اس گھر میں اخراجات کے نام پر کہیں سرکاری پیسے کا زیاں نہیں کیا گیا تھا۔ نہ وہ یہ کام خود کرتی تھی نہ اپنے عملے کو کرنے دیتی تھی۔ ملازمین کو اس حوالے سے بہت صاف اور سخت ہدایات تھیں۔ وہ اپنے کام کے حوالے سے ملازمین پر بہت زیادہ ڈیپینڈنٹ نہیں تھی۔ بہت کم ہی کبھی اس نے رات کے وقت گھر میں کام کرنے والے عملے کو اپنے کسی ذاتی کام سے بلایا تھا۔ وہ بہت سادہ کھانا کھاتی تھی۔ عام دنوں میں ون ڈش مینو اور ویک اینڈ پر ذرا زیادہ اہتمام اور ایک آدھ اور لوازمات… گھرپر ہونے والی دعوتوں اور فیملی کے آنے پر بھی گھر کا مینو ہمیشہ budgeted ہوتا تھا۔ ایک گوشت کی ڈش، ایک سبزی، ایک دال اور سویٹ ڈش… اور یہ کھانا صرف اس مقدار میں پکتا تھا جو مہمانوں کی تعداد اور کچن کے عملے کے لیے مناسب ہوتا۔
دو دن میں ہی اس گھر میں رہتے ہوئے شہربانو کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ ملازمین عکس کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے تھے۔ اسے quote کرنا جیسے ان کی پسندیدہ سرگرمی تھی اور اس کے حوالے سے کچھ بتاتے ہوئے ان کے لہجے میں ایک عجیب سی ایکسائٹمنٹ جھلکتی تھی۔ اس کی وجہ کیا تھی یہ شہربانو نہیں جان سکی۔ اس پوسٹ پر پہلی خاتون آفیسر کے طور پر اس گھر میں آنا… نوکروں کو دی جانے والی خاص مراعات خاص طور پر ان کے بچوں کے حوالے سے… یا پھر عکس کا دوستانہ مزاج… وجہ جو بھی تھی اس گھر میں دو دن اس نے صرف ”عکس نامہ” سنا اور دیکھا تھا اور یہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والی وہ اکیلی نہیں تھی۔ شیردل دوسرا victim تھا لیکن اس کے لیے یہ سب پہلا تجربہ نہیں تھا… عکس اپنے ساتھیوں کے لیے بلاوجہ خائف کرنے والی شے نہیں بنی تھی۔
”تمہیں نیند آرہی ہے شیبی؟” وہ اس کے کندھے سے لگی اونگھنا شروع ہو گئی تھی جب شیردل نے کام کرتے ہوئے اچانک اس کو دیکھ کر کہا۔ شہربانو نے چونک کر آنکھیں کھول کر اس کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں تو۔”
”آرہی ہے یار… سوجاؤ ۔” شیر دل نے اس کا سر تھپکتے ہوئے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں آرہی۔” شہربانو نے ایک بار پھر اس کے کندھے پر سررکھتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔”میںsong سن رہی ہوں۔” اس نے شیردل کو جیسے جتانے والے انداز میں کہا۔
”سنو پھر۔” شیردل نے جیسے اسے اس کے حال پر چھوڑتے ہوئے کہا۔ یہ بھی روٹین کی بات تھی۔ وہ کام کرتا رہتا وہ اسی طرح میوزک سنتی ہوئی اس کے کندھے سے لگے لگے سو جاتی۔ ایک گھنٹے کے بعد وہ جب تک کام سے فارغ ہوا وہ گہری نیند میں تھی۔ اپنا laptop بند کر کے ایک طرف رکھتے ہوئے شیر دل نے سب سے پہلے اسے بڑی احتیاط سے خود سے الگ کرتے ہوئے بستر پر لٹایا،وہ چند لمحوں کے لیے کسمسائی اور اس نے نیند میں کچھ کہا پھر وہ جیسے نیند میں ہی کسی چیز سے ڈری ۔شیر دل نے کسی ننھے بچے کی طرح اس کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے چند لمحوں کے لیے اسے تھپکا۔ لاشعوری طور پر وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگا تھا۔ بے حد جاذب نظر تیکھے نقوش اور ملائم جلد والا ایک معصوم چہرہ… وہ سوتے ہوئے ہمیشہ بچوں جیسی معصومیت اور بے خبری سے سوتی تھی۔ اس بات سے بے پروا کہ وہ کہاں تھی اور کہاں نہیں ۔وہ غیر محسوس انداز میں اس کے چہرے پر آئے بالوں کو نرمی سے ہٹا کر سمیٹتے ہوئے اسے دیکھتا گیا۔ اس نے زندگی میں شہر بانو سے زیادہ بے ضرر اور سادہ طبیعت لڑکی کی نہیں دیکھی تھی۔ اپنے حال میں مگن مزے سے اپنی زندگی اپنے طریقے سے جینے والی… اس نے شادی سے پہلے اور بعداتنے عرصے میں کبھی شہر بانو سے کسی دوسرے کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں سنی تھی۔ وہ اس سے بہت باتیں کیا کرتی تھی مگر دوسرے آفیسرز کی بیویوں جیسی باتیں کرتے اس نے شہر بانو کو بہت کم ہی دیکھا تھا۔ وہ بے حد حساس تھی اور شیر دل کو اس بات کا اندازہ شادی سے بہت پہلے ہو گیا تھا۔ اس نے شہر بانو کا ہمیشہ اس سے زیادہ خیال رکھا تھا جتنا وہ رکھ سکتا تھا۔وہ جذباتی طور پر اس سے کس قدر اٹیچڈ تھی اور کس حد تک اس پر ڈیپنڈنٹ تھی شیر دل اس بات سے بھی اچھی طرح واقف تھا۔ شیر دل ساری زندگی بے حد اسٹائلش ،اسمارٹ، خوب صورت اور تیز طرار لڑکیوں کی طرف اٹریکٹ ہوتا رہا تھا انہی کی کمپنی پسند بھی کرتا تھا۔ شہر بانو اور اس کے درمیان کیا کنکشن بنا تھا… کیا common پوائنٹس نکل آئے تھے۔ اسے کبھی سمجھ میں نہیں آیا… شہر بانو بے حد حسین اور اسٹائلش تھی لیکن وہ easy- going آرام طلب نہیں تھی نہ ہی تیز طرار ۔ وہ لیے دیے رہنے والی ایک لڑکی تھی اور اس کے باوجودشیر دل اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا ۔ اس حد تک کہ وہ اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا بیٹھا تھا اور ان تمام سالوں میں وہ جب بھی اس فیصلے کے بارے میں سوچتا وہ اسے اپنی زندگی کے سب سے اچھے فیصلوں میں سے ایک سمجھتا تھا۔
نیند میں ہی شہر بانو نے اپنا ہاتھ بڑھا کر لاشعوری طور پر اس کی شرٹ کو اپنی مٹھی میں لیا تھا۔ شیر دل ایک لمحے کے لیے چونکا پھر وہ ایک بار پھر اس کے گہری نیند میں جانے کا انتظار کرنے لگا تاکہ اس کا ہاتھ اپنی شرٹ سے ہٹا کر بستر سے اٹھ سکے۔ وہ ہمیشہ سوتے ہوئے اسے اسی طرح پکڑ کر سوتی تھی۔
”میں جب تمہارے پاس ہوتی ہوں نا تو مجھے ڈر نہیں لگتا۔” وہ اکثر اس سے کہتی تھی۔
”کس چیز کا ڈر؟” وہ شروع ،شروع میں اس سے پوچھا کرتا تھا۔
”کسی بھی چیز کا ڈر۔”وہ جواباً کہتی۔
”مثلاً؟” شیر دل کو curiosity تجسس ہوتی ۔
”تمہارے کہیں چلے جانے کا ڈر۔” اس نے پہلی بار اس کے پوچھنے پر چند لمحے خاموش رہ کر کہا تھا۔ شیر دل اس جواب پر حیران رہ گیا تھا۔ اسے کم از کم اس جواب کی توقع نہیں تھی۔
”میں کہا جاؤں گا یار…؟” اس نے اسی حیرانی میں پوچھاتھا۔
”مجھے چھوڑ کر ۔” شہر بانو کے اگلے جملے نے اسے اور حیران کیا۔ وہ چند لمحے اس کی شکل دیکھتا رہا پھر ہنس دیا۔
”تمہیں چھوڑ کر …؟” کیا بے وقوفی کی بات ہے شیبی، میں تمہیں کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ تم سوچ بھی کیسے سکتی ہو یہ؟” اس نے تب بھی شہر بانو کو اپنے بازو کے حصار میں لے لیا تھا۔ شہر بانو نے اس کو جواب دینے کے بجائے اس کے سینے میں منہ کو چھپالیا تھا۔ شیر دل کو لگا تھا وہ اس کا یہ اندیشہ دور کرنے میں کامیاب رہا تھا لیکن بہت آہستہ آہستہ اسے احساس ہونا شروع ہوگیا تھا کہ اس کا یہ اندازہ غلط تھا۔ شہر بانو شدید قسم کے عدم تحفظ کا شکار تھی اور اس وقت سے تھی جب اس کا باپ اس کی زندگی سے پہلے parents کی divoce طلاق کی صورت میں نکل گیا… بعد میں خود کشی کی صورت میں ہمیشہ کے لیے… وہ باپ کی زندگی تک اس کے پاس ایک اکلوتی اولاد کی شکل میں خوش و خرم رہی تھی۔ ایک خوش باش، پراعتماد بچی … فیملی کے ٹوٹنے نے اس بچی کی شخصیت کو بہت مسخ کردیا تھا۔ رہی سہی کسر اس کے باپ کی خود کشی نے… زندگی شہر بانو کے لیے دوبارہ ویسی نہیں ہو سکتی تھی جیسے اس کے باپ کے ساتھ تھی… وہ خلا وہ ساری عمر ساتھ لے کر چلی تھی اور اس خلا نے اس کے اندر بہت سارے خلا پیدا کردیے تھے۔ شیر دل اس کی زندگی میں مرہم کے ایک پھاہے کی طرح آیا تھا۔ سمیٹنے اور سہارا دینے والے ہاتھوں کی طرح اور بہت صحیح وقت پر آیا تھا… شیر دل نے واقعی اسے سمیٹ لیا تھا… وہ شہر بانو کے بارے میں overprotective حد سے زیادہ نگہبان تھا۔ محبت اور شادی کے رشتے میں بندھ جانے کے بعد بھی بہت وقت لگا تھا اسے شہر بانو کو یہ یقین دلانے میں کہ وہ صرف اس کا تھا او رکوئی بھی چیز اسے اس سے الگ نہیں کرسکتی تھی۔ شہر بانو کو چھوڑ جانے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
عکس شیر دل کی زندگی میں آنے والی پہلی عورت تھی، شہر بانو دوسری، شیر دل کے لیے ہمیشہ یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا تھا کہ وہ ان میں سے کس سے زیادہ محبت کرتا تھا کس کو اپنی زندگی سے الگ رکھ کر خوش رہ سکتا تھا۔ عکس اس کی زندگی کا حصہ نہیں تھی۔ اس سے مہینوں رابطہ نہ ہونے کے باوجود کوئی دن شیر دل کی زندگی میں ایسا نہیں گزرا تھا جب شیر دل کو اس کا خیال نہ آیا ہو۔ وہ لاشعوری طور پر اس کو سوچتا تھا اسے مس کرتا تھا۔ اپنی زندگی میں ہونے والی ہر نئی development کو سب سے پہلے اس کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا تھا۔ کسی بھی مسئلے میں پھنس جانے کے بعد سب سے پہلے اس کے ساتھ ڈسکس کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس کے سامنے نہ ہونے کے باوجود اس کے ساتھ چلتی تھی، ساتھ رہتی تھی، ساتھ جیتی تھی۔ ایک عکس کی طرح جو زندگی کی ہر منعکس کرنے والی شے پر ابھرتا تھا۔
شہر بانو اس کی زندگی کا کلمہ تھا جو ہر وقت اس کی زبان پر رہتا تھا۔ وہ اس سے جو کہتی تھی جو کررہی ہوتی تھی وہ شیر دل کی زبان پر آجا تا تھا۔ اس کی خوشی ،خفگی شیر دل کے دن بناتے بگاڑتے تھے۔وہ عکس سے اظہار محبت کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ شہر بانو سے اظہار محبت سنے بغیر بھی نہیں رہ سکتا تھا۔
……٭……