عید مِلن پارٹی ۔ الف نگر

عید مِلن پارٹی

ساجدہ غلام محمد

اتنے غباروں کا کیا کریں گے صاحب؟ وہ آدمی حیران تھا۔ پڑھیے عید کے حوالے سے خاص کہانی!

”کیا ہوا؟ کیا آج پھر کوئی نہیں آیا کھیلنے؟” امی نے عماد کا اُداس چہرہ دیکھ کر پوچھا۔

”جی امی! پتا نہیں یہاں بچے گرائونڈ میں جا کر کیوں نہیں کھیلتے۔ امی! ہم اس کالونی میں کیوں آگئے ہیں؟پرانی جگہ اچھی تھی، وہاں میرے دوست تھے اور ہم روز مل کر کھیلتے تھے۔” عماد کے لہجے میں افسردگی تھی۔

”بیٹا! آپ کے ابو جی کو یہاں جاب مل گئی اس لیے ہم یہاں آگئے۔ آؤ میں آپ کے ساتھ کھیلتی ہوں۔” امی نے اسے بہلانا چاہا۔

”امی جی! کیا میری عید بھی ایسے ہی گزرے گی؟ اکتاہٹ والی!” عماد زیادہ ہی اُداس تھا۔ امی اُس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔

”اکتاہٹ کیوں؟ میرے پاس ایک ترکیب ہے، کیوں نہ ہم عید پر آپ کے تمام کلاس فیلوز کی دعوت کریں؟”

”دعوت؟ میرے کلاس فیلوز کی؟” عماد نے حیرت سے امی کی جانب دیکھا۔

”جی ہاں! آپ کے تین کلاس فیلوز اسی گلی میں رہتے ہیں نا! ہم مل کران سب کے لیے کارڈز بناتے ہیں،دعوتی کارڈز! آپ کل اسکول میں انہیں دے دینا اور کہنا کہ کسی کاغذ پر اپنی ایک نمکین اور ایک میٹھی ڈش کے نام بھی لکھ دیں۔” امی نے عماد کو تفصیل بتائی تو وہ خوش ہوگیا۔

٭…٭…٭

”میں اپنے گھر میں آپ تینوں کی عید پارٹی کر رہا ہوں۔ آپ لوگ ضرور آنا۔” اگلے دن عماد نے اپنے ہاتھ سے بنے خوب صورت کارڈز دوستوں کو دیے تو حیرت اور خوشی سے سبھی کی آنکھیں پھیل گئیں۔

”بہت خوب صورت کارڈز ہیں۔ تمہاری ڈرائنگ تو بہت ہی پیاری ہے۔” صائم نے ستائشی لہجے میں کہا تو عماد مسکرا دیا۔

”میں تو ضرورآئوں گا۔ آنٹی کیا کیا بنائیں گی؟” کھانے کے شوقین حسن نے شرارت سے پوچھا تو عماد فوراً بولا: ”ارے ہاں! یاد آیا۔ آپ سب مجھے اپنے پسندیدہ کھانوں کے نام تو بتائیں ذرا! پھر امی مینو بنائیں گی۔ سرپرائز مینو ہوگا ان شاء اللہ!” اس نے لہجے کو پراسرار بناتے ہوئے آنکھیں گھمائیں تو صائم، حنان اور حسن اس بات پر ہنس دیے۔

٭…٭…٭

”عید مبارک!”

”عید مبارک!” 

عید کی نماز کے بعد عماد اور اُس کے ابو جی ڈرائنگ روم کو رنگ بہ رنگ غباروں سے سجانے لگے۔

”ارے واہ! آپ دونوں نے مل کر کمرے کو بہت پیارا سجایا ہے۔” کچھ دیر بعد امی کمر ے میں آئیں تو بے اختیار کہہ اٹھیں۔

”آج ہمارے بیٹے کی عید پارٹی جو ہے۔ پہلی بار اِس کے دوست آرہے ہیں۔” ابو جی نے ایک دیوار پرٹیپ سے غبارہ چپکاتے ہوئے کہا تو عماد مسکرا دیا۔

دوپہر کو حنان، حسن اور صائم اس کے گھر آگئے۔

اسی وقت عماد کی امی ٹھنڈا ٹھنڈا ، مزے دار دودھ سوڈا لے آئیں۔

”پہلے کھیلنا ہے یا کھانا ہے؟” انہوں نے ٹرے میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔

”پہلے کھانا ہے!میں نے تو صبح سے بس سویاں کھائی ہیں۔ سوچا تھا عماد کے گھرجا کر دعوت کھاؤں گا۔” حسن نے جواب دیا تو سبھی ہنس پڑے ۔ کچھ ہی دیر میں کھانے کی میزسب کی پسندیدہ ڈشوں سے سجی ہوئی تھی۔

”تھینک یو آنٹی! یہ بہت مزے کا ہے۔” حنان نے پیزے کا پہلا لقمہ لیتے ہوئے کہا۔

”واؤ، برگرز!” حسن کی پسندیدہ ڈش بھی میز پر موجود تھی۔

”بھئی میں نے فرائیڈ چکن لکھا تھا۔” صائم نے میز پر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔

”وہ بھی ملے گا بچو! پہلے یہ چیزیں تو کھاؤ نا! امی نے محبت سے کہا تو صائم نے جھینپ کر ایک برگر اپنی پلیٹ میں رکھ لیا۔ سب نے خوب ہلّا گلّا کرتے، ہنستے ہنساتے کھانا کھایا۔ کھانے کے دوران عماد کے ابو نے لطیفوں کا مقابلہ کروایا۔ سب نے مزے مزے کے لطیفے سنائے۔ حنان نے کچھ مشہور لوگوں کی پیروڈی کی تو سب نے خوب لطف اٹھایا۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ قالین پر بیٹھ گئے۔ اب ایک نیا کھیل شروع ہونے والا تھا۔

”بچو! یہ ایک ڈبّا ہے۔ جیسے ہی میں ہلکا سا میوزک چلاؤں تو آپ نے یہ ڈبّا ایک دوسرے کی طرف بڑھانا ہے۔ جس بچے پر میوزک بند ہو گا، وہ ڈبّے کا ریپر اتارے گا اور اندر سے نکلنے والی چیز اس کی ہوگی۔” امی نے ہدایات دیں تو سبھی پُرجوش ہو کر بیٹھ گئے۔

”یہ تو pass the parcelگیم ہے۔ ہم کزنز مل کر خوب کھیلتے ہیں۔” حسن نے ڈبّا صائم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ اچانک میوزک بند ہوا، تب صائم کی باری تھی۔ اُس نے ریپنگ پیپر اتارا۔

”اوہ! اس کے اندر تو پین ہے۔” صائم نے منہ بناتے ہوئے پین کھولا تو اچانک پٹاخے کی آواز آئی اور چاروں بچے اچھل پڑے۔ یہ پٹاخے والا کھلونا پین تھا۔ سب بچے ہنسنے لگے۔ پین کے ساتھ ایک چاکلیٹ بھی تھی۔ صائم نے فوراََ ریپر اتارا۔

دوبارہ میوزک شروع ہوا، توبچوں نے ایک بار پھر ڈبّا ایک دوسرے کی طرف بڑھانا شروع کر دیا۔ اس بار ڈبّا عماد کے ہاتھ میں آیا تو اس نے ریپر اتارا۔ اندر ایک پرچی تھی جس پر لکھا تھا:

”ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر پورے کمرے کا چکر لگائیں۔” عماد نے ایک ٹانگ پر اچھلتے کودتے کمرے کا چکر لگایا تو بچوں کے قہقہے چھوٹ گئے۔ انعام میں اسے بھی چاکلیٹ ملی۔ حسن کے حصے میں کوئی مشہور ملی نغمہ گانا تھا اور حنان نے خوانچہ فروش بننا تھا۔ سبھی بچے اس کھیل سے خوب لطف اندوز ہوئے۔

”چلو اب باہر صحن میں کھیلتے ہیں۔” ابو جی نے کہا تو سب فوراََ باہر کی طرف لپکے۔ وہاں ابو جی نے پہلے سے پلاسٹک کے کچھ چمچ اور آلو رکھے ہوئے تھے۔

”آلو چمچ ریس!!” بچوں نے فوراََ اندازہ لگا لیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں چاروں دوست اپنے اپنے منہ میں چمچ دبائے، ایک آلو کو اس چمچ پر رکھ کر ریس لگا رہے تھے۔ ریس کے آغاز ہی میں صائم کے چمچ سے آلو گر گیا جب کہ حنان کے چمچ والا آلو عین اس وقت گرا جب وہ جیتنے والی لائن کے پاس تھا۔

”میں جیت گیا! میں جیت گیا!” حسن ایک ہاتھ میں چمچ اور دوسرے ہاتھ میں آلو لہراتا ہوا خوشی سے اچھلنے لگا۔

”ارے! آج عید کا دن ہے، آج کوئی جیت ہار نہیں ہے۔ آج تو بس خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔” امی جی نے سب بچوں کو چپس کا ایک ایک پیکٹ پکڑاتے ہوئے کہا تو شکریہ کہہ کر سب مسکرا دیے۔

”جی ہاں آنٹی! ہمیں بہت مزا آرہا ہے۔” صائم نے چپس منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔

”بس اب جلدی جلدی چپس ختم کرو پھر ہم پٹّھو گرم کھیلیں گے۔” ابو جی بولے۔ واقعی کچھ دیر بعد پورا گھر پٹّھو گرم پٹّھو گرم کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔ اتنی دیر میں عماد کی امی باہر صحن میں ہی ایک ٹرے میں گرما گرم فرائیڈ چکن لے آئیں۔

”یاہو!” صائم نے بے اختیار نعرہ لگایا۔ چکن فرائیڈ کھاتے ہوئے سب بچوں نے اپنے پسندیدہ کارٹون دیکھے، ساتھ ساتھ وہ ہنسی مذاق بھی کیے جارہے تھے۔

”اور اب میری پسندیدہ آئس کریم کی باری ہے نا؟” عماد نے امی سے پوچھا تو وہ ہنس پڑیں۔

”جی ہاں! آج عید ہے اس لیے مزے کرو۔”

کرکٹ، میوزیکل چیئرز اور دوسرے کھیل کھیلتے اندازہ ہی نہ ہوا کہ کب مغرب کا وقت قریب آپہنچا۔ اچانک ہی گلی میں ایک غبارے والے کے باجے کی آواز آئی۔

”امی جان! آج تو عید کا دن ہے، آج بھی یہ آدمی غبارے بیچ رہا ہے؟” عماد کے لہجے میں تعجب تھا۔

”بیٹا! ان غریبوں کو ہر روز کام کرنا پڑتا ہے، تبھی ان کے پاس پیسے آتے ہیں اور کھانا پکتا ہے۔” عماد کے ابو جی نے جواب دیا۔ صائم نے گیٹ کھول کر باہر جھانکا۔ غبار وں والا آدمی قریب آچکا تھا۔

”بات سنو!” اس نے سب دوستوں کو بلایا پھر چاروں میں کھسر پھسر شروع ہو گئی۔ عماد کی امی نے حیرت سے عماد کے ابو کی جانب دیکھا لیکن انہوں نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

”انکل! ہم اپنی عید ی سے کچھ حصہ اِس آدمی کو دینا چاہتے ہیں۔” حنان نے جھجکتے ہوئے عماد کے ابو جی سے کہا تو وہ بے اختیار مسکرا دیے۔

”ماشاء اللہ! یہ تو بہت پیاری سوچ ہے بچو! ماشاء اللہ! عید ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ غریبوں کا بھی احساس کیا جائے اور اپنی خوشیوں میں انہیں بھی شریک کیا جائے۔” ابو نے خوشی بھرے لہجے میں بچوں کی جانب دیکھ کر کہا۔ جیسے ہی غباروں والا آدمی قریب آیا، ابو نے اُسے پیسے دے کر سارے غبارے خرید لیے۔

”اتنے غباروں کا کیا کریں گے صاحب؟” اس آدمی کی آنکھوں میں خوشی نظر آرہی تھی۔

”کسی کو تحفے میں دینے ہیں۔” ابو جی نے مسکرا کر کہا اور پھر سارے غبارے اسی کو واپس پکڑا دئے۔

”یہ لو! ہماری طرف سے عید کا تحفہ!اب تم چاہو تو انہیں بیچ دو، چاہو تو اپنے گھر لے جاؤ، تمہارے بچے کھیل لیں گے۔” ابو جی نے کہا تو وہ آدمی حیرت سے اِن کی جانب دیکھنے لگا۔

”ارے حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان بچوں نے اپنی عیدی کے پیسوں سے یہ غبارے خریدے اور بطور تحفہ تمہیں لوٹا دیے۔ اتنے سارے غباروں کا ہم کیا کریں گے۔” ابو نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ سب کو دعائیں دیتا خوشی خوشی اپنی راہ چل دیا۔ جاتے ہوئے امی نے اس کے لیے کھانے پینے کا کچھ سامان بھی لفافے میں ڈال دیا تھا۔ حنان، صائم، حسن اور عماد بہت خوش تھے۔ ابھی وہ گیٹ بند کرنے ہی لگے تھے کہ حسن کے ابو کی گاڑی سامنے آ کر رکی۔

”چلیں عبداللہ صاحب! اپنی گاڑی نکالیں ۔ آؤ بھئی بچو! بیٹھو گاڑی میں! ہم سب مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد واٹر پارک جا رہے ہیں۔” یہ سن کر تمام بچے خوشی سے اچھل پڑے۔ عماد کے ابو مسکراتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئے۔

واٹر پارک میں پانی کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے ہوئے سبھی بچے بہت خوش تھے۔

”انکل! آج سے پہلے کبھی ہماری عید اتنی اچھی نہیں گزری، بہت مزا آرہا ہے۔”

”بیٹا جی! عید تو اپنوں کے سنگ ہنس کھیل کر، مل بیٹھ کر اور دوسروں کی مدد کرکے گزارنے کا نام ہے۔”

”جی! یہی تو اصل خوشیاں ہیں۔” سب بچوں نے ایک ساتھ کہا پھر وہ واپسی کی تیاری کرنے لگے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

حقیقی دوستی ۔ الف نگر

Read Next

کی میکر ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!