اُف آمدنی، اخراجات، مہنگائی، بچت، سارا مہینہ یہ چکر چلتا رہتا ہے اور دماغ کی دہی بن جاتی ہے۔بے شک ہماری آمدنی اللہ کے فضل سے اچھی ہے لیکن اخراجات بھی تو اچھے خاصے ہیں اور مہنگائی ویسے ہی آسمان سے باتیں کرنے کی عادی ہے۔
پھر بھی سب کچھ گھما پھرا کر خرچا پورا کرنے کے بعدمیں کچھ نہ کچھ بچت تو کر ہی لیا کرتی ہوں…
اب اس مہینے زارا اور دانیال کی سمسٹر کی فیسیں…یہ بڑی بڑی فیسیں اچھا خاصا دیوالیہ نکال دیتی ہیں…لیکن تمام پچھلی بچتیں ملا کر یہ بھی ادا ہو گئیں …اب چھے ماہ کم از کم اس حوالے سے سکون رہے گا …
اخراجات تو ہر طرف ہی بہت ہیں۔کوئی حد نہیں…اب کچن کا خرچہ ہی اس قدر ہے کہ الامان الحفیظ…….
روز آیا گیا …نئے نئے پکوان…..طرح طرح کے لوازمات…..میں تو اکثر کہتی ہوں کہ پہلے کے لوگ اچھے تھے.لال شربت یا چلو کولڈ ڈرنکس آ گئے…چائے کے ساتھ بسکٹ… اور پھل فروٹ عیاشی ہوا کرتی تھی….اب تو بیکری سے ایسی ایسی چیزیں آتی ہیں …..یہ پیسٹریز، پفس، برائونیز،مفنز، ڈونٹس درجنوں قسم کے کیکس اور بسکٹس اور پتا نہیں کیا کیا….الم غلم …..اور قیمتیں ایسی کہ مانو ہیرے جوہرات جڑے ہوں ان میں…..اور رمضان کے مبارک مہینے میں تو کچن کا بجٹ پوچھیں ہی مت ….ان ذخیرہ اندوز بے ایمان تاجروں کو اللہ ہی پوچھے …..قیمتیں دس گنا زیادہ اور معیار گھٹیا ترین….اب رمضان سے نکلے ہیں تو عید کے اخراجات …… متوسط طبقہ آخر جائے تو کہاںجائے ……ہر طبقے میں ہی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی… مقابلہ بازی ہے ہر طرف، قناعت کا تو کہیں وجود نظر نہیں آتا….
میں اپنی ان ہی بے معنی سوچوں میں کھوئی تھی کہ دانیال آ بھی گیا……بھلا بائیک پر آنے جانے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے اور بیکری بھی تو قریب ہی تھی…
”ماما چائے کا سامان لے آیا ہوں….دیکھ لیں….اور بل بھی دیکھ لیں…بعد میں پھر تفتیشکریں گی آپ ….. ” دانیال میرا لاڈلا بیٹا بہت ہی منہ پھٹ ہے …..اب اگر میں حساب کتاب مانگتی ہوں تو ظاہر ہے ذمہ داری ہے میری ….لیکن ان بچوں کو ماں کا حساب مانگنا بھی تفتیش لگتا ہے….میں نے دانی کو گھورتے ہوئے اس سے سودے والی پرچی لی …….مانا کہ ان پیارے پیارے ”شاپنگ بیگز”میں خوبصورت ”بیکری آئٹمز” ہیں اور جسے میں نے پرچی کہا ہے یہ کمپیوٹرائزڈ سلپ ہے۔ لیکن سیدھی صاف بات کہوں تو یہ میز پہ دھرے شاپر وں میں سودا ہے اور میرے ہاتھ میں ان کی پرچی ہے …یہ مشکل مشکل عجیب و غریب ناموں سے بیوپاری ہمیں ٹھگتے ہیں اور ہم ان جدید اصطلاحات کے رعب میں آکر بیوقوف بنتے ہیں اور اپنی محنت کی کمائی بہ خوشی ان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں….اب سیدھے سبھائو بات کا تو زمانہ ہی نہیں ہے ….کپڑے جوتے بیچنے والوں کو ہی لے لیں،یہ نہیں کہیں گے کہ دکان میں نیا مال آیا ہے ….”نیو کولیکشن آئی ہے” ایسا کہا جائے گا ….اور دکان کون کہتا ہے آج کل تو بھائی آئوٹ لیٹ اور سٹورز ہوتے ہیں، دکانیں تو صرف غریبوں کے لیے رہ گئی ہیں … دولت مند تو ایک طرف رہ گئے …دولت مند کہلانے کے شوقین مڈل کلاس والے بھی ایسی جگہوں پر بھاگے چلے جاتے ہیں….بات کہاں سے نکلی اور کہاں پہنچ گئی….میں سودے کی پرچی پہ واپس آتی ہوں..
”تین ہزار؟….. …..کیا کچھ منگوایا ہے ….صرف چائے کے لیے”…. میں حیران ہی رہ گئی…مہمان آرہے تھے ….ہمارے گھر صرف چائے تھی…کھانے پر سب لوگ آگے کہیں اور مدعو تھے۔ ہمیں بھی ساتھ ہی جانا تھا….لیکن یہ آج کل کی ”چائے” سب سے بڑا دھوکا ہے …ڈھکوسلہ اور ڈرامہ ہے …. سیدھی اور صاف بات کہ نرا خرچہ ہے…….پیسے بھی برباد کرو اور پیٹ بھی نہ بھرے……ہائے وہ زمانے ہی اچھے تھے …ایک پلائو بنایا ساتھ رائتہ سلاد … سب نے کھایا …پیٹ بھی بھر گئے اور نیت بھی… سب خوش….ماضی کی یاد بھی کتنی خوشی دیتی ہے ….لیکن حال کی وہی مشکلات…….
”آپ کی لاڈلی نے جو کچھ لکھا تھا وہی سب لایا ہوں۔ اسی سے پوچھیں” ….دانی اب شاپروں سے اپنی پسند کی کھانے کی چیز ڈھونڈ رہا تھا…. اسی پل زارا آئی اور اس نے آتے ہی فوراً سے پیش تر دانی کے ہاتھوں سے سارے شاپر جھپٹ لیے ”…ندیدے…ابھی کچھ نہیں مل سکتا….. ”
میں بل کی پریشانی وہیں چھوڑ کر زارا کی سج دھج میں کھو گئی…سامان چیک کرتے ہوئے وہ مجھے تسلی دینے لگی”…ماما ضرورت کی چیزیں ہیں سب….” تھیلے اٹھائے وہ کچن میں چلی گئی……
اف! میری بچی عیاشی کے سامان کو ضرورت کی چیزیں کہہ رہی تھی ….لیکن اس میں اس کا قصور نہیں ….کسی بچے کا قصور نہیں …یہ سب تو بڑوں کی غلطیاں ہیں…….خیر اب میں کیا عید کے تیسرے دن اس کو بچت پر سمجھانے بیٹھتی۔ ویسے بھی گلابی رنگ کے خوبصورت جوڑے میں وہ اتنی حسین لگ رہی تھی کہ میں دل ہی دل میں اسے نظر نہ لگ جانے کی دعا مانگنے لگی…..
رابعہ مائی کام سے فارغ ہو چکی تھی اور اب شائد کچن میں کچھ کھا رہی تھی۔زارا باقی کام دیکھ لے گی۔میں تیار ہونے اپنے کمرے میں آگئی۔
چھوٹی عید ہے جس پر صحیح معنوں میں تیاری کا مزہ آتا ہے…رونق میلہ …سب سے ملنا ملانا ہوتا ہے….اس بار میں نے بھی اپنے لیے ذرا دل کھول کر شاپنگ کی ہے ….ورنہ آپ تو جانتے ہیں کم قیمتوں اور سیلز کے بل بورڈز سے ہم عورتوں کی نظریں نہیں ہٹتیں ….اس بار زارا نے بھی بہت زور دیا تو میں نے بے حد خوبصورت، نمبر ون برانڈ کا نو ہزار کا جوڑا لیا ہے….آپ حیران ہوں گے …نو ہزار کا سوٹ ……بھئی یہ ہم اور آپ ہی ہیں جو اب تک ایسی باتوں پہ حیران ہوتے ہیں …. ورنہ تو لوگ بیس بیس پچیس پچیس ہزار کا سوٹ پہن کر بھی مہنگائی اور مشکل حالات کا رونا روتے ہیں ……..سچ پوچھیں تو میرا دل بھی ذرا دکھا تھا …اکٹھے نو ہزار…….لیکن پھر سوچا آگے شادیوں پر بھی چل جائے گا….پھر بڑی عید پر نہیں بنوائوں گی اس طرح پورا پڑ جائے گا ….پہنتی بھی میں ایسی احتیاط سے ہوں کہ سوٹ کے پیسے پورے ہو جاتے ہیں……
کپڑے بدل کر میں آئینے میں دیکھ رہی تھی….اور خود کو سراہ رہی تھی۔ میں اب بھی حسین ہوں۔زارا کے پاپا اگر تعریف کرتے ہیں تو غلط نہیں کرتے…..بس ہم بیٹیوں کی مائیں جلد ہی اپنے آپ پر خود ساختہ بڑھاپا طاری کر لیتی ہیں…..میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ رابعہ مائی کمرے میں چلی آئی….میری با اعتماد کام والی…ایک عرصے سے میرے پاس کام کر رہی تھی….وہ میرا کام بہت اچھا کرتی تھی اور میں اس کا خیال بہت اچھی طرح رکھتی تھی….باہمی اعتماد ہی ہے کہ وہ عید کے دن بھی میرا کام کرنے آتی ہے۔ عیدی اور تنخواہ تو میں اسے دے چکی تھی..وہ شائد اپنی کوئی بات کرنے آئی تھی…..
”باجی ایہہ میرے پیسے سنبھال لو….میں بعد وچ لے لواں گی….” وہ اکثر اپنی بچت میرے پاس رکھوا دیا کرتی تھی …کہ گھر لے کر جائوں گی توپیسے خرچ ہو جائیں گے ۔ لیکن عید کے موقع پر جب پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے …میں اس کی بات پر حیران ہوئی تھی…..اس نے لپٹے لپٹائے نوٹ میری طرف بڑھائے…….میں نے حیرانی سے اُسے دیکھتے ہوئے پکڑ بھی لیے …. پانچ سو کے نوٹ کے اندر سو سو کے پورے چار نوٹ تھے.. …….نو سو روپیہ… یہ اس کی بچت تھی شائد…میں اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی……
”عالیہ کوئی نئیں آئی اس بار …” مجھے لگا جیسے رابعہ کی آنکھیں عالیہ کے نہ آ سکنے کے غم سے نم ہیں…..اور ایسے ہی کل کو میری آنکھوں میں بھی نمی اترا کرے گی…..زارا کے نہ آ سکنے پر….. مائوں کے دکھ سانجھے ہوتے ہیں نا……عالیہ رابعہ کی بیٹی تھی جو دوسرے شہر بیاہی ہوئی تھی”….. ہُن اگلے ہفتے آوے گی ….فیر لواں گی پیسے…. ” وہ بتا رہی تھی….
رابعہ بیوہ تھی……اپنے چھے بچے اس نے محنت مزدوری سے پالے تھے…….دو بیٹے چار بیٹیاں…سب کو ہی بیاہ دیا تھا….اب ایک بیٹے کے ساتھ رہتی تھی …اور بیٹیوں کی منتظر رہتی تھی…..عید پر تو سب ہی آتی تھیں….پر بس اس بار عالیہ نہ جانے کیوں نہیں آ پائی تھی…..میں نے اسے تسلی دی اور وہ سلام دعا کہہ کر رخصت ہو گئی…..لیکن میرے ہاتھ میں نو سو روپیہ تھا اور….میرے تن پر نو ہزار کا سوٹ…
آپ یقین مانئے میں رابعہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرتی ہوں…اس کی مالی معاونت بھی کرتی ہوں…اس سے نرم لہجے میں بات کرتی ہوں ..اس کا خیال رکھتی ہوں……لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں …کبھی کبھی مجھے ڈر لگتا ہے …جب میں اس کی غریبی دیکھتی ہوں تو مجھے اپنی امارت پر شرمندگی ہونے لگتی ہے….اپنا آپ مجرم سا لگنے لگتا ہے……
جیسے ابھی رابعہ مائی کا نو سو روپیہ مجھے شرمندہ کر رہا ہے….
آپ سوچ رہے ہوں گے میری باتوں میں کتنا تضاد ہے…..بھئی سیدھی صاف بات کہوں….(سیدھی صاف بات میرا تکیہ کلام ہے .اب تک آپ جان ہی گئے ہوں گے…)
ہاں تو سیدھی صاف بات یہ ہے کہ ہم جیسے لوگ جو خود تو مشکل حالات سے نبرد آزما رہے …بچپن اور جوانی کا وقت مشکل میں کاٹا…..اور اب بچوں والے ہوئے ہیں تو خوشحالی نے آن گھیرا ہے..تو ہم جیسے غریب امیر ایسی صورت میں اکثر گھبرا جاتے ہیں…..اور اسی گھبراہٹ ہیں اکثر لوگ اپنا ماضی بھول جاتے ہیں یا فراموش کر دیتے ہیں یا اسے سب سے چھپاتے پھرتے ہیں…..اور کچھ مجھ جیسے درمیان میں لٹکے رہتے ہیں …آدھے تیتر آدھے بٹیر……
اب میں کسی وقت تو بہت خوشی خوشی دولت سے لطف اندوز ہوتی ہوں…لیکن کچھ لمحات ایسے آتے ہیں کہ میرے دل میں خوف جم جاتا ہے….میں ڈر جاتی ہوں…اپنے سے نیچے والوں کا احوال جان کر مجھے ڈر لگتا ہے….اپنا آپ قصور وار لگنے لگتا ہے….ایسے ہی…خواہ مخواہ…..اب بھلا کسی کے حالات خراب ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ….میں نے تو نہیں کیے نہ خراب.. ….یہ تو حکومت کی ذمہ داری ہے…..معاشرتی ناہمواریوں کی وجہ سے ایسا ہے …….میں کہاں سے مجرم ہوں بھلا…….لیکن پھر بھی یہ نو سو روپیہ مجھے شرمندہ کرتا ہے اور میرے تن پر یہ نو ہزار والا کپڑا مجھے چبھ رہا ہے ……اب بتائیں مجھ جیسے لوگ کیا کریں ….کہاں جائیں……………..
میری سوچیں مجھے بے چین کیے دیتی ہیں کہ آخر نو ہزار کا سوٹ پہننے والی انیقہ جمال اور نو سو بچانے والی رابعہ مائی میں کس چیز کا فرق ہے …..شکل کا….عقل کا……علم کا….عمل کا….یا پھر صرف اور صرف آزمائش کا …………..