”میں نے تم سے کبھی نہیں کہا کہ تم یہاں سے ٹرانسفر کرواؤ۔” اس کی بیوی نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”اس گھر میں اثرات ہیں… تمہیں ہی ایشو تھا… تم ہی ہر وقت مجھے قصے سناتی رہتی تھیں کہ آج یوں ہوا اور آج یوں ہوا۔” اس کا شوہر ایک بار پھر اس پر الٹ پڑا۔ اسے اب اس قصے کو لپیٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔
”میں نے تمہیں ہزار اسٹوریز سنائی ہوں گی لیکن کبھی بھی تمہیں ٹرانسفر کے لیے نہیں کہا۔” اس کی خفگی کو شوہر کی تیز آواز نے ایک بار پھر بڑھایا۔
”میں اپنی بیٹی کی وجہ سے یہاں سے جانا چاہتا ہوں، میں نہیں چاہتا اس گھر میں اس کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچے۔” اس کے شوہر نے ایک بار پھر اپنا بیان بدلا۔ وہ ایک بار پھر اپنے شوہر کی شکل دیکھ کر رہ گئی۔
”ایک سال ہورہا ہے اس گھر میں ہمیں… تمہیں آج خیال آیا ہے کہ یہاں تمہاری بیٹی کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے؟” اس نے بے حد تلخی سے اپنے شوہر سے کہا۔ وہ اسے سچ نہیں بتا رہا تھا کم از کم اس کے لیے اسے مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں تھی لیکن وہ چھپا کیا رہا تھا اس کا سر پیر بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔
”کافی بحث کر چکا میں تمہارے ساتھ… اب مزید نہیں۔ تم اپنے کام سے کام رکھوا ور مجھے یہ مت بتاؤ کہ مجھے کس معاملے میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ تمہاری ساری زندگی پاکستان سے باہر گزری ہے۔ تمہیں کیا پتا پاکستان میں کیسے رہا جاتا ہے اور کسی مسئلے کو کیسے حل کیا جاتا ہے۔” اس کے شوہر نے بالآخر زچ ہوتے ہوئے کہا۔
”ایک چیز انسانیت ہوتی ہے اور اسے سمجھنے اور پریکٹس کرنے کے لیے مجھے کسی خاص جگہ رہنا ضروری نہیں ہے۔” اس نے اسی تلخ انداز میں اپنے شوہر سے کہا تھا۔ وہ بھی اب اتنی ہی زچ ہونے لگی تھی اس جگسا پزل سے جو حل ہونے پر ہی نہیں آرہا تھا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟” اس کا شوہر پھر ٹھٹکا۔
”تم ایک آٹھ نو سال کی بچی کو ایک بڑے کی کسی غلطی پر سزا نہیں دے سکتے۔” اس نے دوٹوک انداز میں اپنے شوہرسے کہا۔
”وہ بھی چور ہے… وہ بھی اچھی لڑکی نہیں ہے۔” وہ چند لمحے بول نہیں سکی۔
”تب بھی… تو بھی۔” اس کی خاموشی زیادہ دیر قائم نہیں رہی تھی۔ اس کے لہجے کی قطعیت نے اس کے شوہر کو عجیب طرح سے سلگایا۔
”تم چڑیا کی اتنی سائیڈ کیوں لے رہی ہو؟ تم کو نوکروں کے بچوں اور ان کی سائیکی سے کوئی واقفیت نہیں ہے۔ ”اس کے شوہر نے اپنی بیوی کی طرف داری کو بدلنے کی کوشش کی۔
”مجھے دلچسپی ہے بھی نہیں کسی کی سائیکی سمجھنے یا جاننے میں… مجھے اگر دلچسپی ہے تو صرف ایک چیز میں… اوروہ یہ کہ تم چڑیا کو اس اسکول سے نکالنے کی کوشش کرنا بند کر دو۔ خیردین نے چوری کی ہے یا جو بھی کیا ہے اب اس chapter کو بند ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ میری بیٹی کوt affecکر رہا ہے۔ تم اپنی بیٹی کو اپ سیٹ کر رہے ہو ان تمام چیزوں سے۔”
”میں اپنی بیٹی کو اپ سیٹ کر رہا ہوں؟” وہ جیسے بے یقینی میں بولا تھا۔ ”میری اکلوتی اولاد ہے وہ… میں اسے اپ سیٹ کروں گا؟ میں جو بھی کر رہا ہوں اس کے تحفظ کے لیے کر رہا ہوں۔”
”مجھے تمہاری کسی بات کی سمجھ نہیں آرہی۔ میں یہ جانتی ہوں کہ تم کچھ چھپا رہے ہو… کیوں چھپا رہے ہو صرف یہ نہیں پتا مجھے… نہ ہی مجھے یہ سمجھ آرہا ہے کہ خیردین کا حوالہ چڑیا کو میری بیٹی کے لیے اتنا خطرناک کیوں بنا رہا ہے کہ تم اسے اس اسکول میں بھی دیکھنا نہیں چاہتے جہاں تمہاری بیٹی ہے۔”
”میں اب اس ایشو پر تم سے کوئی بات نہیں کروں گا۔” اس کا شوہر یک دم اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ”تمہیں سونا ہے سو جاؤ… بیٹھنا ہے بیٹھ جاؤ… لیکن میرا دماغ چاٹنا بند کر دو۔” وہ بے حد درشتگی سے کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا تھا۔
وہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی۔ اسے پتا تھا وہ اب اوپر اپنی اسٹڈی میں جاکر ڈرنک کرے گا اور ایک دو گھنٹے کے بعد آکر چپ چاپ سو جائے گا۔ غصے اور ڈپریشن میں وہ شاید آج زیادہ پیے گا… لیکن وہ اس موڈ میں نہیں تھی کہ اسے منانے کی کوشش کرتی یا اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتی… شادی کے اتنے سالوں میں یہ ضرورت اسے کبھی پڑی بھی نہیں تھی۔ وہ کبھی خفا بھی ہوتا تو بہت دیر تک اپنی خفگی برقرار نہیں رکھ پاتا تھا۔ وہ اس کی کمزوری تھی… وہ اس سے بات کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
شادی کے اتنے سالوں میں اس نے کبھی بے مقصد اپنے شوہر کے ساتھ جھگڑے کیے بھی نہیں تھے۔ یہاں تک کہ اس نے کبھی اپنے شوہر کے regular drink کرنے کو بھی کبھی قابل اعتراض نہیں سمجھا تھا۔ وہ ساری عمر امریکا میں رہی تھی اور اس کی فیملی جتنی آزاد خیال تھی اس میں شراب کو ایک سوشل ڈرنک کے طور پر acceptance تھی۔ اس کا شوہر ویسے بھی شراب پی کر کبھی اتنا آؤٹ نہیں ہوا تھا کہ اسے اور اس کی ازدواجی زندگی کو کسی قسم کا خطرہ ہو جاتا۔
اب یہ پہلی بار ہورہا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے رویے سے ناخوش ہورہی تھی اور وہ بھی اس حد تک کہ اسے اپنے شوہر کے ساتھ جھگڑنا پڑ رہا تھا اور ایشو بظاہر کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔
اسے نہیں پتا اس کا شوہر دوبارہ اس کی بیٹی کے اسکول گیا یا نہیں لیکن دو دن بعد اس نے ناشتے کی ٹیبل پراسے اپنے ٹرانسفر کی خوش خبری سنا دی تھی۔ اس نے بے حد خاموشی سے کچھ بھی کہے بغیر ناشتا کرتے ہوئے یہ خبر سنی اور کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے شوہر نے چند منٹ چائے کے سپ لیتے ہوئے جیسے اس کے تاثرات جانچنے کی کوشش کی۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔
”اسکول لیونگ سرٹیفکیٹ میرا پی اے لے آئے گا۔” اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اگلا جملہ بولا۔ اس بار وہ ناشتا کرتے ہوئے ٹھٹکی۔ اس ہدایت کا مفہوم تھا کہ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ باربی ڈول کے اسکول جاتی۔
”میں اسکول جاکر یہ کام خود کروں گی۔ یہ اس کا پہلا اسکول ہے، ٹھیک ہے وہ زیادہ دیر یہاں نہیں رہی لیکن ہمیں جانے سے پہلے good will gesture کے طور پر اس کے ٹیچرز سے مل کر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
”تم چاہتی ہو میں بھی ساتھ جاؤں؟” اس کے شوہر نے جواباً کہا۔
”تمہاری مرضی ہے میں تمہیں مجبور نہیں کروں گی لیکن میں ضرور جاؤں گی۔” اس نے اپنے شوہر کو کسی قسم کا مشورہ دینے کے بجائے کہا۔
”میں بھی جاؤں گا۔” وہ حیران ہوئی۔ اسے اپنے شوہر سے کم از کم اس جواب کی توقع نہیں تھی لیکن اس نے ساتھ ہی اطمینان کا سانس بھی لیا تھا۔
وہ ایک ہفتے کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ اپنی بیٹی کا اسکول چھوڑنے کا سر ٹیفکیٹ لینے گئی تھی۔ وہ دونوں بہت دیر تک پرنسپل آفس کے وزیٹرز روم میں بیٹھے رہے تھے لیکن سسٹر ایگنس نے انہیں ملاقات کے لیے اندر نہیں بلوایا تھا۔ اس کے شوہر کا پارا ایک بار پھر آسمان کو چھونے لگا تھا۔ وہ ساتھ نہ ہوتی تو اس دن اس کے شوہر اور سسٹر ایگنس کے درمیان ایک اور جھگڑا ہوتا۔ سسٹر ایگنس نے ان سے ملاقات نہیں کی تھی لیکن اس کی ہدایات پر اس کے ماتحت عملے نے اس کی بیٹی کا سر ٹیفکیٹ فوری طور پر بنا دیا تھا۔
وہ دونوں سسٹر ایگنس سے ملاقات کا انتظار کر کر کے اٹھ کے وہاں سے آگئے تھے اورباہر نکلتے ہی اس کے شوہر نے بے حد خفگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم نے دیکھ لیا نا کیساattitude ہے اس سسٹرکا… اور تمہیں شوق تھا good will gesture دکھانے کا… میری اگر یہاں سے ٹرانسفر نہ ہو گئی ہوتی تو میں اس سسٹر کا دماغ درست کر دیتا۔” اس کا شوہر واپسی پر تمام راستے بکتا جھکتا گیا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی تھی۔ وہ اپنی بیٹی کے اسکول میں ایڈمیشن کے دوران اور بعد میں کئی بار سسٹر ایگنس سے مل چکی تھی اور وہ اسے ہر بار بہت اچھی لگی تھی۔ وہ ویسی ہی ایک نن تھی جیسی نن سے وہ خود کچھ عرصے پڑھی تھی۔ مشفق، دوستانہ، صاف گو اور اصول پرست۔ اب اگر وہ اپنا اسکول چھوڑ کر جانے والی ایک بچی کے والدین سے ان کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی ملنے پر تیار نہیں ہوئی تھی تو وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ ان کا اور اس کے شوہر کا جھگڑا کس حد تک گیا ہو گا۔ وہ خاموش بیٹھی بوجھل دل کے ساتھ اپنے شوہر کی باتیں سنتے ہوئے سسٹر ایگنس کی خفگی دور کرنے کے لیے ایک آخری کوشش کرنے کا سوچتی رہی۔ اس شہر سے جانے سے پہلے اس نے فون پر سسٹر ایگنس سے رابطہ کرنے کی ایک آخری کوشش کی تھی۔ یہ کوشش بھی ثمرآور ثابت نہیں ہوئی تھی۔
……٭……