پھر شیخوپورہ واپس جانے سے پہلے اس نے نبیل سے بات کی تھی نبیل کے پاس سب کے خلاف شکایتوں کا ایک ڈھیر تھا۔ ذیشان جانتا تھا کہ یہ شکایتیں بے بنیاد نہیں ہیں مگر نبیل پر وہ اثر انداز ہو سکتا تھا۔ اس لیے اس نے اسے سمجھا بجھا کر اس کا غصہ ٹھنڈا کر دیا اور اسے اس بات پر تیار کر لیا کہ وہ بزنس سے الگ نہ ہو ہاں البتہ چاہے تو علیحدہ گھر لے لے۔ خود ذیشان کو بھی اس کے مسائل کا حل الگ گھر ہی نظر آتا تھا۔
اس جھگڑے کے بعد نبیل کی سکندر علی سے دوبارہ بات ہی نہیں ہو پائی۔ کچھ اس کے دل میں خفگی تھی کچھ سکندر علی بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ خود ان سے بات کرے مگر نبیل کو کچھ آرڈرز کے سلسلے میں امریکہ جانا تھا اور وہ اس سلسلے میں اتنا مصروف رہا کہ سکندر علی سے دوبارہ علیحدگی میں اس کی ملاقات ہی نہیں ہوئی۔
”رومیصہ! مجھے امریکہ میں تقریباً ایک ماہ لگ جائے گا۔ ویسے میں کوشش کروں گا کہ جلد از جلد اپنا کام مکمل کر کے واپس آ جاؤں۔ لیکن پھر بھی میں تین ہفتے سے پہلے واپس نہیں آ سکتا۔ تم اگر ٹھیک ہوتیں تو میں تمھیں بھی ساتھ لے جاتا۔ لیکن خیر میں وہاں سے روز فون کیا کروں گا۔”
جانے سے ایک دن پہلے وہ سامان کی پیکنگ کرتے ہوئے اسے کہہ رہا تھا۔
”نبیل! کیا جانا بہت ضروری ہے؟” اس نے پوچھا تھا۔
”ہاں بے حد ضروری ہے۔ رومیصہ! اب مجھے پہلے سے زیادہ کام کرنا ہے۔ آج یا کل مجھے اپنا بزنس شروع کرنا ہے اور اگر میرے کونٹیکٹ نہیں ہوں گے تو مجھے بہت مشکل پیش آئے گی اور ویسے بھی ابھی ہم جس گھر میں شفٹ ہوں گے وہ تو پاپا کا ہی ہے مگر ظاہر ہے پھر اپنا گھر بنوانا پڑے گا اور اس سب کے لیے بہت زیادہ روپے کی ضرورت پڑے گی اس لیے تمھیں اب تیار ہو جانا چاہیے۔ میرے اس قسم کے لمبے ٹورز کے لیے۔”
وہ بہت سنجیدگی سے اسے سمجھا رہا تھا۔
”جو فلیٹ تم نے مجھے گفٹ کیا تھا کیا ہم اس میں شفٹ نہیں ہو سکتے وہ تو ہماری ضرورت سے زیادہ ہے۔”
”رومیصہ! میں فلیٹس میں رہنے کا عادی نہیں ہوں۔ میرا دم گھٹتا ہے وہاں مجھے بڑے بڑے گھروں میں رہنے کی عادت ہے اور ویسے بھی ہم جہاں شفٹ ہو رہے ہیں وہ گھر بے کار پڑا ہوا ہے پھر اسی بلاک میں ہے۔ میں یہاں بھی آسانی سے آ جا سکوں گا۔ تقریباً ہر چیز ہے وہاں پر پھر بھی تم وہاں کا چکر لگا لینا۔ کسی چیز کی کمی ہو تو ذیشان کو بتا دینا فون کر کے، یا پھر میرے آفس میں عظیم صاحب کو فون کر دینا۔ میں چاہتا ہوں کہ واپس آنے کے فوراً بعد وہاں شفٹ ہو جاؤں۔ تم ڈاکٹر کے پاس باقاعدگی سے جاتی رہنا اور اپنا خیال رکھنا۔ اگر باہر سے کچھ منگوانا ہے تو مجھے بتا دو بلکہ لسٹ بنا دو۔”
اس کے پاس ہدایات کا ایک انبار تھا۔
”اتنی لمبی چوڑی فرمائشیں تو نہیں ہیں میری کہ لسٹ بنانی پڑے لیکن بہرحال میں تمھیں لکھ کر دوں گی تاکہ تمھیں یاد رہے۔”
”میں چاہتا ہوں تم لمبی چوڑی فرمائشیں کرو۔ مجھے بہت اچھا لگے گا اگر تم ایسا کرو گی۔”
وہ بریف کیس کھولتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ رومیصہ نے کوئی جواب نہیں دیا، وہ بس خاموشی سے نبیل کے چہرے کو دیکھنے لگی جو بریف کیس سے کچھ کاغذات نکال کر دیکھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بہت عجیب سے احساسات تھے اس کے۔ ہمیشہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھی۔ وہ اتنا خوبصورت تھا کہ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا وہ اس کے چہرے پر اپنا ہاتھ پھیر کر اس کے نقوش کو محسوس کرے اور کبھی کبھار وہ بے خیالی میں اسے دیکھتی رہتی۔ اس وقت بھی یہی ہوا تھا۔ وہ بے خیالی میں اسے دیکھے گئی تھی۔ کچھ دیر تک نبیل کو احساس نہیں ہوا مگر پھر شاید وہ جان گیا تھا کہ وہ اس پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ اس نے بریف کیس میں پیپرز رکھتے ہوئے یک دم اسے دیکھا تھا اور مسکرایا تھا۔ اور رومیصہ نے بہت تیز رفتاری سے اپنی توجہ ٹیرس پر مبذول کر لی تھی۔
اگلے دن شام کی فلائٹ سے وہ چلا گیا تھا۔ اور رومیصہ کو پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ اس کی موجودگی اس کے لیے کتنی اہم تھی۔ شادی کے بعد پہلی دفعہ وہ اس طرح اسے چھوڑ کر گیا تھا اور ساری دنیا اسے جیسے ویران لگنے لگی تھی۔ اس رات وہ جاگتی رہی تھی۔ اسے نیند ہی نہیں آئی۔
”اور ابھی صرف پہلا دن ہے۔” اس نے سوچا تھا شاید وہ اس کی کمی اس لیے محسوس کر رہی تھی کیونکہ اس گھر میں وہ واحد آدمی تھا جس سے وہ بات کر سکتی تھی۔ اس کے علاوہ کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کے پاس وہ چند منٹوں کے لیے جا کر بیٹھ سکتی۔ اگلے دن دوپہر کے قریب اس کا فون آیا تھا۔ وہ بھی اسے بہت مس کر رہا تھا۔ مگر اس وقت رومیصہ کو اس کی آواز ہی بہت بڑی نعمت لگ رہی تھی۔
”میں تمھیں صبح کے وقت ہی فون کیا کروں گا۔ کیونکہ اس وقت یہاں رات ہوتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ جب پاکستان میں رات ہوا کرے تو تم بس سو جایا کرو۔ کسی قسم کے انتظار کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے تمھیں۔ اس لیے میں کبھی تمھیں رات کو فون نہیں کروں گا۔”
اس نے رومیصہ سے کہا تھا اور پھر یہی ہوا تھا وہ صبح دس گیارہ بجے کے قریب فون کیا کرتا تھا اور کافی دیر تک باتیں کرتا تھا۔
دن آہستہ آہستہ گزر رہے تھے اور وہ بے چینی سے اس کی واپسی کی منتظر تھی۔
…***…
اس رات اس کی آنکھ بہت عجیب سا شور سن کر کھلی تھی۔ کچھ دیر تک وہ بیڈ پر لیٹی آنکھیں کھولے اس شور کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے نیچے کوئی زور زور سے دروازہ بجا رہا تھا پھر کسی کی چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔ پہلے شور کم تھا پھر زیادہ ہو گیا پھر کوئی بھاگتے ہوئے اس کے کمرے کے دروازے کے سامنے سے گزرا تھا اور تھوڑی دیر بعد دروازہ بجانے کی آواز آنے لگی تھی، مگر اس بار یہ آواز دوسری منزل پر تھی۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ٹیبل لیمپ جلا کر اس نے وقت دیکھا تھا رات کے دو بج رہے تھے۔ وہ تیزی سے بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر پہلے تک جن چیخوں کی آوازیں بے حد مدھم ہو کر اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔ اب وہ بالکل صاف ہو گئی تھیں۔ پتا نہیں کیا بات تھی مگر ممی نیچے ہال میں بہت بلند آواز سے چیخیں مار رہی تھیں۔ اس نے ریلنگ کو پکڑ کر نیچے جھانکا نیچے ہال میں سب ہی تھے۔ مگر کوئی بھی ممی کو چپ کروانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔
اس کا چھوٹا دیور ولید خود بھی ممی کے ساتھ لپٹا ہوا دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پائی۔ بہت تیزی سے وہ سیڑھیوں کی طرف آئی تھی۔ سیڑھیاں اتر کر نیچے آنے کے بعد وہ ٹھٹھک کر رک گئی تھی۔
”کیا ہوا ہے؟” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تھا۔ سب نے اسے دیکھا تھا اور اس نے فراز کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور چہرہ ستا ہوا تھا۔
”بھابھی! نبیل بھائی کی ڈیتھ ہو گئی۔” وہ جملہ مکمل کرتے کرتے رونے لگا تھا وہ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھتی رہ گئی۔
”نبیل کی…” اپنی آواز اسے کھائی سے آتی ہوئی لگی تھی۔ وہ صرف دو لفظ ہی کہہ سکی جو باقی رہ گیا تھا۔ اسے کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی وہ حقیقت تھا۔
بالکل کسی مجسمے کی طرح وہ کھڑی ہال میں سب کو روتے چلاتے دیکھ رہی تھی۔ سن رہی تھی مگر اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ ایسا ہو کیسے سکتا ہے۔ابھی صبح ہی تو وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ اس کی مصروفیات بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ وہ جلدی واپس نہیں آئے گا اسے دیر ہو جائے گی، شاید ان سب کو کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے یا پھر شاید میں کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہی ہوں۔ آج کل مجھے خواب بھی تو برے ہی آ رہے ہیں۔ ہاں یہ کوئی خواب ہی ہے، جب میری آنکھ کھلے گی تو صبح ہو چکی ہوگی۔ سب کچھ پہلے جیسا ہوگا۔ یہ ساری آوازیں، سارا شور ساری چیخیں ختم ہو جائیں گی کچھ بھی نہیں ہوگا۔
لوگوں کو ان کے دل جو فریب دیتے ہیں۔ وہ اسے اس کا دماغ دے رہا تھا۔ اشعر فون پر لوگوں کو اس کے مرنے کی اطلاع دے رہا تھا۔ اس نے سنا تھا کئی بار اس کی زبان سے سنا تھا۔
”نبیل مر گیا ہے۔”
”ایکسیڈنٹ میں نبیل کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔”
بہت آہستہ آہستہ یہ منظر دھندلانا شروع ہو گیا تھا۔ جسے دماغ قبول نہیں کر رہا تھا اسے دل نے قبول کرنا شروع کر دیا تھا۔ منظر صرف چند لمحوں کے لیے دھند لایا تھا جب آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہوا تو وہ پہلے سے بھی زیادہ کلیئر زیادہ بدصورت ہو کر سامنے آ گیا تھا۔ اس کی طرف کوئی متوجہ نہیں تھا۔ ایک قدم پیچھے ہٹ کر اس نے دیوار سے ٹیک لگا لی۔ کسی نے ہال کا بیرونی دروازہ کھول دیا تھا۔
”اللہ میرے ساتھ یہ کیسے کر سکتا ہے؟ مجھے پاتال میں کیسے پھینک سکتا ہے؟” وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ سوچ رہی تھی۔
”میں جلدی واپس نہیں آؤں گا۔” ابھی صبح ہی تو اس نے کہا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
”پتا نہیں لوگ مجھے چھوڑ کر کیوں چلے جاتے ہیں۔ مجھ پر رحم کیوں نہیں کھاتے؟” وہ فرش پر بیٹھ گئی۔
”یار! بعض دفعہ میرا دل چاہتا ہے، میں ہمیشہ کے لیے چپ ہو جاؤں بلکہ سب چپ ہو جائیں اگر کوئی بات کرے تو صرف تم۔ کسی کی آواز آئے تو صرف تمہاری۔ میری نہیں کسی کی بھی نہیں۔” کوئی اس کے کانوں میں سرگوشی کر رہا تھا۔
”تو اب تم کبھی مجھے نظر نہیں آؤ گے میں چاہوں گی تو بھی تمھیں چھو نہیں پاؤں گی۔” آنسوؤں کی رفتار میں بے حد اضافہ ہو گیا تھا۔
”رومی! آج سے تیس سال بعد جب ہم بوڑھے ہو جائیں گے تو ایسا کریں گے کسی سنسان سی جگہ پر اپنا گھر بنائیں گے کہیں پہاڑوں کے درمیان یا کہیں کسی جزیرے میں جہاں ہمارے علاوہ کوئی نہ ہو۔ کتنا رومانٹک لگتا ہے یہ سب۔ ہے نا۔ زندگی، تنہائی، خوبصورتی اور ہم۔ مگر ابھی اس خواب کو پورا ہونے میں تیس سال لگیں گے۔”
”تیس سال، تیس سال” وہ گھٹنوں میں سر دے کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ ”پتا ہے رومی! میرا دل چاہتا ہے میں اپنے بچے کو بہت وقت دوں روز کچھ گھنٹے اس کے ساتھ ضرور گزاروں۔ اس کے ساتھ ہر موضوع پر بات کروں۔ کھیل سے لے کر اسٹڈیز تک ہر چیز پر۔ بزنس اہم ہونا چاہیے مگر سب سے اہم گھر ہونا چاہیے۔ بچے ہونے چاہئیں۔ میں اپنے باپ کی طرح دن رات بزنس میں مصروف نہیں رہنا چاہتا۔ اتنا مصروف نہیں رہنا چاہتا کہ میرا بچہ میری شکل بھی بھول جائے اور تمھیں میری تصویر دیکھا کر اسے بتانا پڑے کہ یہ تمہارا باپ ہے۔”
پتا نہیں اسے کیا کیا یاد آ رہا تھا۔ یادیں جیسے خنجر بن کر اس پر وار کر رہی تھیں۔ وہ کتنے گھنٹے سر گھٹنوں میں چھپائے روتی رہی تھی۔
چار ماہ پہلے اسے لگا تھا جیسے کسی نے اس کی راہ کے سارے کانٹے چن لیے تھے۔ جیسے اس کے نصیب کی بدبختی ختم ہو گئی تھی۔ چار ماہ بعد وہ پھر وہیں کھڑی تھی۔ سب کچھ پہلے سے بھی بدتر تھا۔ پہلے زندگی میں کوئی نبیل سکندر نہیں تھا۔ زندگی مشکل تھی۔ وہ اب بھی نہیں تھا زندگی کیا رہ گئی تھی۔
…***…
جس دن اس نے رومیصہ سے بات کی تھی بات کرنے کے دس گھنٹے بعد وہ ایک کار کریش میں مارا گیا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے دو دوست بھی تھے مگر وہ دونوں محفوظ رہے تھے۔ انھیں صرف معمولی چوٹیں آئی تھیں مگر نبیل سکندر کے دماغ کے اندرونی حصہ پر چوٹ آئی تھی اور وہ فوری طور پر جاں بحق ہو گیا تھا۔ چار دن بعد اس کی لاش پاکستان لائی گئی تھی اور اسے دفن کر دیا گیا تھا۔ وہ اکیلا دفن نہیں ہوا تھا۔ اس کے ساتھ رومیصہ کے خواب، خواہشیں اور آرزوئیں بھی دفن ہو گئی تھیں سب کچھ پہلے کی طرح بکھر کر رہ گیا تھا۔ جب تک نبیل سکندر زندہ تھا تب تک سکندر علی کو رومیصہ کی پروا نہیں تھی مگر اس کی موت کے بعد وہ یک دم بدل گئے تھے۔ وہ روز دو تین بار رومیصہ کے پاس آتے، اسے تسلی دیتے اسے کھانا کھانے کی ہدایت کرتے۔ نبیل جانے سے پہلے ان سے لڑ کر گیا تھا اور وہ ان پر جتنی بے یقینی ظاہر کر کے گیا تھا۔ وہ شاید نادانستہ طور پر اسے غلط ثابت کرنا چاہتے تھے۔ بے شمار پچھتاوے تھے جو انھیں اپنے رویے کے بارے میں تھے۔ نبیل کی کہی گئی ایک ایک بات، ایک ایک جملہ جیسے ان کے دل میں کانٹے کی طرح گڑ کر رہ گیا تھا۔ اگر وہ یہ جانتے کہ اب وہ اسے دوبارہ کبھی زندہ نہیں دیکھیں گے تو شاید اس سے معافی مانگ لیتے۔ اپنے رویے کی معذرت کر لیتے۔ ایک بار اسے گلے لگاتے۔ اس کا ماتھا چومتے پھر شاید یہ کسک، یہ پچھتاوے اتنے تکلیف دہ نہ ہوتے بلکہ شاید ہوتے ہی نا۔ مگر سب کچھ ایسے ہی ہونا تھا۔ ان کے پچھتاوے نبیل کو واپس نہیں لا سکتے تھے۔ مگر کم از کم انھوں نے اس کی بیوی اور ہونے والے بچے کو تحفظ ضرور دے دیا تھا۔
دن آہستہ آہستہ گزر رہے تھے۔ سب کچھ معمول پر آتا جا رہا تھا۔ سب لوگ نارمل ہوتے جا رہے تھے۔ اگر کسی کے لیے نارمل ہونا مشکل تھا تو وہ رومیصہ تھی۔ چار ماہ میں نبیل سکندر نے اسے اتنا چاہا تھا کہ اب اس کے بغیر رہنا اسے یوں لگ رہا تھا۔ جیسے کسی نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہو، اور اسے اندھی بن کر زندگی گزارنا پڑ رہا ہو۔ نبیل کے چالیسویں کے ایک ہفتہ کے بعد ممی اس کے پاس آئی تھیں اور بڑے کھردرے انداز میں انھوں نے اس سے کہا تھا۔
”مجھے نبیل کی درازوں کی چابیاں چاہئیں۔” وہ ان سے اس جملے کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ نبیل کی موت سے لے کر اس دن تک انھوں نے اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ نہ اس سے بات کی تھی اور اب وہ درازوں کی چابیاں لینے آ گئی تھیں۔ وہ خاموشی سے ڈریسنگ روم میں چلی آئی۔ ممی اس کے پیچھے ہی آ گئی تھیں۔ چابیاں ان کے ہاتھ میں تھمانے کے بعد وہ ڈریسنگ روم کے دروازے میں کھڑی ہو گئی۔ انھوں نے نبیل کی درازیں کھولنا شروع کر دی تھیں۔ ایک دراز انھوں نے باہر نکال لی تھی۔ اور باقی درازوں سے وہ نبیل کے کاغذات، کریڈٹ کارڈز، چیک بکس اور کرنسی سمیٹ کر اس دراز میں ڈالنے لگیں۔ ایک ایک کر کے انھوں نے نبیل کی ساری درازیں خالی کر دی تھیں۔ وہ دراز بھر گئی تو انھوں نے ایک اور دراز نکال لی پھر انھوں نے رومیصہ کی درازوں کی چابیاں مانگی تھیں۔ اسی خاموشی سے اس نے وہ بھی انھیں تھما دی تھیں۔ انھوں نے پہلے اس کی الماری کھولی تھی اور زیورات کے تمام ڈبے خالی کر دیے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے حق مہر میں دیے گئے فلیٹ کے کاغذات بھی دراز میں ڈال لیے تھے۔ اس کے پاس ڈیڑھ دو لاکھ کی رقم بھی جو پچھلے چار ماہ میں وقتاً فوقتاً نبیل اس کی دراز میں رکھتا رہا تھا ممی نے وہ سارے روپے نکال لیے تھے۔ پھر انھوں نے اس کی چیک بک اور ایک پین اسے تھما دیا تھا۔
”ایک چیک پر دستخط کر دو۔” وہی کھردری آواز پھر گونجی تھی۔ اس نے کسی معمول کی طرح سائن کر دیے تھے۔ دراز خالی کرنے کے بعد ممی نے ڈریسنگ ٹیبل کی درازیں کھولنا شروع کی تھیں اور وہاں موجود وہ جیولری بھی نکال لی تھی جو وہ گھر میں عام طور پر پہنتی تھی مگر نبیل کے مرنے کے بعد اس نے اتار دی تھی۔ سب چیزیں اکٹھی کرنے کے بعد انھوں نے ملازمہ کو بلوایا تھا اور وہ دراز اٹھا کر لے گئی تھی۔ وہ بے حد خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔ چار ماہ پہلے اس کمرے میں آ کر اس نے سوچا تھا کہ وہ ایک ایسے خواب میں داخل ہو گئی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔
وقت سے کون کہے یا ر ذرا آہستہ
گر نہیں وصل تو یہ خواب رفاقت
ہی ذرا دیر رہے
وقفہ خواب کے پابند ہیں
جب تک ہم ہیں
یہ جو ٹوٹا تو بکھر جائیں گے سارے منظر
تیرگی زار کو سورج ہے فنا کی تعلیم
ہست اور نیست کے مابین اگر
خواب کا پل نہ رہے
کچھ نہ رہے
وقت سے کون کہے
یار ذرا آہستہ
اور پانچ ماہ بعد اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی صحرا میں ہے جہاں دور دور تک کوئی ایسا نہیں ہے جس کی آنکھوں میں اس کے لیے رحم ہو۔
”ان چیزوں کا کیا ہے۔ نبیل بھی تو چلا گیا ہے پھر یہ تو بے جان چیزیں ہیں۔” وہ خود کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی مگر سمجھانا آسان نہیں تھا۔ اسے روپے کی پروا نہیں تھی۔اسے سو تولے زیور کی بھی فکر نہیں تھی۔ جو اس نے شادی پر خریدا تھا۔ مگر وہ انگوٹھی جو نبیل نے اسے شادی سے پہلے پہنائی تھی شادی پر منہ دکھائی میں دیا جانے والا ڈائمنڈ کا سیٹ اور وہ چھوٹی موٹی جیولری جو شادی کے بعد مختلف موقعوں پر نبیل نے اسے دی تھی۔ وہ سب اسے رلا رہی تھیں۔ اس ایک شخص کے نہ ہونے سے کتنا کچھ بدل گیا ہے۔ یہ اسے آہستہ آہستہ سمجھ میں آ رہا تھا۔ مگر یہ تو صرف ابتدا تھی۔
اگلے روز سہ پہر کو ممی نے اسے نیچے بلوایا تھا۔ سیڑھیاں اترتے ہی اس نے ایک صوفہ پر بیٹھی ہوئی خالہ کو دیکھا تھا۔ دوسرے صوفہ پر تنے ہوئے چہرے کے ساتھ اس نے ممی کو بیٹھے دیکھا تھا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ وہ خالہ کے قریب آئی تھی۔ اس نے ابھی خالہ کو سلام کیا ہی تھا کہ ممی نے کہا۔
”میں نے تمہاری خالہ کو اس لیے بلایا ہے کہ وہ تمھیں لے جائیں۔ تم جاؤ اور اپنا سامان پیک کر لو۔”
اسے لگا تھا کسی نے اس کے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی تھی وہ شاک کے عالم میں ممی کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔ جن کی آنکھوں میں بے پناہ سرد مہری تھی۔ ”میرا منہ مت دیکھو، جاؤ۔” بے حد سخت لہجے میں اس سے کہا گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی جس لمحے سے وہ خوفزدہ تھی وہ آ گیا تھا۔
”ممی پلیز، مجھے اس گھر سے نہ نکالیں۔” خود پر ضبط کرتے ہوئے کپکپاتی آواز میں اس نے کہا تھا۔
ممی اٹھ کر کھڑی ہوئی تھیں ”مجھے ممی مت کہو۔ تمہارا اور میرا اتنا رشتہ بھی نہیں ہے جتنا اس گھر میں کام کرنے والے نوکروں کا میرے ساتھ ہے۔ تمھیں جو لایا تھا جب وہی نہیں رہا تو پھر تمہارا یہاں کیا کام؟” ان کا لہجہ تلخ تھا۔
”ٹھیک ہے۔ نبیل زندہ نہیں رہا اور آپ کا میرے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے مگر نبیل کے بچے کے ساتھ…”
ممی نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔ ”نبیل کا کوئی بچہ نہیں ہے اور کسی ہونے والے بچے سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے تم مجھے رشتے یاد دلانے کی کوشش نہ کرو۔ ہماری فیملی کو ایسے بچوں کی ضرورت نہیں ہے۔”
وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلی گئی تھیں۔ وہ بے بسی کے عالم میں انھیں جاتا دیکھتی رہی۔ ”تمھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اوپر جاؤ اور اپنی ساری چیزیں لے آؤ، کچھ چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
خالہ نے اسے تسلی دی تھی اور اس نے تشکر آمیز نظروں سے انھیں دیکھا تھا پھر وہ اوپر چلی آئی تھی۔ اس کے پاس اتنے کپڑے اور دوسرے لوازمات تھے کہ ان سب کو لے جانے کے لیے کم از کم ایک درجن بیگز کی ضرورت تھی۔ لیکن اسے ان چیزوں کو لے جانے کی خواہش نہیں تھی، ان سب چیزوں کی ضرورت اسے نبیل کی زندگی میں تھی۔ اب اسے کس کے لیے بناؤ سنگھار کرنا تھا۔ برستی آنکھوں کے ساتھ ایک بیگ میں اس نے اپنے چند سادہ جوڑے اور دوسری چیزیں رکھیں اور ایک آخری نظر اس کمرے پر ڈال کر باہر نکل آئی۔ خالہ نے اسے ایک بیگ کے ساتھ آتے دیکھ کر اعتراض کیا تھا۔
”خالہ! میرے پاس اور کوئی بیگ نہیں ہے جس میں میں باقی کپڑے لے آؤں اور اگر میں ممی سے بیگ مانگوں گی تو وہ کبھی نہیں دیں گی۔ اس لیے جھگڑا کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔” خالہ نے کچھ پس و پیش کی تھی مگر پھر بادل نخواستہ وہ چل پڑی تھیں۔
پچھلے کئی سالوں سے وہ خالہ کے گھر رہتی رہی تھی وہ گھر اس کے لیے اجنبی نہیں تھا۔ مگر اس بار وہاں جاتے ہوئے اسے جتنا برا لگا تھا کبھی پہلے نہیں لگا۔ گھر آنے کے بعد خالہ کافی دیر تک اس کے سسرال والوں کے خلاف بولتی رہی تھیں پھر انھوں نے اس سے کہا تھا۔
”رومیصہ! تم اپنا زیور اور فلیٹ کی رجسٹری مجھے دے دینا میں کل صبح بینک میں رکھوا دوں گی۔ تمھیں پتا ہے آج کل زمانہ کتنا خراب ہے۔”
”خالہ! میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سب چیزیں ممی نے کل لے لی تھیں۔”
اس نے دھیمے لہجے میں ان سے کہا تھا اور چند لمحوں میں خالہ کا ہمدردانہ رویہ بدل چکا تھا۔ وہ یک دم طیش میں آ گئی تھیں اور جو ان کے منہ میں آیا انھوں نے اسے کہہ ڈالا۔ وہ سر جھکائے سب کچھ سنتی رہی، اس کے علاوہ اور کیا کر سکتی تھی۔ لیکن بہرحال یہ اندازہ اسے ہو گیا تھا کہ خالہ اسے نہیں لائی تھیں۔ اپنے زعم میں سونے کی چڑیا لے کر آئی تھیں۔
…***…
3 Comments
I think shr could do better than this cliche story. Not impressed.
I think it is baou the tirm when we write stories that are not revoloving around rich guy poor girl, who is.mountain of wafa and qurbani and innocence. We should do more than that.
Impressive