قصوروار کون —- قیصر مشتاق

ربیع الاول کا مہینہ چل رہا تھا اور روز کہیں نہ کہیں محفلِ میلاد منعقد ہورہی تھی۔ کہیں صرف مرد حضرات کی محفل تو کہیں خواتین کی۔ شہر کی فضا درود و سلام سے معطر تھی۔ میں اپنی دکان پر بیٹھا گاہکوں کو بھگتا رہا تھا۔ آج گاہک بھی قدرے زیادہ تھے اور گلی میں بھی آج کچھ زیادہ ہی رونق تھی۔ آج اکبر صاحب کے ہاں محفل میلادِ مصطفی منعقد کی گئی تھی۔ میلاد صرف خواتین کا تھا اور سننے میں آیا تھا کہ شہر کی نامور خطیبہ اور نعت خواں کو مدعو کیا گیا تھا۔ میلاد کا انتظام اکبر صاحب کے گھر کے باہر ہی کیا گیا تھا۔ قناطوں سے مستطیل شکل میں وہ ایک طویل احاطہ پر مشتمل کمرہ تھا۔ جہاں عورتوں نے جمع ہونا تھا اور جو چاروں طرف سے بند تھا۔ احاطے میں داخل ہونے کے لیے اکبر صاحب کے گھر کے داخلی دروازے سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ چوں کہ میری دکان گلی کے کونے پر تھی، لہٰذا میں واضح طور پر وہاں سے اکبر صاحب کا مکان دیکھ سکتا تھا۔ گاہکوں کو بھگتاتے ہوئے وقتاً فوقتاً میری نظر اس طرف پڑ جاتی تو اکبر صاحب کے چھوٹے تین بیٹے انتظامات میں مصروف نظر آتے۔ اندرونی نظام گھر کی اور رشتے دار خواتین نے سنبھال رکھا تھا اور پوری گلی میں چہل پہل تھی۔ آخرکار میلاد شریف پڑھنے کے لیے وہ مخصوص خواتین بھی آگئیں اور تقریباً ظہر سے قبل محفل کا آغاز ہوگیا۔ میں واضح طور پر محفلِ میلاد سُن سکتا تھا کیوں کہ وہاں اعلیٰ قسم کے سائونڈ سسٹم کا انتظام تھا اور یہ آج کل ہرمحفل میں لازمی ہوتا ہے۔ پہلے قرأت کی گئی اور پھر آہستہ آہستہ محفل میں نعتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ خواتین کی پتلی و باریک آوازوں میں پڑھی گئی نعتیں پورے محلے میں گونج رہی تھیں۔





”میں مدت سے اس آس پر جی رہی ہوں۔” وہ مشہور نعت کسی بچی نے پڑھی تو بہت سی ”سبحان اللہ” کی آوازیں ابھری تھیں۔ اب مائک کسی اور نے سنبھالا تھا اور خطابت کا آغاز ہو چکا تھا۔ میری توجہ کبھی اونچی اور کبھی آہستہ ہوتی ان آوازوں کی طرف بھی تھی اور اپنی دکان پر بھی، لیکن خطیب کی اس میٹھی آواز نے مجھے پوری طرح چونکا دیا۔ میں نے ان محترمہ جیسی پیاری اور خوب صورت آواز پہلے کبھی نہ سنی تھی۔ اس کا لہجہ بھی اتنا شائستہ اور دل آویز تھا کہ میں چند لمحے اسی کو سنتا گیا۔ وہ نسوانی آواز یقینا کسی چھوٹی عمر کی لڑکی کی تھی جو آواز سے ہی معلوم ہو رہا تھا… بیان کرتے کرتے یک دم جب وہ آواز بلند ہوتی تو سپیکر میں سے ”سبحان اللہ” کی صدا سنائی دیتی جو محفل میں موجود باقی خواتین کی ہوتی۔ میرے خیال میں اسی خطیب کو بالخصوص منگوایا گیا تھا۔ محلے میں ہرطرف سکوت تھا، بس گونج تھی تو اس باریک سی آواز کی تھی جو سپیکر سے نکلتی باہر ہرکسی کو اپنے شکنجے میں جکڑ رہی تھی۔ بہ ظاہر مکمل پردے اور سختی سے مردوں کے داخلے پر پابندی سے ہونے والی اس محفل میں واقعی کوئی مرد موجود نہ تھا، لیکن میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جس مرد نے بھی وہ خوب صورت اور من موہنی آواز سنی تھی وہ ضرور چونک گیا ہو گا۔ خود میرا حال بھی ایسا ہی تھا۔ دینِ اسلام اور سیرتِ مصطفیۖ پہ بات کرتی وہ محترمہ بہت ہی جوش میں بیان کر رہی تھیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مائک پر زیادہ سے زیادہ اونچی اور پرجوش آواز میں بیان کریں۔
”یار یہ کون ہے؟ ماشا اللہ بہت ہی پیاری آواز ہے اس کی، سیدھی دل پر اثر کررہی ہے۔” میری دکان سے چند قدم کے فاصلے پر بجلی کے کھمبے کے پاس وہ تین لڑکے آکھڑے ہوئے تھے جو میرے محلے کے ہی تھے۔ جواباً ایک نے اس محترمہ کا نام بتایا اور کہا کہ وہ فلاں جگہ سے آئی ہیں۔
”ماشا اللہ ماشا اللہ! آواز کی طرح نام بھی کتنا پیارا ہے۔” ایک نوجوان نے تبصرہ کیا۔





”ہاں یہ تو ہے…” تیسرے لڑکے نے آنکھ سے اشارہ کیا… وہ مجھ سے تھوڑی دور ہی کھڑے تھے اور میں باقاعدہ ان کی گفت گو سن سکتا تھا۔ اس کے آنکھ کے اشارہ کرنے پہ تینوں اونچی آواز میں ہنستے تھے۔ وہ تینوں چند سیکنڈ سپیکر میں گونجتی اس آواز کو سنتے پھر کوئی نہ کوئی تبصرہ کرتے، ساتھ میں ماشااللہ اور سبحان اللہ کہتے اور پھر زور سے ہنستے۔ مجھے وہ سب بہت عجیب سا لگا، لیکن پھر مجھے اپنا آپ بھی ان تینوں کی طرح کا ہی لگا جو سپیکر میں گونجتی اس آواز کو توجہ سے سننے کے لیے بے تاب تھا۔ مجھے سمجھ نہ آیا کہ قصور کس کا ہے؟ اکبر صاحب کے لگائے گئے اس سائونڈ سسٹم کا، اُن محترمہ کا جو بیان فرما رہی تھیں، ان ساری لڑکیوں اور خواتین کا جو مائک میں نعتیں پڑھ رہی تھیں یا پھر ہم سب کا جو محلے میں گونجتی ان آوازوں کے لیے باہر متوجہ تھے… کچھ دیر بعد مائک کسی اور نے سنبھالا اور درودوسلام پیش کیا جانے لگااس لمحے شاید محفل کا اختتام ہونے کو تھا۔ کھمبے کے پاس وہ تینوں اب مجھے نظر نہیں آئے۔ مائک سے آتی آوازیں بھی مدھم ہوتی گئیں اور میں بھی دکان میں مصروف ہو گیا۔
تقریباً پونے گھنٹے کے بعد میرے پاس سے ایک مہران گاڑی گزری جو آگے کی طرف جاتی ہوئی اکبر صاحب کے گھر کے باہر رُک گئی۔ اس میں دو تین خواتین بیٹھ گئیں۔ تینوں نے نقاب کیا ہوا تھا اور بڑی بڑی سیاہ چادریں اوڑھ رکھی تھیں، یعنی وہ سب مکمل پردے میں تھیں… گاڑی آہستہ سے میری دکان کی طرف رینگتی ہوئی آئی اور پاس سے گزرتی آگے کی جانب بڑھ گئی۔ میں جو کھڑا ہوا وہ سب دیکھ رہا تھا واپس مڑنے کو تھا، وہ تینوں لڑکے مجھے ایک موٹر سائیکل پر اپنی طرف آتے دکھائی دیئے۔ میری دکان کے پاس آکر رکے لیکن ان میں سے کوئی بھی اترا نہ تھا جیسا کہ بہت جلدی میں ہوں۔
”ایک گولڈ لیف کا پیکٹ دینا۔” ان میں سے ایک نے میری طرف پیسے بڑھائے۔
”جلدی کر نا یار! گاڑی نکل نہ جائے کہیں” ان میں سے ایک بولا۔
”نہ یار فکر نہ کر میری ون ٹو فائیو سے آگے کوئی گاڑی نکل نہیں پاتی۔” وہ لڑکا جو بائیک پر سب سے آگے بیٹھا تھا، اس نے شوخی سے کہا۔
”یار زیادہ باتیں نہ کر، کچھ نہ کچھ نظارہ کروا ہی دے اس کوئل کا۔” ان میں سے خباثت دکھاتے ہوئے ڈرائیور سے کہا۔
انہوں نے سگریٹ کا پیکٹ پکڑا اور ”زن” سے بائیک آگے کو لے گئے۔ میں نے آگے کی جانب دیکھتے ہوئے نظریں دوڑائیں تو وہ مہران آہستہ آہستہ دور جاتی دکھائی دی اور میرے منہ سے ایک گالی ان تینوں کے لیے نکلی۔ نجانے وہ گالی میں نے ان کو دی تھی یا پھر اس مرد کو دی تھی جو وہ آواز سن کر بے چین ہوا بیٹھا تھا۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کاش میں انسان ہوتا —- محمد شعیب

Read Next

اُلو — محسن عتیق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!