دیا تھا۔ نبیل اور ذیشان کے ساتھ ساتھ انھیں سکندر علی کی جائیداد بھی ہاتھ سے جاتی ہوئی دکھائی دی تھی۔
اس معاملے کے اس نئے رخ پر انھوں نے اپنے باقی بیٹوں سے بات کرنا بہتر سمجھا اور پہلی دفعہ وہ بھی حقیقی طور پر پریشان ہو گئے تھے۔ کئی دن تک اس مسئلے پر گھر میں زبردست قسم کی بحث ہوتی رہی اور پھر سب نے ہار مان لی تھی۔ انھوں نے اب ذیشان پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ سکندر علی کی بات مان لے۔ تھوڑی قربانی دے دے اور وہ اس مطالبے پر ہتھے سے اکھڑ گیا تھا۔
”آخر ہر ایک مجھ سے ہی کیوں کہہ رہا ہے؟ خود کوئی ایثار کیوں نہیں کرتا؟ خود کسی کو قربانی کا خیال کیوں نہیں آتا؟ میری زندگی کیوں خراب کرنا چاہتے ہیں سب لوگ؟” وہ ہر بار ان کے اصرار پر یہی کہتا۔
”ذیشان! تمہاری تھوڑی سی بے وقوفی اور جلد بازی نہ صرف تمھیں نقصان پہنچائے گی بلکہ ہم بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ جذبات سے نہیں ہوش سے کام لو۔ دماغ کو استعمال کرو، روپے کے بغیر تم زندگی کیسے گزارو گے اپنی فیملی کو کس طرح رکھو گے۔ چند ہزار روپے میں ان کے لیے کیا کرو گے۔ پولیس کی اس جاب میں عزت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اور اگر یہ فرض کر بھی لیں کہ چلو تم اپنی تنخواہ میں گزارہ کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہو تو پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ربیعہ تمہارا ساتھ دے گی۔ وہ مشکلات برداشت کر لے گی۔ کچھ عقل سے کام لو۔ رومیصہ سے شادی کر لو، اسے پڑا رہنے دینا یہاں جیسے وہ اب ہے۔ تم ربیعہ کو ساتھ رکھنا۔ پاپا کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے وہ بھی خوش ہو جائیں گے اور یہ سارا مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا۔”
اشعر اور احمر وقتاً فوقتاً اسے فون پر سمجھاتے رہتے تھے۔ ذہنی طور پر وہ بے حد ڈسٹرب ہو کر رہ گیا تھا۔ صرف سکندر علی کا دباؤ ہوتا تو شاید وہ کبھی ان کے سامنے نہ جھکتا لیکن اب دباؤ ڈالنے والا صرف ایک نہیں تھا پورا گھر اسے اس شادی پر مجبور کر رہا تھا۔
دوسری طرف ربیعہ تھی جو کسی صورت اس بات پر تیار نہیں تھی کہ وہ رومیصہ سے شادی کر لے یا اپنی جائیداد کا حصہ چھوڑ دے۔ فاخرہ نے بھی اس معاملے میں اس کی مدد نہیں کی تھی شاید وہ کر بھی نہیں سکتی تھیں ربیعہ ان کی بات سننے پر تیار تھی نہ اس کے گھر والے اور فاخرہ رشتوں کی خاطر دولت کو قربان نہیں کر سکتی تھیں۔
انھوں نے ربیعہ کے گھر والوں سے کہہ دیا تھا کہ اگر ربیعہ رومیصہ کو ذیشان کی دوسری بیوی کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں تو پھر وہ طلاق لے لے اور ربیعہ کے گھر والے یہی چاہتے تھے۔ لیکن اب مسئلہ ذیشان کا تھا جو کسی طور اسے طلاق دینے پر تیار نہیں تھا وہ کسی کو قائل نہیں کر پا رہا تھا نہ گھر والوں کو نہ ربیعہ اور اس کے گھر والوں کو۔
ربیعہ نے خلع کے لیے کورٹ میں کیس کر دیا تھا۔ اور نہ چاہنے کے باوجود اس نے طلاق دے دی تھی۔ اسے اب یہ گوارا نہیں ہوا کہ وہ ربیعہ کی ناپسندیدگی کے باوجود اسے بیوی بننے پر مجبور کرے۔
کورٹ میں کیس لڑنے کے بجائے اس نے بے حد خاموشی سے اسے طلاق اور حق مہر کا چیک بھجوا دیا تھا۔ مگر اپنی پوری فیملی کے لیے اس کے دل میں ہمیشہ کے لیے گرہ پڑ گئی تھی۔ پھر ایک شام بڑی سادگی سے اس کا نکاح رومیصہ سے ہو گیا تھا۔ نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے وہ شرمندگی اور طیش کی انتہا پر تھا۔ گھر کے سب افراد اسے تماشائی لگ رہے تھے۔ نکاح کے پیپرز سائن کرتے ہی وہ سب کے روکنے کے باوجود سیدھا شیخوپورہ آ گیا تھا۔
…***…




Loading

Read Previous

میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

Read Next

سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

3 Comments

  • I think shr could do better than this cliche story. Not impressed.

  • I think it is baou the tirm when we write stories that are not revoloving around rich guy poor girl, who is.mountain of wafa and qurbani and innocence. We should do more than that.

  • Impressive

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!