آسماں کو چھوتے برف پوش پہاڑی سلسلے کے بیچ زندگی مصلو ب تھی، کچھ ایسے کہ سانس تک گروی معلوم ہوتی تھی ۔صدیوں سے کھڑے بلندو بالا پہاڑی سلسلے بے شمار قبروں کے امین تھے۔
قبریں ؟… ہاں قبریں! ادھورے خوابوں کی ،خواہشوں کی ،محبت بھرے جذبات اور احساسات کی۔ وہ قبریں جو صدیوں سے قائم کردہ رواجوں اور روایتوں کے امین یہ لوگ ،اپنے ہی ہاتھوں سے بناتے چلے آرہے تھے ۔
آج کا دن بھی معمول کی طرح تھا، لیکن اس کے لیے معمول کی طرح نہیں تھا۔ فضا میں عجیب پراسرار سی خاموشی رچی ہوئی تھی۔ درختوں کی ٹہنیوں سے جدا ئی سہنے والے زرد پتے اپنی بے قدری پر خوب شور مچاتے پھر رہے تھے۔ خزاں اپنا بھرپور روپ دکھلا چکی تھی اور اب خنک ہوائیں سردی کی آمد کا اعلان کر رہی تھیں۔ صبح ہی سے آسمان لال ردا اوڑھے ،ماحول میں مزید سوگواریت گھول رہا تھا۔ کسی کے خوابوں کا لہو ہر چیز پر حاوی دکھائی دیتاتھا۔ مضطرب سی، وہ کسی پتھر کے بت کی طرح اس لال جوڑے کو دیکھ رہی تھی جسے پہننے کی خواہش اسے نہ جانے کب سے تھی، مگر یہ خواہش یوں پوری ہوگی اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
لال جوڑے میں سجی وہ یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے سر خ بادلوں کے حصار میں گھرا پورا چاند، خاموش اور اُداس ۔ مجبور بے حد مجبور کیوں کہ وہ زبان سے محروم تھی یا پھر زبان تالے سے بند کر کے چابی کسی اور کے حوالے کر دی گئی تھی۔
جانتی تو وہ بھی تھی کہ وہ بے زبان ہے اور بے زبان رہے گی، کسی بے جان مورتی یا ربڑ کی گڑیا کی طرح۔ اس کی تمام خواہشات اور سارے خواب سماج کی قائم کردہ روایتوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔
پہاڑوں پر بسنے والی لڑکیوںکے خواب اس کچے گھڑے کی طرح ہی توہوتے ہیں جن کو دریا کی تیز لہریں ایک ہی وار میں توڑ دیتی ہیںاور اس ٹوٹے ہوئے گھڑے کی چھوٹی چھوٹی ٹھیکریاں ساری زندگی آنکھوں کو زخم دیتی رہتی ہیں، مگر خوابوں اور خواہشوںپر بس ہی کس کا چلتا ہے ۔ خواہشات تو پتھر کے بت کے علاوہ ہر ذی روح میں خود بہ خود پلتی ہیں ورنہ انہیں خود پال پوس کر بڑاکون کر نا چاہتا ہے ۔
اور وہ ؟ ماہ گل بھی تو انہی بلند و بالا پہاڑوں میں بسنے والے لوگوں میں سے ایک تھی، تو پھر بھلا اس کی زندگی میں باقی لوگوں سے مختلف کیا ہو سکتا تھا۔ بلاشبہ وہ ذہین تھی اس کی سنہری ،شفاف اور ذہین آنکھیں جن سے وہ ہزاروں خواب دیکھتی تھی۔ کبھی تتلیوں کومٹھی میںقید کر نے کے اور کبھی آسمان کی بلندیوں کو چھو لینے کے، پھر آزاد فضا میںپرندوں کی طرح اوپر سے اوپر اڑنے کے خواب۔
اسے شوخ رنگ بہت پسند تھے کیوں کہ شوخ رنگ زندہ دلی کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور خاص طور پر سرخ رنگ اسے بہت ہی بھاتا تھا۔ شاید اس لیے کہ اس نے کبھی سرخ رنگ نہیں پہنا تھا ۔ زندگی میں صرف دوبار اس نے سرخ جوڑے کی فرمائش کی تھی۔ پہلی بار اس وقت جب وہ آٹھ برس کی تھی اور عید آنے والی تھی۔ آغا جان سب کے لیے کپڑے شہر سے لے کر آتے تھے۔ تب ہی اس نے بھی فرمائش کر ڈالی تھی۔
”بی بی جان! آغا جان سے کہو میرے لیے شہر سے سرخ جوڑا لے کر آئے، مجھے سرخ رنگ بہت اچھالگتا ہے ۔” اور بی بی جان نے اسے گھورتے ہوئے کہا تھا:
”ماہ گل! ہمارے یہاں کنواری لڑکیوں کا سرخ لباس پہنا بد شگونی سمجھا جاتا ہے اس لیے آئندہ غلطی سے بھی یہ بات میں تمہاری زبان سے نہ سنو۔” وہ خاموشی سے بی بی جان کے چہرے کو تکتی رہ گئی۔ اس کی سوالیہ نگاہیں بی بی جان سے کئی سوال پوچھ رہی تھیں مگر زبان گنگ تھی۔ بھلا اس بات کی اجازت ہی کب تھی کہ بحث کی جائے۔یہاں تو لڑکی ہونا شاید ایک گناہ کبیرہ سے کم نہ تھا۔
دنیا کی سب روایتیں ،ساری رسمیں سب پابندیاں صرف اور صرف عورت ذات کے لیے ہیں۔ زندگی کسی قفس کے پنچھی کی طرح بے بس تھی۔ کبھی کبھی تو اسے یوں لگتا کہ اسے سانس بھی آغاجان کی اجازت سے لینی چاہیے۔
پھر یوں ہوا کہ دوسری بار ناچاہتے ہوئے بھی اسے بی بی جان سے سرخ لباس پہنے کی فرمائش کر نی پڑی۔کیوں کہ اس کی سب سے پیاری اور ہر دل عزیز سہیلی کی شادی تھی جو اس کی چچا زاد بھی لگتی تھی۔ ماہ گل سے دو سال بڑی لالہ رخ اس کی بچپن کی دوست، اس کی ہم راز اور ساتھی تھی وہ دونوں ساتھ کھیل کود کر بڑی ہوئی تھیں۔ اسی لیے تو اس نے لالہ رخ کے بہت اصرار پر ہی بی بی جان سے سرخ جوڑے کا تقاضا، ڈرتے ڈرتے کیا تھا کیوں کہ وہ اب تک اس جواب کو نہیں بھولی تھی جو چند برس پہلے بی بی جان نے اسے دیا تھا اور اس بار بھی جواب وہی ملا جس کی اسے امید تھی۔ وقت کتنا بھی بدل جائے، پہاڑوں میں بسنے والوں کی روایتیں اور اصول پہاڑوں کی طرح سخت اور مضبوط ہوتے ہیں جن میں دراڑ تک ڈالنا آسان نہیں۔
زندگی بھی عجیب طرح کے کھیل کھیلتی ہے جو ہماری قسمت میںنہیں لکھا ہوتا وہی زندگی بھر کا روگ بن جاتا ہے ۔پابندیوں کی ان دیکھی ہزاروں زنجیروںمیں جکڑے رہنے کے باوجود بھی اس کی زندگی میں وہ طوفان آگیا جس کا تصور بھی جان لیوا تھا ۔
وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگی تھی۔ پندرہ برس کی کچی عمر اور زندگی سے بھر پور امنگیں اور پھر محبت۔
شاہ زین کو اس نے پہلی بار اس وقت دیکھا جب وہ شہر سے کچھ دنوں کی چھٹی پر گائوں آیا ہوا تھا۔ وہ اس کے محترم استاد کا سب سے بڑا اور اکلوتا بیٹا تھا، اس سے چھوٹی تین بہنیں تھیں ۔وہ شہر کی یونیورسٹی سے انجینئرنگ پڑھ رہا تھا اور اکثر چھٹیوں میں گائوں چلا آتا۔ سنہری آنکھیں ،کشادہ پیشانی اور گھنی مونچھیں۔
محبت کیا ہوتی ہے، وہ نہیں جانتی تھی مگر محبت اپنا وجود خود منوا لیتی ہے۔ اس کا ادراک اسے ہونے لگا تھا۔
شاہ زین کو اس نے بچپن میں دیکھا تھا۔ اس کے بعد وہ شہر پڑھنے چلا گیا اور وہ بھی بڑی ہو گئی تھی اس لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت ہر گز نہ تھی، مگر ہونی ہو کر رہتی ہے۔ نہ جانے وہ کون سا لمحہ تھا جب اس کا اور شاہ زین کا سامنا ہوا اور ایسا ہوا کہ پھر لاکھ چاہنے کے باوجود وہ اس کے دل سے نہ نکلا ۔ وہ ہزار بار خود کو روکتی، اس کو دیکھنے، اس کو سوچنے اور چاہنے سے، مگر محبت اپنا رنگ دکھا چکی تھی۔ وہ ہار گئی اور پھر شاہ زین بھی تو اسے چاہنے لگا تھا۔اتفاق تھا کہ وہ چھٹیوں پر آیا ہوا تھا اور اس کے امتحان چل رہے تھے۔ وہ روزانہ اس کے راستے میں آنے لگا صرف اس کی ایک جھلک دیکھنے اور وہ بھی تو یہی چاہتی تھی۔ محبت آتش بن کر دونوں کو جھلسا رہی تھی۔ پھر وہ تو چلا گیا، مگر اس کا سکھ چین بھی ساتھ ہی لے گیا۔ وہ بے چین رہنے لگی۔ دل کی لگی اس کی سمجھ سے باہر تھی نہ کسی کو بتا سکتی تھی، نہ کچھ کر سکتی تھی۔
شاہ زین اب جلدی جلدی آنے لگا تھا، مگر بات اور ملاقات ممکن نہ تھی۔
وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی مگر اجازت ملنا ناممکن تھی۔ آغا جان لڑکیوں کو پڑھا نے کے حق میں کبھی نہ تھے۔ اس نے میڑک بھی بی بی جان کو مناکر زبردستی کیا تھا، مگر اب مزید آگے پڑھنے کی اجازت کیسے لی جائے کیوں کہ کالج بھی گائوں سے دور شہر کی طرف تھے، مگر وہ پھر بھی قسمت آزمانا چاہتی تھی اور پھر، شاہ زین بھی تو شہر میں ہی رہتا تھا۔ اس تک پہنچنے کا تو ایک ہی راستہ تھا کہ وہ بھی شہر جا کر پڑھے اور پھر اس نے دل کی بات بی بی جان سے کہہ ڈالی۔
”بی بی جان! آغاجان سے کہو نا مجھے آگے پڑھنے دیں۔ میں کالج جاکر پڑھنا چاہتی ہوں جیسے ساری شہری لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ مجھے کچھ کرنا ہے۔ خدا کے لیے بی بی جان آپ میرا ساتھ دیں گی نا ؟” اور بی بی جان نے تاسف سے سوچا کہ اگر وہ اس کی بے لگام خواہشات کے آگے گھٹنے ٹیک بھی دیں تب بھی اس خاندان کے مرد، عورت کی تعلیم کے حق میں کبھی تھے اور نہ ہی کبھی ہوں گے ۔
وہ جس قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، وہاں بیٹی کی پیدائش پر جتنا دکھ ہوتا تھا اس سے کہیں زیادہ پریشانی اس کے جوان ہوتے ہی ہونے لگتی تھی۔ اسے میڑک تک پڑھنے کی اجازت مل گئی تھی۔ یہی بڑی بات تھی، اس سے آگے کا تو تصور ہی محال تھا۔ اس کے سب خواب ایک ایک کر کے بکھرتے جارہے تھے۔آغا جان کو اس کی شوخی اور بڑھتی ہوئی خواہشات سے ڈر لگنے لگا تھا۔ اس سے پہلے کہ یہ خواب اس کی آنکھوں میں نظر آنے لگیں، انہوں نے خوابوں کے اس دریا کے آگے بندباندھ دیا ۔
آج تیسری بار اس نے سرخ جوڑے کی فرمائش نہیںکی تھی، مگر آج جب وہ اس سرخ جوڑے سے شدید نفرت محسوس کر رہی تھی، تب اس جوڑے کو پہنا کر اس پر لازم کر دیا گیا تھا کیوں کہ اب وہ سہاگن کہلانے جارہی تھی۔ اس سرخ جوڑے کو دیکھ کر اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس میں اس کے ارمانوں کا خون رچا ہو۔ اسے اپنے آس پاس، اپنے خواب ،خواہشات اور امیدوں کی کرچیاں، لہو لہو بکھری پڑی نظر آرہی تھیں۔ وہ کتابوں میں پھول رکھا کرتی تھی۔ آج خشک کی پتیوںکی طرح بکھر رہی تھی وہ کھلتے پھول سے پہلے ہی مر جھا چکی تھی۔ خواہشات کے گھنے سراب اس کے گرد جال کی طرح بکھرے پڑے تھے۔
وہ پلکوں سے ایک ایک خواب کی کرچیوں کو چن رہی تھی اور انہیں اپنی ہی آنکھوں سے نکلنے والے شفاف پانی سے دھو کر مٹا رہی تھی۔ اسے حق نہیں تھا خواب دیکھنے کا ۔
سرخ جوڑے میں لپٹی وہ ہر قسم کے جذبات اور احساسات سے عاری تھی۔ کچھ ہی دیر میں اس کا نکاح ہو نے والا تھا۔ وہ سولہ برس کی تھی اور اس کا ہونے والا مجازی خدا چالیس برس سے زیادہ عمر اور پہلے سے شادی شدہ تھا۔ وٹے سٹے کے اس رشتے میں اب اس کی باری تھی اور اپنے بڑوں کی طرف سے بنائے گئے اس بے جوڑ بندھن کا بوجھ اب اس نے اپنے تھکے مردہ وجود کے ساتھ تمام عمر اٹھانا تھا ۔
سرخ جوڑے سے اسے اب نفرت ہو گئی تھی اور اب شاید ساری زندگی ہی رہنی تھی۔
٭…٭…٭