سسٹر ایگنس صرف یہی جان سکی تھی کہ ڈی سی نے کچھ لوگوں کو ملازمت سے مختلف وجوہات کی بنا پر فارغ کر دیا تھا اوران میں خیردین بھی تھا۔ وہ چڑیا کے حوالے سے اس ڈی سی کا ایک بار سامنا کر چکی تھی اور وہ نہ چاہنے کے باوجود بھی اسے ناپسند کیے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔ وہ اس سے پہلے بھی اپنی بیٹی کے ایڈمیشن اور اسکولنگ کے لیے اسکول آتا رہا تھا لیکن انہیں کبھی اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کبھی اس طرح رُوڈ ہو کر بدتمیزی پر اتر سکتا ہے جس طرح وہ چڑیا کے نام اسکول کا ایک وارننگ لیٹر اس کی بیٹی کے ہاتھ گھر بھجوائے جانے پر ہوا تھا اور ایسا شخص کسی ملازم کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ سسٹر ایگنس نے بڑے آرام سے یہ نتیجہ نکال لیا تھا۔
ایک مسئلے کا حل نکالنے کے بعد خیردین کو ڈاکٹر فرح اور ان کے شوہر سے رابطے کا خیال آیا۔ اتنے مہینوں میں اس نے ان دونوں میاں بیوی سے رابطہ نہیں کیا تھا۔ اسے ان کا خیال چند بار آیا بھی تو اس نے سر سے جھٹک دیا۔ ایک شخص کی برائی نے خیردین کو جیسے اس سارے نظام اور اسے چلانے والوں سے برگشتہ کر دیا تھا لیکن اب اپنی اور چڑیا کی بقا کے لیے کی جانے والی کوششوں میں اسے پھر وہ میاں بیوی یاد آگئے تھے۔
اس نے ڈاکٹر فرح کے شوہر عابد کو فون کیا اور تب اسے یہ افسوسناک خبر ملی کہ دو ماہ پہلے کینسر کی وجہ سے فرح کی ڈیتھ ہو گئی تھی۔ خیردین کو شدید صدمہ ہوا تھا۔ ڈاکٹر فرح ایک بہت نفیس اور مہربان عورت تھیں۔ چڑیا کی زندگی کے شروع کے سالوں پر ان کی بلاواسطہ اور بالواسطہ بہت گہری چھاپ تھی۔ اگر ان کی کوشش نہ ہوتی تو چڑیا کبھی اس اسکول میں نہیں پڑھ سکتی تھی جہاں وہ پڑھ رہی تھی۔ عابد کے منہ سے ڈاکٹر فرح کی ڈیتھ کا سن کر خیردین کو اتنا صدمہ پہنچا تھا کہ کچھ دیر تک تو وہ بول ہی نہیں سکا تھا۔ اس کی خاموشی محسوس کر کے گفتگو کا دوبارہ آغاز بھی عابد نے ہی کیا تھا۔
”میں نے سنا ہے تم نے جاب چھوڑ دی اور واپس گاؤں چلے گئے۔ تمہارے صاحب نے فرح کا بھیجا ہوا منی آرڈر واپس کرتے ہوئے مجھے فون پر بتایا تھا۔ فرح کو تو یہ جان کر بھی بڑا افسوس ہوا تھا کہ تم نے اس کی اتنے سال کی محنت ضائع کرتے ہوئے چڑیا کو اسکول سے اٹھا لیا تھا۔” عابد نے مزید بات کرتے ہوئے کہا۔ بیوی کا یوں اچانک آنے والا ذکر اسے اداس کر رہا تھا۔
”بس سر کچھ حالات ہی ایسے ہو گئے تھے کہ میں گاؤں جانے پر مجبور ہو گیا تھا۔”خیردین نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر فرح کے بارے میں یہ ہولناک خبر سن کر وہ چند لمحوں کے لیے اپنی زندگی بھول گیا تھا۔
عابد نے چڑیا کے دوبارہ اسکول میں داخلے پر جیسے اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا اورساتھ دوبارہ اسکول کی فیس بھجوانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ وہ جیسے اپنی بیوی کی ایک خواہش کا احترام کرنا چاہتا تھا۔ خیردین نے اس بار انکار کر دیا تھا۔ فوری طور پر شدید مالی بحران کا شکار ہونے کے باوجود بھی اسے یہ گوارا نہیں ہوا تھا کہ وہ سسٹر ایگنس کے چڑیا کے تعلیمی اخراجات کو تقریباً معاف کر دینے کے بعد اس مد میں کسی سے مزید رقم وصول کرنے کی کوشش کرتا۔ اس نے عابد سے چند ہفتوں میں ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور عابد نے اس کی یہ درخواست قبول کرتے ہوئے اسے کبھی بھی آنے کے لیے کہہ دیا تھا۔
ڈاکٹر فرح کا سن کر صرف خیردین کو صدمہ نہیں ہوا تھا، حلیمہ اور چڑیا کو بھی اتنی ہی تکلیف پہنچی تھی۔ خیردین چند دنوں بعد عابد سے تعزیت کے لیے اپنی بیٹی اور چڑیا کے ساتھ اس شہر میں گیا تھا جہاں وہ پوسٹڈ تھا۔ عابد اور اس کے بچے ڈاکٹر فرح کی موت سے پیدا ہونے والے خلا کو بھرنے کے لیے نبردآزما تھے۔ چڑیا کو اس نے اپنے بچوں سے ملوایا تھا لیکن وہ بچے بھی ماں کو کھونے کے بعد ابھی شکست و ریخت کے عمل سے گزر رہے تھے۔ زندگی پہلے جیسی نہ چڑیا کے لیے رہی تھی نہ ان کے لیے۔ وہ کچھ دیر خاموشی سے چڑیا کے ساتھ بیٹھ کر چند رسمی باتیں کر کے اٹھ کر چلے گئے تھے۔ چڑیا کی زندگی کی اداسی میں ڈاکٹر فرح کی موت نے اضافہ کر دیا تھا۔ ایک اور جیتا جاگتا کرداراس کی زندگی میں صرف ماضی کی ایک یاد بن کر رہ گیا تھا۔
”نانا میں ڈاکٹر ہی بنوں گی بس… اور میں بہت زیادہ پڑھوں گی… محنت سے… دل لگا کر۔” چڑیا نے واپس اپنے شہر آتے ہوئے بس میں خیردین سے کہا تھا۔ خیردین نے حیران ہو کر اس کی شکل دیکھی تھی اتنے مہینوں میں یہ پہلا موقع تھا جب چڑیا کی چپ خودبخود ٹوٹی تھی اور اس نے اپنی زندگی اپنی تعلیم کے حوالے سے کوئی بات کی تھی پہلے کی طرح۔ خیردین کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے تھے۔ چڑیا کا سر تھپکتے ہوئے اس نے ایک بار پھر اس سے کہا۔
”تم صرف ڈاکٹر مت بننا بیٹا… ایک اچھی انسان بھی بننا… بالکل ڈاکٹر فرح کی طرح۔” چڑیا نے سر ہلایا تھا۔ زندگی میں برے انسانوں کے ایک ہجوم سے ملنے کے بعد اسے ایک اچھا انسان بننے کی ضرورت کا زیادہ احساس ہو گیا تھا۔ ایک بچے کے طور پر بھی وہ اچھے اور برے انسانوں کا ادراک کرنے لگی تھی۔ اس سے پہلے اس نے زندگی میں صرف اچھے انسان دیکھے تھے لیکن زندگی اور دنیا صرف اچھے انسانوں سے نہیں بنتی اور نہ ہی ان کے گرد گھومتی ہے۔ اس کا احساس اسے برے انسانوں سے مل کر ہوا تھا۔ باربی ڈول کا پاپا اور اس کے نانا کے بہن بھائی… اور گاؤں کے اسکول کے ٹیچرز اور کلاس فیلوز۔ چڑیا نے زندگی میں کبھی اچھے انسانوں کی فہرست نہیں بنائی تھی لیکن اس نے برے انسانوں کی فہرست بنانا سیکھ لی تھی۔ یہ اس نے زندگی میں بعد میں سیکھا تھا کہ اچھے انسانوں کی تو فہرست بنائی جا سکتی ہے برے انسانوں کی نہیں۔ وہ بے شمار ملتے ہیں اور ہر جگہ ہوتے ہیں۔
……٭……
”کتنے ویکس کا کورس ہے؟”
”ٹو ویکس کا ۔”
”میں سوچ رہی ہوں ان ٹو ویکس میں، میں ممی کے پاس States ہو آؤں… انہوں نے بھی کتنی بار کہا ہے پچھلے سال وزٹ کے لیے۔” شہربانو نے شیردل سے کہا۔ وہ کسی پروفیشنل کورس کے لیے سنگاپور جارہا تھا اور شہربانو اور مثال کو وہ اکیلا وہاں چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔ وہ انہیں لاہور اپنے پیرنٹس کے پاس چھوڑ کر جاتا لیکن شہربانو نے لاہور جانے کے بجائے امریکا جانے کی خواہش کا اظہار کر دیا تھا۔ اپنے لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوئے شیردل نے شہربانو کی بات سنی جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے چہرے پر مساج کرتے ہوئے اس سے باتیں کر رہی تھی۔
”تم ٹو ویکس کے لیے جاؤ گی؟” شیردل نے کام کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”نہیں تھری ویکس کے لیے، پھر اب جارہی ہوں تو کچھ دن رہ لوں… ویسے تو تمہاری بیٹی نے جان کھانا شروع کر دینا ہے دوسرے ہی دن سے تمہارے لیے۔ وہ کہاں رہ سکتی ہے تمہارے بغیر زیادہ۔’ ‘ شیردل نے مسکراتے ہوئے اس کی بات سنی اور کہا۔
”صرف میری بیٹی ہی نہیں رہ سکتی میرے بغیر یا میری بیٹی کی ماں بھی؟” وہ شہربانو کو چھیڑ رہا تھا۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں سے مسکراتے ہوئے شیردل کو گھورا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا اپنے laptop پر ہاتھ چلا رہا تھا۔
”تم کو پتا ہے۔” اس نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”نہیں مجھ کو نہیں پتا… تم بتاؤ۔” وہ اسی طرح کی بورڈ پر ہاتھ چلاتے ہوئے بظاہر سنجیدگی سے بولا۔ شہربانو کے اظہار محبت کو وہ ہمیشہ انجوائے کرتا تھا۔ ایک عجیب مردانہ تسکین ملتی تھی اسے۔
”میں بار بار نہیں بتا سکتی تمہیں پتا ہے…” شہربانو نے بظاہر بے پروائی سے کہا اور کن انکھیوں سے اس کو پھر آئینے میں دیکھا۔ شیردل بستر پر بیٹھا اسی طرح laptop پر کام کرتا رہا پھر اس نے بظاہر بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔
”تم رہ سکتی ہومیرے بغیر…I know it for a fact now۔” شہربانو جانتی تھی وہ اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں پر کریم کا مساج کرتے ہوئے اٹھ کر اس کے پاس آکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ غیر محسوس انداز میں ہاتھوں پر لگی کچھ زائد کریم کو اس نے شیردل کے چہرے پر لگا کر رگڑنا شروع کر دیا۔
”مت کرو۔” شیردل نے کی بورڈ پر ہاتھ چلاتے ہوئے گردن ایک طرف کرتے ہوئے اسے ٹوکا۔
”کیوں؟” شہربانو نے جیسے اسے کچھ حیران ہو کر دیکھا تھا۔
”جب تم میرے بغیر رہ سکتی ہو اور مجھے مس بھی نہیں کرتیں تو پھر مت کرو نا۔” اس نے شہربانو کو جتاتے ہوئے کہا لیکن اس بار اس نے laptop کی اسکرین پر نظریں جمائے رکھیں اور شہربانو کو کریم چہرے پر رگڑنے دی،اوہ اس کی اس ناز برداری کا عادی تھا۔
”ٹھیک ہے میں نہیں جاتی پھر۔” شہربانو نے اب اس کی ٹھوڑی اور گردن پر ہاتھ رگڑنا شروع کیا۔
”اس کام کے لیے ویسے ٹشو پیپر استعمال کیا جاتا ہے۔” شیردل نے یک دم خفگی سے کہا۔ وہ بے اختیار اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے کھلکھلا کر ہنس پڑی۔