محبت صبح کا ستارہ ہے — عمیرہ احمد

وہ سوچتی تھی کہ پہلے دن آفس جا کر اسے بہت سے مسائل پیش آئیں گے، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے آفس کی گاڑی نے اسے پک کر لیا تھا اور آفس میں پہلے ہی اس کے انتظار میں عافیہ نام کی ایک لڑکی موجود تھی۔ وہ کمپیوٹر سیکشن میں کام کرتی تھی اور رومیصہ کو اس کا آفس دکھانے لے گئی تھی اور اپنا آفس دیکھ کر وہ حیران رہ گئی تھی اگرچہ وہ وزیٹرز روم بھی تھا لیکن اگر وہاں کوئی موجود نہ ہوتا وہ تو کسی بگ باس کے آفس کا منظر پیش کرتا تھا کم از کم رومیصہ کو یونہی لگا تھا۔ اسے اپنی ٹیبل پر بے پناہ رشک آیا تھا۔ جس پر ہر جدید سہولت موجود تھی۔ ایئرکنڈیشنڈ روم میں ریوالونگ چیئر پر بیٹھ کر اس نے خود کو بے حد معتبر محسوس کیا تھا۔
”تم اس آفس میں کام کرو گی نبیل سکندر صاحب کے ساتھ۔ وہ آفس میں قدرے دیر سے آتے ہیں۔ اس لیے ان کے آنے سے پہلے تم ہر روز میرے ساتھ رہا کرو گی۔ میں تمھیں کمپیوٹر اور فیکس وغیرہ کے بارے میں تھوڑا ٹرین کر دوں گی۔ ٹیلی فون ایکسچینج ہینڈل کرنا تو خیر اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے اور پھر تمہاری خوش قسمتی ہے کہ نبیل سکندر صاحب کے آفس میں کام بھی زیادہ نہیں ہے۔ ورنہ تم کسی دوسرے سیکشن یا آفس میں بغیر تجربے یا ان چیزوں کے علم کے بغیر آتیں تو تمھارے لیے بہت مشکل ہو جاتی۔ بہرحال تمھیں یہ سب سیکھنے کے لیے کافی وقت مل جائے گا۔”
عافیہ اسے بتاتی گئی تھی۔ ”نبیل سکندر تو یہ میرے باس کا نام ہے۔” اس نے سوچا تھا۔ اس دن عافیہ نے اسے صرف ٹیلی فون ایکسچینج کو ہینڈل کرنا سکھایا تھا۔ دو گھنٹے تک وہ اس کے ساتھ بیٹھی فرم کے مختلف آفسز اور فیکٹری کے مختلف حصوں سے لنک اور ڈی لنک ہونا سیکھتی رہی۔
پھر عافیہ اسے اس کے آفس میں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اپنے آفس کی تنہائی میں وہ بڑی آزادی سے ہر چیز کو دیکھتی رہی۔ یہ احساس کہ وہ ان تمام چیزوں کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتی ہے۔ بہت خوبصورت تھا۔ عافیہ اسے کوئی کام سونپ کر نہیں گئی تھی اس لیے کچھ دیر تک اپنے آفس کو اچھی طرح دیکھنے کے بعد وہ اپنی چیئر پر آ کر بیٹھ گئی۔ آج وہ اپنی چادر کو گھر چھوڑ آئی تھی مگر چادر کے بجائے اس سے کچھ کم لمبائی اور چوڑائی کا دوپٹہ اسی انداز میں اوڑھے ہوئے تھی۔
کچھ ہمت کر کے اس نے چہرے پر لپ اسٹک اور آئی لائنیز کا اضافہ بھی کر لیا تھا۔ مجموعی طور پر اس کا حلیہ انٹرویو والے دن سے کافی بہتر تھا۔ اور اس دن کی طرح اسے فرم میں کام کرنے والی دوسری لڑکیوں کو دیکھ کر کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ہو رہا تھا۔ تقریباً بارہ بجے کا وقت تھا۔ وہ پچھلے آدھ گھنٹہ سے اپنی چیئر پر بیٹھی خالی الذہنی کی کیفیت میں سامنے والی کھڑکیوں پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ جب ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر کوئی بڑی تیز رفتاری سے اس کے آفس میں داخل ہوا تھا۔ اس نے کچھ ہڑبڑا کر اس اچانک آنے والے کو دیکھا تھا۔ بلیک پینٹ، سفید ہاف بازوؤں والی شرٹ کے اوپر رائل بلواسٹریپس والی ٹائی لگائے ہاتھ میں بریف کیس تھامے کلون سے مہکتا ہوا وہ لمبا چوڑا وجود ایک بار پھر اس کے سامنے تھا۔ وہ صرف ایک لمحے کے لیے اس کے سامنے رکا تھا۔
“So you are here. Alright
Just come into my room” (اچھا تو آپ یہاں ہیں۔ ٹھیک ہے ذرا میرے کمرے میں آئیں۔)





وہ مسکراتے ہوئے اس کے سامنے سے گزر کر اگلا دروازہ کھول کر اندر غائب ہو گیا تھا۔ وہ چند لمحوں تک ساکت بیٹھی دروازے کو دیکھتی رہی۔ ابھی بھی اسے یقین نہیں آیا تھا کہ وہ اس کا باس ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی جگہ سے ہلی نہیں مگر چند لمحوں بعد ہی ٹیبل پر موجود انٹر کام کی بزر ہونے لگی تھی۔ اس نے نیم دلی سے ریسیور اٹھایا۔
”مس رومیصہ! پلیز میرے آفس میں آئیں۔”
”یس سر۔” گھٹے ہوئے لہجے میں اس نے کہا تھا۔
”تو یہ نبیل سکندر ہے۔” وہ جو کسی ادھیڑ عمر باس کی منتظر تھی اب یہ جان کر ایک صدمے کی کیفیت میں تھی کہ نہ صرف باس نوجوان تھا بلکہ اس کے سامنے اس کا پہلا امپریشن بھی کچھ اچھا نہیں تھا۔ بادل نخواستہ وہ اٹھ کر اندر چلی آئی تھی۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھا موبائل پر کسی کو کچھ ہدایات دے رہا تھا۔ ہاتھ کے اشارے سے اس نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔ وہ بڑی بے دلی سے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی تھی۔ چند منٹوں تک وہ موبائل پر مصروف گفتگو رہا مگر اس کی نظریں اس کے چہرے پر مرکوز رہیں جو ٹیبل کو گھورنے میں مصروف تھی۔ اس کے چہرے پر موجود بیزاری اس کی تیز نظروں سے چھپی نہیں رہ سکی تھی۔ موبائل بند کر کے ٹیبل پر رکھتے ہی اس نے پوچھا تھا۔
”کیا آپ کو اپنا آفس پسند نہیں آیا؟” وہ اس تیکھے سوال پر گڑبڑا گئی تھی۔
”نہیں۔ ایسی تو کوئی بات نہیں۔”
”تو پھر آپ اتنی پریشان کیوں ہیں؟”
”نہیں میں پریشان تو نہیں ہوں۔” اس نے اسے یقین دہانی کروانے کی کوشش کی تھی۔
وہ کچھ لمحوں تک خاموشی سے جیسے اس کے چہرے پر کچھ پڑھنے کی کوشش کرتا رہا پھر ایک گہری سانس لے کر اس نے کہا۔
”آل رائٹ۔ میں مان لیتا ہوں کہ آپ پریشان نہیں ہیں۔ اب کچھ کام کی باتیں کر لیتے ہیں۔ یہ تو آپ کو پتا ہی ہوگا کہ آپ کو میرے ساتھ کام کرنا ہے۔ میں کام کے معاملے میں بہت پروفیشنل اپروچ رکھتا ہوں، بے ترتیبی اور بددیانتی برداشت نہیں کرتا ہوں آپ پر کام کا زیادہ بوجھ نہیں ہوگا۔ بہت سی بنیادی چیزوں سے آپ واقف نہیں ہیں۔ اس لیے ایک دو ماہ تک تو آپ کو ان چیزوں میں ٹرینڈ کیا جائے گا پراپر گائیڈنس بھی دی جائے گی۔ اس کے بعد آپ کو ہر کام خود ہی سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا اور میرا خیال ہے یہ کوئی مشکل نہیں ہوگا آپ کے لیے۔ زیادہ لمبا چوڑا لیکچر نہیں دینا چاہتا آج کے لیے بس اتنی انسٹرکشنز کافی ہیں۔ اگر آپ کو یہاں کسی قسم کی پرابلم کا سامنا ہو تو آپ میرے پاس آ سکتی ہیں۔ اب آپ جا سکتی ہیں۔”
وہ خاموشی سے اٹھ کر باہر آ گئی۔ آفس میں آہستہ آہستہ لوگوں کی آمد و رفت شروع ہو چکی تھی۔ مگر یہ سب فرم کے ہی مختلف سیکشنز کے لوگ تھے۔ وہ صرف انٹر کام پر اندر اطلاع کرتی رہی۔ لنچ تک یہی سلسلہ جاری رہا۔
لنچ بریک سے کچھ دیر پہلے عافیہ اسے لینے آ گئی تھی۔ وہ اس کے ساتھ فیکٹری کیفے ٹیریا میں آ گئی تھی۔ وہاں فیکٹری اور فرم میں کام کرنے والی خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اسے یہ دیکھ کر بے حد سکون ہوا۔
دن اسی طرح گزرنے لگے تھے۔ وہ صبح آنے کے بعد دو گھنٹے عافیہ کے ساتھ کمپیوٹر اور فیکس پر کام کرتی پھر اپنے آفس میں آ کر تھوڑا بہت وہاں کا کام نمٹاتی۔ نبیل سکندر ہمیشہ دیر سے ہی آیا کرتا تھا۔ لیکن آنے کے بعد وہ کافی مشینی انداز میں کام کیا کرتا تھا۔ یکے بعد دیگرے فیکٹری یا فرم میں سے کوئی نہ کوئی اس کے پاس آتا رہتا تھا یا وہ خود کسی نہ کسی کو بلاتا رہتا تھا اور جب وہ کسی کو نہیں بلاتا تھا تب وہ فون پر کسی نہ کسی کے ساتھ مصروف گفتگو ہوتا۔ فرم میں مختلف حصے بنے ہوئے تھے۔ اب ایک نیا حصہ تشکیل دیا جا رہا تھا جو اس کے چھوٹے بھائی کے سپرد کیا جانا تھا۔ تمام حصے سکندر علی کی زیرنگرانی کام کرتے تھے مگر وہ اپنے بیٹوں کے کام میں دخل اندازی نہیں کیا کرتے تھے۔ کسی بات پر اعتراض وہ صرف تب کرتے تھے جب فرم کو کسی وجہ سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا یا نقصان ہوتا ورنہ انھوں نے باقی تمام معاملات میں اپنے بیٹوں کو مکمل آزادی دے رکھی تھی۔
رومیصہ کو یہ پتا چل گیا تھا کہ نبیل سال کا زیادہ حصہ باہر گزارتا ہے اور یہ جان کر اسے بے حد خوشی ہوئی تھی۔ عافیہ نے اسے بتایا تھا کہ وہ ہر دو چار ماہ بعد کچھ عرصے کے لیے باہر ضرور جاتا ہے اور اب رومیصہ شدت سے اس کے باہر جانے کی منتظر تھی۔ نبیل سکندر سے اس عرصے میں اسے کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں ہوئی تھی، مگر اس کے باوجود وہ مطمئن نہیں تھی۔ اسے اس کی آنکھوں سے بے حد خوف آتا تھا حالانکہ عافیہ کو نبیل سکندر کی آنکھیں بے حد پسند تھیں مگر رومیصہ کبھی بھی اس کی آنکھوں میں دیکھ نہیں پائی۔ کوئی بہت عجیب سا تاثر ہوتا تھا اس کی آنکھوں میں جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی لیکن بعض دفعہ وہ بے حد پریشان ہو جاتی تھی یہ اندازہ اسے ہو گیا تھا کہ وہ صرف اپنے حصے میں ہی نہیں دوسرے حصے میں کام کرنے والی لڑکیوں میں بھی خاصا مقبول تھا۔ بنیادی وجہ تو ظاہر ہے یہ تھی کہ وہ فرم کے مالکوں میں سے تھا۔ اور بے حد خوبصورت تھا مگر ایک اور وجہ اس کے لہجے کی نرمی تھی۔ اس میں غرور یا اکھڑ پن نہیں تھا جو اس کے بڑے دونوں بھائیوں میں تھا۔ اپنے ماتحتوں کے ساتھ وہ خوش اخلاقی سے ہی پیش آتا تھا جب تک ان میں سے کوئی ایسی حرکت نہ کر دیتا۔ جو اسے آپے سے باہر کر دیتی مگر غصے میں بھی وہ بلند آواز سے بولتا اور ماتحتوں کو جھڑکتا ضرور تھا۔ مگر ان کو ذلیل نہیں کیا کرتا تھا۔ نہ ہی ان کی ایک ایک غلطی لے کر بیٹھا رہتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے حصے میں کام کرنے والے سب سے زیادہ مطمئن تھے۔
اس سے پہلے نبیل سکندر کی سیکرٹری کے طور پر جو لڑکی کام کر رہی تھی وہ اس سے پہلے چیمبر آف کامرس میں کام کرتی رہی تھی۔ اس فرم کو جوائن کرنے کے بعد بہت کم عرصے میں وہ نبیل کے بہت قریب آ گئی تھی۔
”بے حد خوبصورت تھی شمائلہ۔ پھر اسے مردوں کو پھانسنے کے سارے حربے آتے تھے اور پھر نبیل سکندر تو ہے ہی دل پھینک، چند ماہ میں نوبت یہ آ گئی تھی کہ شام کو واپس بھی نبیل کی گاڑی میں جایا کرتی تھی۔ ہر دوسرے دن وہ ہمیں کوئی نہ کوئی قیمتی چیز یہ کہہ کر دکھاتی تھی کہ یہ نبیل نے دی ہے اور نبیل سکندر واقعی اسے بہت تحفے دیتا رہتا تھا بلکہ وہ تو اسے لے کر کئی کئی دن مری اور بھوربن بھی رہ کر آتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ نبیل سکندر کی دلچسپی اس میں ختم ہونے لگی۔ تحفے تحائف کا سلسلہ بھی رک گیا اور ظاہر ہے خالی تنخواہ پر تو شمائلہ بی بی کا گزارہ ہو نہیں سکتا تھا۔ اس لیے یہاں آنے کے ایک سال بعد ہی وہ جاب چھوڑ کر چلی گئی، اسی لیے تمھیں کہتی ہوں کہ تم بھی محتاط رہنا۔ یہ بندہ فلرٹ ہے اسے ہم جیسی لڑکیوں سے عشق نام کی کوئی چیز ہو سکتی ہے نہ یہ ہم سے شادی کر سکتا ہے۔ ہاں ذلت اور رسوائی کا طوق ضرور ہمارے گلے میں ڈال سکتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ تم کبھی اس کی باتوں میں نہ آنا۔ ذرا مضبوطی دکھاؤ گی تو یہ … تنگ نہیں کرے گا۔ یہ خوبی ہے اس میں کہ اگر کسی لڑکی کی طرف سے کوئی رسپانس نہ ملے تو وہ اس کا جینا اجیرن کرتا ہے نہ اسے تنگ کرتا ہے بلکہ خاموشی سے کنارہ کر لیتا ہے۔”
عافیہ نے ایک دن نبیل سکندر کے بارے میں تقریباً سارے ہی انکشافات کر دیے تھے۔ نبیل کے بارے میں اس کے خدشات اور بڑھ گئے تھے۔ حفظ ماتقدم کے پہلے اقدام کے طور پر اس نے میک اپ کا استعمال ترک کر دیا تھا۔ وہ چھوٹی موٹی جیولری جو وہ پہن کر آنے لگی تھی وہ ایک بار پھر سے اس نے اتار کر رکھ دی تھی۔ جب بھی وہ اسے آفس میں بلاتا تو وہ پتا نہیں خود پر کیا کیا پھونک کر جاتی۔
بعض اوقات اس کا دل چاہتا، وہ یہ جاب چھوڑ دے اور دوبارہ کبھی وہاں نہ آئے مگر یہ ممکن نہیں تھا۔ خالہ کسی طور پر بھی اس بات پر تیار نہیں تھیں کہ وہ یہ جاب چھوڑ دے۔ وہ سمجھتی تھیں کہ ایسی جاب تو قسمت والوں کو ملتی ہے۔ سترہ گریڈ کے افسر کی اتنی تنخواہ نہیں ہوتی جتنی اسے مل رہی تھی پھر وہ کفران نعمت کیوں کر رہی تھی۔ کئی بار اس نے نبیل سکندر کے بارے میں کی جانے والی باتوں کے بارے میں انھیں بتایا مگر ہر بار وہ سنی اَن سنی کر جاتیں اگر کہتیں بھی تو بس یہ۔
”لو باس برا ہے تو پھر کیا ہے۔ تھوڑی بہت خرابی تو ہر مرد میں ہوتی ہے۔ بندے کو خود اچھا ہونا چاہیے اور پھر تم اکیلی تو نہیں ہزاروں لاکھوں لڑکیاں یہی کام کرتی ہیں آخر وہ بھی تو لڑکیاں ہی ہیں مگر وہ تو ڈر کر نہیں بھاگتیں۔ پھر لوگوں کو تو ویسے بھی رائی کا پہاڑ بنانے کی عادت ہوتی ہے، کسی میں چیونٹی جتنی خرابی دیکھ لیں تو اسے ہاتھی بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ تمھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی کسی کی باتوں میں آنے کی ضرورت ہے۔”
وہ خاموشی سے ان کی تقریر سنتی رہتی۔ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ وہ ان کے گھر رہتی تھی۔ خالہ کے بقول اس پر ان کے بہت احسانات تھے اور اب وہ اس قابل ہوئی ہے کہ دوسروں کے لیے کچھ کر پائے تو اپنے فضول کے خدشات کو سر پر لادے نہ پھرے۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے اگر اس کا اپنا باپ یا ماں ہوتے تو کیا انھیں بھی اس کے خدشات اتنے ہی بے جواز لگتے۔ شاید کبھی نہیں۔
…***…
عافیہ نے اپنی بہن کی شادی کے لیے ایک ہفتے کی چھٹی لی تھی اور اس کا دل ہی نہیں چاہا تھا کہ وہ اکیلے کیفے ٹیریا جا کر کھانا کھائے۔ کسی اور لڑکی کے ساتھ اس کی اتنی دوستی نہیں تھی۔ اس لیے اس نے سوچا تھا کہ جتنے دن عافیہ نہیں آئے گی۔ وہ اپنے آفس میں ہی لنچ کر لیا کرے گی۔ نبیل لنچ ٹائم میں آفس سے چلا جایا کرتا تھا بعض دفعہ وہ لنچ کے لیے کسی ریسٹورنٹ چلا جاتا تھا اور بعض دفعہ وہ اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ آفس میں لنچ کیا کرتا تھا۔ اس لیے رومیصہ کو یہ پریشانی بھی نہیں تھی۔
اس دن بھی نبیل حسب معمول لنچ آور شروع ہونے پر آفس سے نکل گیا تھا لیکن اپنی کار کے پاس پہنچنے پر اسے یاد آیا کہ وہ اپنا موبائل اوپر آفس میں ہی چھوڑ آیا تھا۔ اسے لینے کے لیے وہ اوپر آیا تھا لیکن اپنے آفس میں جانے کے لیے جب وہ رومیصہ کے آفس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو وہ ٹیبل پر لنچ باکس رکھے لنچ کرنے میں مصروف تھی، اسے خلاف توقع وہاں موجود پا کر وہ گڑبڑا گئی تھی اور ہاتھ میں پکڑا ہوا سینڈوچ اس نے لنچ باکس میں رکھ دیا تھا۔ وہ اپنے آفس میں جانے کے بجائے اس کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔
”آپ لنچ یہیں کرتی ہیں؟” اس نے پوچھا تھا۔
”نہیں، میں کیفے ٹیریا میں عافیہ کے ساتھ لنچ کرتی ہوں مگر وہ ایک ہفتے کی چھٹی پر ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ یہیں لنچ کر لوں۔” اس نے وضاحت کی تھی۔
”آپ میرے ساتھ چلیں، ہم اکٹھے لنچ کرتے ہیں۔” نبیل نے فوراً اسے پیش کش کی تھی اور اس کے جسم سے جیسے جان نکل گئی تھی۔
”نہیں تھینک یو۔ لیکن مجھے یہیں لنچ کرنا ہے۔”
اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا تھا مگر نبیل پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”نہیں۔ آپ کو میرے ساتھ چلنا ہے۔ میں ذرا اپنا موبائل لے آؤں۔”
وہ اس کے انکار کو گردانے بغیر اپنے آفس میں چلا گیا اور چند لمحوں بعد واپس آ گیا تھا۔
”اوکے چلیں۔” اس نے آتے ہی کہا تھا۔
”نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔ پھر میں لنچ بھی کر چکی ہوں۔ میں نہیں جاؤں گی۔”
اس نے مزاحمت کی کوشش کی تھی۔ مگر دوسری جانب کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”مزید جھوٹ نہیں۔ آپ بس اٹھ جائیں۔ اس قسم کے جھوٹے بہانے مجھے پسند نہیں ہیں۔”
اس بار اس نے قدرے سختی سے کہا تھا اور وہ مزید مزاحمت نہیں کر پائی تھی۔ بہرحال وہ اس کا باس تھا۔ اپنے لنچ باکس کو بند کرنے کے بعد بیگ اٹھا کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ نبیل اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اس کی دلی کیفیت سے بخوبی واقف ہو چکا تھا مگر پھر بھی وہ اسے ساتھ لے جانے کے ارادے پر قائم تھا۔ جب وہ اٹھ کھڑی ہوئی تو اس نے آگے بڑھ کر اس کے لیے آفس کا دروازہ کھولا تھا۔ باہر آنے کے بعد نبیل کے پیچھے چلتے ہوئے اس کا دل رونے کو چاہ رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اسے دیکھنے والی ہر نظر ملامت کر رہی ہے۔ خاموشی کے ساتھ آگے پیچھے چلتے ہوئے وہ پارکنگ میں آئے تھے۔ نبیل نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا تھا۔ وہ چند لمحوں تک بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں وہیں کھڑی رہی مگر وہ قطعاً اس کی طرف متوجہ نہیں تھا بلکہ کار اسٹارٹ کر رہا تھا۔ زہر کا گھونٹ بھرتے ہوئے وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔
”کہاں لنچ کریں گی؟” اس کے سوال پر اس کا دل چاہا تھا، کہہ دے کہیں بھی نہیں مگر اس نے یہ نہیں کہا تھا۔
”پتا نہیں۔ میں کبھی کسی ریسٹورنٹ نہیں گئی۔”
”ٹھیک ہے پھر میں آپ کو اپنی پسند کی جگہ لے جاتا ہوں۔”
اس نے کہا تھا۔ کچھ دیر وہ خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر اس نے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا تھا۔
”کیسی لگ رہی ہے آپ کو اپنی جاب؟”
”ٹھیک ہے۔” اس نے ڈیش بورڈ کو گھورتے ہوئے کہا تھا۔ نبیل نے بھنویں اچکاتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔
”بس ٹھیک ہے؟” اس کا لہجہ سوالیہ تھا۔
”میرا مطلب ہے اچھی ہے۔” اس نے بجھے دل سے تعریف کرنے کی کوشش کی تھی۔
”اور باس کیسا ہے آپ کا؟” بڑی سنجیدگی سے سوال کیا گیا تھا۔ رومیصہ نے گردن گھما کر اسے دیکھا۔ فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے۔
”میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے؟” سوال اسی سنجیدگی سے دہرایا گیا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اس کی طرف گردن گھمائی مگر وہ بڑی بے نیازی سے ونڈا سکرین پر نظر جمائے پورے انہماک سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔
”ٹھیک ہیں۔” اس نے کہا تھا۔
”صرف ٹھیک ہیں؟” اس نے کچھ بلند آواز سے کہا تھا۔ نبیل کو توقع تھی کہ وہ اس بیان کو بھی کچھ بدلے گی مگر وہ حیران ہوا تھا جب وہ کچھ کہنے کے بجائے چپ رہی تھی۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی تھی۔
”ٹھیک ہیں بہت خوب!”
اس نے زیرلب کہا تھا پھر ایک نظر اس پر ڈالی تھی جو اب سامنے یا باہر دیکھنے کے بجائے گود میں رکھے ہوئے ہاتھوں پر نظر جمائے بیٹھی تھی۔ اس نے دوبارہ اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ ریسٹورنٹ میں پہنچ کر ٹیبل تک پہنچنے تک دونوں کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی تھی، مگر مینو کارڈ ہاتھ میں لیتے ہی نبیل نے کہا تھا۔
”کیا کھانا پسند کریں گی آپ؟”
”کچھ بھی۔” اس نے ویٹر سے مینوکارڈ لے کر دیکھنے کے بجائے ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔
”کچھ بھی۔” نبیل نے اس کے جملے کو دہرایا تھا۔
”آل رائٹ پھر میں اپنی مرضی کا لنچ کرواتا ہوں آپ کو۔”
مینوکارڈ پر نظریں دوڑاتے ہوئے اس نے کہا تھا اس نے اپنی پسند کی چند ڈشنز ویٹر کو لکھوائی تھیں۔ جب ویٹر آرڈر نوٹ کرنے کے بعد چلا گیا تو نبیل نے اس پر نظریں جما دی تھیں۔ وہ پہلے جتنی پریشان تھی اب اس سے زیادہ نروس نظر آ رہی تھی۔
اپنے اردگرد کے خوبصورت ماحول پر نظریں دوڑانے کے بجائے وہ ٹیبل پر پڑے کینڈل اسٹینڈ پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ وہ کچھ دیر تک اس کی اس سرگرمی کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے بہت آہستگی سے کینڈل اسٹینڈ ٹیبل سے اٹھا لیا تھا۔ رومیصہ کی نظروں نے اس کے ہاتھ میں آنے تک کینڈل اسٹینڈ کا تعاقب کیا تھا۔ پھر اس نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔ پھر اس نے بہت پرُسکون انداز میں کینڈل اسٹینڈ کو فلور پر رکھ دیا تھا اور پھر پہلے کی طرح اطمینان سے کچھ کہے بغیر ٹیبل پر بازو ٹکا کر بیٹھ گیا تھا۔ وہ کچھ دیر تک شرمندگی کے عالم میں ٹیبل پر ادھر سے ادھر نظر دوڑاتی رہی۔ لیکن کسی چیز کو مستقل طور پر دیکھنے کی کوشش اس نے نہیں کی۔ چند لمحوں کے بعد اس نے اپنی گود میں رکھے ہوئے بیگ پر نظریں جمادی تھیں۔ نبیل نے ایک گہری سانس لی تھی۔ وہ کم از کم بیگ وہاں سے نہیں ہٹا سکتا تھا۔ ویٹر سوفٹ ڈرنک سرو کرنے آیا تھا اور نبیل کے کہنے پر کینڈل اسٹینڈ اٹھا کر لے گیا تھا۔
”پئیں۔” اس نے ویٹر کو جانے کے بعد ہاتھ کے اشارے سے اسے ڈرنک شروع کرنے کا اشارہ کیا تھا ایک سپ لینے کے بعد وہ دوبارہ پرانی سرگرمی میں مشغول ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد نبیل نے اسے کہا تھا۔
”آپ ڈرنک نہیں لے رہی ہیں؟”
”میں پی لوں گی۔” ہلکی سی آواز میں اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا گیا تھا۔ وہ خاموشی سے ڈرنک کے سپ لیتا اسے دیکھتا رہا۔ پہلے سپ کے علاوہ اس نے دوبارہ گلاس کو ہاتھ نہیں لگایا تھا وہ اس کی نظریں خود پر جمی محسوس کر رہی تھی۔ اور اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ نظر اٹھا سکے۔ لنچ سرو ہونے تک نبیل سکندر نے دوبارہ اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ لنچ سرو ہونے کے بعد اس نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا تھا۔
”آپ شروع کریں۔” وہ بڑے اطمینان سے ٹیبل پر بازو ٹکا کر اس کے کھانا شروع کرنے کا انتظار کرنے لگا۔ رومیصہ نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا پھر ٹیبل پر نظر دوڑائی تھی۔ بڑی ہمت کر کے اس نے اپنے آگے رکھی ہوئی پلیٹ میں تھوڑے سے چاول نکال لیے تھے۔ اسے کھانا شروع کرتے دیکھ کر نبیل سکندر نے بھی اپنی پلیٹ آگے سرکا لی تھی۔
پھر پورا وقت وہ چاولوں میں چمچ پھیرتی رہی۔ اس نے شاید کچھ نہ کھانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ اس نے دو تین بار اسے کچھ اور لینے کے لیے کہا تھا۔ مگر جب اس نے ان چیزوں کو بھی پلیٹ میں رکھ کر بس وقت گزارنا شروع کیا تو نبیل سکندر نے اپنا اصرار ترک کر دیا تھا جب تک وہ لنچ سے فارغ ہوا وہ تب بھی پلیٹ میں ان ہی چیزوں کو لیے چمچ سے انھیں اِدھر سے اُدھر کر رہی تھی۔ اس نے ایک نظر اس کی پلیٹ پر ڈالی تھی۔ بڑے تحمل سے اس نے رومیصہ سے پوچھا تھا۔
”آئس کریم کھائیں گی؟”
میں آئس کریم نہیں کھاتی ہوں۔” اس نے چمچ ہاتھ سے چھوڑ کر پلیٹ ہاتھ سے پیچھے سرکا دی تھی۔
”چائے پئیں گی؟”
”نہیں۔”
”کافی؟”
”نہیں۔”
”کوئی اور چیز؟”
”نہیں۔”
”آل رائٹ۔” نبیل نے یہ کہہ کر ویٹر کو بل لانے کے لیے کہہ دیا تھا۔
واپسی کا سفر بھی اسی خاموشی سے ہوا تھا مگر اب وہ پہلے کی نسبت پرُسکون تھی۔ جہاں تک نبیل سکندر کا تعلق تھا تو یہ اس کی زندگی کا بدترین لنچ تھا جو اس نے کسی لڑکی کے ساتھ کیا تھا۔ اس نے پورے ڈیڑھ گھنٹے میں ایک بار بھی اس کے چہرے پر نظر جمانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ پریشان تھی یا خوفزدہ۔ یہ وہ اندازہ نہیں کر پایا تھا مگر وہ یہ ضرور جان گیا تھا کہ اسے لنچ پر اس کے ساتھ آنا پسند نہیں آیا اور شاید یہ اس کی ناپسندیدگی کے اظہار کا طریقہ تھا۔ جس نے اس جیسے بندے کو خاصا ڈسٹرب کیا تھا واپس رومیصہ کے آفس میں آ کر اس نے کہا تھا۔
”میں آپ کو پندرہ منٹ دیتا ہوں۔ آپ لنچ کر لیں۔”
رومیصہ اندازہ نہیں لگا پائی کہ وہ ناراض تھا یا نہیں، بہرحال دوبارہ اس نے اسے لنچ کی آفر کرنے کی کوشش نہیں کی۔
…***…




Loading

Read Previous

میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

Read Next

سحر ایک استعارہ ہے — عمیرہ احمد

3 Comments

  • I think shr could do better than this cliche story. Not impressed.

  • I think it is baou the tirm when we write stories that are not revoloving around rich guy poor girl, who is.mountain of wafa and qurbani and innocence. We should do more than that.

  • Impressive

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!