قرنطینہ ڈائری
ساتواں دن: 30 مارچ 2020ء
ڈیئر ڈائری:
آج میں بہت خوش ہوں۔پوچھو کیوں؟ کیوں کہ اتوار کو میں نے چھٹی منائی۔ اور اس طرح نہیں منائی جیسے گھر کی عورت مناتی ہے بلکہ اس طرح منائی جیسے گھر کے مرد اور بچے مناتے ہیں۔ نہ صفائی کی، نہ کھانا پکایا، نہ کچھ لکھا۔ بس صرف لاؤنج اور کچن کی اوپری سی صفائی کر لی۔ نہ دروازے کھڑکیاں چمکائیں، نہ ڈسٹنگ کی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بستر نہیں بنایا۔ بستر نہ بنانے میں بڑی حکمت ہے دوستو۔ جب جب کھلے کمبل پر نظر پڑتی ہے، خیال آتا ہے کہ چھٹی کا دن ہے، ہڈحرامی کا ارادہ ہے، جب دل چاہے گا بستر میں گھس کر اینڈ لیں گے۔ اخبار بستر میں پڑھیں گے، چائے بستر میں پئیں گے، فون پر دوستوں سے گپیں بستر میں لگائیں گے اور جب اتنے کاموں سے تھک جائیں گے تو وہیں بستر میں لیٹے لیٹے سو جائیں گے۔ بچپن میں پڑھی کہانی کا وہ کوا یاد آتا ہے جو چڑیا کا بچہ کھانے کا ارادہ کر کے کنوئیں پر جا پہنچا تھا اور رہ رہ کر آواز لگاتا تھا کہ گھڑا بنائیں، پانی بھرائیں، چونچل دھلائیں، کھائیں چڑی کا چونگڑا پھر پھڑکائیں کلہ۔ تو اتوار کا سارا دن ہم نے بستر میں گھسے کلے پھڑکاتے گزارا۔ ہاں بھئی ہماری زندگی ہماری مرضی۔
تو ڈیئر ڈائری آج میں شکرگزار ہوں اس خوشی کے لیے جو کبھی کبھی اپنی مرضی کرنے سے ملتی ہے۔ والٹئیرنے کہا تھا، انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہے۔ یہ زنجیریں فرائض کی ہیں، رشتوں کی ہیں، فائدے نقصان کی ہیں، ’لوگ کیا کہیں گے‘ کی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی، وہ جسے انگریز ی میں کہتے ہیں نا ”Once in a blue moon.“ ان سب زنجیروں کو توڑ کر کوئی ایک دن اپنی مرضی کا جینے میں بڑا مزا آتا ہے۔ ایک بغاوت کا سا مزا۔بچہ بن جانے کا مزا۔ یہ اور بات کہ میرے بچے تشویش سے میری طبیعت پوچھنے آتے رہے۔کن اکھیوں سے مجھے دیکھتے اور سرگوشیوں میں آپس میں باتیں کرتے رہے۔ اور آج صبح جب میں نے اٹھ کر صفائی کا شور مچایا اور سب کو اپنے بستر تہہ کرنے اور لاؤنج سمیٹنے کا حکم دیا اور ایک کے ہاتھ میں جھاڑو اور دوسرے کے ہاتھ میں ڈسٹر تھمایا تو سب یوں خوش ہوئے جیسے انہیں ان کی کھوئی ہوئی ماں دوبارہ مل گئی ہو۔ مجھے OCD کے طعنے دینے کے بجائے سب فرمانبرداری سے صفائی میں میرا ہاتھ بٹانے لگے۔ تو ڈیئر ڈائری آج میں اس خوشی کے لیے بھی شکر گزار ہوں جو تازہ دم ہو کر فرائض کی طرف لوٹنے پر ہوتی ہے اور اس سکون اور طمانیت کے لیے ممنون ہوں جو ایک لگی بندھی روٹین میں ہوتا ہے۔
شام کو واک پر نکلی تو ایک گھر کے باہر ایک سوٹڈ بوٹڈ صاحب نظر آئے۔ ٹائی لگائے، جوتے چمکائے، شیو بنائے، بالوں کو جیل سے بٹھائے اپنے گیٹ کے باہر کھڑے تھے اور فون پر باتیں کرتے تھے۔ مجھے آتے دیکھا تو کن اکھیوں سے یوں دیکھنے لگے گویا ڈرتے ہوں کہ کہیں پاس سے نہ گزر جاؤں۔ میں بچہ موڈ میں تو تھی ہی، دل میں شرارت سوجھی کہ ان کے پاس جا کر چھینکوں اور بھاگ لوں۔ اگر یہ پکڑنے آئے تو فوراً کھانسنے لگوں گی۔ پھر ان کی گھبرائی ہوئی شکل دیکھ کر ترس آگیا۔ بڑی مشکل سے اپنے تئیں اس ارادے سے باز رکھا۔ گارشیا مار کینزنے ناول، ”وبا کے دنوں میں محبت“ لکھا تھا، ہم لکھیں گے۔ ”وبا کے دنوں میں شرارت۔“
ارے! ناول سے مجھے یاد آیا آج فیس بک پر ایک محترمہ نے کوئی اچھا سا ناول بتانے کی فرمائش کی ہے جس کی کہانی ان کے مطابق کچھ یوں ہو (میں ان کے الفاظ یہاں من و عن نقل کر رہی ہوں) ”کوئی ایسا ناول نیم بتا دیں جس میں ہیرو ہیروئن ہسبینڈ وائف ہوں، بٹ ہیرو ہیروئن کو اگنور کرے، انسلٹ بھی کرے اور اس میں ایک سائیڈ ہیرو بھی ہو جو ان دونوں کی لائف میں آئے پھر ہیروئن ہیرو پر کم فوکس کرے اور اگنور کرے اور سائیڈ ہیرو میں انٹرسٹڈ ہو جائے اور ہیرو کے بجائے سائیڈ ہیرو سے ہنس ہنس کر باتیں کرے شاپنگ وغیرہ کی فرمائش کرے ہیرو ان دونوں کو دیکھ کر جیلس ہو پھر بعد میں احساس ہو کہ وہ ہیروئن سے لَو کرتا ہے اور اسے کسی کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا پھر وہ ہیروئن کو سائیڈ ہیرو سے دور رہنے کو کہے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جائے سائیڈ ہیرو سے دور اور کہے تم صرف میری ہو اور زبردستی اس کو اپنے ساتھ رکھے پھر ہیروئن کو بھی بعد میں ہیرو سے لَو ہو جائے، ناول شارٹ ہو تو زیادہ بہتر ہے ورنہ لانگ بھی چلے گا۔ سیم سٹوری کا، پلیز نیم بتا دیں۔“
One Comment
آخری پیرا ہمیشہ لاجواب ہوتا ہے