شادی کے تیسرے دن وہ دونوں ہنی مون کے لیے امریکہ آ گئے تھے۔ اور فلائٹ کے دوران یہ سوچ کر اسے ہنسی آ گئی تھی کہ کچھ دن پہلے تک وہ بے حد بے تابی سے اس کے باہر جانے کا انتظار کر رہی تھی، مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ اس بار جب وہ باہر جائے گا تو وہ بھی اس کے ساتھ ہوگی۔ ایک ماہ تک وہ دونوں باہر رہے تھے اور صرف رومیصہ کے لیے ہی نہیں نبیل سکندر کے لیے بھی یہ اس کی زندگی کے سب سے خوبصورت دن تھے۔ اس کا دل چاہتا تھا وہ دنیا کی ہر چیز اسے خرید کر دے دے۔ اس کا جی چاہتا تھا زندگی بس ایسے ہی گزرے۔ ہر مصروفیت ہر کام ختم ہو جائے اگر کچھ باقی رہے تو صرف رومیصہ۔
ایک ماہ بعد وہ واپس آئے تھے اور اس ایک ماہ میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ وہ نبیل کے بارے میں بہت کچھ جان چکی تھی۔ اس کی پسند، ناپسند تقریباً ہر چیز ہی اس کے علم میں آ چکی تھی۔ وہ اس کے معاملے میں کتنا پوزیسو تھا۔ وہ یہ بھی جان چکی تھی اور جتنا وہ اس کے بارے میں جان رہی تھی اتنا ہی وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو رہی تھی۔
امریکہ سے واپس آنے کے دوسرے دن شام کے وقت اس نے اپنے بیگ کھولے تھے اور جو تحفے نبیل کے گھر والوں کے لیے لائی تھی وہ نکالے تھے۔ نبیل اس وقت گھر پر نہیں تھا۔ وہ اس کی امی کے لیے خریدی گئی گھڑی اور پرفیوم لے کر نیچے آ گئی تھی۔ بہت جھجکتے ہوئے وہ دروازہ کھٹکھٹا کر ان کے کمرے میں داخل ہوئی۔ نبیل کی ممی اس وقت ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی کہیں جانے کے لیے تیار ہو رہی تھیں۔ اسے دیکھ کر بلش آن لگاتے ہوئے ان کے ہاتھ رک گئے تھے۔ بہت بے تاثر چہرے کے ساتھ انھوں نے اس کے آنے کا مقصد پوچھا تھا۔
”ممی! ہم لوگوں نے آپ کے لیے کچھ گفٹس لیے ہیں۔ میں وہی دینے آئی ہوں۔” ممی کے تاثرات اس کی بات پر کچھ اور بگڑ گئے تھے۔
”کیا گفٹ لائی ہو؟”
”یہ کچھ پرفیومز اور ایک گھڑی آپ کے لیے۔” وہ چلتے ہوئے ان کے پاس آ گئی تھی۔ نبیل کی ممی نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے برش سے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے ہوئے پرفیومز کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا تھا۔
”کیا ان سے زیادہ اچھے اور مہنگے پرفیوم لائی ہو؟” ان کے لہجے میں بے حد حقارت تھی۔
”میرے پاس اتنی زیادہ اور اتنی مہنگی گھڑیاں ہیں جو تم نے زندگی میں کبھی دیکھی بھی نہیں ہوں گی۔”
وہ کچھ بول ہی نہیں سکی۔
”ان چیزوں کو تم گھر کے کسی ملازم کو دے دو یا اپنے گھر بھجوا دو۔ مجھے ضرورت نہیں ہے۔ اب جاؤ۔”
وہ دوبارہ چہرے پر بلش آن لگانے میں مصروف ہو گئی تھیں۔ وہ جس طرح گئی تھی۔ اسی طرح واپس آ گئی۔
اور پھر وہ نبیل کی بھابھیوں کو تحفے دینے گئی تھی۔ انھوں نے تحفے تو رکھ لیے تھے مگر اس طرح جیسے ایسا کر کے وہ اس پر بڑا احسان کر رہی ہیں۔ وہ بے حد دل گرفتہ ہوئی تھی۔ یہ جاننا کہ کوئی آپ کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات رکھتا ہے اور کسی کے منہ سے اس ناپسندیدگی کا اظہار بے حد تکلیف دہ ہوتا ہے۔ پچھلے ایک ماہ سے اس نے نبیل کے منہ سے اپنے لیے اتنے خوبصورت لفظ سنے تھے کہ اب یہ چند ناخوشگوار جملے اسے بے حد چبھے تھے۔
مگر یہ صرف ابتداء تھی۔ اسے ابھی بہت کچھ برداشت کرنا تھا۔ نبیل واپس آ کر اپنے بزنس میں مصروف ہو چکا تھا اور وہ سارا دن گھر میں اکیلی ہوتی تھی پھر بہت جلد فاخرہ نے اسے گھر میں اس کی اوقات یاد دلانی شروع کر دی تھی۔ انھوں نے اس سے کہا تھا کہ وہ نوکروں کی نگرانی کیا کرے۔ اس کے لیے یہ کام تکلیف دہ نہیں تھا۔ صرف وہ لہجہ تکلیف دہ تھا جس میں اسے یہ حکم دیا گیا تھا اور اس نے بغیر کسی احتجاج کے اس حکم پر سر جھکا دیا تھا اس کا خیال تھا کہ یہ کام مشکل نہیں ہے مگر یہ کام ہاتھ میں لینے کے بعد اسے احساس ہوا کہ سب کچھ اتنا آسان نہیں تھا۔
سکندرولا میں دو تین آدمی نہیں رہتے تھے جو سب کچھ بہت آرام سے ہو جاتا۔ وہاں اس سمیت سولہ لوگ تھے۔ نبیل کے بڑے دونوں بھائیوں کے بچے تھے۔ ان کی بیویاں تھیں اور ان کی ذمہ داریاں تھیں۔ نبیل کی ممی نے اپنی دونوں بڑی بہوؤں سے کبھی ایسی کوئی ذمہ داری نبھانے کو نہیں کہا تھا۔ وجہ صاف ظاہر تھی نہ تو ان کی بہوؤں نے پہلے ایسے کام کیے تھے اورنہ ہی وہ اب کرتیں اور انھیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ہاں رومیصہ کا جہاں تک تعلق تھا تو فاخرہ کو اسے ناخوش رکھنے کا جو واحد طریقہ ذہن میں آیا وہ کام تھا۔
جب رومیصہ نے اپنی نگرانی میں کام کروانے شروع کیے تو جیسے ایک پینڈورا بکس تھا جو کھل گیا تھا۔ اسے صبح جلدی اٹھنا پڑتا تھا کیونکہ اس وقت اس وسیع و عریض گھر کے مختلف حصوں کی صفائی کی جاتی تھی پھر جب وہ صفائی کروا کر فارغ ہوتی تو تب تک نبیل کے بڑے بھائی کے بچے اسکول جانے کے لیے تیار کروانے ہوتے تھے۔ اس کے آنے سے پہلے یہ کام ایک نوکرانی کیا کرتی تھی کیونکہ ستارہ صبح دیر سے اٹھتی تھی اور بچوں کو تیار کروانے اور اسکول بھیجنے کا کام اس نے ملازمہ کے سپرد کر رکھا تھا۔ لیکن پھر یہ کام نبیل کی ممی نے رومیصہ کے سپرد کر دیا تھا اور وہ انھیں تیار کروا کر اسکول بھیجتی اور اس کے بعد گھر کے مختلف افراد کے لیے ناشتے کی مختلف چیزوں کی تیاری کا کام شروع ہو جاتا۔ کچن میں ایک باورچی اور اس کی مدد کے لیے ایک ملازم بھی تھا لیکن گھر کے تمام افراد کے جاگنے کے اوقات مختلف تھے اور ہر ایک کا ناشتے کا مینو بھی مختلف تھا۔
نبیل مردوں میں سب سے لیٹ اٹھتا تھا۔ اس کے آفس جانے کے بعد تھوڑے تھوڑے وقفے سے ممی، ستارہ اور عالیہ اٹھتی تھیں اور ناشتہ کیا کرتی تھیں اور ناشتے کا یہ سلسلہ گیارہ بجے تک رہتا تھا پھر اس وقت تک دوپہر کے کھانے کی تیاری بھی شروع کر دی جاتی کیونکہ بچے اسکول سے آنے والے ہوتے تھے۔ گھر کے آدمی تو لنچ باہر ہی کرتے تھے اور ممی اور نبیل کی بھابھیاں بھی بہت ہلکا پھلکا لنچ کرتی تھیں۔ سو لنچ کا کام ذرا جلدی ختم ہو جاتا تھا۔ پھر ملازمہ بیڈ رومز کو صاف کیا کرتی تھی اور وہ اسے ہدایات دینے میں مصروف رہتی تھی۔ گھر کے افراد کے کپڑے تقریباً روز دھلتے اور پریس ہوتے تھے اور سہ پہر کا وقت اس کام میں گزر جاتا تھا۔
پھر رات کے کھانے کی تیاری شروع ہو جاتی تھی اور رات کا کھانا بہت سے لوازمات پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس لیے نہ صرف اس کی تیاری میں زیادہ وقت لگتا تھا بلکہ بعد میں کچن صاف کروانے اور برتن دھلوانے میں بھی بہت وقت لگ جاتا تھا۔ ممی کا حکم تھا کہ رات کو جب تک ملازم کچن صاف کر کے نہ چلے جائیں وہ نیچے ہی رہے اور کاموں سے فارغ ہوتے ہوتے اسے گیارہ بارہ بج جاتے تھے۔
نبیل کو اس کی ان طویل مصروفیات کا علم نہیں تھا۔ ہنی مون سے واپس آنے کے بعد وہ دس پندرہ دن آفس کے کاموں میں بہت مصروف رہا اور اکثر خود بھی رات کو دیر سے آتا رہا لیکن پھر بہت جلد اس نے رومیصہ کی مصروفیات کا اندازہ لگا لیا تھا۔
”تم اتنی دیر تک نیچے کیا کرتی رہتی ہو؟” اس دن وہ رات کو کمرے میں داخل ہوئی تھی تو اس نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا۔
”تھوڑا کام تھا۔”
”روز کام ہوتا ہے تمھیں؟” وہ کافی سنجیدہ تھا۔
”کیا کام کرتی ہو؟”
”وہ کچن میں تھوڑا کام ہوتا ہے۔”
”کیوں ملازم نہیں ہیں وہاں؟”
”نہیں۔ میں خود تھوڑا کرتی ہوں۔ وہی کرتے ہیں میں تو بس ذرا اپنے سامنے کام کرواتی ہوں تاکہ سب کچھ ٹھیک سے ہو جائے۔” وہ بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔
”یہ تمہاری ذمہ داری نہیں ہے کہ ان کی نگرانی کرتی پھرو۔ تم کوئی ہاؤس کیپر نہیں ہو۔ میں آئندہ تمھیں یہ سب کرتے نہ دیکھوں۔”
اس نے تنبیہی انداز میں اسے کہا تھا۔
”لیکن ممی نے مجھ سے کہا ہے میں یہ کرواؤں۔”
وہ اس کی بات پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ ”کیا ممی نے یہ سب کرنے کو کہا تھا؟” وہ بے حد حیران تھا۔
”ہاں۔” نبیل نے اس کے جواب پر بے اختیار ہونٹ بھینچے تھے۔
”تم کل سے کوئی کام نہیں کرو گی۔ ممی سے میں خود بات کر لوں گا۔”
”نبیل! یہ کوئی برا کام تو نہیں ہے، اپنے گھر کا کام…”
وہ اسے سمجھانا چاہتی تھی لیکن وہ یک دم بھڑک اٹھا تھا۔
”میں نے تمھیں لیکچر دینے کے لیے نہیں کہا۔ برا کام ہے یا اچھا کام ہے۔ تمھیں یہ کام نہیں کرنا۔ اور میں یہ بات دہراؤں گا نہیں۔”
رومیصہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ کچھ کہہ پاتی وہ تو اس کے بدلتے ہوئے تیوروں پر حیران ہو گئی تھی۔ نبیل نے اس طرح تو کبھی بات نہیں کی تھی۔ جھڑکنا تو دور کی بات وہ کبھی اس سے ناراض بھی نہیں ہوا تھا اور اب وہ اتنے خراب موڈ میں تھا کہ اسے اس سے خوف آنے لگا تھا۔ وہ لائٹ بجھا کر لیٹ گیا تھا اور وہ کتنی ہی دیر تاریکی میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتی رہی مگر وہ تو جیسے یک دم اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔
اسے اندازہ نہیں تھا کہ ایک چھوٹی سی بات اتنی بڑھ جائے گی۔ اگلے دن نبیل نے پتا نہیں کس انداز میں ممی سے بات کی تھی مگر اس کا ردعمل یہ ہوا کہ ممی نے رات کے کھانے کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ نبیل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا مگر وہ بے حد شرمندہ تھی۔
اس کے ساتھ نبیل کا رویہ پہلے سے بھی زیادہ خوشگوار تھا۔ وہ رات کے کھانے کے بعد اسے سیر کرانے باہر لے گیا تھا۔ کافی دنوں بعد وہ اسے گھمانے کے لیے لے کر گیا تھا شاید یہ پچھلی رات کو ہونے والی تلخی کی تلافی تھی یا پھر شاید وہ ممی کے رویے کی تلافی کر رہا تھا۔ وجہ جو بھی تھی وہ اس کے ساتھ باہر وقت گزار کر کچھ پرُسکون ضرور ہو گئی تھی۔
…***…
پھر ان ہی دنوں اسے پتا چلا تھا کہ وہ ماں بننے والی تھی۔ زندگی میں یک دم جیسے ایک نیا موڑ آ گیا تھا۔ وہ تو یقینا خوش تھی ہی لیکن نبیل تو جیسے ساتویں آسمان پر تھا۔ پتا نہیں وہ اپنے بچے کے لیے کیا کیا پلاننگ کرتا رہتا تھا اس کی خواہش تھی کہ اس کے ہاں بیٹی ہو۔
”یار! ہمارے گھر میں اتنے مرد ہیں کہ گھر کی ساری خوبصورتی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ بس اشعر بھائی کی ایک بیٹی ہے اور تم نے دیکھا ہے سب لوگ ان کے بیٹوں کو چھوڑ کر مونا کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ میرا دل بھی یہی چاہتا ہے کہ میرے ہاں بھی ایک بیٹی ضرور ہو۔ بہت کیوٹ سی Tender and delicate بالکل تمہاری طرح۔” وہ اسے اکثر کہتا رہتا تھا۔
”اور اگر وہ پیاری نہ ہوئی تو۔” وہ کبھی کبھار کہتی اور وہ ٹھنڈی سانس بھرتا۔
”پھر کیا ہو سکتا ہے۔ مجبوری ہے اپنی اولاد ہوگی، اسے پھینک تو نہیں سکتے، چلو خیر کم از کم بیٹی تو ہوگی نا۔”
”بیٹیاں بہت مسائل پیدا کر دیتی ہیں۔ کبھی تم نے یہ سوچا ہے؟” وہ بڑی سنجیدگی سے کہتی۔
”رومیصہ پرابلمز ان کے لیے ہوتے ہوں گے جن کے پاس روپیہ نہیں ہوتا۔ میرے پاس بہت روپیہ ہے ایک کے بجائے سات بیٹیاں بھی ہوں تو مجھے کوئی فکر نہیں ہوگی۔ اس لیے تم یہ سو سال پرانے خیالات اپنے دماغ سے نکال دو۔”
وہ بڑی لاپروائی سے کہتا جاتا اور وہ اسے دیکھتی رہ جاتی۔
…***…
اس دن خالہ اس سے ملنے آئی تھیں۔ نوکر نے انھیں ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا تھا۔ اور پھر اسے اطلاع کی تھی۔ اسے نیچے آنے میں چند منٹ لگ گئے تھے اور جب وہ نیچے آئی تھی تو ممی پہلے ہی ڈرائنگ روم میں موجود تھیں۔ ان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ خالہ سے ان کی تلخ کلامی ہو چکی تھی۔ خالہ سرخ چہرہ لیے کھڑی تھیں۔ وہ سب کچھ سمجھ گئی تھی۔
”ایک بات تم کان کھول کر سن لو، یہ گھر میں نے تھرڈ کلاس لوگوں کی آمد و رفت کے لیے نہیں بنایا ہے۔ یہاں تم کو رکھ لیا ہے اتنا کافی ہے کسی اور گندگی کی جگہ نہیں ہے، تمھیں اپنے رشتہ داروں سے ملنا ہو تو ان کے گھر جا کر ملا کرو، انھیں یہاں مت بلوایا کرو۔ جو دینا دلانا ہو وہ وہیں جا کر دے آیا کرو۔”
ممی کے منہ میں جو آیا انھوں نے کہا اور وہاں سے چلی گئیں۔ اس کی خالہ بھی بگڑے تیوروں کے ساتھ کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی گئی تھیں، اس میں اتنی ہمت باقی نہیں رہی تھی کہ وہ انھیں روک پاتی۔ وہ تو شاید یہ سب نبیل سے کبھی نہ کہتی لیکن خالہ چپ نہیں رہی تھیں۔ انھوں نے واپس جاتے ہی اسے فون پر پورا واقعہ سنا دیا تھا۔ اور وہ لنچ سے پہلے ہی اکھڑے تیوروں کے ساتھ گھر آ گیا تھا، پھر وہ سیدھا ممی کے پاس گیا تھا اور ایک ہنگامہ تھا جو وہاں برپا ہو گیا تھا۔ ممی کے جو منہ میں آیا تھا انھوں نے سنایا تھا اور وہ بھی خاموش نہیں رہا تھا۔ اس کا دل ممی کی طرف سے پہلے ہی کھٹا تھا اس واقعہ نے اس کی کدورت کو اور بڑھایا تھا۔
خوش تو ممی اس سے پہلے بھی نہیں تھیں مگر اس ایک واقعہ کے بعد جو تھوڑی بہت مروت یا لحاظ وہ دکھا دیا کرتی تھی وہ بالکل ختم ہو گیا تھا۔ وہ موقع بے موقع اس کی تذلیل کیا کرتی تھیں۔ انھیں اس کی ہر چیز پر اعتراض تھا۔ اس کے لباس سے لے کر کھانے پینے کے انداز تک وہ ہر چیز کا مذاق اڑایا کرتی تھیں اور وہ یہ سب کھلے عام کرتی تھیں۔ انھیں قطعاً پروا نہیں ہوتی تھی کہ وہ کیا محسوس کرے گی یا نبیل کیا سوچے گا۔ جہاں تک نبیل کا تعلق تھا وہ اس جھگڑے کے کچھ عرصے بعد تک تو خاموشی سے ان سب باتوں کو نظرانداز کرتا رہا۔ مگر اس کے صبر کا پیمانہ آہستہ آہستہ لبریز ہو گیا تھا۔ اس دن اس نے اپنے باپ سے بات کر لینے کا فیصلہ کر لیا تھا اور جب اس نے سکندر علی سے بات کی تو وہ بالکل شاکڈ رہ گئے تھے۔
”نبیل! تم کیا کہہ رہے ہو؟”
”میں نے جو بھی کہا ہے، بالکل ٹھیک کہا ہے۔ آپ جائیداد میں سے میرا حصہ دے دیں۔ میں الگ ہونا چاہتا ہوں۔” وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
”آخر بات کیا ہے؟ ہوا کیا ہے؟”
”کیا آپ نہیں جانتے کہ ہوا کیا ہے اور اس گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ مجھے کچھ بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں ہے۔”
”تم اپنی ممی کے ساتھ ہونے والے جھگڑے کی بات کر رہے ہو۔ اس کی وجہ سے ناراض ہو؟”
سکندر علی کو نبیل اور اپنی بیوی کے درمیان ہونے والی چپقلش یاد آ گئی تھی۔
وہ ان کی بات پر جیسے پھٹ پڑا تھا۔ ”آپ کہہ رہے ہیں ناراض ہوں۔ میں ناراض نہیں ہوں۔ میں یہ تماشا مزید برداشت نہیں کر سکتا۔”
”دیکھو نبیل! رومیصہ اور فاخرہ کے درمیان جو تلخی ہے وہ ہر ساس اور بہو کے درمیان ہوتی ہے۔ ایسی چیزیں گھروں میں ہوتی رہتی ہیں۔ ایسی معمولی بات پر کیا بندہ گھر چھوڑ دے؟”
”پاپا! جو ممی اور رومیصہ کے درمیان ہے وہ تلخی نہیں وہ رومیصہ کو ٹارچر کرتی رہتی ہیں اور نہ صرف وہی نہیں اس گھر کا ہر فرد، آپ بھائی ان کی بیویاں ہر ایک۔”
نبیل نے سکندر علی کو بھی نہیں بخشا تھا۔
”نبیل! تم غلط سوچ رہے ہو۔ تمہاری بیوی میری بیٹیوں جیسی ہے میں اسے ٹارچر کیوں کروں گا۔” انھیں بیٹے کی بات بہت بری لگی تھی۔
”آپ صرف زبان سے کہتے ہیں۔ دل سے سمجھتے نہیں۔ اگر آپ نے واقعی اسے بیٹی سمجھا ہوتا تو کیا آپ ممی کو ان کی حرکتوں سے منع نہیں کرتے۔ کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ وہ رومیصہ کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہیں۔ وہ اس کی ہر بات پر تنقید کرتی ہیں، انھیں اس کے گلاس پکڑنے کے طریقے تک پر اعتراض ہے۔ اتنی تنقید تو ویسے ہی اسے ذہنی مریض بنا دے گی۔ میں یہاں اسے اپنی بیوی بنا کر لایا تھا۔ آپ لوگوں نے اسے تماشا بنا دیا ہے اور آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ اسے بیٹی سمجھتے ہیں۔ کبھی آپ نے ممی کو سب کے سامنے اس کا مذاق اڑانے سے روکا؟ کبھی نہیں۔ میری شادی کو تین سال نہیں ہوئے صرف تین ماہ ہوئے ہیں اور آپ لوگ۔”
ذیشان کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آ گیا تھا۔ صورت حال گھمبیر تھی یہ تو وہ نبیل کے سرخ ہوتے ہوئے چہرے سے ہی جان گیا تھا۔ نبیل اور سکندر علی دونوں نے اس کی طرف دیکھا تھا۔
”شادی کی اجازت آپ نے دی تھی مجھے اور آپ کو میں نے اس کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا پھر اب ہر ایک کو بار بار یاد کیوں آنے لگا ہے کہ وہ سیکرٹری جیسی گھٹیا جاب کرتی تھی۔ اس کے کردار پر شک ہونے لگا ہے وہ میری بیوی ہے اگر مجھے اس کی کسی چیز پر اعتراض نہیں ہے تو آپ لوگوں کو کیوں ہے؟”
”کیا بات ہے نبیل! کیا ہوا ہے؟” ذیشان کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
نبیل نے سرخ چہرے کے ساتھ اسے دیکھا تھا۔ ”بیٹھ جاؤ اور تم بھی سن لو۔ میں جائیداد میں سے اپنا حصہ چاہتا ہوں۔ میں اس گھر میں رہنا نہیں چاہتا۔” اس کا لہجہ بے حد تلخ تھا۔
”نبیل؟” وہ نبیل کی بات پر حیران رہ گیا تھا۔
”نبیل! تم بہت زیادہ جذباتی ہو رہے ہو۔ تمھیں بہت زیادہ غلط فہمیاں ہو گئی ہیں یہ ٹھیک ہے کہ فاخرہ کا رویہ رومیصہ کے ساتھ مناسب نہیں ہے لیکن تم اپنی ممی کو اچھی طرح جانتے ہو انھیں دوسروں کے جذبات یا احساسات کی پروا کم ہی ہوتی ہے اور صرف رومیصہ کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہوتا۔ وہ ستارہ اور عالیہ سے بھی خوش نہیں ہیں، بس فرق یہ ہے کہ ستارہ اور عالیہ کے ساتھ فاخرہ کا سلوک قدرے بہتر ہوتا ہے اور کیوں بہتر ہوتا ہے یہ تم جانتے ہو۔ لیکن فاخرہ آخر کب تک یہ رویہ رکھے گی؟ آہستہ آہستہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
سکندر علی نے اس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی۔
”کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ میری بات یاد رکھئے گا۔ ممی رومیصہ کے لیے اپنے دل سے نفرت اور کدورت کبھی نہیں نکال سکتیں اور وہی کیوں اس گھر کے باقی سب لوگ بھی آپ بھی پاپا آپ بھی۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر آج میں مر جاؤں تو آپ لوگ تو مجھے دفن کرنے سے پہلے رومیصہ کودھکے دے کر اس گھر سے نکال دیں گے۔ آپ لوگ تو ایک بار بھی نہیں سوچیں گے کہ میں نے اس سے کتنی محبت کی تھی۔ آپ کو تو ایک لمحے کے لیے بھی ترس نہیں آئے گا۔”
”نبیل! تم کیسی فضول باتیں کرنے لگے ہو۔”
اس بار ذیشان نے پہلی بار اسے ٹوکا تھا۔ سکندر علی تو بس اس کا چہرہ دیکھے جا رہے تھے۔ انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ جس کو سب سے زیادہ چاہتے تھے وہ کبھی ان سے اس حد تک بدگمان ہو سکتا ہے۔
”میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ذیشان! میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں اور تم بھی اسی گروہ میں ہو گے۔ انہی لوگوں کا ساتھ دو گے۔” وہ آج بدگمانی کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔
”پاپا! آپ مجھے بتا دیں۔ کیا آپ مجھے جائیداد میں سے حصہ دیں گے یا نہیں اور اگر آپ نہیں دینا چاہتے تو بھی آپ مجھے بتا دیں تاکہ میں اپنے لیے کچھ کر سکوں۔” وہ اب اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
”میں تمھیں جائیداد میں سے حصہ کیوں نہیں دوں گا؟ نبیل! کیوں اس طرح کی باتیں کر رہے ہو؟” انھیں اس کی باتوں سے بے حد تکلیف پہنچ رہی تھی۔
”آپ نے مجبور کیا ہے مجھے اس طرح کی باتیں کہنے پر اور جہاں تک جائیداد میں حصہ نہ دینے کی بات ہے تو یہ ممی نے کہا ہے انھیں لگتا ہے کہ میں اور میری بیوی ان کے شوہر کی کمائی پر عیش کر رہے ہیں ان کے بقول میں کچھ نہیں کرتا۔ ساری محنت آپ اور ان کے دونوں بڑے بیٹے کرتے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ شاید آپ کا بھی یہی خیال ہو اور آپ مجھے کچھ دینا نہیں چاہتے۔” وہ کافی تلخی سے مسکرایا تھا۔
”میں نے تمھیں کہا نا۔ تمہاری ممی بے وقوف ہے۔ اسے کیا پتہ ہے کہ کون کیا کام کرتا ہے۔ میری جائیداد میں جتنا حصہ باقی سب کو ملے گا تمھیں بھی ملے گا۔ کم از کم اس معاملے میں تمھیں شبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
انھوں نے جیسے اسے یقین دہانی کروانے کی کوشش کی تھی۔ وہ کچھ دیر تک بڑی عجیب نظروں سے ان کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔
”پاپا! کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا ہے جیسے آپ…” وہ اپنی بات مکمل کیے بغیر کمرے سے چلا گیا تھا۔ کچھ دیر تک کمرے میں مکمل خاموشی رہی۔
”تم نے دیکھا ذیشان! یہ کیسی باتیں کر رہا ہے؟” چند لمحوں بعد سکندر علی نے اس خاموشی کو توڑا تھا۔
”پاپا! اگر وہ یہاں نہیں رہنا چاہتا تو آپ اسے الگ ہو جانے دیں۔ یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔” ذیشان نے بہت پرُسکون انداز میں کہا تھا۔
”تم کیا کہہ رہے ہو؟ میں خود اپنے گھر کو توڑ دوں۔” سکندر علی بے چین ہو گئے تھے۔
”رشتے ٹوٹ جانے سے بہتر ہے کہ گھر ٹوٹ جائے۔ ممی رومیصہ سے واقعی کوئی اچھا سلوک نہیں کر رہیں اور آپ جانتے ہیں کہ وہ اس کے بارے میں کتنا حساس ہے۔ وہ یہاں رہے گا تو اسی طرح غصہ میں آتا رہے گا۔ بہتر ہے آپ اسے گھر الگ کرنے دیں جہاں تک بزنس الگ کرنے کی بات ہے تو میں اسے سمجھا لوں گا۔ میرا خیال ہے وہ صرف غصہ میں یہ کہہ گیا ہے۔ غصہ ٹھنڈا ہوگا تو میں اس سے بات کروں گا۔ آپ پریشان نہ ہوں۔” ذیشان انھیں تسلی دے کر چلا گیا تھا۔
…***…
3 Comments
I think shr could do better than this cliche story. Not impressed.
I think it is baou the tirm when we write stories that are not revoloving around rich guy poor girl, who is.mountain of wafa and qurbani and innocence. We should do more than that.
Impressive