لوک کہانی
دُلّے کی وار
شازیہ ستار نایاب
شازیہ ستار نایاب کا تعلق لاہور سے ہے۔ سیاسیات میں ماسٹرز کررکھا ہے۔ بچپن سے لکھنے کا آغاز کیا۔ پھول، نونہال، الف کتاب، کرن اور آنچل جیسے رسائل کے لیے لکھا۔ کچھ تعطل کے بعد 2016ء سے دوبارہ لکھنے کا آغاز کیا۔ الف نگر کے لیے مستقل لکھ رہی ہیں۔ بچوں اور بڑوں کے لیے بہت سی کہانیاں اور مضامین ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
”زہراں کے ابّا! اس سال توزہراں کی شادی نہیں ہو سکتی۔” حمیدہ بی بی نے مایوسی کے عالم میں کہا۔
”ہاں ایسا ہی لگتا ہے نیک بخت! سوچا تھا اس بار فصل اچھی ہوئی ہے تو آرام سے دھی رانی کی شادی کر دیں گے مگر حکومتی کارندے اتنا زیادہ لگان لے گئے کہ کچھ بچا ہی نہیں۔” دینو نے مایوسی سے کہا۔
”میں تو لڑکے کی ماں کو شادی کی تاریخ لینے کا کہہ آئی تھی۔” حمیدہ روہانسی ہوئی۔
دینو ابھی اسے تسلی دینے کے لیے الفاظ سوچ ہی رہا تھا کہ کپڑے کی ایک تھیلی اس کے قدموں میں آگری، اس کے ساتھ ہی دروازے پر دستک ہوئی۔ دینو نے ایک نظر تھیلی پر ڈالی پھر آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔
”سلام چاچا!” آنے والے نے کہا۔
”اوئے دُلّا بھٹی… یہ تھیلی تُو نے پھینکی ہے؟”
”ہاں! اوپر خدا ہے اور نیچے عبداللہ بھٹی۔ جب تک زندہ ہوں کسی بہن، بیٹی کا بیاہ نہیں رک سکتا۔ یہ اشرفیاں رکھ اور بیٹی بیاہنے کی تیاری کر۔” عبداللہ بھٹی نے کہا۔
”جیتا رہ میرا پتر! ہم غریبوں کا بھی خدا کے بعد تُو ہی سہارا ہے۔” دینو نے بے اختیار دعا دی اور عبداللہ بھٹی کو گلے لگا لیا۔
”رب سوہنا تجھے گرم ہوا سے بچائے۔ تجھے میری عمر بھی لگ جائے، تو نے ہم پہ بڑا احسان کیا ہے۔” حمیدہ بی بی نے خوش ہوکر کہا۔
”کوئی احسان نہیں ہے میرا۔ یہ تمہارا ہی پیسہ ہے جو مغلیہ حکومت لگان کے نام پر لے جاتی ہے۔ یہ مغل حکمران ہمیں اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں اور غلامی میرے باپ دادا نے کبھی قبول نہیں کی تو میں کیسے کر لوں؟” عبداللہ بھٹی کی آنکھوں میں خون اُتر آیا۔ اپنے باپ اور دادا کے چہرے اُس کی نگاہوں میں گھوم گئے۔
”چلتا ہوں چاچا! بیاہ پر آؤں گا۔”
”ضرور پتر! رب راکھا۔” دینو نے کہا۔
”رب راکھا۔” عبداللہ بھٹی نے کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔
عبداللہ تو چلا گیا لیکن بوڑھے دینو کی نگاہوں کے سامنے ماضی کا منظر گھوم گیا، جب ساندل بار (پنڈی بھٹیاں کا قریبی علاقہ) میں صدیوں سے بھٹی خاندان کی حکومت تھی۔ تب مغلوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اسی علاقے کو اپنی گزر گاہ بنایا۔ مغل لشکر یہاں لوٹ مار کرتے فصلوں اور چرا گاہوں کو اجاڑتے چلے گئے۔ مزاحمت کرنے والوں کو قتل کردیتے، کھڑی فصلوں کو آگ لگا دیتے۔ ایسی صورت حال یہاں کے لوگوں کے لیے نا قابل برداشت تھی۔ پھر لوگ لگان (ٹیکس) کے ظالمانہ قوانین سے بھی تنگ تھے۔ تب سردار ساندل بھٹی نے اپنے جوان منظم کر کے مغلیہ تسلط کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا۔ ساندل بھٹی کا بیٹا فرید بھٹی بھی اس کے ساتھ تھا۔ اکبر بادشاہ نے ان کے خلاف لشکر کشی کی اور قلعہ فرید تباہ کرکے دونوں کو گرفتار کیا اور اس کے بعد انہیں پھانسی دے دی۔ جب عبداللہ جوان ہوا تو اسے اُس کے باپ دادا کی شہادت کے متعلق بتایا گیا۔ وہ بھی اپنے باپ اور دادا کی طرح بہادر تھا۔ آزادی سے محبت اس کے لہو میں دوڑ رہی تھی۔
پنڈی بھٹیاں کے قریبی گاؤں کوٹ نکہ میں ایک بڑا ظالم زمیندار رہا کرتا تھا۔ تمام لوگ اُس کے ڈر سے کانپتے تھے۔ ایک دفعہ کسی غریب ہندو مُول چند کی خوب صورت لڑکی سُندر مندریے پر اُس کی نگاہ پڑ گئی ۔ زمیندار نے لڑکی کے باپ سے اُس کا ہاتھ مانگا۔ مُول چند خوف کے مارے انکار نہ کرسکتا تھا مگر غیر مذہب میں وہ لڑکی بیاہنے کے لیے تیار نہ تھا۔ چناں چہ وہ بھاگ کر پنڈی بھٹیاں میں دُلّا بھٹی کے پاس آگیا اور سارا ماجرا سنایا۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت دُلّا بھٹی نے مُول چند کو کہا کہ وہ زمیندار کو بیٹی کے رشتہ کے لیے ہاں کرکے تاریخ مقرر کردے۔
مُول چند نے ایسا ہی کیا۔ دوسری طرف دُلاّ بھٹی نے سانگلہ میں اپنے ایک ہندو دوست کے لڑکے سے سُندر مندریے کا رشتہ طے کردیا اور اُسے شادی کی وہی تاریخ دی جو مُول چند نے کوٹ نکہ کے زمیندار کو دی تھی۔ زمیندار کی برات سج دھج کر مُول چند کے دروازے تک پہنچی ہی تھی کہ اُدھر دُلاّ بھٹی دوسری برات لے کر آگیا۔ دُلّا بھٹی کے شیر جوانوں نے زمیندار کو بڑی مضبوطی سے پکڑ کر نیچے گرا لیا اور اُوپر سے جُوتے برسانے شروع کردیے۔ وہ بھی یوں کہ جیسے بادلوں میں بجلی کڑکتی ہے۔ معافی مانگنے پر زمیندار کی خلاصی ہوئی اور اسے سندر مندریے کو بیٹی کہنا پڑا۔ اس کے بعد سُندر مندریے کی شادی ہندو لڑکے سے کردی گئی اور شادی کی رسم میں دُلّا بھٹی خود سُندر مندریے کے باپ کی حیثیت سے شریک ہوا۔ اس واقعہ کے بعد دُلاّ بھٹی مظلوم عوام کا لیڈر بن گیا۔
ہندوستان میں اس وقت تک شہنشاہ اکبر ایک نئے دین ”دینِ الٰہی” کی بنیاد رکھ چکا تھا جسے مسلمانوں نے سخت نا پسند کیا۔ دینِ الٰہی کی نا پسندیدگی، آزادی کی تڑپ اور مظلوم کسانوں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر بے شمار لوگ عبداللہ بھٹی کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ ارد گرد کی ریاستوں کے حاکم بھی اُس کے ساتھ مل گئے۔ والد فرید بھٹی اور دادا ساندل بھٹی کے بعد عبداللہ بھٹی ساندل بار کی سرحدوں کو وسیع کرتا چلا گیا۔
عبداللہ بھٹی کی بڑھتی ہوئی طاقت شہنشاہ اکبر کے لیے مستقل خطرہ بن گئی تھی۔ مغربی پنجاب کے لوگ اس کے ساتھ تھے۔ وہ مغلیہ افواج کو لوٹتا اور مال غریبوں میں تقسیم کر دیتا۔ وہ شاہی نوابوں کے لیے ایک مسئلہ بن گیا۔ اس کی وجہ سے مغلیہ سلطنت کے دبدبے میں کمی آرہی تھی۔ چناں چہ شہنشاہ اکبر اعظم کو خود لاہور آنا پڑا۔ دوسری طرف عبداللہ بھٹی کو بھی مغلیہ حکومت کے اقدامات کی خبر ہو گئی۔ وہ بھی اُن کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔
ایک دن عبداللہ کو اطلاع ملی کہ ساندل بار کے شمالی علاقے میں ایک قافلہ مغلوں کے لیے رسد لے کر جا رہا ہے۔ عبداللہ بھٹی اور اس کے ساتھی تیزی سے سفر کرتے ہوئے رسد کے قافلے تک پہنچ گئے۔ قافلہ تھکا ہوا تھا۔ عبداللہ اور اس کے ساتھیوں نے بارہ ہزار کی نفری کے اس قافلے پر اتنی شدت سے حملہ کیا کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے تتر بتر ہوگیا۔ قافلے کے سردار کا سر کاٹ کر عبداللہ بھٹی نے اکبر بادشاہ کے درباری اور ایک بااثر شخص کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ یہ بادشاہ کے لیے دُلّا بھٹی کی طرف سے تحفہ ہے۔ اگر ساندل بار میں لگان کے لیے کسی کو بھیجا یا کو ئی رسد کا قافلہ بغیر اجازت یہاں سے گزرا تو اس کا بھی یہی حشر ہو گا۔
یہ پیغام پا کر بادشاہ غصے میں آگ بگولا ہو گیا اور بولا: ”کون سورما ہے جو ا س کو ہمارے دربار میں پیش کرے۔” اس وقت کے