قرنطینہ ڈائری ۔ ساتواں دن

تو جناب

لیجئے اب سنیے فسانہئ فرصت مجھ سے

آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

کہانی تو آپ نے بتا ہی دی ہے۔ ہمیں بھی یاد آگیا کہ ہم رائٹر ہیں اور کہانیاں لکھتے ہیں اور ناول لکھنے کی تمنا مطلوب ہے۔ اب ہم آپ کو یہ ناول لکھ کر دیں گے۔ بلکہ صرف ہم ہی کیوں؟ کہانی سامنے ہے، مارکیٹ میں ڈیمانڈ ہے، صلائے عام ہے یادانِ نکتہ واں کے لیے۔ اگر تین چار رائٹرز اکٹھے کر کے ہم مارکیٹ ڈیمانڈ پر ناول لکھنے لگیں تو چار دن میں امیر ہو جائیں گے۔ دولت کی دیوی قدم چومے گی، عزت شہرت گھر کی لونڈیاں ہوں گی۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں لگے ہاتھوں اپنا پبلشنگ ہاؤس کھول لوں جس کا نام ہو واش اینڈ ویئر پبلشرز۔ ایک ہی پلاٹ برسوں چلائیں گے۔ ایک ناول چھاپا، اس کا پلاٹ دھو دھا کر، دھوپ میں سکھا کر، ہیرو ہیروئن کے نام اور کپڑوں کے رنگ بدل کر دوسرے ناول میں استعمال کر لیا۔ اس ترکیب سے سال میں ہزار بارہ سو ناول چھاپے جا سکتے ہیں۔

میں نے تو اپنے پبلشنگ ہاؤس کے لیے اشتہار بھی لکھ لیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

”واش اینڈ ویئر پبلشرز اب آپ کے لیے لائے ہیں تاریخی ماڈرن رومانی ناول۔ تاریخی یوں کہ رومان کی تاریخ خود کو دہراتی رہے گی اور ماڈرن یوں کہ ہیرو ہیروئن کے نام اور پچیس فیصد مکالمے نئے ہونے کی گارنٹی ہے۔ آرڈر پر ہسبینڈ وائف والے ناول بھی دستیاب ہیں جن میں رومانس پڑھتے وقت احساسِ گناہ نہ ہو اور یہ تسلی رہے کہ حلال رومانس ہے۔ نیز مختلف ملکوں کے ہیرو ہیروئن بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ پاکستانی مرد یورپین دوشیزہ، پاکستانی لڑکی عربی ہیرو وغیرہ وغیرہ۔ آرڈر کرتے وقت گاہک کو بتانا ہو گا کہ ناول شارٹ چاہیے یا لانگ۔ ایک پلاٹ پر تین ناول لینے پر پچیس فیصد کی رعایت۔“

اس پلاٹ پر ناول لکھنے کے لیے میں نے اردگرد اپنے رائٹر دوستوں سے رابطہ کیا اور انہیں یہ خوشخبری سنائی کہ کہانی موجود ہے صرف مکالمے ڈال کر ناول لکھ ڈالو۔ کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا۔ لیکن کوئی راضی نہ ہوا۔ عجیب لوگ ہیں۔ پکی پکائی مل رہی ہے اس پر بھی اعتراض ہے۔ نہیں تو نہ سہی، میں خود لکھ لوں گی ناول۔ارادہ تو بن گیا لیکن مصیبت یہ آپڑی کہ لکھوں کس نام سے؟ اپنے نام سے لکھوں گی تو دوستوں میں بے عزتی ہو گی سو الگ اور سرقہ کا الزام لگے گا سو الگ۔ سو اس کا حل یہ نکالا کہ قلمی نام سے لکھا جائے۔ اب نام کی ڈھنڈیا پڑی۔ بہت سوچنے کے بعد خیال آیا کہ کسی ایکٹریس کے نام پر رکھ لیتی ہوں۔جو پہلا نام ذہن میں آیا وہ مادھوری ڈکشٹ کا تھا۔ تو لو بھئی اب میرا قلمی نام ہے مادھوری مراد آبادی۔ مراد آبادی کیوں؟ کیوں کہ بس! میرا نام میری مرضی۔

آج عمر صاحب منہ بسورتے نقشِ فریادی بنے میرے پاس آئے اور بہت غمگین ہو کر فریاد کی کہ جب سے کالج بند ہوا ہے بابا نے پاکٹ منی بند کر دیا ہے۔ اب تک مجھے دو ہزار کا loss ہو چکا ہے۔ تو ذرا آپ کچھ کریں اور پاکٹ منی کا انتظام کریں۔

”تم نے پاکٹ منی کا کرنا کیا ہے؟ گھر بیٹھے ہو۔ ایسی کیا ضرورت ہے؟“ میں نے بے اعتنائی سے کہا۔

”میری سرگرمیاں مشکوک ہیں۔“ عمر نے رازداری سے کہا۔”دو پیکٹ سگریٹ کے منگواؤں گا، ایک خود پیوں گا ایک آپ کو پلاؤں گا۔ یاراماں کیسی باتیں کرتی ہیں آپ؟ اب بندہ گھر بیٹھا ہو اور آئس کریم تک نہ کھا سکے۔ پیسے دے دیں نا پلیز پلیز میری پیاری مادرِ ملت۔“

کرونا پھیلا ہوا ہے اور تمہیں آئس کریم کی پڑی ہے؟“ میں نے ناراض ہو کر کہا۔ ”بھاگ جاؤ کوئی پیسے نہیں ملیں گے۔“

یہ سن کر عمر میرے گلے سے لپٹ گیا، ضد کرنے لگا، سر منہ چومنے لگا۔ میں جتنا دھکیلتی وہ اتنا ہی اور لپٹتا جاتا۔

اتنے میں سمبا خراماں خراماں میرے کمرے کی طرف جاتا دکھائی دیا۔ میں نے پکار کر کہا۔ ”سمبا میرے کمرے میں مت جاؤ۔“

”میاؤں۔“ سمبا نے کہا اور کمرے کی طرف سفر جاری رکھا۔

”رک جاؤ سمبا۔“ میں نے ڈانٹا۔ ”میری لیدر کی کرسی تم نے ادھیڑ کر رکھ دی ہے، خبر دار جو اس پر بیٹھے۔“

”میاؤں۔“ سمبا نے بے اعتنائی سے کہا اور چلتا رہا۔

رک جاؤ سمبا۔ ”میں نے آخری کوشش کی۔

سمبا رکا اور ایسی معصوم التجائیہ نظروں سے میری طرف دیکھا کہ دل پسیج گیا۔ ”اچھا بھئی جاؤ۔ اف توبہ کیسے ضدی بچے ہیں میرے۔“ 

اتنے میں عمر صاحب میری گود میں لیٹ چکے تھے اور میرے ہاتھ چوم رہے تھے۔ توبہ ہے یہ بچے بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ضد پوری کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ چنانچہ عاجز آکر پرس منگوایا اور پیسے نکال کر عمر کو دیے اور وہ خوشی خوشی رخصت ہوا۔

اے میرے پیارے اللہ۔ آج میں تیرے آگے منت گزارتی ہوں۔ ایڑیاں رگڑتی ہوں، تیرے در سے لپٹ جاتی ہوں، سجدے میں گر جاتی ہوں۔ اس یقین کے ساتھ تجھ سے ضد کرتی ہوں کہ تو خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا۔ تجھ سے بخشش مانگتی ہوں، معافی مانگتی ہوں، بقا مانگتی ہوں اور کل عالم کے لیے خیر مانگتی ہوں۔ اس وبا کو ہم پر سے ٹال دے مالک۔ تیرے رحم کا سوال ہے اے میرے رب، تجھے تیرے لطف و کرم کا واسطہ،مجھے خالی ہاتھ مت لوٹانا۔ آمین یا رب العالمین۔

 

Loading

Read Previous

بجلی کا میٹر ۔ افسانچہ

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ آٹھواں دن

One Comment

  • آخری پیرا ہمیشہ لاجواب ہوتا ہے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!