عکس — قسط نمبر ۷

سسٹر ایگنس کو لگا ڈی سی پاگل تھا یا اس کا ذہنی توازن خراب ہونا شروع ہوگیا تھا۔ وہ چند مہینے پہلے اس بات پر وہاں ہنگامہ کر کے گیا تھا کہ ایک نوکر کی نواسی کو بھیجا جانے والا وارننگ لیٹر اس کی بیٹی کے ہاتھ کیوں بھیجا گیا تھا اور وہ آج پھر وہاں اس مطالبے کے ساتھ آیا تھا کہ اس بچی کو اسکول سے نکال دیا جائے۔اس کانانا چور تھا اور اسے ڈی سی ہاؤس سے اسی وجہ سے ملازمت سے فارغ کردیا گیا تھا۔ خیر دین کے حوالے سے یہ انکشاف سسٹر ایگنس کے لیے شاکنگ تھے لیکن اس سے زیادہ شاکنگ اس ڈی سی کا رویہ تھا جس نے پہلے یہ مطالبہ اپنے آفس میں بیٹھے اپنے پی اے کے ذریعے اس تک پہنچایا تھا پھر خود فون پر یہ مطالبہ دہرایا تھا اور اب اسے اطلاع دیے بغیر اس کے آفس میں آن دھمکا تھا۔




سسٹر ایگنس کے لیے اپنا غصہ کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ وہ اس سے پہلے اسکول میں ایڈمیشن کے لیے انتظامی مشینری کا دباؤ برداشت کرتی رہی تھی لیکن یہ پہلا موقع تھا جب کسی بچی کو اسکول سے نکلوادینے کے لیے انتظامی مشینری سرگرم نظر آرہی تھی۔ اس نے ڈی سی کے ساتھ جتنی نرمی اور تہذیب کا مظاہرہ کرنا ممکن تھا کیا لیکن ایک پوائنٹ پر آکر اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔
“I cant take it any more – Please leave my office right away” (میں اس سے زیادہ برداشت نہیں کرسکتی۔ آپ اسی وقت میرے آفس سے چلے جائیں) باربی ڈول کا باپ بری طرح بھڑکا تھا۔ اس کی زندگی میں یہ دوسری بار ہوا تھا جب کسی نے اس سے اس طرح بدتمیزی سے بات کی تھی اور دونوں دفعہ یہ کارنامہ اسی عورت نے سر انجام دیا تھا جو اس کے سامنے ایک اسکول کی پرنسپل والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔
‘‘You dare not talk to me like that if you want to continue this job. You have no idea what I can do to )remove you from this post” اگر تم اپنی نوکری جاری رکھنا چاہتی ہو تو تم مجھ سے اس طرح بات کرنے کی جرات بھی مت کرنا ، میں تمہیں اس پوسٹ سے ہٹانے کے لیے کیا کچھ کرسکتا ہوں تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے) وہ بالکل ہی ہتھے سے اکھڑ گیا تھا۔
Mr DC if this is a challenge then I take it .Please leave my office immediately. I have to meet some other visitors as well.”

(ڈی سی صاحب، اگر یہ ایک چیلنج ہے تو میں اسے قبول کرتی ہوں۔ برائے مہربانی آپ فوراً میرے آفس سے نکل جائیں۔ مجھے کچھ اور لوگوں سے بھی ملاقات کرنی ہے)
وہ اب کچھ بھی کہے بغیر سرخ چہرے کے ساتھ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور یہ اچھا ہی ہوا ورنہ اب بھی وہ کھڑا نہ ہوتا تو سسٹرا یگنس وہاں سے اٹھ جاتی۔ اس نے مزید سسٹر سے کچھ نہیں کہا تھا۔ بس تقریباً دروازہ توڑنے والے انداز میں کھول کر وہ وہاں سے نکلا تھا۔ اس کے جانے کے بعد سسٹر ایگنس بہت دیر پریشانی کے عالم میں وہاں بیٹھی رہی۔ وہ اس سے خوف زدہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ ڈی سی کے اختیارات اور پاورز کیا تھیں وہ کیا نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے اسکول اور اس کو مشکل میں ڈالنے کے لیے۔ اسے یقین تھا آج نہیں تو کل اسے کیتھولک بورڈ آف ایجوکیشن سے فون آنے ہی والا تھا۔ وہ اسے اتنی دھمکیاں دے کر گیا تھا، کچھ نہ کچھ تو کرتا ہی… لیکن اسے یقین تھا کہ کیتھولک بورڈ کا اسٹینڈ بھی اس ایشو پر وہی ہو گا جو اس کا تھا لیکن اس معاملے کے مزید بگڑنے سے پہلے اس کا خیردین کے معاملے کو Interrogate (چھان بین) کرنا ضروری تھا۔ اس نے خیردین کو دوسرے دن ہی اسکول بلوا لیا تھا اور جب اس نے ڈی سی کا مطالبہ اور الزامات خیردین کے سامنے دہرائے تو اس کا رنگ سفید پڑ گیا تھا۔
بعض دفعہ انسان لاکھ کوشش کے باوجود بھی اپنا پردہ نہیں رکھ پاتا، وہ جیسے بیچ چوراہے میں جاکر پھوٹتا ہے اور خیردین کے ساتھ بھی اس وقت یہی ہورہا تھا۔ اس نے سسٹر ایگنس کو اپنی صفائی دینے کی کوشش کی اور پھر جیسے خود پر قابو نہ پاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔
اس دن جو کچھ سسٹر ایگنس نے خیردین سے سنا تھا اس نے انہیں ہلا کر رکھ دیا تھا۔ چڑیا ان کی فیورٹ اسٹوڈنٹس میں سے تھی اور انہیں وہ سب کچھ سنتے ہوئے جیسے دلی رنج ہوا تھا۔ وہ اب چڑیا کی اس حالت کو سمجھ سکتی تھیں جسے وہ پہلے سمجھ نہیں پارہی تھیں۔ خیردین ان کے سامنے کرسی پر بیٹھے روتے ہوئے سر جھکائے انہیں سب کچھ بتاتا رہا اور وہ تاسف سے سر ہلاتی رہیں۔ ان کے پاس وہ الفاظ نہیں تھے جن میں وہ خیردین سے ہمدردی کا اظہار کرتیں یا اپنے رنج کو بیان کر پاتیں۔
……٭……
ایک آدمی نے ریڑھی پر پڑا پھل بڑے بڑے لفافوں میں بھر کر گاڑی کے اندر پھینکنا شروع کر دیا تھا۔ دوسرے نے دال کا دیگچہ اٹھا کر وہیں فٹ پاتھ پر الٹا دیا تھا۔ خیردین نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی۔ ان کو روکا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا… وہ تعداد میں زیادہ تھے اور سرکار کے آدمی تھے… اور چڑیا اس سب کے دوران بے حد خوف زدہ روتے ہوئے خیردین اور اپنے اوپر ٹوٹنے والی ایک اور قیامت دیکھتی رہی۔ وہ ان کا رزق تھا جو وہ چھین کر لے گئے تھے۔ ریڑھی پر اب کچھ بھی نہیں تھا جو تھا وہ زمین پر بکھرا ہوا تھا صرف لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو یہ تماشا دیکھنے کے لیے وہاں آن کھڑا ہوا تھا۔
……٭……




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۶

Read Next

نیند ہمیں پیاری ہے — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!