قرنطینہ ڈائری ۔ دسواں دن

قرنطینہ ڈائری

(سارہ قیوم)

دسواں دن: جمعرات 2 اپریل 2020ئ

ڈیئر ڈائری!

جب سے پارک کو تالا لگا ہے۔ میں ہر روز واک کے لیے ایک نیا رستہ اختیار کرتی ہوں۔ کل بی بلاک کی سیر کی تھی۔ آج ایف بلاک کا چکر کاٹ کر ای بلاک کی طرف نکل گئی۔ ای بلاک نری بھول بھلیاں ہے۔ چھوٹی چھوٹی گلیاں بڑی سڑک کی طرف نکلتی ہیں اور ہر گلی ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت ہے۔ نشانی کے لیے میں نے ابراہیم کے دوست عبداللہ کا گھر رکھ چھوڑا ہے جس کے ماتھے پر ماشا اللہ لکھا ہے۔ عبدللہ کے نہیں، اسکے گھر پر۔ تو کبھی میں اس گھر سے دو گلیاں پہلے مڑ جاتی ہوں، کبھی ایک گلی آگے کا راستہ لیتی ہوں۔ آج میں جس گلی سے گزری وہاں میں نے بہت خوبصورت گھر دیکھے۔ ایک گھر مکمل طور پر پھولدار بیلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں اپنا فون کیوں نہ لائی ، ورنہ تصویر کھینچتی اور مالی کو دکھاتی کہ دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا۔ ایک تم ہو کہ ٹھیک سے لان میں جھاڑو بھی نہیں دیتے۔ ایک دوسرا گھر دیکھا جو دو کنال پر بنا ہوا تھا اور بالکل گاﺅں کے کچے گھر جیسا تھا۔ کچی مٹی کے لیپ جیسا پینٹ، شہتیروں کی منڈیریں اور کھڑکیوں پر پڑی چکیں۔ اس گھر کو دیکھ کر مجھے بہت لطف آیا۔ مٹی اور وطن کی محبت انسان کے خمیر میں ہے۔ وطن کو چھوڑ کر کہیں چلا جائے تو اپنے وطن اور پرانے گھر کی یاد میں ہڑکتا رہتا ہے ۔دنیا کے بہت سے شہروں کے نام نقل مکانی کر کے آئے ہوئے لوگوں نے اپنے پرانے شہروں کے نام پر رکھے ہیں۔ جیسے نیویارک، نیوزی لینڈ، لٹل انڈیا ۔سنا ہے امریکا میں ایک قصبہ لاہور نام کا بھی ہے۔ ضرور ہو گا، لیکن اس میں لاہور کی خوشبو، لاہور کی تاریخ اور لاہور کی سی زندہ دلی کہاں ہو گی؟ وہ بات کہاں مولوی مون کی سی۔

مٹی کے گھر سے آگے چلی تو ایک گھر کے باہر گلاب کے پھولوں کا درخت دیکھا۔ جی ہاں درخت۔ تھی تو وہ جھاڑی ہی مگر اس قدر قد آور ہو چکی تھی اور اتنا پھیل چکی تھی کہ دس بارہ فٹ کا درخت بن چکی تھی۔ اس کی شاخیں گلابی پھولوں کے بوجھ سے جھکی پڑتی تھیں۔ اس وقت اس انجان گلی میں کھڑے گلاب کے اس درخت کو دیکھتے مجھے وہ دن یاد آیا جب میں ہمیشہ کی طرح واک کے ارادے سے پارک کی طرف گئی تھی اور اسے بند پایا تھا۔ کس قدر افسوس ہوا تھا مجھے اور کیسی حسرت سے میں نے ان چند پھولوں کو دیکھا تھا جن کے اردگرد میں پارک کے چکر کاٹتی رہتی تھی اور جو روزانہ دیکھ دیکھ کر مجھے ازبر ہو چکے تھے۔ بڑے بجھے دل سے میں نے سڑکوں پر چہل قدمی شروع کی تھی۔ لیکن یہ بجھا دل زیادہ دیر بجھا نہیں رہا تھا۔ میں نے خوبصورتی اور حسن اور تعجب کے کئی نئے جہان دریافت کیے تھے۔ وہ جہان جن کے گرد برسوں رہنے کے باوجود میں ان سے بے خبر تھی۔

تو ڈیئر ڈائری! آج میں شکر گزار ہوں ان تمام راستوں کے لیے جو بند ہو گئے۔ وہ بند نہ ہوتے تو میں نئے راستوں کی تلاش میں کبھی نہ نکلتی۔ دریافت کی سر خوشی سے کبھی آشنا نہ ہوتی، اور قدرت کے اس گرینڈ ڈیزائن کو کبھی نہ سمجھ پاتی جو کائنات کے بڑے سیاروں سے لے کر ریت کے معمولی ذرے کو بحسن و بخوبی چلا رہا ہے۔

ویسے جب سے یہ ڈائری شائع ہونا شروع ہوئی ہے، لوگ گھبرا گھبرا کر مجھے فون کرتے ہیں کہ واک پر کیوں نکلتی ہو؟ گھر بیٹھو ورنہ کرونا ہو جائے گا۔ تو میرے دوستو! ایک بات میں واضح کرنا چاہتی ہوں۔ جس سوسائٹی میں میںرہتی ہوں وہ بہت چھوٹی سی کمیونٹی ہے۔ گیٹ پر ناکہ لگا ہے جس سے آج کل کسی مہمان، کسی ملازم کو اندر آنے نہیں دیا جارہا۔ آج ہماری وہ چوری کی شوقین ماسی، جسے دو ہفتے قبل فارغ کر دیا گیا تھا، راشن لینے آئی تو ناکے پر گارڈز نے اندر نہ آنے دیا اور ہمیں فون کر دیا کہ یہاں سے پرندہ پر نہیں مار سکتا، جسے جو کچھ دینا ہے یہاں آکر خود دے جائے۔ دوسرے یہاں کی ہر سڑک اور گلی میں گارڈز ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ میں کسی بھی سڑک یا گلی میں نکل جاﺅں ،ایک یا دو گارڈز منہ پر ماسک چڑھائے سائیکل پر سوار اپنے معمولی کے راﺅنڈ پر نکلے نظر آتے ہیں میں اپنے پڑھنے والوں، خاص طور پر خواتین سے گزارش کروں گی کہ اس خاکسار کی دیکھا دیکھی بغیر سوچے سمجھے واک پر نکلنے کی غلطی نہ کیجئے۔ نہ ہی نت نئی سڑکیں اور گلیاں دریافت کر کے واسکوڈے گاما بننے کی کوشش کیجئے۔ امن و امان کی حالت مخدوش ہے۔ اگر کسی بدنیت مشٹنڈے کے ہاتھوں اغوا نہ بھی ہوئیں تو کرونا تو ہے ہی ۔خدانخواستہ کاٹ گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے اور کوئی بزدار نہ ملے گا دادرسی کو۔

Loading

Read Previous

قرنطینہ ڈائری ۔ نواں دن

Read Next

قرنطینہ ڈائری . گیارہواں دن

One Comment

  • بہت خوب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!