محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

سکندر علی کو قطعاً علم نہیں تھا کہ فاخرہ رومیصہ کو گھر سے نکال چکی ہیں۔ نہ انھوں نے ان سے مشورہ لیا تھا نہ بتانے کی زحمت کی تھی۔ اس رات حسب معمول سب گھر والے کھانے کی میز پر اکٹھے تھے۔ ذیشان بھی ویک اینڈ پر گھر آیا ہوا تھا، جب کھانا کھاتے کھاتے اچانک سکندر علی نے کھانا سرو کرتے ہوئے ملازم سے پوچھا۔
”رومیصہ بی بی! کھانا کھا چکی ہیں؟” نبیل کی موت کے بعد سے رومیصہ اپنے کمرے میں ہی کھانا کھایا کرتی تھی۔ اور سکندر علی کے اصرار کے باوجود وہ کھانے کی میز پر آنے کی ہمت نہیں کر سکی تھی۔ ملازم نے کچھ حیرانی سے انھیں دیکھا تھا۔ شاید اسے ان کی لاعلمی پر حیرت ہوئی تھی لیکن وہ خاموش رہا۔ اس سے پہلے کہ سکندر علی دوبارہ سوال کرتے۔ فاخرہ نے ملازم کو جانے کا اشارہ کیا تھا۔
”اسے میں نے آج بھیج دیا ہے۔” بے حد اطمینان سے انھوں نے سلاد کھاتے ہوئے کہا تھا۔ سکندر علی کا پانی کے گلاس کی طرف بڑھتا ہوا ہاتھ رک گیا۔ ذیشان نے بھی حیرت سے ماں کو دیکھا تھا۔ باقی لوگ اطمینان سے کھانا کھاتے رہے۔ ان کے لیے یہ خبر نئی نہیں تھی۔
”کہاں بھیج دیا ہے؟” سکندر علی کچھ نہیں سمجھے تھے۔
”جہاں سے وہ آئی تھی اور جہاں اسے چلے جانا چاہیے تھا۔” بے حد سرد مہری سے جواب دیا گیا تھا۔
”پاپا! کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر آج میں مر جاؤں تو آپ لوگ تو مجھے دفن کرنے سے بھی پہلے رومیصہ کو دھکے دے کر اس گھر سے نکال دیں گے۔ آپ لوگ تو ایک بار بھی نہیں سوچیں گے کہ میں نے اس سے کتنی محبت کی تھی۔ آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی اس پر ترس نہیں آئے گا۔”
سکندر علی کو لگا تھا کسی نے ان کا دل مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔ نبیل کی آواز ان کے کانوں میں گونج رہی تھی اور کچھ یہی حال ذیشان کا تھا۔
”ممی! آپ نے کس سے پوچھ کر بھابھی کو گھر سے نکالا ہے؟” بے حد تلخ آواز میں ذیشان نے فاخرہ سے پوچھا تھا۔
”ذیشان! تمھیں اس بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے تمہارا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔” فاخرہ نے اسے بری طرح جھڑک دیا تھا۔
”میرا تعلق تو ہے نا اور یہی سوال میں تم سے پوچھتا ہوں۔ تم اسے یہاں سے نکالنے والی کون ہو؟” اس بار سکندر علی نے تیز آواز میں کہا تھا۔
”یہ میرا گھر ہے مجھے حق ہے کہ میں رومیصہ جیسے لوگوں کو یہاں نہ رہنے دوں۔”





”ہاں، یہ تمہارا گھر ہے مگر یہ صرف تمہارا گھر نہیں ہے۔ یہ نبیل کا بھی گھر ہے اور رومیصہ نبیل کی بیوی ہے۔” سکندر علی بے تحاشہ غصے میں تھے۔
”وہ نبیل کی بیوی تھی اس کے مرنے کے بعد…” فاخرہ کے لہجے میں ابھی بھی پہلے والی سرد مہری تھی۔ مگر سکندر علی نے ان کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔
”کل کو اگر میں مر جاؤں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ میری اولاد تمھیں اس گھر سے نکال دے؟” انھوں نے تیکھے لہجے میں فاخرہ سے پوچھا تھا جو ان کی بات پر بھڑک گئی تھیں۔
”تم مجھے رومیصہ کے برابر لانے کی کوشش مت کرو۔”
”میں تم سے مزید بحث نہیں چاہتا۔ صرف یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ میں رومیصہ کو واپس لا رہا ہوں۔” سکندر علی اپنی کرسی سے اٹھ گئے تھے۔
”تم اسے یہاں نہیں لا سکتے۔ میں یہ کبھی نہیں ہونے دوں گی۔”
”فاخرہ! یہ گھر میرے روپے سے بنا ہے اور میرے نام ہے رومیصہ کو بھی یہاں رہنے کا پورا حق ہے اور اگر وہ یہاں نہیں رہ سکتی تو پھر کوئی بھی نہیں رہ سکتا۔” وہ اپنی کرسی سے کھڑے ہو گئے تھے۔ سب لوگ ہاتھ روکے انھیں دیکھ رہے تھے۔
”ذیشان! تم میرے ساتھ آؤ۔” انھوں نے ذیشان سے کہا تھا اور وہ بڑی فرمانبرداری سے اپنی کرسی سے اٹھنے لگا تھا۔
”سکندر! تم کیا کرنے لگے ہو؟” فاخرہ نے اس سوال کا جواب جانتے ہوئے بھی پوچھنا ضروری سمجھا تھا۔
”میں اسے ابھی اور اسی وقت واپس لانے جا رہا ہوں۔”
وہ یہ کہہ کر باہر کی طرف بڑھ گئے تھے۔ ذیشان ان کے پیچھے تھا، ان دونوں نے اپنے پیچھے فاخرہ کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنی تھیں مگر اس کی پروا کیے بغیر وہ باہر آ گئے۔
رات نو بجے وہ خالہ کے گھر اسے لینے گئے تھے اور خالہ جو یہ جاننے کے بعد کہ وہ بالکل خالی ہاتھ ہے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے طریقے سوچ رہی تھیں۔ انھوں نے ایک بار بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اگر وہ ایسا کرتیں بھی تو بھی وہ کبھی وہاں نہ رکتی۔ ان چند گھنٹوں میں ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب اس گھر میں اس کے لیے گنجائش نہیں رہی۔ گھر میں تو شاید نکل آتی مگر دلوں میں کبھی نہیں۔ وہ سکندر علی اور ذیشان کے ساتھ واپس آ گئی۔ سکندر علی سارا راستہ اسے دلاسے دیتے رہے تھے۔ اور اسے اس وقت اسی چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ذیشان خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا تھا۔ اسے رومیصہ کی حالت پر افسوس ہو رہا تھا۔ وہ جانتا تھا نبیل نے اس سے بے تحاشا محبت کی تھی بلکہ شاید محبت کی ہی اس سے تھی اور اب وہ یوں در بدر ہو گئی تھی۔
”اور اگر کہیں یہ نبیل کی زندگی میں ہوا ہوتا تو وہ گھر میں قیامت برپا کر دیتا اور سارا فرق نبیل کی زندگی کا ہی تو ہے اگر وہ ہوتا تو یہ سب کبھی نہ ہوتا۔”
وہ گاڑی چلاتے ہوئے افسردہ ہو گیا تھا۔ واپسی میں نیچے ہال میں کوئی نہیں تھا۔ شاید وہ اب کوئی ہنگامہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور حیرت کی بات تو یہ تھی کہ فاخرہ بھی وہاں نہیں تھیں ورنہ سکندر علی کو توقع تھی کہ وہ رومیصہ اور ان کے زبردست استقبال کے لیے ضرور وہاں موجود ہوں گی، بہرحال ان کی عدم موجودگی پر انھوں نے شکر ادا کیا تھا رومیصہ کو انھوں نے اوپر بھیج دیا تھا۔
”ذیشان! تم ذرا اپنی ماں کو سمجھاؤ۔ تمہاری بات وہ سن لیتی ہے، تم ہی اس کا دماغ ٹھیک کرنے کی کوشش کرو۔” انھوں نے ذیشان سے کہا تھا اور وہ ترحم بھری نظروں سے انھیں دیکھنے لگا تھا، جو بے حد تھکے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ وہ باپ کے کوئی زیادہ قریب نہیں تھا اور نہ ہی ان دونوں کے درمیان انڈر اسٹینڈنگ نام کی کوئی چیز تھی بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک تو ذیشان کی جاب کی وجہ سے دونوں کے درمیان خاصا تناؤ تھا مگر اب نبیل کی موت نے یک دم دونوں کو قریب کر دیا تھا۔ وہ جانتا تھا نبیل ان کا لاڈلا تھا۔ اپنی غلط حرکتوں کے باوجود وہ ہمیشہ ان کا چہیتا ہی رہا تھا۔ شاید کسی دوسرے بیٹے کی موت کا ان پر وہ اثر نہ ہوتا جو نبیل کی موت کا ہوا تھا۔ وہ خود بھی نبیل کے عشق میں گرفتار رہا تھا۔ دونوں کی کیفیات ایک جیسی تھیں، دونوں نے اسے کھویا تھا جسے وہ کبھی کھونا نہیں چاہتے تھے۔
”میں بات کرتا ہوں ان سے۔ آپ پریشان نہ ہوں وہ بھابھی کو قبول کر ہی لیں گی۔”
اس نے انھیں تسلی دینے کی کوشش کی تھی مگر سکندر علی فاخرہ کو اس سے زیادہ جانتے تھے۔ وہ کتنی ضدی اور منتقم مزاج عورت تھیں۔ یہ ان سے بہتر کون جان سکتا تھا۔ مگر پھر بھی انھوں نے سر ہلا دیا تھا۔
ذیشان ان کے ساتھ ہی ان کے بیڈ روم میں چلا گیا تھا اور وہاں فاخرہ نے ان دونوں کو دیکھتے ہی چلانا شروع کر دیا تھا۔ سکندر علی بالکل چپ رہے تھے اور ذیشان نے ماں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ مگر فاخرہ پر تو جیسے جنون سوار تھا۔ انھوں نے ذیشان کو بھی بے بھاؤ کی سنائی تھیں۔ انھیں اس کے باپ کے ساتھ جانے پر اعتراض تھا۔ انھیں منانے اور سمجھانے کی اس کی ساری کوششیں بری طرح ناکام رہی تھیں۔ وہ کچھ سننے پر تیار ہی نہیں تھیں۔ اسے ممی کی کوئی خاص پروا نہیں تھی بالکل ویسے ہی جیسے ذیشان کو باپ کی زیادہ پروا نہیں تھی۔ نبیل کو بحث کی بھی عادت نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ اپنی بات منوایا کرتا تھا، لیکن بحث میں انوالو ہوئے بغیر وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا۔
”مجھے کوئی قائل نہیں کر سکتا پھر میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کیوں کروں۔ میں تو وہی کرتا ہوں جو کرنے کا فیصلہ کرتا ہوں۔”
نبیل کے ساتھ ممی کا اکثر کسی نہ کسی بات پر جھگڑا ہو جاتا تھا۔ وہ اس کی شادی اپنی بھانجی سے کرنا چاہتی تھیں مگر نبیل کو شادی سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی اور جب دلچسپی ہوئی تو وہ ایک ایسی لڑکی بیاہ لایا جو ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ مگر وہ اسے مجبور نہیں کر سکتی تھیں ہاں مگر اپنا غصہ رومیصہ پر ضرور نکال سکتی تھیں اور اب وہ یہی کر رہی تھیں۔ نافرمان بیٹے کی بیوی کتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو۔ وہ ممی جیسی عورتوں کو بری ہی لگتی ہے۔ جب تک نبیل زندہ تھا وہ اسے گھر میں رکھنے پر مجبور تھیں مگر اب جب وہ نہیں رہا تھا تب بھی وہ اسے گھر پر رکھنے پر مجبور کر دی گئی تھیں مگر انھوں نے بھی طے کر لیا تھا کہ وہ اس گھر میں اس کا جینا دوبھر کر دیں گی اور انھوں نے یہی کیا تھا۔
یک دم ہی انھوں نے گھر کا پورا کام اس کے سر تھوپ دیا تھا۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ وہ ماں بننے والی تھی اور ابھی جس حادثے سے گزری تھی اس کے بعد اسے مکمل ذہنی اور جسمانی آرام و سکون چاہیے تھا۔ رومیصہ نے کسی کام پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ اب کون سا نبیل تھا جو اس کی مدد کے لیے آتا۔ اب تو اسے اس گھر میں اپنے لیے جگہ بنانی تھی۔ دلوں میں نہ سہی مگر گھر میں تو ہو۔ بڑے صبر سے وہ سارا دن کام میں لگی رہتی۔
پہلے جب ممی اسے کام کے لیے کہا کرتی تھیں تو تب وہ صرف کام کی نگرانی کیا کرتی تھی مگر اب وہ خود نوکروں کے ساتھ سارے کام کروایا کرتی تھی۔ صبح سے رات تک کام میں جتے رہنے کے باوجود ممی خوش نہیں ہوتی تھیں۔ وہ معمولی بات پر نوکروں کے سامنے اسے ذلیل کر دیتیں۔ مگر اسے ان سے کوئی گلہ، کوئی شکوہ نہیں تھا۔ اس کے لیے بس یہی کافی تھا کہ وہ اسی گھر میں ہے جہاں نبیل اسے لایا تھا اور نبیل کا بچہ بھی اپنے خاندان میں ہی پلے گا۔
رات کو گیارہ بجے وہ فارغ ہو کر اوپر اپنے کمرے میں آتی اور اتنی تھکی ہوئی ہوتی کہ اس کے پاس اتنی فرصت بھی نہیں ہوتی تھی کہ وہ نبیل کے بارے میں سوچ پائے۔ کبھی کبھی جب اسے نیند نہ آتی تو وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا بیٹھتی اور اپنا وجود اسے اتنا اجنبی لگتا کہ وہ اسے پہچاننے کی جستجو کرنے لگتی۔ اس کے چہرے پر کچھ بھی تو پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ وہ آنکھیں جن پر نبیل بہت ملائمت سے گھنٹوں انگلیاں پھیرتا رہتا تھا۔ اب سیاہ حلقوں کی قید میں تھیں۔ دودھیا رنگت کملا چکی تھی۔ کئی کئی دن بالوں میں کنگھی کیے بغیر گزر جاتے اور اسے احساس بھی نہ ہوتا اور کبھی جب اسے خیال آتا تو وہ ہاتھ سے ہی بال سنوار لیتی۔ ایک عجیب سی بے نیازی آ گئی تھی اس میں۔ ماضی، حال، مستقبل تینوں میں اسے دلچسپی نہیں رہی تھی۔ تینوں اس کے لیے ایک جیسے تکلیف دہ تھے۔
…***…
”ممی! میں ڈاکٹر کے پاس چلی جاؤں۔” اس دن اس نے بہت جھجکتے اور ڈرتے ڈرتے فاخرہ سے پوچھا تھا۔ نبیل کی موت کے بعد سے وہ ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے نہیں گئی تھی۔ مگر اب کچھ دنوں سے اس کی طبیعت بہت خراب رہنے لگی تھی اور ڈاکٹر بھی اسے دو تین دفعہ چیک اپ کے لیے فون کر چکی تھی۔ ممی کچھ دیر تک بہت عجیب سی نظروں سے اسے دیکھتی رہی تھیں۔
”کیا کرو گی اس بچے کو رومیصہ؟ کیا کروگی؟ کیسے پالو گی اسے؟ اس خاندان کا نام تو اسے نہیں ملے گا۔ کیونکہ آج نہیں تو کل تمھیں یہاں سے جانا ہی ہے، پھر کیوں اپنے پیروں میں زنجیر ڈال رہی ہو؟ تم ابارشن کروا لو۔ ایک دو سال بعد آرام سے کہیں بھی شادی کر سکتی ہو۔ مگر بچے کے ساتھ تمھیں کوئی قبول نہیں کرے گا۔ اس سے اپنی جان چھڑا لو۔ یہ تمھارے حق میں بہتر ہوگا۔” ممی نے پہلی بار کچھ نرم لہجے میں اس سے کہا تھا۔ وہ گم صم سی ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”ممی! مجھے اب کبھی شادی نہیں کرنی ہے۔ کبھی بھی نہیں۔ مجھے بس اپنے بچے کے ساتھ رہنا ہے آپ خدا کے لیے ایسی باتیں نہ کریں میرے پاس اس بچے کے علاوہ اور ہے کیا؟ اسے کیسے مار دوں میں؟” اس کی آواز بھرا گئی تھی۔
”بہت بڑی ایکٹریس ہوتی ہو تم مڈل کلاس لڑکیاں۔ بڑے ہتھیار ہوتے ہیں تمھارے پاس۔ ساری زندگی چہرے پر ماسک لگائے گزار دیتی ہو۔ پارسائی کا ماسک، شرافت کا ماسک، وفاداری کا ماسک، قربانی کا ماسک حالانکہ ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا تمھارے پاس اور رومیصہ عمر! تم بھی مڈل کلاس کی لڑکی ہو۔ کیا سوچتی ہو کہ ہر کوئی نبیل سکندر ہوتا ہے جو اس ماسک کے پار نہ دیکھ پائے، نہیں ایسا نہیں ہے۔ نبیل بے وقوف تھا۔ میں نہیں ہوں۔ اگر تمہاری تمنا صرف نبیل کے بچے کے ساتھ رہنے کی ہے تو اس گھر سے چلی جاؤ۔ کہیں بھی چلی جاؤ۔ بس دوبارہ کبھی ہماری زندگی میں نہ آنا۔ میں تمھیں اتنا روپیہ دے دوں گی کہ تمھارے سر پر چھت اور دو وقت کی روٹی آ جائے۔ بس تم یہ گھر چھوڑ دو۔”
”ممی! آپ مجھے یہاں رہنے دیں۔ میں کبھی آپ سے کوئی مطالبہ نہیں کروں گی نہ ہی آپ کو مجھ سے کوئی شکایت ہوگی مگر مجھے یہاں رہنے دیں۔”
”اگر تم یہاں رہنا چاہتی ہو تو پھر میری بات مان لو۔ ابارشن کروا لو۔ تمھارے لیے اس گھر میں جگہ نکل سکتی ہے مگر تمھارے بچے کے لیے نہیں۔”
اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی، اسے اپنے پیچھے ہلکی سی آہٹ سنائی دی تھی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تھا اس سے چند قدموں کے فاصلے پر دروازے کے قریب ذیشان کھڑا تھا۔ وہ سر جھکائے اپنے بھیگے ہوئے چہرے کو چھپاتے ہوئے کمرے سے چلی گئی۔ فاخرہ کچھ گھبرا گئی تھیں انھیں ایک دم ذیشان کے وہاں آ جانے کی توقع نہیں تھی اور ذیشان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ ان کی باتیں سن چکا تھا۔ رومیصہ کے باہر نکلتے ہی اس نے تیز آواز میں ماں سے کہاتھا۔
”آپ جانتی ہیں آپ بھابھی سے کیا کہہ رہی تھیں؟”
”ذیشان! تم اس معاملے میں مت پڑو۔ اس مسئلے سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔” انھوں نے اسے جھڑک کر چپ کروانے کی کوشش کی تھی مگر ذیشان پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”اگر میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے تو آپ کا بھی نہیں ہے۔ ممی! مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ آپ نبیل کے بچے کو مارنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ آپ یہ کیسے کر سکتی ہیں۔ بھابھی سے آپ کا رشتہ نہ سہی مگر نبیل کے بچے سے تو ہے۔ مگر آپ اسے پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دینا چاہتی ہیں۔ آپ نبیل کا نام، اس کی نسل ہی ختم کر دینا چاہتی ہیں۔ ممی! مجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ سب میں نے آپ کی زبان سے سنا ہے۔”
اس کی آواز کی تیزی ختم ہو گئی تھی۔ لہجے میں بے یقینی تھی۔
”میں تمہاری طرح جذباتی نہیں ہوں۔ عقل سے کام لیتی ہوں۔ وہ نبیل کا بچہ نہیں رومیصہ کا بچہ ہوگا اور وہ وہی کرے گا جو اس کی ماں چاہے گی۔ کل کو وہ نبیل کا حصہ لینے اٹھ کھڑا ہوگا پھر تم لوگ ہی روؤ گے۔”
فاخرہ نے اپنی پوزیشن صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔
”ممی! اگر جائیداد میں سے حصہ چاہے گا تو ٹھیک ہے دے دیں گے آفٹر آل یہ اس کا حق ہوگا۔ مگر آپ کو اس کی جان لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور آپ دوبارہ بھابھی سے ایسی بات نہیں کریں گی۔” ذیشان نے فاخرہ کو سخت لہجے میں روکا تھا۔
”تم بہت بے وقوف ہو ذیشان! بے حد احمق ہو۔”
”ٹھیک ہے۔ میں آپ کے بقول بے وقوف اور احمق ہوں تو مجھے بے وقوف ہی رہنے دیں۔ مجھے ایسی عقل نہیں چاہیے جو مجھے خون کے رشتے بھلا دے۔”
وہ یہ کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا تھا اور اس نے صرف ماں کو ہی خبردار نہیں کیا تھا بلکہ اسی رات اس نے سکندر علی کو بھی فاخرہ کے خیالات کے بارے میں واقف کر دیا تھا۔ فاخرہ اور سکندر علی کے درمیان اس رات شدید جھڑپ ہوئی اور وجہ وہ بچہ تھا جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ بحث کا نتیجہ صرف یہ نکلا تھا کہ فاخرہ کے دل میں رومیصہ کے خلاف نفرت کچھ اور زیادہ ہو گئی تھی۔ وہ ہر صورت میں اس سے جان چھڑانا چاہتی تھیں اور اب یہ کام انھیں مشکل نظر آ رہا تھا۔ اس جھگڑے سے جہاں فاخرہ کی نفرت میں اضافہ ہو گیا تھا وہاں سکندر علی کی توجہ اور محبت میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ انھوں نے اگلے دن رومیصہ کو کچھ روپے دیے تھے اور اس سے کہا تھا کہ اسے جب بھی کہیں جانا ہو وہ ان کے ڈرائیور سے کہہ دیا کرے اور وہ اسے لے جایا کرے گا اور اس سلسلے میں اسے ممی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پھر یونہی ہونے لگا تھا وہ ہر ہفتے ڈرائیور کے ساتھ ہاسپٹل چلی جاتی۔ نبیل نے پتا نہیں کیا سوچا تھا۔ امریکہ جانے سے پہلے وہ ڈلیوری تک کے لیے ہاسپٹل میں ایک خاصی بڑی رقم جمع کروا چکا تھا۔ اس کی موت کے بعد جب وہ پہلی بار ہاسپٹل چیک اپ کروانے کے لیے گئی تو چیک اپ کے بعد اس نے واپس آ کر سیکرٹری کو کچھ روپے دینے کی کوشش کی تھی جو سکندر علی نے اسے دیے تھے۔
”ایک منٹ میڈم میں ذرا پہلے آپ کا اکاؤنٹ چیک کر لوں پھر آپ اس بل کو پے کیجئے گا۔” سیکرٹری نے کمپیوٹر کی کچھ Keys دباتے ہوئے کہا تھا۔ وہ سر جھکائے دیکھتی رہی۔
”رومیصہ سکندر وائف آف نبیل سکندر آپ کا نمبر اناسی ہے نا؟” وہ لڑکی کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے تصدیقی لہجے میں پوچھ رہی تھی۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”نہیں میڈم! آپ کو بل پے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے ہسبینڈ ڈلیوری تک کے ڈیوز پہلے ہی پے کر چکے ہیں۔”
اس لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔ رومیصہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ کاؤنٹر پر رکھے ہوئے روپے اٹھا کر وہ باہر آ گئی تھی۔ پارکنگ کی طرف جانے کے بجائے وہ لان میں آ کر بیٹھ گئی تھی اور پتا نہیں کتنی دیر وہ وہیں بیٹھی رہی۔ یہ ایک پرائیویٹ ہاسپٹل تھا، ایک درخت کے نیچے لکڑی کے بینچ کی پشت سے ٹیک لگائے وہ ہاسپٹل کے اندر جاتے اور باہر آتے ہوئے جوڑوں کو دیکھتی رہی۔ چند ماہ پہلے وہ بھی تو نبیل کے ساتھ ہی آیا کرتی تھی مسکراتے جگمگاتے چہرے کے ساتھ، اپنے بچے کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے، مستقبل کی پلاننگ کرتے ہوئے۔
”یار! بندے کو ہر کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ زندگی کو اچھے طریقے سے گزارنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ میں اپنے ہر آنے والے سال کو پہلے ہی پلان کر لیتا ہوں۔ بہت آسانی ہو جاتی ہے اس سے اور صرف خود کو ہی نہیں اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی۔”
”لیکن میرے لیے اب کیا آسانی ہوگی؟” نبیل کی بات اسے یاد آئی اور اس کے گال بھیگنے لگے تھے۔ ایک بار پھر اسے بہت کچھ یاد آ رہا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ کبھی واپس اس گھر میں نہ جائے۔ اس کا دل چاہ رہا تھا اس کی زندگی سے یہ چھ سات ماہ غائب ہو جائیں۔ کبھی کوئی نبیل سکندر اس کی زندگی میں آیا ہو۔ نہ وہ کبھی جاب کے لیے اس آفس میں گئی ہو بس وہ آنکھیں بند کر کے کھولے اور وہ دوبارہ وہیں کھڑی ہو۔ جہاں وہ جاب کرنے سے پہلے کھڑی تھی مگر یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ آنکھیں بند کرنے سے منظر غائب ہو جاتا ہے زندگی نہیں، نبیل نہیں، بچہ نہیں۔ وہ تھکے قدموں کے ساتھ اٹھ کر پارکنگ کی طرف چلی گئی۔
گھر میں سب کچھ ویسے ہی تھا وہی ممی کی تیکھی نظریں، زہریلی باتیں باقی سب کی بے رخی، بے پروائی۔
”پتا نہیں وہ لوگ کیسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو بدل لیتے ہیں۔ میں تو کچھ بھی بدل نہیں پا رہی۔”
وہ اکثر سوچتی۔ اب نبیل کی طرح اسے بیٹی کی خواہش بھی نہیں رہی تھی جو واحددعا وہ ان دنوں خدا سے کرتی رہتی تھی، وہ بیٹے کی تھی۔ بیٹی کے سر پر اگر باپ نہ ہو تو اس کا کیا حال ہوتا ہے یہ وہ دیکھ چکی تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ ایک بار پھر اس کی کہانی اس کی بیٹی کے ساتھ دہرائی جائے۔
”بیٹی کو میں کیا دے سکتی ہوں۔ کچھ بھی نہیں۔ بیٹے کو کچھ نہ بھی ملا تب بھی وہ اپنے لیے کچھ نہ کچھ کر ہی لے گا۔”
اس کے ذہن میں پتا نہیں کیا کیا آتا رہتا۔ کبھی کبھی اسے یہ سوچ کر بھی وحشت ہونے لگتی کہ اگر بیٹی پیدا ہو گئی تو کیا ہوگا وہ کیا کرے گی۔ وہ رات کو جاگتی رہتی کئی کئی گھنٹے ٹیرس پر بے مقصد چکر لگاتی رہتی۔
”اللہ مجھے اب کوئی صدمہ نہ پہنچانا۔ میری دعا قبول کر لینا۔ آج تک تم مجھے چیزوں سے محروم کرتے آئے ہو مگر کم از کم اب تو ایک ایسی چیز مجھے دے دینا جو میں چاہتی ہوں جو میری خواہش ہے۔”
وہ دعا مانگنے پر آتی تو بیٹے کے لیے کئی کئی گھنٹے دعائیں مانگتی رہتی۔
…***…
مگر کوئی دعا قبول نہیں ہوئی تھی۔ وہ ڈاکٹر کے منہ سے بیٹی کی پیدائش کی خبر سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
”خدا کیوں میرے ساتھ یہ سب کچھ کر رہا ہے آخر کیوں۔” وہ بے اختیار کہتی جاتی۔ ڈاکٹر نے اسے بمشکل چپ کروایا تھا اور پھر اس کے اعصاب کو پرُسکون کرنے کے لیے خواب آور انجکشن دے دیا تھا۔ دوبارہ ہوش میں آنے پر اس نے خود کو ایک کمرے میں اکیلا پایا تھا۔ آنکھیں کھولے چت لیٹی ہوئی وہ کتنی ہی دیر چھت کو دیکھتی رہی۔ انیس سال کی عمر میں اس کی شادی ہو گئی تھی۔ انیس سال کی عمر میں وہ بیوہ ہو گئی تھی اور اسی عمر میں وہ ایک بچی کی ماں بن گئی تھی۔ بچپن گزار کر اس نے یک دم بڑھاپے میں قدم رکھ دیا تھا۔ جوانی تو شاید کہیں آئی ہی نہیں تھی۔ اس کے دل میں اپنی بچی کو دیکھنے کی خواہش پیدا نہیں ہو رہی تھی۔
”دیکھنا یار! میری بیٹی دنیا کی Most wanted بچی ہوگی۔ جتنا انتظار مجھے اس کا ہے شاید دنیا کے اور کسی باپ کو اپنی اولاد کا نہ ہو۔” ایک بار پھر وہی آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھی۔ اس نے اپنی آنکھوں کو بند کر لیا۔
”اور اگر نبیل ہوتا تو کیا میں اس وقت یہاں یوں اکیلی پڑی ہوتی۔ کیا اس کمرے میں اتنی خاموشی ہوتی۔”
ایک سوچ اس کے دماغ میں لہرائی تھی۔ وہ ایک دن پہلے ہاسپٹل آئی تھی اور تب سے لے کر بچی کی پیدائش تک وہ وہاں اکیلی ہی تھی۔ کوئی اس کے ساتھ آیا تھا نہ اس کی خبر گیری کے لیے آیا تھا۔ شام کو نرس اس کی بچی کو لے کر اس کے پاس آئی تھی۔ بجھے ہوئے دل کے ساتھ اس نے کمزور و نحیف وجود کو دیکھا تھا جو اسے تھمایا گیا تھا۔ وہ اسے گود میں لیے بیٹھی رہی۔ ممتا جیسے کوئی جذبات اسے محسوس نہیں ہو رہے تھے۔ پتا نہیں دل اتنا بنجر کیوں تھا۔ وہ ننھا سا وجود اپنی آنکھوں کو بڑی جدوجہد سے پورا کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پتا نہیں وہ کیا دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ بے دماغی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اس کے نقوش بہت شناسا، بہت مانوس سے تھے، وہ نبیل کا چہرہ تھا۔ بہت دیر بعد اسے محسوس ہوا تھا اور پتا نہیں کچھ بے اختیار سی ہو کر وہ اس کے چہرے پر اپنی انگلیاں پھیرنے لگی تھی۔ ہونٹ، ناک، آنکھیں، ماتھا، گال، وہ نرمی سے ہر چیز کو چھوتی گئی پھر پانی کے قطرے اس ننھے وجود کے چہرے پر گرنے لگے تھے۔ پہلے ایک پھر دو پھر تین اور پھر جیسے جھڑی لگ گئی تھی۔
”میری بیٹی دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہوگی۔ تم سے بھی زیادہ خوبصورت ہوگی رومی! تم دیکھ لینا۔” پھر کسی نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی تھی۔
”ہاں خوبصورت ہے۔ خوش قسمت نہیں۔ مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے۔ مجھ سے زیادہ بدقسمت ہے۔” بہتے آنسوؤں کے ساتھ وہ بڑبڑانے لگی تھی۔
اس شام سکندر علی بھی آئے تھے۔ بچی کو گود میں لیتے ہوئے ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے۔ ”بہت خوبصورت ہے، ہے نا رومیصہ؟”
انھوں نے آنسو چھپاتے ہوئے دل جوئی کرنے والے انداز میں رومیصہ سے پوچھا تھا۔ وہ خاموش انھیں دیکھتی رہی۔ سکندر علی نے کچھ روپے نکال کر بچی کے ہاتھ کے پاس رکھے تھے اور پھر اسے چوم کر رومیصہ کو تھما دیا۔ اس نے سر اٹھا کر انھیں دیکھا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھ میں چھپے ہوئے آنسو دیکھ لیے تھے۔ سکندر علی نے اس کا سر تھپتھپایا تھا۔
”بیٹا! گھبراؤ مت۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” انھوں نے اسے تسلی دی۔ اس نے سر جھکا لیا تھا۔
تین دن بعد وہ گھر آ گئی تھی۔ سکندر علی کے علاوہ کوئی ہاسپٹل نہیں آتا رہا تھا۔ ذیشان کی پوسٹنگ شیخوپورہ میں تھی، اس لیے وہ بھی نہیں آیا تھا۔ اسے بچی کی پیدائش کا علم بھی نہیں تھا۔ پندرہ دن بعد وہ ویک اینڈ پر گھر آیا تھا تو اسے پتا چلا تھا اور تب وہ سیدھا رومیصہ کے پاس آیا تھا۔ کافی دیر تک بچی کو اٹھائے وہ رومیصہ کے کمرے میں بیٹھا رہا تھا۔ پھر وہ بچی کو کچھ روپے تھما کر افسردگی کے عالم میں کمرے سے باہر آ گیا تھا۔ نبیل کو بیٹی کی بے حد خواہش تھی اور یہ بات وہ بھی جانتا تھا اور اب یہ خواہش پوری ہو چکی تھی مگر نبیل نہیں تھا۔ نبیل کی موت کا زخم جیسے نئے سرے سے ہرا ہو گیا تھا۔
بچی کا نام اس نے ماہم رکھا تھا۔ یہ وہ نام تھا جو نبیل نے منتخب کیا اور رومیصہ نے اپنی بیٹی کو وہی نام دیا تھا۔ ماہم جسمانی طور پر بہت کمزور تھی اور یہ ایک قدرتی سی بات تھی۔ اس کی پیدائش سے پہلے جس حادثے کا سامنا رومیصہ کو کرنا پڑا تھا اور اس کے بعد نہ اس نے خوراک پر دھیان دیا تھا اور نہ ہی اپنی صحت کی اتنی پروا کی تھی اور ظاہر ہے ان سب چیزوں کا اثر ماہم پر ہی ہونا تھا۔ ماہم کی پیدائش کے بعد رفتہ رفتہ رومیصہ دوبارہ گھر کے کاموں میں جت گئی تھی۔ کام کیے بغیر اس گھر سے دو وقت کا کھانا حاصل کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ فاخرہ کی نکتہ چینیوں اور طعنوں کا سلسلہ ایک بار پھر وہیں سے شروع ہو گیا تھا اور رومیصہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ خیال کرتی تھی۔ خود کو محفوظ کرنے کے لیے جو واحد طریقہ اس کی سمجھ میں آیا تھا۔ وہ کام کر کے فاخرہ کو خوش کرنا تھا اور یہ وہ کام تھا جو کوئی معجزہ ہی کروا سکتا تھا۔ وہ ان سے بے حد خائف رہتی تھی۔ جس قدر وہ ان کی خدمت کرتی، ان کے آگے پیچھے پھرتی، وہ اتنی ہی شیر ہوتی جا رہی تھیں۔ روز بروز ان کی زبان کے زہر میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اور وہ بالکل بے بس تھی، اس گھر میں کم از کم وہ اور اس کی بیٹی محفوظ تو تھے۔ اس گھر سے نکل کر وہ کیا کرتے۔ پھر مسئلہ دو وقت کے کھانے کا نہیں تھا۔ کل کو ماہم نے بڑا ہونا تھا۔ اسے تعلیم دلوانا تھی۔ اس کی شادی کرنا تھی اور یہ سب کام وہ خود کیسے کر سکتی تھی۔ اس کے پاس تو اتنی تعلیم بھی نہیں تھی کہ وہ کوئی موزوں جاب ہی کر کے اپنی بچی پال لیتی۔ اسی لیے وہ فاخرہ کی ساری باتیں بے حد صبر کے ساتھ سن لیتی تھی۔
…***…




Loading

Read Previous

میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

Read Next

سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

3 Comments

  • I think shr could do better than this cliche story. Not impressed.

  • I think it is baou the tirm when we write stories that are not revoloving around rich guy poor girl, who is.mountain of wafa and qurbani and innocence. We should do more than that.

  • Impressive

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!