قرنطینہ ڈائری
(سارہ قیوم)
گیارہواں دن: جمعتہ المبارک 3اپریل 2020
ڈیئر ڈائری!
آج پھر جمعہ گھر پر پڑھا۔ مصطفی نے اقامت کہی، عماد نے امامت کی اور لیجئے جمعہ ہو گیا۔ عام طور پر میں جمعہ اہتمام سے مناتی ہوں۔ آج بھی میں نے گھر چمکایا، خوشبو میں بسایا، نہا د ھو کر نیا جوڑا پہنا۔ سنت منانے کو سرمہ بھی لگایا۔ لیکن اس جمعے میں جمعے والی بات ہی نہ تھی۔ وہ صبح بچوں کے شلوار کرتے استری کیا جانا، وہ بچوں کو ”اٹھو جمعہ نکل جائے گا“ کہہ کر جلدی جلدی جگانا، وہ بچوں کا لپک جھپک تیار ہونا اور بھاگم بھاگ جانا، وہ عماد کا ہمیشہ سب سے پہلے اکیلے ہی چلے جانا تاکہ پہلی صف میں جگہ ملے، وہ عین وقت پر عمر کے جوتوں کا کھو جانا، وہ ابا کا گیٹ پر کھڑے ہو کر آوازیں لگانا، وہ عمر کا جوتوں کی تلاش میں ایک ایک پلنگ کے نیچے گھسنا اور آخر میں جلدی میں میری چپل اڑس کر دوڑ جانا آج ان میں سے کوئی بھی رونق نہ تھی۔ بچے چپ چاپ لاﺅنج میں جمع ہوئے۔ کسی نے جینز پہن رکھی تھی، کوئی نائٹ سوٹ کا پاجامہ پہنے ہوئے تھا۔ عمر صاحب نیکر ہی میں چلے آئے۔ میرے گھورنے پر نیکر گھسیٹ کر گھٹنوں سے نیچے کی اور اشارے سے تسلی دی کہ فکر نہ کریں ستر ڈھکا ہوا ہے۔ تو یوں بس چپ چاپ ہم نے نماز پڑھی اور نماز کے بعد بچے منہ لٹکائے اپنے اپنے کمروں کو سدھارے۔
سید علی ہجویری کشف المحجوب میں فرماتے ہیں: ”صوفی کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ماضی کا غم نہ کرے اور مستقبل کی فکر نہ کرے۔“ آج جمعے کی نماز کی نیت باندھتے ہوئے مجھے جب گزرے جمعوں کا خیال آیا تو ساتھ یہ بھی خیال آیا کہ نہ وہ وقت رہا تھا، نہ یہ رہے گا۔ یہ وبا ختم ہو جائے گی، مسجدیں پھر سے آباد ہو جائیں گی، جمعے کی رونقیں لوٹ آئیں گی۔
تو ڈیئر ڈائری آج میں شکر گزار ہوں زندگی کے اس سبق کی جو وقت کی گردش ہمیں سکھاتی ہے۔ اس اطمینان کے لیے میں بے حد مشکور ہوں جو اللہ کی پلاننگ میں راضی ہو جانے سے ملتا ہے۔ میں گزرے ہر جمعے کو محبت او رتشکر سے یاد کرتی ہوں اور آنے والے ہر جمعے کے لیے پرامید ہوں ۔ تو آﺅ ہراس اور وسواس کی اس گھڑی کو اس امید پر گزاریں کہ یہ وقت گزر جائے گا اور آﺅ کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی خوشی سے یہ سوچ کر مسرت کا رس کشید کریں کہ یہ گھڑیاں سدا نہ رہیں گی۔
سدا نہ باغیں بلبل بولے، سدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ ماپے، حسن، جوانی، سدا نہ صحبت یاراں
(باغوں میں بلبل ہمیشہ نہیں بولے گی نہ ہی بہار سدا ٹھہرنے رہنے والی ہے۔ نہ ماں باپ سدا رہیں گے، نہ حسن، نہ جوانی اور نہ ہی عزیز دوستوں کی محفلیں ہمیشہ قائم رہیں گی۔)
آج کے اخبار میں بہت سی اچھی خبریں ہیں۔ ایک خبر تو یہ ہے کہ زمین کے اوپر اور زون کی تہہ کے سوراخ بھرنا شروع ہو گئے ہیں۔ بہت خوشی کی بات ہے۔ انسان نے دھوئیں اور کاربن کی برچھی ہاتھ سے رکھی ہے تو فطرت اپنے زخموں پر ٹانکے لگانے لگی ہے اور اس کے گھاﺅ بھرنے لگے ہیں۔ آسمان شفاف ہو گیا ہے اور تارے مزید چمکیلے اور روشن۔ شاید قدرت کو اس وبا سے یہی کام لینا مقصود تھا۔
دوسری خبر یہ ہے کہ چین میں حکام نے کتے اور بلیاں کھانے پر پابندی لگا دی ہے۔ ویسے تو یہ اچھا ہوا لیکن اب ہم سمبا کے دشمنوں کو کیسے ڈرائیں گے؟ پہلے تو ہم انہیں دھمکاتے تھے کہ بھئی دیکھو آدمیت کے جامے میں نہ آئے اور ہمارے سمبا کو یونہی مارتے پیٹتے رہے تو ہم تمہیں اٹھا کر چین بھیج دیں گے۔ وہاں لوگ بلیوں کے کباب کھاتے ہیں۔ یہ سن کر دشمنوں کے چھکے چھوٹ جاتے تھے اور وہ دم دبا کر بھاگ جاتے تھے۔ کچھ یہ بھی کہ زبانی دھمکیوں کے ساتھ ہم انہیں ہاتھ میں پکڑے کنکروں سے بھی سمجھاتے تھے۔
آج دو دن ہو گئے ہیں سمبا مجھ سے ناراض ہے۔ نہ میری طرف دیکھتا ہے نہ بات کا جواب دیتا ہے۔ بلاتی ہوں تو بے اعتنائی سے منہ موڑ کر آگے چل پڑتا ہے۔ پرسوں میں نے اسے ایک بلی پر حملہ کرنے کے جرم میں ڈانٹا تھا اور جب ابا آئے تھے تو ان کو بھی شکایت لگائی تھی۔ انہوں نے بھی اس کی گوشمالی کی تھی۔ لہٰذا اب سمبا صاحب مجھ سے منہ پھلائے پھر رہے ہیں۔ دیکھتی ہوں کتنے عرصے تک ان کی یادداشت ساتھ رہتی ہے اور کب تک روٹھے رہتے ہیں۔
بلیاں ویسے بھی بہت مغرور اور خودپسند ہوتی ہیں۔ بات بات پر روٹھ جاتی ہیں۔ ویسے روٹھتے تو میں نے کئی اور جانوروں کو بھی دیکھا ہے۔ ایک مرتبہ چڑیا گھر میں بندروں کے پنجرے میں ایک ننھے منے بندر کو اپنی ماں سے روٹھ کر کونے میں بیٹھا دیکھا۔ ماں منانے جاتی تھی تو صاحبزادے مزید روٹھ کر دوسرے کونے میں جا بیٹھتے تھے اور رونکھے ہو کر ماں کو مٹر مٹر کر دیکھتے تھے ۔ اور ماں کا یہ حال تھا کہ
ان کو آتا ہے پیار پر غصہ
ہم کو غصے پہ پیار آتا ہے
کئی مرتبہ چڑیوں کو روٹھتے دیکھا۔ میرے کمرے میں لکھنے کی میز اور کرسی کھڑکی کے ساتھ رکھی ہے۔اس میز پر میرا آدھا وقت لکھنے میں گزرتا ہے اور باقی آدھا کھڑکی سے چڑیوں کو دیکھنے میں۔ چڑے معصوم ہوتے ہیں اور چڑیاں تیز طرار۔ ناراض ہو جائیں تو خوب لڑتی ہیں اور پھر ناراض ہو کر منہ پھیر کر چل پڑتی ہیں۔ چڑا منانے جائے تو اس بے چارے کو ٹھونگیں مارتی ہیں۔ انہیں دیکھتے ہوئے مجھے اکثر بچپن میں پڑھی وہ کہانی یاد آتی ہے جس میں چڑے نے ساری کھچڑی کھا جانے پر چڑیا کو ڈنڈی سے مارا تھا اور چڑیا اٹو اٹی کھٹو اٹی لیے کونے میں پڑ گئی تھی۔ چڑا بازار جا کر گندم لایا تھا اور چڑیا سے فرمائش کی تھی کہ پیس دے۔ گندم پیسنے سے لے کر روٹی بنانے تک ہر فرمائش کا جواب چڑیا نے یوں دیا تھا۔ ”ماری ٹونی کونے ڈالی، اب کہتے ہو گندم پیس دوں۔ دور موئے میں کیوں پیسوں؟“ اور آخر کار جب سب مرحلوں سے گزر کر چڑے نے روٹی پکا کر چڑیا کو کھانے کی دعوت دی تھی تو وہ پھرُر سے اڑی تھی اور چہک کر بولی تھی۔ ”واری سیاں پھیری سیاں میں کب تم سے روٹھی تھی؟“
انہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ زندگی کا اس سے بہتر کیا مصرف ہو سکتا ہے کہ روٹھنے منانے میں گزاردی جائے۔ ایک گھونسلہ ہو، اس میں زندگی کا ساتھی اور چھوٹے چھوٹے بچے ہوں۔ اس چھوٹی سی دنیا کا ہر محبوب اپنے چاہنے والے سے روٹھ جائے اور پھر بہت مان اور ادا اور نخرے سے مڑ مڑ کر اسے دیکھے اور ہر محبت کرنے والا بڑے لاڈ سے اپنے روٹھے محبوب کو منائے اور اس سرشاری کا لطف اٹھائے جو مان رکھنے اور منا لینے میں ہوتی ہے۔
اے میرے پیارے اللہ! اے میرے مالک، میرے ہمدم، میرے محبوب! تیری کرسی عرش سے اوپر، کائنات سے اونچی ہے لیکن تیرا تصور میرے دل کی گہرائیوں میں رہتا ہے۔ تیری محبت میرے خیال کے دامن میں موتیوں کی طرح دمکتی ہے۔ وہ محبت جو تجھ سے بھی زیادہ تابناک ہے، کیوں کہ اس کو میں اپنی سرخوشی سے اور اپنے آنسوﺅں سے سجاتی ہوں۔ اے میرے محبوب تو محیط ہے تو مقیت ہے، تو ازل ہے تو ابد ہے لیکن اپنی رات کی تنہائیوں کے کسی پل میں میں تجھے پا لیتی ہوں۔ اس پل پر ازل سے لے کر ابد تک کے تمام زمانے قربان۔ اے میرے محبوب تو معبود ہے، تو مسجود ہے، تو مقصود ہے، تو موجود ہے ۔اور اگر میں کہیں دنیا میں تجھے اپنے سامنے موجود پاتی تو کبھی روٹھا نہ رہنے دیتی ۔تیری طرف آنکھوں کے بل آتی، تیرے پیروں سے لپٹ جاتی، اپنے آنسوﺅں سے تیرا دامن تر کر دیتی، اپنا دل نکال کر تیرے قدموں میں رکھ دیتی ۔اور پھر اس سرشاری اور وارفتگی سے آشنا ہوتی جو روٹھے محبوب کو منانے سے ملتی ہے۔ اے میرے محبوب تو ظاہر ہے تو باطن ہے، تو حیی ہے تو قیوم ہے۔ تجھے باہر ڈھونڈنے کی مجھے کیا ضرورت؟ شکر ہے کہ تو میری شہ رگ میں رہتا ہے ورنہ تجھے منانے کے لیے مجھے کتنے کشٹ اٹھانے پڑتے۔
٭….٭….٭