لوک داستان (سنی سنائی) | مَن سراج

لوک داستان (سنی سنائی)
مَن سراج
منیر احمد راشد

ایوارڈ یافتہ رائٹر، ٹرینر، ایڈیٹر اور کمانڈر فور جیسے جاسوسی ناول کے مصنف جناب منیر احمد راشد خانیوال میں پیدا ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں کراچی چلے گئے۔ زندگی کا طویل عرصہ اسی شہر میں گزرا۔ کئی کتابیں لکھیں، کہانیاں، بچوں کی نظمیں اور ناول اس کے علاوہ ہیں۔
آنکھ مچولی کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل ہے۔ بعدازاں نصابی کتب کا ادارہ بنایا۔ اپنے وسیع تجربے اور علمی کارناموں سے نئی نسل کے ذہنوں کی آبیاری کرتے رہے۔ اسی دوران عالمی اداروں کے ساتھ بھی منسلک رہے۔ آج کل IBER میں بطور سی ای او ذمہ داریاں بااحسن نبھا رہے ہیں۔ الف نگر کے لیے ”من سراج” جیسی خوب صورت تحریر ان کی خصوصی شفقت ہے۔

مَن سراج یعنی دل کا چراغ… روشن دل یا دل کا روشن کرنے والا

وہ ایسا ہی تھا، بالکل اپنے نام کی طرح۔ مَن سراج کو دیکھنے سے بس ایک ہی جذبہ دل میں اُبھرتا تھا… محبت کا جذبہ۔
اُس دن بھی ایسا ہی ہوا کہ بادشاہ اپنے لائولشکر کے ساتھ شکار گاہ میں موجود تھا۔ بہت سے ہرن اُس کے شوقِ کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ وہ مزید کی تلاش میں گھنے جنگل کے اندر تک آگیا۔ اس کی عقابی نظریں درختوں کے پار اُس چھوٹے سبزہ زار پر جمی تھیں جہاں پانی کا تالاب دکھائی دے رہا تھا۔
بادشاہ کو یقین تھا کہ ہرن یہاں ضرور آئیں گے۔ زندگی کی بقا کے لیے پانی ضروری ہے، مگر آج اُس تالاب کا پانی بعض زندگیوں کی فنا کا پیغام لانے والا تھا لیکن ہمیشہ ویسا تو نہیں ہوتا جیسا ظاہر میں نظر آتا ہے۔ اُس دن بھی ایسا ہی ہوا۔ بادشاہ اور اُس کے ساتھی تالاب پر نظریں جمائے ہوئے تھے کہ انہیں درختوں کی اوٹ سے ایک ہر نوٹا (ہرن کا بچہ) گھاس کے میدان میں نظر آیا۔
آس پاس کے ماحول سے بے پروا، آنے والے خطروں سے بے خبر۔ ایک مستانی چال چلتا ہوا وہ تالاب پر آیا۔ پانی پیا، سر اُٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا، دور درختوں کے پیچھے اُسے کچھ ہلچل محسوس ہوئی۔ وہ خراماں خراماں درختوں کی طرف چل نکلا۔ بادشاہ اُس کی بے باکی اور معصومیت سے متاثر ہوا۔ اُس نے حکم دیا کہ ہر نوٹے پر تیر نہ چلایا جائے۔ ہرنوٹا قریب آیا تو اُس کے مزید جوہر کھلے۔ بڑی بڑی غزالی آنکھیں جن میں معصومیت کے ساتھ ساتھ حیرت بھی تھی اور محبت بھی۔ نوخیز بدن، بادشاہ کو اُس پر پیار آگیا۔ گھوڑے سے اترا اور درختوں سے باہر نکل کر پیار سے ہرنوٹے کو پکارنے لگا۔ پہلے وہ ذرا سا جھجکا، پھر قریب آگیا۔
بادشاہ نے اسے گود میں اُٹھا لیا۔ پیار کرنے والے ہی پیار کو پہچانتے ہیں۔ بادشاہ نے محبت سے سر سہلایا تو ہرنوٹا رام ہوگیا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ نے اعلان کردیا کہ یہ اُس کا پالتو ہرن ہے اور اِس کا نام ”من سراج” ہوگا۔ جلد ہی من سراج بادشاہ کا چہیتا بن گیا۔ بادشاہ ہی کیا وہ تو ملکہ کی بھی آنکھ کا تارہ تھا۔ بادشاہ جب بھی شکار پر جاتا تو ملکہ کے ساتھ ساتھ ہر نوٹا بھی اُس کے ساتھ میں ہوتا۔ من سراج بھی رفتہ رفتہ بادشاہ کے ساتھ مانوس ہوگیا۔
بادشاہ شکار پر جاتا تو من سراج اُس کے لیے شکار گھیر کر بادشاہ کے نشانے پر لے آتا۔ یوں بادشاہ تلاش کی زحمت سے بچتا اور انتظار کی کوفت سے بھی۔ ہر شکار کے بعد وہ بادشاہ کی محبت میں اور گھیرا چلا جاتا۔ دن یونہی گزرتے گئے۔ من سراج جوان ہوگیا۔ اُس کا حسن اور نکھر آیا تھا۔ بے فکری کا کھانا، آرام سے رہنا۔ اُس کی صحت بہت اچھی تھی۔ چال کا مستانہ پن اور آنکھوں کا خمار اور زیادہ ہوگیا تھا۔ بادشاہ کا پیار اُس کی زندگی کا سرمایہ تھا۔ زندگی عیش میں گزر رہی تھی۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔
ایک دن بادشاہ نے کئی میل فاصلہ طے کرکے اپنی مخصوص شکارگاہ کا رخ کیا۔ جہاں سے اسے من سراج بھی ملا تھا۔ من سراج بہت دن سے اِدھر نہیں آیا تھا۔ اب جو واپس آیا، وطن کی مٹی کو چھوا، تو بچپن کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، دوست یار سب یاد آنے لگے اور سب سے بڑھ کر پیکو۔
پیکو اُس کی بچپن کی دوست تھی۔ ساتھ کھیلنا، ساتھ کھانا، جنگل ہو یا سبزہ زار، تنہا ہو یا ہرنوں کی ڈار، وہ ساتھ ساتھ رہتے۔ من سراج کو پیکو کے ساتھ گھومنا اچھا لگتا تھا۔ اس وقت تو وہ بچہ تھا۔ یہ بات نہیں سمجھتا تھا، لیکن اب اسے معلوم ہوچکا تھا کہ وہ پیکو سے اس کی دوستی ہی نہیں بلکہ دلی تعلق بھی تھا۔ پیکو بھی اُس کے ساتھ خوب کھیلتی تھی۔ وہ اسے پیار سے کُو کُو کہہ کر بلاتی تھی۔

پیکو کی یاد آتے ہی من سراج میں کُو کُو جاگ اُٹھا۔ وہ چوکڑیاں بھرتا جنگل میں گم ہوگیا۔ اُسے معلوم تھا کہ پیکو کہاں ملے گی۔ وہ تالاب کے دوسری طرف لمبی اونچی گھاس کے میدان میں پہنچا اور بلند آواز سے پکارا۔
”پیکو… پیکو۔” اُس کی آواز فضائوں کا سینہ چیرتی پیکو کے کانوں تک پہنچ گئی۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ فضا ”کُوکُو… کُو کُو کی آواز سے گونج اٹھی پھر ایک خوب صورت ہرنی درختوں کی اوٹ سے نکلی اور اُس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ مدت کے بعد ملے تھے مگر ایک دوسرے کو پہچاننے میں دقّت نہیں ہوئی۔ من سراج بہت خوش تھا، پیکو بھی مسرور تھی۔ دونوں بچھڑے دنوں کی یادوں میں کھو گئے۔
من سراج کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ اُس نے بادشاہ سے ملنے سے لے کر آج تک کے سارے قصّے سنائے۔ بادشاہ کی محبت، ملکہ کی شفقت، درباریوں کی عقیدت اور درباری جانوروں میں اُس کی عظمت، کیا کیا نہیں تھا سنانے کو۔ پھر اُس نے بادشاہ کے لیے اپنی محبت کا تذکرہ کیا۔ اُس کے لیے دی گئی قربانیوں کے قصّے سنائے۔ اُس کے لیے گھیرے گئے شکاروں کی کہانیاں بیان کیں۔ پیکو سنتی رہی، جیسے جیسے قصّے آگے بڑھتے رہے پیکو کی دل چسپی اسی طرح اکتاہٹ میں بدلتی گئی۔ کچھ دیر بعد من سراج کو بھی اس کا احساس ہوا وہ جلدی سے بولا:
”پیکو! تم خوش نہیں ہوئی میری کامیابیوں سے؟”
”کوُ کُو! اِس میں کامیابی کہاں ہے؟” اُس نے دکھی لہجے میں کہا۔
”تم تو یاد رکھنا اور اپنائیت دینا ہی بھول گئے۔” پیکو خاموش ہوگئی، من سراج اُسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد پیکو دوبارہ بولی:
”تم انسانوں میں رہ کر اُنہی کی طرح سوچنے لگے ہو، مطلب پرست کوکو! بادشاہ تمہیں دو وقت کا کھانا دے کر اُسے محبت کہتا ہے اور پھر تمہیں تمہارے ہی بہن بھائیوں اور ہم نسلوں کو شکار کرتا ہے۔ تم خوش ہو کہ بادشاہ کی محبت کا حق ادا کررہے ہو اور وہ خوش ہے کہ ایک ہرن کو پال کر بیسیوں ہرنوں کی کھال آسانی سے کھینچ لیتا ہے۔” وہ تھوڑی دیر کے لیے رکی پھر بولی:
”کُوکُو! تم تو لالچ کے جھانسے میں آگئے، یہ محبت نہیں، غلامی ہے۔ ذرا سوچو! تمہاری وجہ سے کتنے کُوکُو اپنی پیکوئوں سے بچھڑ گئے، کتنی پیکوئیں میری طرح اپنے کُو کُو کے انتظار میں جدائی کا عذاب جھیل رہی ہوں گی، لیکن نہیں تمہیں کیا پتا جدائی کا عذاب کیا ہوتا ہے؟ تم تو اپنے بادشاہ کے محل میں راج کررہے ہو۔ تمہیں کیا پتا تو جنگل کی رات کتنی بھیانک ہوتی ہے۔”
اس سے پہلے کہ پیکو کچھ اور کہتی، کہیں سے ایک سنسناتا ہوا تیر آیا اور پیکو کے جسم میں آرپار ہوگیا۔ ایک درد ناک چیخ اُس کے حلق سے نکلی اور وہ تڑپتے ہوئے وہیں ڈھیر ہوگئی۔ من سراج کو کچھ کہنے سننے کا موقع ہی نہ ملا، اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔ اچانک بادشاہ کے شکاری آئے اور پیکو کی لاش اُٹھا کر لے گئے۔ من سراج آنکھوں میں آنسو لیے بوجھل قدموں سے اُن کے ساتھ تھا۔ شکار گاہ میں آکر بھی اُس کی حالت نہ بدلی۔ اس کی آنکھوں میں پیکو کا لاشا اور کانوں میں اُس کی آخری چیخ کی گونج سمائی ہوئی تھی: ”کُوکُو! یہ محبت نہیں، غلامی ہے۔” وہ پیکو کی باتیں یاد کرنے لگا۔
اب اُسے کچھ بھی دکھائی یا سنائی نہیں دیتا تھا۔ نہ بادشاہ کی محبت بھری چمکار نہ اُس کا پیار، نہ ملکہ کی شفقت اور نہ اس کے ہاتھ کا لمس، من سراج کا من مرگیا تھا۔ لوگوںنے خیال کیا کہ شاید جنگل میں اُس نے کوئی زہریلی چیز کھا لی، اس لیے بیمار ہے، مگر اُس نے غم کھایا تھا اور اب آہستہ آہستہ غم اُسے کھا رہا تھا۔ بادشاہ نے بہت علاج کرایا، مگر من سراج سنبھل نہ پایا اور چند روز بعد اپنی پیکو کے پاس چلا گیا۔
بادشاہ بہت دکھی ہوا۔ اُس نے جہانگیر پورہ کی اسی شکار گاہ میں تالاب کے پاس اپنی محبت کے اظہار کے طور پر ایک مینار تعمیر کرایا۔ ”ہرن مینار۔” محبت کی طرح ایک لازوال یادگار۔
سینکڑوں برس بیت جانے کے باوجود ہرن مینار آج بھی سر اُٹھائے کھڑا ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ یہاں آتے ہیں۔ ہرن اور بادشاہ کی محبت بھری اِس داستان کو یاد کرتے ہیں، مگر کم ہی لوگ اصل کہانی جانتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ جن کے دل محبت کے نور سے سیراب ہوں انہیں آج بھی ”ہرن مینار” کے اردگرد پھیلے درختوںکے جھنڈ میں ہرنوں کی ایک جوڑی کے سائے سر سراتے نظر آتے ہیں۔
دل کے کانوں سے سنیں تو پیکو… کُو کُو… پیکو… کُو کُو کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں، مگر افسوس کہ اکثر لوگ یہاں صرف پکنک منانے آتے ہیں۔ خالی دلوں کو ہرن مینار، عشق کا شاہکار نہیں محض ایک مینار نظر آتا ہے۔
٭…٭…٭
یہ سترہویں صدی عیسوی کا ذکر ہے۔ ہندوستان پر مغل بادشاہ جہانگیر کی حکومت تھی۔ باپ شہنشاہ اکبر نے پیار سے اُس کا نام شیخو رکھا تھا۔ شیخو کو شکار کا بے حد شوق تھا۔ اُس نے لاہور سے چالیس میل کے فاصلے پر گھنے جنگلات اور سرسبز گھاس سے لدے میدانوں کے بیچوں بیچ ایک شکار گاہ بنائی تھی جہاں وہ اکثر شکار کے لیے آیا کرتا تھا۔ یہاں ایک تالاب اور ایک تین منزلہ استراحت گاہ بھی تھی جہاں وہ آرام کرتا۔ بعد میں اُس نے اِس شکارگاہ کے قریب ایک شہر آباد کیا جس کا نام جہانگیر پورہ تھا۔ آج کل لوگ اُسے شیخوپورہ کے نام سے جانتے ہیں۔ ہرن مینار شیخوپورہ کی تاریخی تفریح گاہ ہے۔ یہ مینار اُسی ہرن کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا جو جہانگیر کا پالتو تھا۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

لوہ پور کا شہزادہ

Read Next

کراچی کی لوک کہانی | مائی کی روشنی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!