عکس — قسط نمبر ۷

وہ اسٹیج پر آنے والے اگلے کامنر کے لیے مسکراتے ہوئے تالیاں بجانے میں مصروف تھی۔ اس کی طرح نہ گھڑی دیکھ رہی تھی نہ پروگرام چارٹ اور نہ اپنے دائیں بائیں۔
وہ اکیڈمی کے ہر کامنر کو اس کی کسی اچھی پرفارمنس پر بلاجھجک داد دیتا تھا۔ یہ صرف عکس مراد علی تھی جس کو شیردل نے ہمیشہ نظرانداز کیا اس معاملے میں… اس کے نزدیک عکس کے لیے ستائشی کلمات کہنا، احساسات رکھنا اور داد دینا کیوں اتنا مشکل ہو گیا تھا وہ خود کبھی نہیں سمجھ سکا۔ وہ یہ تسلیم کرنے پر بھی تیار نہیں تھا کہ وہ اس لڑکی سے خائف تھا… اس کے رعب میں تھا… اور بری طرح اس کی طرف اٹریکٹ ہورہا تھا اس سے بچنے کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی اور یہ سب اسی طرح چلتا رہتا اگر ان دونوں کے درمیان غنی حمید نہ آجاتا۔




”شیری کیا سوچ رہے ہو تم؟” وہ یک دم شہربانو کی آواز پر چونکا تھا۔
”کچھ نہیں… کیا ہوا؟”
”تم مجھے گانا سنا رہے تھے۔” شہربانو نے اسے یاد دلایا۔
”ہاں تو سنا دیا نا یار… تم نے کہا تھا بس چند لائنز سنا دو میں نے سنا دیں۔ ”وہ ایک بار پھر اپنا کام کھول کر بیٹھ گیا… ضروری تھا کہ وہ اب یہ سب کچھ بھولنے کی کوشش کرتا… فائدہ نہیں تھا اب یہ سب کچھ یاد رکھنے کا… لیکن وہ کئی بار کوشش کے باوجود بھی یہ سب بھولنے میں کامیاب نہیں ہوتا تھا۔
”میں نے سوچا ہے امریکا سے واپس آنے کے بعد ہی اس گھر کو renovate کروں گی۔” شہربانو ایک بار پھر اسے ماضی سے حال میں لے آئی۔ وہ ابھی دودن پہلے ہی ٹرانسفر ہو کر عکس کی جگہ پر آیا تھا۔ شہربانو نے شیردل سے ذکر نہیں کیا تھا لیکن اسے اس جگہ میں بے حد دلچسپی تھی جہاں چند مہینے وہ عورت رہی تھی جو اس کے شوہر کا کوئی ڈارک سیکرٹ تھی۔ اس گھر میں پہلا قدم رکھتے ہی اسے یہ فرق نظر آیا تھاجو اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا… یا کم سے کم اس حد تک نہیں دیکھا تھا جس حد تک وہ وہاں نظر آیا تھا۔ گھر بلا کا صاف ستھرا رکھا گیا تھا اور صفائی ستھرائی کا یہی عالم اس نے ملازموں میں بھی دیکھا تھا۔ اس نے کسی ملازم کے گندے بڑھے ہوئے بے ترتیب بال، ناخن، دانت اور بے ہنگم شیو نہیں دیکھی تھی۔ نہ ہی کسی کو میلے، سلوٹ زدہ بوسیدہ لباس میں دیکھا تھا نہ کسی کے پاؤں میں خراب جوتے دیکھے تھے۔ شہربانو نے اس سے زیادہ مستعد عملہ بھی کہیں نہیں دیکھا تھا۔ گھر کے بیرونی گیٹ پر موجود گارڈز سے لے کر اندرونی حصے میں کام کرنے والے ملازمین تک وہ کہیں کم سے کم حلیے اور مستعدی میں کوئی خامی نہیں دیکھ پائی تھی۔ گھر کے عملے پر گھر سے زیادہ توجہ دی گئی تھی اگر یہ عکس نے کیا تھا تو… اور فوری طور پر وہ اس کا کریڈٹ عکس کو دینے سے جھجک رہی تھی۔ کوئی بھی صرف چند مہینوں میں صفائی اور مستعدی کا یہ معیار حاصل نہیں کرسکتا تھا اور عکس کو وہاں صرف چند مہینے ہوئے تھے۔
وہ پہلا سرکاری گھر تھا جس میں داخل ہوتے ہی اس کا دل خوش ہو گیا تھا۔ اس نے بہت کم سرکاری رہائش گاہوں کے لانز کو اس طرح maintained دیکھا تھا۔ اس کے اپنے گھر کا لان بھی ایک exception تھا لیکن وہ جانتی تھی کہ اس کے لیے اس نے کتنی جان ماری تھی… گھر کے کسی فرد کی ذاتی دلچسپی کے بغیر صرف مستعد عملے کے سر پر بھی وہ سب نہیں ہو سکتا تھا جو وہ وہاں دیکھ رہی تھی۔ وہ بہار کا موسم نہیں تھا لیکن کم سے کم اس لان کے سبزے اور رنگینی کو دیکھتے ہوئے اسے یونہی لگا تھا جیسے وہ بہار کے موسم میں ہی اس گھر میں آئی تھی۔ شہربانو کو حسرت ہی رہی تھی کہ وہ اس لان میں کہیں مٹی اور جالوں سے اٹے پودے اور اداس درخت دیکھ پاتی۔ کہیں اسے خراب اور بے ڈھنگی تراش خراش میں کچھ پودے نظر آجاتے۔ کہیں سوکھی اور پیلی گھاس، خشک اور گلے سڑے پتوں کا کوئی ڈھیر، ٹوٹے گملوں والے پودے یا کپڑا لگی ہوئی بیلیں ہی مل جاتیں… وہاں کمال کا نظم و نسق تھا… جو بھی کچھ تھا عدم توجہی یا بے نظمی کا شکار نہیں تھا… اس نے یہ کریڈٹ بھی عکس کو دینے سے گریز کیا…نئے پودوں کی پنیریوں کی قطاریں اور کیاریوں میں ننھے ننھے پودوں کے ڈھیر کو دیکھتے ہوئے بھی۔




گھر کے اندرونی حصے میں کوئی نئی تعمیر اور مہنگی تزئین و آرائش نظر نہیں آئی تھی… آرائشی اشیا کا کوئی بے ہنگم ڈھیر نظر نہیں آیا تھا۔ وہاں زیادہ تر چیزیں وہی تھیں جو یقینا ہمیشہ سے اس ڈی سی ہاؤس میں زیراستعمال تھیں… لیکن اس پرانے فرنیچر اور آرائشی اشیا کو خستہ اور بوسیدہ حالت میں نہیں رکھا گیا تھا۔ پردے بھی پرانے تھے لیکن وہ تمام چیزیں بے حد صاف ستھری اور چمک رہی تھیں… پرانے قالین یقینا بہت اچھی طرح سے دھلوائے اور صاف کروائے جاتے تھے ان پر اگر کہیں پہلے کے کوئی نہ مٹنے والے داغ تھے تو بھی وہ بہت ہلکے تھے اور بعض چھوٹے داغوں پرچھوٹے چھوٹے rugs ڈال کر جیسے ان قالینوں کے ایسے نشانوں کو کور کر دیا گیا تھا۔ شہربانو بھی یہ کبھی نہ جان پاتی اگر وہ وہاں آنے کے دوسرے ہی دن اتفاقی طور پر کسی ملازم کو ایک rug اٹھا کر صفائی کرتے ہوئے نہ دیکھ لیتی۔ rug کے نیچے قالین پر شاید کسی paint کا ایک داغ تھا۔ ملازم سے پوچھنے پر اسے پتا چلا تھا کہ ان چھوٹے اور سستے rugs کو عکس کی ہدایات پر خرید کر وہاں مختلف جگہوں پر استعمال کیا جارہا تھا۔ وہ نئی تزئین و آرائش کے نام پر بے مقصد اخراجات سے بچنے کی ایک بے حد عمدہ ترکیب تھی۔ اس گھر میں مختلف جگہوں پر ایسے بہت سے ”رفو” کیے گئے تھے۔ شہربانو ہر بار ایسے کسی نئے ٹوٹکے کو دیکھ کر اور سن کر چند لمحوں کے لیے خاموش ہو جاتی تھی۔ وہ کبھی کسی گھر کو ان طریقوں سے maintain نہیں کر سکتی تھی یہ اس کا طریقہ ہی نہیں تھا۔
کچن اس گھر کے لان کے بعد حیران کن طور پر سب سے زیادہ صاف حصہ تھا اور اس گھر میں آنے کے بعد ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ شہربانو awe رعب میں آئی تھی۔ اس کے لیے گرد سے پاک چمکتا فرش، صاف ستھرے کاؤنٹر اور چکنائی اور میل کچیل سے پاک دھلے ہوئے چمکتے سنک، صاف ستھری منظم کچن کیبنٹس اور آٹے اور چکنائی کی رطوبتوں سے پاک کوکنگ رینج دیکھنا جیسے خواب دیکھنے کے برابر تھا۔ پینٹری بھی اتنی ہی صاف ستھری اور منظم تھی جتنا کچن کا باقی حصہ۔ فریج اور فریزر کو کھول کھول کر دیکھنے پر بھی شہربانو کو گندگی نظر نہیں آئی تھی اور ایسا کیوں تھا؟ کیونکہ عکس ناشتا اور رات کا کھانا باقاعدگی سے اسی کچن میں رکھی دو کرسیوں والی ایک چھوٹی میز پر کھاتی تھی۔ اکثر رات کو وہ اسی فریج میں سے دودھ خود نکال کر چائے بناتی تھی اوراسی کوکنگ رینج پر کبھی کبھار نائٹ اسنیکس تیار کیا کرتی تھی۔
”اچھا یہ صاف نہیں ہوسکتا؟” اس گھر کے خانساماں نے عکس کے حوالے سے شہربانو کو ایک کے بعد ایک قصہ سناتے ہوئے اسے ایک واقعہ quote کیا جب اس گھر میں آنے کے بعد اس کوکنگ رینج پر جمی چکنائی پر عکس نے اعتراض کیا تھا اور خانساماں برکت نے اسے کہا تھا کہ وہ بس اتنا ہی صاف ہو سکتا تھا اور چمک اس لیے نہیں رہا تھا کہ وہ بہت پرانا ہو چکا تھا۔ اس نے ساتھ ہی عکس سے نئے کوکنگ رینج کا مطالبہ بھی کر دیا تھا۔ اس نے شہربانو کو عکس کا جواب بتایا تھا۔
”اچھا یہ صاف نہیں ہو سکتا… یہ چمک نہیں سکتا؟ کیونکہ یہ پرانا ہے؟” عکس نے اس سے بے حد سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
”پکی بات ہے؟” برکت نے بڑے اعتماد سے اس کے سوال پر سر ہلاتے ہوئے ہاں کہا۔ اسے اپنی پھیلائی ہوئی گندگی کے durable ہمیشہ رہنے اور پکا ہونے پر جیسے اندھا اعتماد تھا۔ عکس نے جو اگلی بات کی تھی اس نے برکت اور دوسرے ملازمین کو بھونچکا کردیا تھا۔ اس نے اسٹین لیس اسٹیل وول، گرم پانی، سرکہ اور ڈیٹرجنٹ مانگا تھا۔ برکت اور ملازمین نے کچھ خفت اور شرمندگی کے عالم میں گھبرائے بوکھلائے انداز میں اسے روکتے ہوئے خود اس کوکنگ رینج کو دوبارہ صاف کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن عکس نے انہیں ڈانٹ دیا تھا۔ وہ سب گنگ اس گھر میں آنے والی پہلی خاتون ڈی سی کو اسٹیل وول اور ڈیٹرجنٹ کے ساتھ رگڑ رگڑ کر وہ کوکنگ رینج صاف کرتے ہوئے دیکھتے رہے۔ کچن میں برکت کے دو مددگار دوسرے ملازمین بھی ڈی سی کو کوکنگ رینج صاف کرتے دیکھ کر اس کے دوسرے حصوں پر سے وہ گندگی اور غلاظت صاف کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے تھے جو اس سے پہلے اترتی ہی نہیں تھی یا کم از کم اس عزم اور نیت سے کبھی نہیں اتر پائی تھی جو کام کے حوالے سے ان کا تھا۔
ایک گھنٹے کے بعد وہ پرانا کوکنگ رینج اس طرح چمک رہا تھا کہ برکت اس میں اپنا، ڈی سی اور کچن کا عکس دیکھ سکتا تھا۔
”ایک گھنٹا اسے صاف کرنے میں اس لیے لگا کیونکہ یہ شاید سالوں سے اچھی طرح صاف نہیں کیا گیا… اگر ہمیشہ سے صاف ہوتا تو یہ ہر روز صرف دس منٹ لیتا صفائی کے لیے اور اس چمک کے لیے۔” ڈی سی نے سنک میں ہاتھ دھوتے ہوئے اس تولیے سے ہاتھ خشک کرتے ہوئے کہا جو ایک ملازم نے اس کی طرف بڑھایا تھا۔
”اگر کسی چیز کو بدل دینے کا معیار یہ ہے کہ وہ پرانی اور گندی ہو گئی ہے تو میں اس معیار پر یقین نہیں رکھتی۔ پرانی چیز زیادہ کارآمد ہوتی ہے… گندی چیز صاف کی جا سکتی ہے… میں کسی چیز کو صرف تب بدلوں گی جب وہ بے کار ہو جائے اور وہ رزلٹ نہ دے جو ہم چاہتے ہوں اور ان میں چیزوں کے ساتھ ساتھ انسان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔”شستہ انداز اور تمیز سے دی گئی وارننگ بجلی کے 440 وولٹ کے کرنٹ کی طرح ان سب کو لگی تھی۔ ان میں سے کوئی مر کر بھی اس ڈی سی ہاؤس کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس شہر میں کوئی دوسرا ڈی سی ہاؤس نہیں تھا۔ کمشنر ہاؤس تھا جہاں پہلے سے موجود عملہ ان کو آنے دینے والا نہیں تھا یا پھر چھوٹے موٹے دوسرے سرکاری اداروں کے سربراہان کے گھر تھے جہاں جانا ان کے لیے سولی پر لٹکنے کے برابر تھا… ڈی سی ہاؤس میں کام کرنا جیسے خود ڈی سی ہونے کے برابر تھا۔
شہربانو کو برکت نے باقی جذبات اور خیالات نہیں بتائے تھے۔ شہربانو خود جان سکتی تھی کہ اس دھمکی کے بعد اس گھر میں کیا ہوا ہو گا… عملے کی وہ مستعدی، جانفشانی اور صفائی ستھرائی اب جیسے اس کے لیے ایک راز نہیں رہی تھی۔
”میڈم نے کبھی ہمیں ڈانٹا نہیں۔” برکت اب بھی میڈم کے لیے رطب اللسان تھا۔ شہربانو ایک گہری سانس لے کر اس کچن سے باہر آئی تھی اسے شیردل کی وہ بات اب سمجھ میں آئی تھی جو اس نے کبھی عکس کے حوالے سے اپنے کسی بیچ میٹ کو کہی تھی۔
”She is a lethal administrator”۔ وہ lethal administrator اب شہربانو کے سامنے ہوم ایڈمنسٹریشن کے نئے اسٹینڈرڈ سیٹ کر رہی تھی۔




Loading

Read Previous

عکس — قسط نمبر ۶

Read Next

نیند ہمیں پیاری ہے — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!