قرنطینہ ڈائری ۔ دسواں دن

کاٹنے سے مجھے یاد آیا، کاٹنے والے موذی جانوروں میں کُتا سرفہرست ہے۔ وہ یوں بھی کہ ہمارے ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں۔ لہٰذا وہ غیر ذمہ دار لوگ جو آﺅ دیکھتے ہیں نہ تاﺅ اور وقت بے وقت خود کو کتوں سے کٹوا آتے ہیں، پھر پچھتاتے ہیں۔ لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کاٹنے والے موذیوں میں مچھر کا نام سب سے اوپر کیوں نہیں ہے۔ کتے کے کاٹے کی تو دوا ہے، مل جائے تو اثر کر ہی دیتی ہے۔ ان مچھروں کو تو کسی دوا سے فرق نہیں پڑتا۔ آپ سپرے کیجئے، جلیبی جلائیے، مچھر بھگاﺅ لوشن لگائیے، یہ آپ کے سینے پر مونگ دلنے کو آموجود ہوں گے۔ جُثے کا یہ عالم ہے کہ مارنے سے پہلے ایک منٹ تو یہی طے کرنے میں لگ جاتا ہے کہ یہ بڑے سائز کا مچھر ہے یا چھوٹے سائز کی مکھی؟ تالی سے کام چل جائے گا یا مکھی مار لانا پڑے گا؟ اور چلیے کتے توباہر سڑکوں پر پھرتے ہیں۔ آپ اپنا گیٹ بند کر لیجئے تو کیا مجال کہ اندر آکر کاٹ جائیں۔ لیکن مچھر تو گھر کی الماریوں تک میں موجود ہوتے ہیں ۔ادھر آپ نے الماری کھولی، ادھر یہ آپ پر حملہ آور ہوئے۔ آج میں نے فرج کھولا تو اس میں سے ایک مچھر برآمد ہوا۔ نہ جانے اندر بیٹھا کون سی گتھیاں سلجھا رہا تھا۔ میرے یوں آرام میں مخل ہونے پر بے حد بھنایا۔ ویسے تو مچھر اور گھر بیٹھے شوہر ہمہ وقت بھنائے رہتے ہیں ، لیکن شوہروں کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ کاٹتے نہیں۔ ہاں خون پینے کی گارنٹی ہم نہیں دیتے وہ تو مچھر بھی پیتے ہیں ۔ہاں ایک فرق ہے کہ مچھر خون پینے آتے ہیں تو پہلے بھنبھنا بھنبھنا کر وارننگ دے دیتے ہیں۔

مچھر سے سیکھے شیوئہ مردانگی کوئی

جب قصدِ خون کو آئے تو پہلے پکار دے

آج ابراہیم نے ایک مرتبہ پھر مجھے شطرنج سکھانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کر چکا ہے۔ اس سے پہلے اس کے بڑے بھائیوں نے بھی اپنی سی کر کے دیکھ لی۔ مگر میں نے نہ سیکھنی تھی نہ سیکھی۔ بات یہ نہیں کہ نئی چیزیں سیکھنے کا شوق نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ جس چیز میں دلچسپی نہ ہو۔ وہ نہیں سیکھی جاتی۔ پیادے، فیل، شاہ اور رانی کی چالیں تو سمجھ جاتی ہوں، گھوڑے تک آتے آتے اکتا جاتی ہوں۔ اس موقع پر ہمیشہ ایک ہی سوال پوچھتی ہوں۔ اس کا فائدہ؟ بے چارہ ابراہیم ہمیشہ بڑے صبر سے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ گھوڑے کے ڈھائی گھر چلنے کے کیا فائدے ہیں اور کیا نقصان۔ لیکن میرا سوال گھوڑے کے متعلق نہیں ہوتا۔ میرا سوال یہ ہوتا ہے کہ جس کھیل کو کھیلنے میں لطف نہ آئے، اسے سیکھنے کا فائدہ؟ ہاں میرے ساتھ سکریبل جتنی چاہے کھیل لو، تاش کی جو بازی کہو کھیلنے کو تیار ہوں لیکن شطرنج مجھے بورنگ لگتی ہے۔ وہ کھیل ہی کیا جو بور کر دے۔

آج بھی جب یہ مکاملہ ہوا تو ابراہیم نے ایک نئی دلیل نکالی۔ ”خود ہی تو آپ کہتی ہیں کہ زندگی میں ہر وقت سیکھتے رہا کرو۔ یاد ہے آپ نے سوئمنگ کس طرح سیکھی تھی؟“

ہاں سوئمنگ کا قصہ بھی سن لیجئے۔ سوئمنگ سیکھنے کا مجھے بے حد شوق تھا لیکن کبھی موقع نہ ملا۔ کچھ یہ بات بھی تھی کہ مجھے پانی سے ڈر لگتا تھا۔ سوئمنگ پول تو بہت بڑی چیز تھی میں تو بالٹی میں بھرا پانی دیکھ کر چکرا جاتی تھی۔ جب میرے بچے چھوٹے تھے تو ہمارے گھر کے پاس ایک کالج تھا۔ ہم نے اس کے سوئمنگ پول کی فیملی ممبر شپ لے رکھی تھی۔ بچے اور بچوں کے ابا اس میں تیرا کرتے اور میں کنارے بیٹھ کر چکرایا کرتی۔ بچے تھوڑے بڑے ہوئے تو مجھے بھی ساتھ گھسیٹنے لگے۔ اللہ کا نام لے کر پانی میں اتر بھی جاتی تو shallow side پر راڈ پکڑے کھڑی رہتی۔ میرے بچے بے چارے کوششیں کر کے تھک ہار گئے لیکن میں نے سوئمنگ نہ سیکھنی تھی نہ سیکھی۔ ایک دن میں نے اپنے بچوں کو آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے سن لیا۔

”اماں کو پکڑ کر ڈیپ میں پھینک دیتے ہیں۔“ ایک نے مشورہ دیا ۔

”ہاں ہاں۔“ دوسرے نے ہاںمیں ہاں ملائی۔ ”یاد ہے ہمارے سپورٹس ٹیچر اسی طرح ہمیں ڈیپ میں پھینک دیتے تھے اور خود ہی ہاتھ پاﺅں چلا کر ہمیں سوئمنگ آجاتی تھی۔“

”اماں کے ساتھ بھی یہی کرنا چاہیے۔“ تیسرے نے اتفاق کیا۔”ورنہ ان کا ڈر کبھی نہ نکلے گا۔“

آپس میں یہ سازش کر کے تینوں میری طرف لپکے۔ میں نے وہیں سے چیخنا شروع کیا۔

”خبردار مجھے پانی میں نہ پھینکنا۔“ میں نے چلا کر کہا۔

”کچھ نہیں ہوتا۔ ہم ہیں آپ کے ساتھ۔“ وہ جواباً چلائے۔

”میں ڈوب جاﺅں گی۔“ میں نے واویلا کیا۔

”ہم نہیں ڈوبنے دیں گے۔“ انہوں نے تسلی دی۔

”میں مر جاﺅں گی۔“ میں نے پیشین گوئی کی۔

”نہیں مرتیں۔“ میری اولاد نے سادگی سے کہا۔ ”اور مر بھی گئیں تو آپ کو کیا فرق پڑے گا؟ آپ تو سکون سے مر جائیں گی، مشکل تو ہمارے لیے ہو گی، ہم ماں کے بغیر کیا کریں گے؟“

Loading

Read Previous

قرنطینہ ڈائری ۔ نواں دن

Read Next

قرنطینہ ڈائری . گیارہواں دن

One Comment

  • بہت خوب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!