اس یقین دہانی کے باوجود میں پول سے نکل بھاگی اور پھر کبھی ان کے ساتھ نہ گئی۔ کئی سال بعد جب ہم اس سوسائٹی میں شفٹ ہوئے اور میں نے یہاں کے کمیونٹی سنٹر کا پول دیکھا تو دل میں کبھی کی دبی چنگاری ازسرنو بھڑک اٹھی اور میں سوئمنگ سیکھنے کا عزم لیے وہاں جا پہنچی۔ انسٹرکٹر ایک مسکراتے چہرے والی نوجوان لڑکی تھی۔ اس کا مہربان چہرہ دیکھ کر میرے دل کو تسلی ہوئی اور میں نے اسے بتایا کہ مجھے پانی سے ڈر لگتا ہے۔ چھوٹا موٹا ڈر نہیں۔ وہ ڈر جسے فوبیا کہتے ہیں۔ ہائیڈرو فوبیا۔ میری بات سن کر اس مسکراتے چہرے والی بلا نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کھینچتی ہوئی پول کی ڈیپ سائیڈ کی طرف لے گئی۔ وہاں اس نے مجھے کنارے پر کھڑا کیا اور حکم دیا۔ ”کود جائیں۔“
اس حکم نے میرے ساتھ وہ کیا جو چنگیز خان اپنے دشمنوں کے ساتھ کرتا تھا۔ دل پسلیاں توڑنے لگا، کان سائیں سائیں کرنے لگے، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا، سوئمنگ پول میں پانی کی جگہ موت لہریں لیتی دکھانے لگی۔ اس سراسمیگی کے عالم میں میں نے اس سے بھی وہی بات کہی جو کبھی اپنے بچوں سے کہی تھی۔ ”میں ڈوب جاﺅں گی، میں مر جاﺅںگی۔“
وہ میرا بچہ نہیں تھی کہ مجھے تسلیاں دیتی یا یقین دہانیاں کراتی۔ اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ ، چشمِ زدن میں مجھے پول میں دھکا دے دیا۔ ہائے مجھے تو کلمہ پڑھنے کا موقع بھی نہ دیا ظالم نے۔ میں نے ایک غوطہ کھایا، ڈھیر سارا کلورین ملا پانی میرے حلق اور ناک میں گیا اور پھر دو ہاتھوں نے مجھے سنبھال لیا اور مجھے دھکیلتے ٹھکیلتے کنارے کی طرف لے چلے۔ معلوم ہوا محترمہ نے جونہی مجھے دھکا دیا تھا، ساتھ خود بھی چھلانگ لگا دی تھی اور مجھے اس خونی سوئمنگ پول سے صاف بچا لے آئی تھیں۔ گھسیٹ کر انہوں نے مجھے کنارے پر کھڑا کیا، میری سانس میں سانس آنے کا انتظار کیا اور ایک بار پھر جلادی حکم جاری کیا۔ ”کود جائیں۔“
ایک مرتبہ پھر وہی کھیل دہرایا گیا، میں پول میں گری، غوطہ کھایا اور بچا لی گئی۔ یوں آٹھ مرتبہ اس نے مجھے اس قیامت سے گزارا۔ آٹھویں مرتبہ میں پانی سے نکلی تو کنارے پر لیٹ کر گہرے سانس لینے لگی۔ ”کیا ہوا؟“ اس نے میرے سر پر کھڑے ہو کر پوچھا۔
”کچھ نہیں۔“ میں نے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ”ایک مرتبہ اور کودوں؟ اب تو ڈر نکل گیا ہے میرا۔“
اس نے ہاتھ بڑھا کر مجھے روکا اور مسکرا کر بولی۔ ”بس میں یہی چاہتی تھی۔“
ایک مہینے کی ٹریننگ کے بعد سوئمنگ گالا ہوا۔ میں نے اس میں تین گول میڈل جیتے۔ اس دن انسٹرکٹر نے ہنس کر مجھے بتایا۔ ”آپ کو پتا ہے میں آرمی کی سوئمر ہوں اور میں نے آپ کو ٹریننگ بالکل آرمی کی طرح دی ہے۔ اگر میں یہ ڈسپلن اور سختی نہ کرتی تو آج آپ کے ہاتھ میں گولڈ میڈل نہ ہوتے۔“
آج ابراہیم نے مجھے یہ واقعہ یاد دلایا اور کہا۔ ”مجھے لگتا ہے مجھے بھی آپ کو شطرنج ایسے ہی سکھانی پڑے گی۔ مجھے افسوس تو ہو گا لیکن کبھی کبھی انسانوں کو کوئی چیز سکھانے کے لیے ان پر سختی کرنی پڑتی ہے۔“
اے میرے مہربان رب! ہم تیری عاجز مخلوق ہیں۔ کوتاہ بیں ہیں، نالائق ہیں، نکمے ہیں۔ تو پیار سے سکھاتا ہے تو نہیں سیکھتے، نہیں مانتے، اپنی سی کیے جاتے ہیں۔ میں نہ مانوں کی ضد لگائے رکھتے ہیں۔ پھر تجھے ہم پر سختی کرنی پڑتی ہے ۔ تجھے افسوس تو ہوتا ہے لیکن تجھے ہمیں ڈسپلن کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر جب ہم زندگی کے امتحان میں سرخرو ہو کر گولڈ میڈل لیے نکلتے ہیں تو تفاخر سے گردن اکڑاتے ہیں اور خود کو شاباش دیتے ہیں۔
اے سبق دینے والے، اے انعام دینے والے، اے کرم کرنے والے ،ہمیں سیکھنے کی توفیق عطا فرما، ہمار ے سبق کو ہمارے لیے اتنا آسان کر دے کہ سختی کرنے کی نوبت نہ آئے۔ اس وبا کے سبق کو ہم پر ظاہر کر دے اور اسے ہم پر سے ٹال دے۔ ہم پر رحم کر میرے اللہ، وہ رحم جو تیری پہچان ہے۔ آمین یا رب العالمین۔
٭….٭….٭
One Comment
بہت خوب