عکس — قسط نمبر ۷

”کریم ضائع ہوتی یار۔” وہ بھی اب شیردل کو چھیڑ رہی تھی۔
”ظاہر ہے میں تو important ہوں نہیں تمہارے لیے… تو تم جو چاہے کرو میرے ساتھ۔” شیردل نے کام کرتے ہوئے اسکرین پر اسی طرح نظریں جمائے بے حد سنجیدگی سے کہا۔ شہربانو نے ہنستے ہوئے اسے ایک لمحہ کے لیے hug کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں تم بالکل بھی important نہیں ہو میرے لیے… تم بس میرے بوائے فرینڈ ہو۔” وہ اب بیڈ کے کراؤن سے اسی کی طرح ٹیک لگائے اس کے کندھے پر سر رکھے laptop کی اسکرین پر excelشیٹس کو اوپر نیچے ہوتے دیکھنے لگی۔
”obviously”۔’شیردل نے کہا۔
”obviously”۔ شہربانو نے بھی اسی انداز میں کہا۔
”چلو ٹھیک ہے پھر تم اپنی ممی کے پاس ہی رہنا۔” وہ بے حد سنجیدگی سے بولا۔
”تم مر جاؤ گے میرے بغیر۔” شہربانو نے اس کے بازو پر ایک ہلکا سا مکا مارا۔ شیردل ہنس پڑا۔




”اور تم؟” اس نے جواباً شہربانو سے پوچھا۔
”میں بھی۔” وہ بھی ہنس پڑی تھی۔
”Good۔” شیردل جیسے اس کے جواب سے محظوظ ہوا۔
”کوئی song ہی لگا دو۔” اس کے کندھے سے سر ٹکائے اس نے شیردل سے فرمائش کی۔ شیردل کے laptop میں ان دونوں کے پسندیدہ میوزک کی ایک لمبی چوڑی playlist تھی۔ وہ جب بھی رات کو بیڈ روم میں بیٹھا کام کر رہا ہوتا تو ہینڈز فری کے ساتھ میوزک بھی سنتا۔ اگر شہربانو جاگ رہی ہوتی تو وہ دونوں کام اور باتوں کے ساتھ song سنتے رہتے… بعض دفعہ وہ گھنٹوں اسی طرح اس کے کندھے سے سر ٹکائے اس کو laptop پر کام کرتا دیکھتی رہتی اور میوزک سنتی رہتی۔ اس کے لیے جیسے شیردل کے ساتھ اس طرح خاموشی سے بیٹھ کر وقت گزارنا بھی کافی تھا۔ شیردل نے اس کی فرمائش پر کام کرتے کرتے رک کر میڈیا پلیئر پر کوئی نمبر ڈھونڈا تھا اوراسے لگا دیا۔ بیڈ روم میں جگجیت کی غزل… تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا… گونجنے لگی تھی۔ اس کے کندھے سے ٹکے ٹکے وہ ہلکی آواز میں گنگنانے لگی۔ شیردل مسکراتے ہوئے کام کرتے اسے گنگناتے سنتا رہا۔
”تم بھی گاؤ۔” شہربانو نے یک دم اس سے فرمائش کی۔ وہ مسکرا دیا لیکن اس نے شہربانو سے کچھ کہا نہیں۔
”گاؤ بھی۔” شہربانو نے پھر اصرار کیا۔ شیردل بہت اچھا گا لیتا تھا۔
”یار بزی ہوں آج۔” اس نے شہربانو کے اصرار پر عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”بس مجھے نہیں پتا… دو لائنز ہی گاؤ… لیکن میرے لیے گاؤ۔” شہربانو نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔
”اوکے لیکن کوئی اور گاتا ہوں… یہ نہیں۔” شیردل نے یک دم playlist کو چیک کرتے ہوئے کہا۔
”کیوں یہ کیوں نہیں؟” شہربانو نے کچھ حیران ہوتے ہوئے کہا۔ ”مت change کرو یار… یہ اچھا لگ رہا ہے۔” اس نے playlist میں اسکرولنگ کو روکنے کے لیے شیردل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔ شیردل رک گیا۔
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ تم گھنا سایہ
”گاؤ بھی شیری۔” شہربانو نے اصرار کیا۔ وہ اسے عجیب مشکل میں پھنسا رہی تھی اور ہمیشہ یہی کرتی تھی سوچے سمجھے جانے بوجھے بغیر… پتا نہیں اس کو بعض چیزیں وہی کیوں اچھی لگتی تھیں جو عکس کو پسند تھیں اور جن کو شیردل صرف عکس کے حوالے سے یاد رکھتا تھا۔ بے اختیار ایک گہری سانس لے کر اس نے شہربانو کی فرمائش پوری کرنا شروع کی۔ وہ اب مسکراتے ہوئے اس کے بازو کے گرد اپنا بازو لپیٹے بڑی طمانیت کے عالم میں اس کے کندھے پر گال ٹکائے جگجیت کے بجائے اس کی آواز سن رہی تھی اور شیردل جگجیت کی وہ غزل گنگناتے ہوئے عکس کی آواز کی بازگشت کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا۔ اس نے پہلی بار اس غزل کو عکس ہی سے سنا تھا… جگجیت کی غزل تو اس نے بہت بعد میں سنی تھی، کہیں اور جگجیت کی غزل سنتے ہوئے بھی اس کو عکس ہی یاد آتی رہی تھی۔
وہ دونوں اکیڈمی میں میوزک کلب کے ممبر تھے اور کسی سوشل ایوننگ میں اس نے پہلی بار عکس کو کسی سازوسازندے کے بغیر یہ غزل گاتے سنا تھا۔ اکیڈمی میں بہت کم لوگ گا سکتے تھے یا گانے کا شوق رکھتے تھے۔ اس سوشل ایوننگ کے پروگرام میں ایک غزل کے لیے عکس کا نام دیکھ کر جیسے سب کو کرنٹ لگ گیا تھا… اس کی آواز خوب صورت تھی جس طرح اکیڈمی کی بہت سی لڑکیوں کی تھی۔ اس میں نرمی اور ملائمیت بھی تھی لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کامن کیtopperیہ شوق بھی رکھتی تھی۔




اس کے اسٹیج پر آکر مائیک کے ہاتھ میں لینے تک وہاں بیٹھے تمام کامنرز کو بے حد دلچسپی تھی اس کی اس قابلیت اور ٹیلنٹ کو جانچنے میں لیکن ہال میں مائیک پر اس کی آواز بلند ہوتے ہی وہاں دلچسپی اشتیاق تجسس نام کی ہر چیز غائب ہو گئی تھی… وہاں صرف عکس مراد علی کی آواز کا جادو تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ سانس لینا، نظریں ہٹانا، حرکت کرنا یک دم ہر ایک کے لیے بے حد اضافی اور غیر ضروری سے کام ہو گئے تھے… اور شیردل اس ساکت اور ٹرانس میں آئے ہوئے کراؤڈ کا حصہ تھا۔
آج پھر دل نے اک تمنا کی
آج پھر دل کو ہم نے سمجھایا
وہ اپنی آواز کی ملائمیت سے وہاں بیٹھے ہر شخص کے دل کو کاٹ رہی تھی… کسی اضافی نشتر کے بغیر… ایک پلین ڈارک بلیو کُرتے اور سینے پر پھیلے ہوئے شیفون کے سفید دوپٹے اور سفید چوڑی دار پاجامے کے نیچے ایک بلیو کولہاپوری چپل پہنے، ماتھے پر بار بار پھسل کر آجانے والے بالوں کو ہلکے سے جھٹکتے کانوں میں ہلکورے لیتے بڑے بڑے سلور بالوں کے ساتھ مائیک ہاتھ میں لیے ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی پکچر پرفیکٹ تھی۔
تم چلے جاؤ گے تو سوچیں گے
ہم نے کیا کھویا ہم نے کیا پاپا
”اس عورت کو سنگر ہونا چاہیے تھا۔ یہ اکیڈمی میں کیوں وقت برباد کر رہی ہے۔” شیردل نے وہاں بیٹھے دوسرے مردوں کی طرح ایک بے حد chauvanistic ذہن کے ساتھ سوچا۔
غزل کب ختم ہوئی تھی اس کا احساس کسی کو نہیں ہو پایا تھا۔ جگجیت کی اس غزل میں کتنے شعر تھے۔ ہر ایک یک دم گنتی بھول گیا تھا۔ عکس کے خاموش ہونے پر بھی ہر ایک جیسے اگلے مصرعے کے انتظار میں تھا۔ وہاں کسی نے تالی تک نہیں بجائی تھی۔ پر اس کے مائیک کو واپس اسٹینڈ پر سیٹ کرنا تھا جس نے یک دم پورے ہال کو زندہ کر دیا تھا۔ ایک hunderous aplause (والہانہ داد/ستائش) تھی جو اسے ملی تھی۔ کچھ مرد کامنرز نے کھڑے ہو کر اس کے لیے تالیاں پیٹی تھیں۔ وہ بڑے اطمینان سے میلا لوٹ کر اسٹیج سے غائب ہو گئی تھی۔
دوسری فرنٹ رو میں بیٹھا شیردل شاید اس ہال میں بیٹھا واحدکامنر تھا جس نے عکس کے لیے تالی نہیں بجائی تھی۔ وہ مرعوب تھا۔ متاثر تھا، ٹرانس میں تھا… سب کچھ تھا لیکن وہ الو کا پٹھا نہیں تھا اس لیے وقتی طور پر اس نے گدھا نظر آنا زیادہ بہتر محسوس کیاایک ساتھی کے ٹیلنٹ کو داد دیتے ہوئے ساتھیوں کے درمیان قدرے بے تاثر چہرے کے ساتھ۔ اس نے پہلے گھڑی پر وقت دیکھا تھا پھر ہاتھ میں پکڑا پروگرام چارٹ… وہاں ایک اور گانے کے بعد اس کی پیانو پرفارمنس تھی۔ اس نے پورے پروگرام کو پڑھا… اپنے نام کے Spelling تک کر کے پڑھ لیے۔ تالیاں تب بھی بجتی رہی تھیں۔ اور جب بالآخر تالیاں تھم گئیں اور اسٹیج سیکریٹری اگلی پرفارمنس کو اناؤنس کرنے لگا تو اس نے پہلی بار اپنی سیٹ سے ذرا سا آگے ہو کر دائیں کان کی لو کھجاتے ہوئے بائیں طرف گردن موڑ کر اس دوسری فرنٹ رو کے آخر میں بیٹھی ہوئی عکس مراد علی کو پہلی ستائشی نظر سے دیکھا۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۶

Read Next

نیند ہمیں پیاری ہے — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!