عکس — قسط نمبر ۷

اسکول چھوڑ کر جانے سے پہلے باربی ڈول نے بھی چڑیا سے ملنے، بات کرنے اور اسے یہ بتانے کی بار بار کوشش کی تھی کہ وہ لوگ وہاں سے جارہے تھے۔ اپنے باپ کی تمام تاکیدوں اور تنبیہوں کے باوجود بھی… لیکن وہ اس میں ناکام رہی تھی۔ چڑیا اب پہلے جیسی چڑیا نہیں رہی تھی۔ وہ باربی ڈول کو میلوں دور سے بھی دیکھ کر رستہ بدل جاتی تھی اور اگر وہ کسی بات پر جھنجلاتی تھی تو وہ صرف یہ تھی کہ باربی اس کی طرف کیوں آتی تھی۔ اپنا وقت اس کے کلاس روم کے باہر بار بار چکر لگانے میں کیوں ضائع کرتی تھی۔ باربی ڈول اس کی کلاس کے چکر لگانا شروع کرتی اور چڑیا کلاس کے اندر بیٹھی ٹینس ہونا شروع ہو جاتی۔ رائٹنگ بورڈ پر لکھی جانے والی چیزیں سمجھنا یک دم اس کے لیے مشکل ہونے لگتا۔ ٹیچر کی آواز سن کر بات سمجھنا ایک اور دشوار کام ہوتا۔ اور کلاس میں بیٹھی اپنی دوست کے جملوں کو نظرانداز کرنا اس سے بھی بڑا جو باربی ڈول کو کہیں نمودار ہوتے دیکھتے ہی اسے بڑے اشتیاق سے بتاتی۔ ”باربی ڈول آگئی ہے۔” اور پھر یہ جملہ باربی ڈول کے ہر چکر پر بولا جاتا۔




”تم باربی ڈول سے ناراض ہو کیا؟” شروع کے چند دنوں کے بعد ہی اس کی دوست نے اس کا بدلا ہوا رویہ نوٹس کر لیا تھا۔
”وہ میری فرینڈ نہیں ہے پھر میں اس سے کیوں ناراض ہوں گی؟” اس نے جواباً بہت سوچ کر کہا اور اس کے جواب نے اس کی دوست کو مزید حیران کیا۔
”لیکن تم نے مجھے خود بتایا تھا کہ باربی ڈول تمہیں اچھی لگتی ہے اور تم نے اسے دوست بنا لیا ہے۔” چڑیا نے اپنی دوست کی بات کا جواب خاموشی سے دیا تھا۔ وہ اپنی دوست کو یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ اس کے لیے باربی ڈول کے نظر آنے پر اسے نظرانداز کرنا مشکل ترین اور بے حد صبر آزما کام تھا، وہ اپنے نانا کی ہدایات پر عمل کر رہی تھی جو اب باربی ڈول سے اس کا کسی بھی طرح کا رابطہ نہیں چاہتے تھے… اور وہ نو سالہ بچی روز اسکول آکر دل اور دماغ کی ایک عجیب سی کشمکش میں الجھتی دن گزارتی۔ بچے بڑوں جیسے کبھی نہیں ہو سکتے۔ ان کی زندگی کی تکلیف، اذیت، حادثہ یا trauma کچھ بھی ان کو بڑوں جیسا سخت دل اور unforgiving معاف نہ کرنے والا نہیں کرتا تھا۔ کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں کسی بھی لاشعوری کوشش کے بغیر، چڑیا بھی شاید یہی کرتی اور نہ چاہنے کے باوجود وہ باربی ڈول سے بات کرنا شروع کر دیتی اگر تب ہی باربی ڈول کا باپ اس کی زندگی میں ایک بار پھر ایک سیاہ کردار کے ساتھ نمودار نہ ہو جاتا۔
……٭……
خیردین کے گاؤں سے واپس شہر چلے جانے کے فیصلے کا اس کے خاندان نے بے حد گرم جوشی سے استقبال کیا تھا۔ ان چند مہینوں میں شروع کے چند دنوں کے بعد اب دوسری بار ایسا ہوا تھا کہ اس کے خاندان والے یک دم خیردین سے خوش دلی سے بات چیت کر رہے تھے۔ اور یہ خوش دلی خیردین کے چلے جانے تک قائم رہتی اگر خیردین اپنی زمین بیچنے کے ارادے کا اظہار نہ کرتا۔ خیردین زمین کو بیچنے کا فیصلہ کرنے کے لیے بھی مجبور تھا۔ شہر جاکر دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کوشش کے لیے اسے تھوڑے بہت سرمائے کی ضرورت تھی اور وہ رقم اسے وہ زمین ہی دے سکتی تھی جو اس کی ملکیت ہونے کے باوجود عملی طورپر اس کے بھائیوں اور بھتیجوں کے زیراستعمال تھی۔ خیردین اس زمین کو انہیں کے ہاتھوں بیچنا چاہتا چاہتا تھا چاہے تھوڑی رقم کے عوض ہی سہی لیکن اسے یہ پتا نہیں تھا کہ مفت میں ملنے والی چیز کو کوئی کوڑیوں کے بھاؤ بھی نہیں خریدتا۔ خاندان والوں نے شروع میں اسے بالواسطہ طور پر اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ اس کے بھائی بار بار اسے اپنی کمزور مالی حالت کا جتا کر یہ بتاتے رہے کہ وہ زمین خریدنے کے قابل نہیں ہیں۔ چاہے وہ انہیں کم رقم کے بدلے ہی وہ زمین ملے تب بھی اور چاہے وہ زمین کا معاوضہ قسطوں کی صورت میں لینے پر تیار ہو جائے تب بھی۔ ان کے رویے سے مایوس ہو کر خیردین نے جب گاؤں میں اپنے چند دوستوں کے ذریعے زمین کے اورگاہک ڈھونڈنے شروع کر دیے تو خاندان والوں کی چھریاں پہلی باربغلوں سے باہرآگئیں۔ انہوں نے خیردین کو صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اس زمین کو بیچ دینے کاخیال چھوڑ دے کیونکہ وہ مر کر بھی اس زمین کو
نہیں چھوڑیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ خیردین اس زمین کو بیچنے کا سوچ کر بھی بے حد خودغرض ہورہا تھا۔ غربت کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہوتا ہے کہ بعض گناہ انتخاب نہیں مجبوری بن جاتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان کو دنیا کے دکھتے دوزخ یا آخرت کے چھپے ہوئے دوزخ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ جنت یقین اور ایمان کے جس لنگر کے ساتھ منسلک ہوتی ہے وہ آپشنز میں ہوتا ہی نہیں۔
خیردین کی زمین بک جانے کا مطلب اس کے خاندان کی مالی حالت کو کچھ مزید خراب ہونا تھا اور اس صورت حال کا سامنا کرتے ہی خاندان حادثہ یا ایک دم عجیب بدحواسی کا شکار ہو گیا تھا۔ خیردین ان کا رزق گھٹانے آیا تھا۔ شاید پہلی بار ان میں سے اکثر کو صحیح معنوں میں خیردین کی نوکری جانے اور اس کے ساتھ ہونے والے حادثے کا افسوس ہوا تھا۔ نہ یہ سب ہوتا نہ وہ گاؤں واپس آتا اور نہ انہیں زمین کے لالے پڑتے۔ انہیں خیردین سے ہمدردی تھی یا نہیں تھی بہرحال اس بات پر وہ سب متفق تھے کہ وہ اس زمین کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے چاہے اس کے لیے ایک خونی رشتہ جاتا رہے۔
ایک مہینا خیردین ہر روز پٹواری کے چکر کاٹتا رہا۔ وہ نہیں ملتا تھا، ملتا تھا تو اس کا کام ٹالتا تھا… اور پھر جب بالآخر وہ رجسٹر نکال کر اسے دکھانے پر تیار ہوا تو خیردین دم سادھے رہ گیا تھا۔ وہ زمین اب اس کے نام نہیں تھی وہ پچھلے ہفتوں کی تاریخ میں اس کے بھائیوں کے نام منتقل ہو چکی تھی۔ وہ جب تک ڈی سی کا خانساماں تھا گاؤں میں موجود نہ ہونے کے باوجود کسی کی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ اس کی زمین کے ساتھ کچھ کرتا اور سرکاری لیبل ہٹتے ہی وہ بے سروسامان ہی نہیں بے زمین اور لاوارث بھی ہو گیا تھا۔ اس کے اپنے ہی اس کو نوچنے کے لیے گدھوں کی طرح اس پر جھپٹ پڑے تھے۔ پتا نہیں اس کاغذ پر خیردین کا انگوٹھا لگانے کے لیے اس کے اپنوں میں سے کون خیردین بنا تھا۔ پٹواری کو کتنی رشوت دی گئی تھی کہ خیردین کی شکل سے شناسا ہونے کے باوجود اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔




خیردین جتنا لڑ سکتا تھا وہ پٹواری سے لڑا… لیکن وہ قسمت سے نہیں لڑ سکا جو اس کے ساتھ نہیں تھی۔ جب انسان کے اپنے اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے لگیں تو انسان دنیا کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔ خیردین کس کس کے ساتھ لڑتا… اپنے حالات کے ساتھ، خالی جیب کے ساتھ، اپنوں کی سردمہری اور بے حسی کے ساتھ یا آنے والے دنوں میں چڑیااور اس کی بیٹی کے حوالے سے جھانکتے آسیبوں سے۔
وہ لڑنے جھگڑنے کے بعد زمین کی رجسٹری بغل میں دبائے روتا ہوا واپس گھر آگیا تھا۔ وہ زمین کا ٹکڑا اس کی عمر بھر کی کمائی تھی۔ تمام جمع پونجی جسے اس نے اندھے اعتماد کے سہارے اپنے خونی رشتوں کو سونپ دیا تھا۔ وہ اعتماد واقعی اندھا ثابت ہوا تھا اور اب چاروں شانے چت پڑا تھا۔ پٹواری کے ہاں جو کچھ ہوا تھا وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں تھا جو گھر پر ہوا تھا۔ خیردین رنج اور صدمے کے ساتھ ساتھ شدید غصے میں بھی تھا اور گھر پہنچنے کے بعد اس نے گاؤں میں اپنے چندجاننے والے لوگوں کی مدد لے کر اپنے بھائیوں کے ساتھ اس معاملے پر بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا تھاوہ خیردین کے دل پر لگنے والا ایک اور چرکا تھا۔ اس کے بھائیوں نے اپنے بیٹوں کو اکٹھا کر کے خیردین کو اسی وقت گھر سے چلے جانے کا کہا اور دوسری صورت میں اس کا سامان باہر پھینک دینے کا اعلان کیا۔
چند ماہ کے عرصے میں چڑیا نے خوف سے کانپتے ہوئے دوسری بار اپنے نانا کی ایسی تذلیل اور بے قدری دیکھی تھی۔ اس کی ماں اور نانا نے بہتی آنکھوں کے ساتھ اس ایک کمرے میں پڑا اپنا وہ تمام سامان اٹھا لیا جو ان کا تھا۔ اس گھر سے نکلتے ہوئے خیردین قسم کھا کر گیا تھا کہ وہ اس گھر میں دوبارہ کبھی نہیں آئے گا۔ اس نے چند دنوں کے لیے گاؤں میں ہی اپنے ایک پرانے دوست کے ہاں پناہ لی۔
اس رات چڑیا نہیں سو سکی تھی۔ اس نو سالہ بچی نے بڑے آرام سے اپنے نامہ اعمال میں اپنا ایک اور گناہ تحریر کر لیا تھا، یہ سب بھی اس کی وجہ سے ہوا تھا۔ وہ امتحان میں پاس ہو جاتی تو نانا واپس شہر جانے کا نہ سوچتے اور پھر اس کے نانا کو وہ گالیاں اور دھکے اور دھمکیاں نہ ملتے جو اس نے دیکھے تھے۔
اس رات خیردین کی کمر کچھ اور جھک گئی تھی۔ اس کے بالوں میں کچھ اور سفیدی اتر آئی تھی۔ اپنوں کا غم انسان کو باہر سے نہیں اندر سے مارتا ہے۔ خیردین کو بھی اس نے مار دیا تھا۔ وہ اپنے اسی دوست سے کچھ رقم قرضہ لے کر واپس اسی شہر آگیا تھا جسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ شہر میں آتے ہی کسی واقف کار کے ذریعے ایک کمرے کا گھر کرائے پر لیتے ہی اس نے سب سے پہلا کام چڑیا کو اسکول لے جانے کا کیا تھا۔
چڑیا کا نام اسکول سے کٹ چکا تھا لیکن سسٹر ایگنس چڑیا کے لیے ہمیشہ سے اپنے دل میں ایک نرم گوشہ رکھتی تھیں۔ انہوں نے کانونٹ کے قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس بچی کو دوبارہ اسکول میں ایڈمیشن دلایا تھا۔ خیردین کی نوکری ختم ہو جانے کا سن کر انہوں نے کہے بغیر چڑیا کی فیس کو ایک چوتھائی کر دیا تھا۔ خیردین نے انہیں چڑیا کے ساتھ ہونے والے حادثے سے آگاہ نہیں کیا تھا لیکن اس کے باوجود سسٹر ایگنس نے چڑیا میں آنے والی تبدیلیوں کو نوٹس کیا تھا۔ چڑیا وہ پراعتماد بچی نہیں تھی جسے وہ جانتی تھیں۔ وہ ایک خوف زدہ آنکھوں، زرد رنگت، کمزور جسم اور بے مقصد انگلیاں چٹخانے والی ایک بچی تھی جو خیردین اور سسٹر ایگنس کی اس پوری ملاقات کے دوران گم صم کسی مسکراہٹ کے بغیر سسٹر ایگنس کو دیکھتی رہی تھی۔ اسے جیسے یہ خوف تھا کہ سسٹر ایگنس اسے دوبارہ اسکول میں داخل نہیں کرے گی اور اسے اس ہیبت ناک اسکول میں دوبارہ جانا پڑے گا اور اسے یہ خوف تھا کہ ابھی کسی بھی لمحے خیردین بلک بلک کر رونے لگے گا اور پھر سسٹر ایگنس کو وہی سب کچھ بتائے گا اور پھر… اس پھر کے آگے چڑیا کو تاریکی کے سوا کچھ نہیں دکھتا تھا۔ وہ اس اسکول میں ستارہ تھی گرہن نہیں بننا چاہتی تھی۔ خیردین نے سمجھداری کی تھی اس نے سسٹر ایگنس کو چڑیا کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا، نہ چڑیا کے حوالے سے نہ ڈی سی کے ساتھ ہونے والے اپنے جھگڑے کے حوالے سے جس کے نتیجے میں اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۶

Read Next

نیند ہمیں پیاری ہے — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!