قرنطینہ ڈائری
(سارہ قیوم)
سولہواں دن:بدھ 8 اپریل 2020
ڈیئر ڈائری:
لو ایک شعر سنو!
ٹخنے کا دیدار کرا
لہنگا ذرا وہابی کر
اس شعر کی کیا غرض و غایت اور کیا محل؟ تو دوستو شانِ نزول اس شعر کی یہ ہے کہ آج شب برا¿ت ہے اور یوں لگتا ہے آج ساری دنیا وہابی ہو گئی ہے۔
میں ایک ایسے گھرانے میں پلی بڑھی جہاں شب برا¿ت کے حلوے اور نیاز کے زردے کو بدعت سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے ہمارے گھر میں کبھی خاص اس موقع پر حلوہ پکا کر نہ بانٹا گیا اور یہ کہا گیا کہ بھئی سنت کے خلاف ہے۔ لیکن کہیں سے آئے حلوے کو خوشی خوشی قبولنا اور مزے لے کر کھانا نہ صرف سنت ہے بلکہ عین باعثِ ثواب بھی۔ تو ہم تو ساری زندگی بدعت کی آڑ میں حلوہ پکانے سے بچے رہے لیکن ہمسایوں کو اس عمل کے بدعت ہونے کے بارے میں کبھی بھنک بھی نہ پڑنے دی۔
جو بھی آئے، آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
لیکن آج تو یوں لگتا ہے ساری دنیا وہابی ہو گئی ہے۔ نہ کہیں سے حلوہ آیا، نہ زردہ۔ بس ہم سوکھے منہ اور آزردہ بیٹھے رہے۔
تو ڈئیر ڈائری آج میں شکر گزار ہوں ان بجتی گھنٹیوں کے لئے جو کسی میتھی سوغات کی آمد کی نوید ہوتی ہیں۔ ان پلیٹوں اور پیالوں کی لئے جو رومالوں سے ڈھکے ہوتے ہیں لیکن انکی خوشبو انکے سارے بھید کھولے دیتی ہے۔ اور میں شکر گزار ہوں ان ہمسائیوں کے لئے جو حلوہ، زردہ اور حلیم پکا کر پڑوسیوں کو بھیجتے ہیں اور کسی بدعت کی وعید کو خاطر میں نہیں لاتے۔
سہ پہر میں خیال آیا عمر سے کہوں تھوڑا حلوہ تو بنا دے۔ خود تو میں صفائی اور کچن کے کام سے تھک چکی تھی اسلئے اٹھنے کو دل نہ چاہتا تھا۔۔ میں نے عمر کو آواز دی۔ وہ اپنی ہی کسی ترنگ میں تھا۔ آیا اور آتے ہی میرے گلے میں بازو ڈال کر مجھ سے لپٹ گیا۔
”میرے لالے۔“ میں نے اس کا منہ چوم کر کہا۔ ”مجھے حلوہ تو بنا دو۔“
لالے نے لاڈ سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑی شفقت سے پوچھا۔ ”حلوہ کھائے گی میری بوڑھی ماں؟“
دھت تیرے کی! بے اختیار مجھے انکل سرگرم کی ماسی مصیبتے یاد آئی جو اس موقع پر کہا کرتی تھی۔ ”بوڑھی تیری خالہ، بوڑھی تیری ماں۔“
لیکن میں عمر کو یہ نہیں کہہ سکتی تھی۔ارے میں ہی تو تھی اسکی ماں۔ عمر کو ویسے بھی مجھ سے ایسے لاڈ کرنے کی عادت ہے۔ آتے جاتے میرے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے اور بڑی شفقت سے پوچھتا ہے۔ ”کچھ چاہیے تو نہیں میری ماں کو؟“ میری ہر بات کے جواب میں اس قسم کی کوئی شفقت اس کے پاس تیار ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر ہمارے درمیان اس قسم کے مکالمے ہوتے ہیں۔ (یہ مکالمے مختلف موقعوں پر ہوتے ہیں لیکن ان کا لہجہ ہمیشہ ایک ہوتا ہے۔)
میں: کوئی مجھے پانی پلا دے۔
عمر: پیاسی ہو گئی تھی میری ماں؟
میں: میرے سر میں درد ہے۔
عمر: بیمار ہو گئی تھی میری ماں؟
میں: کھانا تیار ہو گیا ہے۔
عمر: بھوک لگ گئی تھی میری ماں کو؟
میں: اُف پلیز کوئی بتیاں تو جلا دے، وحشت ہو رہی ہے مجھے اس اندھیرے سے۔
عمر: وحشی ہو گئی تھی میری ماں؟
جب میں نے حلوے کی فرمائش کی تو اس نے اپنی اولڈ فیشن ماں کو حلوہ تو نہ بنا کر دیا البتہ حلوے جیسی بورنگ چیزوں سے اجتناب برتنے کا مشورہ ضرور دیا۔ ساتھ ہی سٹیک کے فضائل پر روشنی ڈالی اور فرمائش کی کہ اسے کچھ فنانس کیا جائے تاکہ وہ بیف کا بہترین انڈکٹ منگوائے اور مجھے رِب آئی سٹیک بنا کر کھلائے۔ لیجئے نماز بخشوانے گئے تھے، روزے گلے پڑے۔ حلوہ تو نہ ملا، الٹا پیسے دینے پڑے تاکہ صاحبزادے اپنا کوکنگ کا شوق پورا کریں۔ جاتے جاتے عمر نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور لاڈ سے پوچھا: ”ناراض تو نہیں تھی میری ماں؟“
اور میں اسی میں خوش ہو گئی۔ بھلا ماں بھی ناراض رہ سکتی ہے؟
جب بھی ماں کا لفظ سنتی ہوں مجھے ملائیشیا یاد آتا ہے۔ میں نے ملائیشیا میں چھٹیاں گزارنے کا پلان اپنی بہن کے ساتھ بنایا تھا۔ میں یہاں سے گئی تھی اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ آسٹریلیا سے آئی تھی۔ اس کی بیٹیوں سے میری بہت دوستی ہے۔ وہ بچیاں آسٹریلیا میں بھاشا انڈونیشیا پڑھتی آئی تھیں۔ یہی زبان ملائیشیا میں رائج ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ رہتے مجھے شاپنگ اور گھومنے پھرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن پہلے ہی دن ایک دکان پر شاپنگ کے بعد ایک جملہ انہوں نے ایسا بولا کہ میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ جملہ یہ تھا۔ ”تیری ماں کیسی؟“
”کیا کہا؟“ میں نے بے یقینی سے پوچھا۔
میری بھانجی ہنسنے لگی۔ بولی: ”تھینک یو کو بھاشا انڈونیشیا میں کہتے ہیں ۔ ”تیری ماں کاسی۔“آپ بھی ٹرائی کریں۔“
ٹھیک ہے! اس میں کیا مشکل ہے؟ میں نے اگلی دکان پر کچھ لیا اور ادائیگی کے بعد کہا۔ ”تیری ماں۔ ماں….“ اور بس اس سے آگے جملہ میرے حلق میں اٹک گیا اور سرخ چہرہ لیے شرمندگی سے بے حال ہوتی میںوہاں سے بھاگ آئی۔ کسی کو منہ پر ایسا جملہ کہنا جو ”تیری ماں“ سے شروع ہوتا ہو بدتہذیبی کی انتہا تھی۔ کم از کم مجھ سے تو یہ بدتمیزی نہ ہو پائے گی۔ اپنے قیام کے باقی دنوں میں میں نے تھینک یو ہی سے کام چلایا۔
ہم جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے، وہ لٹل انڈیا نامی بازار سے متصل تھا۔ ہم ایک پتلی سی گلی سے گزر کر لٹل انڈیا کی شاہراہ پر نکلتے تھے اور وہاں سے بس یا کیب لے کر گھومنے پھرنے نکل جاتے تھے۔ اس گلی میں ایک ہندو کا ایک ڈھابہ نما کھوکھا تھا جس میں تمام دن بڑے بڑے دیگچے چولہوں پر چڑھے نظر آتے تھے۔ صبح صبح یہ ہوٹل کھولنے سے پہلے وہ کرشن بھگوان کی مورتی کی پوجا کیا کرتا تھا۔ بھگوان صاحب کی مورتی عین گٹر کے اوپر رکھی ہوئی تھی اور اس کے اردگرد کوڑے کرکٹ کا ڈھیر، کچھ کھلا، کچھ بڑے بڑے کالے لفافوں میں بند، پھیلا ہوتا تھا۔ گٹر اور کوڑے کے تعفن کے بیچ بھگوان کے ہاتھوں اور سر پر اگر بتیاں سلگ رہی ہوتی تھیں اور وہ بے چارے گلے میں تازہ گیندے کے ہار پہنے، بانسری ہونٹوں سے لگائے، ایک ابدی منجمد مسکراہٹ کے ساتھ ان تینوں چیزوں کی بُو سونگھ رہے ہوتے تھے۔ پتا نہیں ہندوﺅں میں بدعت کا کانسیپٹ ہوتا ہے نہیں۔ اگر ہوتا تو جانے بھگوان کو گٹر کنارے کوڑے میں گاڑ دینے پر بدعت کا کون سا درجہ لاگو ہوتا۔