مشہور سردار مرزا نظام الدین نے یہ چیلنج قبول کر لیا اور سولہ ہزار سپاہیوں کی فوج کے ساتھ ساندل بار کا رخ کیا۔ اس وقت عبداللہ بھٹی راوی کے کنارے شکار کھیلنے میں مصروف تھا جب کہ پنڈی بھٹیاں میں صرف خواتین تھیں یا عبداللہ بھٹی کا ایک بھائی مہرو۔
نظام الدین نے علاقے کا محاصرہ کر لیا۔ مہرو نے مقابلہ کیا اور نظام الدین کے اکتیس سرکردہ آدمیوں کو زہر آلود تیروں سے موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن وہ اکیلا کہاں تک مقابلہ کرتا؟ نظام الدین نے بھر پور حملہ کرکے عورتوں کو گرفتار کر لیا جن میں عبداللہ بھٹی کی والدہ اور دو بیویاں بھی شامل تھیں۔ یہ فوج فتح کے شادیانے بجاتی لاہور کی طرف جا رہی تھی کہ کسی نے عبداللہ بھٹی کو یہ خبر پہنچا دی۔ عبداللہ انہی قدموں مغل فوج تک جا پہنچا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس نے یہ لشکر ملیا میٹ کر دیا۔ جب مرزا نظام الدین کو بھاگنے کی کوئی راہ نہ ملی تو اس نے عبداللہ بھٹی کی والدہ مائی لدھی کے پائوں پکڑ لیے اور کہنے لگا: ”خدارا! ماں بن کر مجھے بچا لو، میں ہمیشہ عبداللہ بھٹی کا تابع دار رہوں گا۔” مائی لدھی کو اِس پر ترس آگیا اور اُس کے کہنے پر عبداللہ بھٹی نے نظام کو معاف کردیا۔
کچھ عرصہ گزر گیا، آہستہ آہستہ نظام الدین نے بھٹی کا اعتماد حاصل کر لیا، لیکن وہ تاک میں تھا۔ ایک دن وہ شکار کے بہانے عبداللہ بھٹی کو ایسے علاقے میں لے گیا جہاں اُسے گھیرے میں لیا جا سکتا تھا۔ اصل میں اس نے اندر ہی اندر مغل دربار سے رابطہ رکھا ہو ا تھا۔ ایک فوج اُس کے اشارے کی منتظر تھی۔
عبداللہ نے نظام کے کہنے پر اس راستے پر قدم رکھا تو اس کا وفادار گھوڑارک گیا۔ ”کیا بات ہے چل کیوں نہیں رہے؟” عبداللہ حیران ہوا۔
گھوڑا ہنہنایا، گویا اپنے مالک کو خبردار کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ جب تک عبداللہ اس سازش کو سمجھا، مغل فوج نے اسے گھیرے میں لے لیا تھا۔ وہ جی دار شیر جوان اکیلا ہی دشمن کی صفوں کو تتربتر کرنے لگا اور تنہا اُس نے دو سو گیارہ مغل فوجی مار گرائے۔ لیکن کہاں تک…؟ آخر اس کا گھوڑا ایک دلدل میں پھنس گیا اور وہ گرفتار ہو گیا۔ اُس کی مشکیں کَس کر بادشاہ اکبر کے سامنے لایا گیا۔ اکبر نے اسے سمجھانے اور دینِ اکبر قبول کرانے کی بہت کوشش کی، لیکن اس نے اطاعت قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور کہا: ”دین الٰہی قبول کروں گا نہ پنجاب کی مٹی سے غداری کرکے آزادی کا سودا کروں گا۔”
آخر 26 مارچ 1589ء کو اس شیر جوان کو لاہور میں پھانسی دے دی گئی۔ شہادت کے وقت اس کے آخری الفاظ کچھ یوں تھے: ”پنجاب کا کوئی غیرت مند بیٹا اس خطے کی مٹی کبھی نہیں بیچے گا۔” جب اس کی پھانسی کی خبر پنجاب میں پہنچی تو مظلوم مسلمان اور ہندو عورتیں روتے ہوئے گھروں سے نکل آئیں۔ بچے بوڑھے سب افسردہ تھے۔ آخر کار یہ نڈر اور بے باک سپوت لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں ہمیشہ کی نیند جا سویا۔
عبداللہ بھٹی اپنے خون سے آزادی کی پُر وقار تاریخ لکھ کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔ پنجاب کی لوک کہانیوں میں آج بھی ”دُلّا بھٹی” کی داستان سب سے نمایاں ہے اور بچہ بچہ اُس کو اسی نام سے جانتا ہے۔ لوک گیتوں میں صدیوں تک ”دُلے کی واریں” گائی جاتی رہیں۔ آج بھی پنجاب کی دیہاتی مائیں اپنے بچوں کو لوریوں میں ”دُلے کی وار” سناتی ہیں۔
٭…٭…٭
(کہانی کے درمیان فلر کے طور پر آئے گا)
پنڈی بھٹیاں وسطی پنجاب کے ضلع حافظ آباد کی تحصیل ہے۔ قریبی اضلاع میں شیخوپورہ فیصل آباد، جھنگ اور ننکانہ صاحب شامل ہیں۔ آٹھ صدیاں قبل پنڈی بھٹیاں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ جسے تغلق حکومت نے بسایا۔ یہاں بھٹی قبیلہ آکر آباد ہوا پھر رفتہ رفتہ پورا قصبہ بھٹی افراد کی کثرت کی وجہ سے ”پنڈی بھٹیاں” کے نام سے مشہور ہوا۔ اسے ساندل بار کا علاقہ بھی کہتے ہیں۔ گو کہ یہ علاقہ دُلّا بھٹی کی وجہ سے پورے ہندوستان میں مشہور ہوا مگر دُلّے بھٹی کے دادا ساندل بھٹی اور والد فرید بھٹی کا بھی بڑا نام تھا۔ موٹروے کے ذریعے لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے پنڈی بھٹیاں کا نظارا کیا جاسکتا ہے۔ راجہ رنجیت سنگھ کے آباء و اجداد کا تعلق اسی خطے سے تھا۔ انگریز دور میں اس خطے کو گوجرانوالہ کے ساتھ منسلک کردیا گیا تھا۔ جدید ترقی بھی اس دور میں ہوئی۔بعدازاں دوبارہ حافظ آباد میں شامل کیا گیا۔ کئی صوفی بزرگ اس خطے میں امن کا پیغام دیتے رہے۔ یہاں کا مشہور کردار ”دُلّا بھٹی” ہندؤوں اور مسلمانوں میں برابر کا مقام رکھتا تھا۔ بلکہ آج بھی بھارتی پنجاب میں دُلّے بھٹی کی یاد میں لوہڑی تہوار منایا جاتا ہے۔